Sunday, October 21, 2018

USTAD AIK MUSLEH (TEACHER A REFORMER)

علم یا استادفقط ایک پیشہ نہیں ہے  بلکہ ایک مصلح، ایک ناصح، ایک رضاکار ، ایک مکمل درسگاہ اور تربیت گاہ کا نام ہے۔ یہ پیغمبری پیشہ ہے۔ یہ رسالت کے منصب جیسا ہے۔ یہ ایک عام انسان کو خاص بنانے کے ہنر سے آشنا شخص کا نام ہے۔بڑے بڑے جاہل ، معلم /استاد کی مہربانی سے انسانیت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوئے ۔ ایک عام انسان کو اندھیرے سے روشنی تک کا سفر استاد /معلم ہی کراتا ہے۔اچھے برے کی تمیز، صحیح غلط میں تفریق ، بڑے چھوٹے کا فرق ، سچ جھوٹ میں امتیاز ، یہ سب اسی کے فرائض منصبی ہیں۔ وہ ناصرف علم کی روشنی سے منور کرتا ہے بلکہ اخلاقیات کےدرس سے مستفید بھی کرتا ہے۔ ہمارے دین میں اسکو  روحانی باپ سے تشبہیہ دی گئی ہے۔ اسکے لئے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں۔ دنیا میں بڑے عظیم استاد گزرے ہیں جنکے شاگرد عظمت میں ان سے بھی بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔یہ ان ہی کی تربیت کا فیضان تھا۔سقراط جیسے استاد کے ہاں افلاطون جیسا شاگرد، ارسطو کا سکندر اعظم جیسا شاگرد ، شعبہ بن حجاج کاہارون الرشید جیسا شاگرد، مولانا شبلی نعمانی کے سید سلیمان ندوی جیسے شاگرد ، میر حسن کے علامہ اقبال جیسے شاگرد۔ ان اساتذہ کے کیاکہنے اور ان شاگردوں کے کیا کہنے،  ایسے اساتذہ ہوں تو شاگرد بھی انکے جیسے یا ان سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں۔ایسی اور بھی بے تحاشہ مثالیں موجود ہیں لیکن تمام کا ذکر یہاں ممکن نہیں ۔ 
ان تمام نامور شخصیات  کے پیچھے انکے اساتذہ کا اور انکی تربیت کا خاص ہاتھ رہا۔ تعلیم تو کوئی بھی دے سکتا ہے۔ اصل بات ہے تربیت۔ 
ہمارا المیہ اب یہ ہو گیا ہے کہ ہمارے پاس بہت زیادہ کوالیفائیڈ ، پڑھے لکھے ، ڈگری یافتہ اساتذہ تو بے تحاشہ ہیں جو تعلیم تو دیتےہیں  لیکن تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں آپ کو بڑے بڑے نام ملیں گے ، طالبعلم فر فر انگریزی بولتے نظر آئینگے ، دنیا جہاں کا علم انکے پاس ہو گا لیکن تربیت ان میں مفقود ہوتی ہے۔من حیث القوم یہ ہمارا المیہ بھی ہے اور بہت بڑا مسئلہ بھی۔ ہم اپنے والدین اور دیگر بزرگوں سے سنتے آئے ہیں جنہوں نے ٹاٹ سکولوں اور عام  درس گاہوں میں تعلیم حاصل  کی ،  لیکن انکی تربیت کا معیار آج کے بچے کی تربیت سے بہت آگے کا تھا۔ اس وقت کے والدین عموماً  پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے لیکن اسوقت کے اساتذہ حکمت کا خزانہ تھےگو کہ بہت تعلیم یافتہ وہ بھی نہیں ہوتے تھے ۔
یہ معیار کا فرق اور تضاد ہے۔ آج کے بچے کو انگریزی تعلیم ، ٹیکنالوجی، سائنسی تعلیم ، نئے سے نئے علوم و فنون تو سکھائے جا رہے ہیں لیکن اب انکی تربیت پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اب سرسید ، حالی اور اقبال جیسےجید استاد نہیں جو اپنے علم سے تو اپنے شاگردوں کو روشنی دیتے ہی تھے اپنی تربیت سے بھی انکی زندگیاں منور کرتے تھے۔دراصل آج کے والدین کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں ۔ پہلے زمانے میں بغداد و قاہرہ ، قسطنطنیہ واستنبول  ، ثمر قند و بخارا تک استادکا چرچا ہوتا تھا۔ بادشاہ و امراء اپنے بچوں کی تربیت کے لئے ان اساتذہ  کو دور درازعلاقوں سے عزت و احترام کیساتھ اپنے محلوں اور قصور میں بلاتے تھے تاکہ وہ انکے بچوں کی بہترین تربیت کر سکیں لیکن افسوس آج کے والدین کی اولین ترجیح انگریزی میڈیم سکول تو ہے لیکن بچے کی تربیت نہیں۔گرومنگ کے نام پر اسے ایسے اداروں میں داخل کیا جاتا ہے جسمیں اسے کانٹے چھری کیساتھ کھانا کھانا ، انگریزی زبان کا عام استعمال، اور مغربی سوسائٹی میں move کرنے کے اصول تو سکھائے جاتے ہیں لیکن اخلاقیات نامی کوئی چیز اسکی تربیت کا حصہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ اسکا استاد ان باتوں کو قابل اعتناء نہیں جانتا۔ اگر بالفرض محال کوئی استاد بچوں کو کوئی نصیحت کرے تو گھروں سے شکایت آ جاتی ہے۔ جبکہ اگر ہم پچھلے ادوار کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ شاگرد کو مکمل طور پر اساتذہ کے حوالے کر دیا جاتا تھا چاہے وہ ان سے کیسا ہی سلوک کیوں نہ کرتے۔ بادشاہوں کے بچوں سے جوتے سیدھے کرائے جاتے تھے کہ انکی تربیت کے لئے یہ ضروری تھا۔۔ وقت کے بہت بڑے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے مامون الرشید اور امین الرشید تھے دونوں ایک بار استاد امام نسائی کی مجلس سے اٹھے تو دنوں استاد کو جوتے پکڑانے کیلئے لپکے ۔دونوں میں اس بات پر تکرار بھی ہو گئی ۔استاد کی عزت کرنے والے لائق بچوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں ایک ایک جوتا اپنے استاد کو پکڑائیں گے۔ جب خلیفہ وقت کو معلوم ہوا تو اس نے امام نسائی کو بلایا اور نہایت عزت و احترام سے پوچھا کہ آپ بتائیے اس مملکت میں زیادہ عزت والا کون ہے ۔امام کسائی نے فرمایا کہ بے شک زیادہ عزت کے حقدار خلیفہ وقت ہیں ۔جواب میں ہارون الرشید نے کہا سب سے زیادہ عزت والا تو وہ ہے جس کے جوتے اٹھانے کیلئے خلیفہ کے بیٹوں میں جھگڑا ہونے لگے ۔خلیفہ ہارون ارلشید نے کہا امام صاحب بے شک آپ ہی زیادہ عزت کے حق دار ہیں ۔ اور اگر آپ نے میرے بیٹوں کو اس کام سے روکا تو میں آپ سے ناراض ہو جاوں گا ۔استاد کی عزت کرنے سے میرے بچوں کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے ۔ یہ ہے تربیت کا ایک انداز ۔ 

