Sunday, October 21, 2018

KACHRA MUNAFA BAKHSH BHI HO SKTA HAI (TRASH CAN BE USEFUL)

ایک تحقیقی سروے کے مطابق ماحولیات کے ماہرین کو تشویش لاحق ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غریب عوام کی ایک بڑی آبادی  کوڑے کرکٹ کے پاس رہتی ہے۔ جن کی وجہ سے انمیں بے شمار مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے پاس رہنے سے انہیں جسمانی عوارض لاحق ہونے کیساتھ ساتھ ذہنی بیماریاں بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں ۔جنمیں ملیریا اور فضائی آلودگی سے متعلقہ مسائل شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسکی وجہ کوڑا کرکٹ کی جگہوں پر زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان ممالک میں نہ ختم ہونیوالی  بیماریوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2010 میں ان ممالک میں اسی لاکھ ساٹھ ہزار افراد کچرے کے قریب رہنے پر مجبور ہیں۔ اسی رپورٹ کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ سیسہ، فاسفیٹ اور لوہا اور دیگر کئی طرح کے کیمیکلز صحت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس علاقے میں سیسے کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے ۔ماہرین کی رائے کیمطابق اگر یہ زہریلا مادہ انسان کے خون میں جذب ہو جائے تو اس سے رحم مادر میں بچوں کو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ 
ترقی یافتہ  ملکوں میں ماحول د وست اصول کے تحت اسکو ٹھکانے لگانے کے بہت اچھے اور سائنٹفیک  طریقےموجود  ہیں۔ اور  اس کچرےسے فائدہ اٹھانے کے لئےبھی انکے پاس بہت سی سہولتیں اورسائنسی طریقہُ کار موجود ہیں۔دنیا بھر میں آجکل ویسٹ مینجمنٹ کےانہی اصولوں  کے تحت کام ہو رہا ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

#کچرےکی_اقسام: 
 ہمارے ملک میں ہر قسم کا ٹھوس کچرا پایا جاتا ہے۔یہ گھریلو ، صنعتی،زرعی یا محض قدرتی  بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے 
1)گھریلو کچرا : باورچی خانے کا کچرا جسمیں ٹوٹی کانچ،پلاسٹک، برتن، گتے کے ڈبے، استعمال شدہ پرانے اخبارات اور چھلکے وغیرہ۔
2)فالتو کچرا: اینٹ، ریت ،فرنیچر اور بیکار اشیاء، کاٹھ کباڑ۔
3)حیاتاتی  و طبی کچرا: مردہ جانور۔ شاخ سے گرنے والے پتے، ڈالیاں، تنے، شاخیں ، گلے سڑے پھل ، چھلکے۔ 
4)زرعی کچرا: فصلوں سے بچنے والا کچرا ، کھیت کے جانوروں کے فضلات ، راکھ اور کیڑا کش ادویہ ۔ 
5) صنعتی کچرا: جیسے کیمیاوی مادہ، پینٹ وغیرہ
6) کوئلے کی کان کا کچرا۔ 
یہ کچرا زیادہ  تر شہروں میں ملتا ہے۔

#کچرےکی_نکاسی_کےلئےاقدامات: 
 شہروں میں  اس کچرے کی نکاسی کے لئے حسب ذیل اقدامات کئے گئے ہیں۔
1) ٹھوس کچرے کا جمع کرنا ۔ شہر کے مختلف مقامات سے ٹرکوں اور ٹریلوں کے ذریعے کچرا جمع کیا جاتا ہے جو ٹرانسفر سٹیشنز پر بھیجا جاتا ہے۔۔ بلڈوزر ان کچروں کو انتقالی مستقروں سے نکال کر نکاسی کی جگہوں کو لے جاتے ہیں جو عمومًا کسی زمین پر یکجا کیا جاتا ہے ۔ نباتاتی، زرعی اور گھریلو کچرا تو زمین میں دفن کیا جا سکتا ہے لیکن پلاسٹک اور باقی کیمیاوی کچرے کو یا تو recycling کے عمل سے گزارا جاتا ہے یا تلف کر دیا جاتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو کنٹینر میں بھر کر تلف کر دیا جاتا ہےاور پھر گہری جگہوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ 