آج کے ماں باپ کو ایسی کوئی بات پتہ چل جائے تو وہ فوراً اعتراض کرنے نکل پڑتے ہیں۔ کہ استاد ہمارے بچے کو گمراہ کر رہا ہے۔ اسمیں قصور اساتذہ کا بھی نہیں ہے بلکہ اس نظام کا ہے جو اخلاقیات سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ اس معاشرے میں تربیت کو ثانوی حیثیت دی جارہی ہے ۔ والدین کی اول ترجیح مغربی تعلیم ہے۔نہ وہ خود بچوں کو وقت دیتے ہیں اور نہ ہی اسکا کوئی اہتمام کرتے ہیں کہ انکے بچوں کو بہتر تربیت گاہ میسر ہو۔ اس ضمن میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔ 
اب ایک دوسرے تناظر میں بات کرونگی کہ استاد کو ہمارے معاشرے میں وہ عزت نہیں دی جاتی جو دوسری سوسائٹیز میں ہے۔ ہم جو مغرب کی تقلید میں اندھے بہرے ہو کر بھاگے چلے جارہے ہیں اس بات میں انکی پیروی نہیں کرینگے کہ انکے ہاں استاد کی کتنی عزت ہے، کتنا احترام ہے۔ انکو انکی خدمات کا بہترین اعزازیہ دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں کینیڈا میں ڈاکٹروں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ انکی تنخواہیں اساتذہ کی نسبت کیوں بڑھائی گئی ہیں یہ ہے مہذب معاشرے کی سوچ، جبکہ ہمارے ہاں صرف شک کی بنیاد پر استادوں کو ، پروفیسروں اوربزرگ  وائس چانسلرز کو ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں۔ یہ ہے رویوں میں کھلم کھلا تضاد ۔ ہم اسوقت تک مہذب قوم نہیں بن سکتے جبتک ہماری اخلاقی  تربیت نہیں ہو گی، ہمارے ہاں استاد کی عزت نہیں ہو گی۔ اسے بلند مقام نہیں دیا جائیگا۔  ہمیں ان تمام باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

4 comments:

  1. تعلیم جب صرف ڈگریوں کے کاغز اور اعلی نمبروں کے لیے حاصل کی جائے تو تربیت کا فقدان ضرور پیدا ہونا ہے کیونکہ آج کا طالبعلم کل کا استاد ہے

    ReplyDelete