#کچرےاورکچرادانوں_کامناسب_انتظام 

ِیہ بہتر ہو گا  کہ ہر گھر کے سامنے ایک بڑے سائز کا ’’ڈرم‘‘ کوڑا ڈالنے کے لیے رکھ دیا جائے جسے کچرا اٹھانے والا آ کر اپنی ہتھ گاڑی میں ڈال کر لے جائے۔ اس کچرے کو کچرے کے بڑے ڈھیر  میں ڈال دیا جائے جہاں سے گاڑیاں محفوظ طریقے سے وہ کچرا ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے لیے مخصوص جگہوں پر پہنچا دیں۔ متعلقہ لوگ اس کچرے کو ری سائیکل کر کے اسے کار آمد بنا کر پھر نئے سرے سے نئی اشیا بنانے میں لگاسکتے ہیں ۔ 
دوسری بات یہ کہ  سڑکیں صاف کرنے والوں کے پاس سائیکلیں ہوں  جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈبے لگے ہوں،تاکہ سڑک کو صاف کر کے کوڑا ان میں جمع کیا جائے۔ اسی طرح  ترتیب وار مخصوص فاصلوں پر بڑے بڑے ٹرالر کچرا ڈالنے کے لیے رکھ دیے جائیں جہاں گھروں اور سڑکوں سے اکٹھا کیا ہوا کچرا جمع کیا جائے، جو ٹرکوں کے ذریعے مخصوص فیکٹریوں یا ان جگہوں تک لے جایا جائےجہاں انکو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزاراجائے۔ اس طرح کا کام کرنے کے لیے کے MC  یاTMA یا  متعلقہ ادارے اس کام کا ٹھیکہ کسی شہرت یافتہ  کمپنی کودیں، جو ہر شہر کو اپنے  طریقہُ کار  سے صاف رکھیں۔ان  ٹھیکوں  کی وجہ سے کوڑا ری سائیکل ہو کر کار آمد بھی ہو گا ،  جس کو آگے فیکٹریوں کو فروخت کر دیا جائے اور ٹھیکہ دینے سے بھی کروڑوں کا منافع ہو سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے اس کام کے لیےہمیں بہت زیادہ  پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی ہم  کچھ کر  سکتے ہیں  مگر اصل کام بڑے پیمانے کا ہے، جو ہر شہر کی بلدیاتی حکومت انجام دے سکتی ہے۔ اس میں ماہرین کی ضرورت ہو گی اور ایسے ایماندار افسران کی ضرورت ہے جو  دیانتداری اور جانفشانی سے اس کام کو انجام تک پہنچائیں۔

#ری_سائیکلنگ:
پوری دنیا میں Recycling کا رجحان ہے۔ لوگ پرانی اشیا کو پھر سے قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایسی بے شمار اشیا کو کسی حد تک کار آمد کرنے کے لیے کسی اور شکل میں ڈھالتے ہیں۔ مثال کے طور پر پلاسٹک کی بڑی بوتلوں کو کاٹ کر ان پر کلر کر کے ان میں پھول اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔انڈیامیں ایک سائنسدان نے 10%پلاسٹک کو بجری اور کولتار  کے ساتھ مکس کر کے اس سے سڑکیں بھی بنائی ہیں۔ کچھ ممالک میں بوتلیں ٹرین کے ٹکٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
 پرانے کاغذ کا گتہ بنتا ہے اور پلاسٹک بیگز پھر بیگز بنانے یا پلاسٹک کا سامان تیار کرنے کے کام آ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر استعمال شدہ چیز کا کوئی نہ کوئی مصرف ہوتا ہے۔


#کچرا_جمع_کرناایک_منافع_بخش_کام_  

 چند سالوں سے لوگوں نے کچرے کا مصرف تلاش کر لیا ہے، گویا کچرا بھی ایک کار آمد بزنس بن گیا ہے۔۔  
کتنے ہی بچے اور نوجوان لوگوں نے کچرے کے قریب اپنے مسکن بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ کاغذ، پلاسٹک کی اشیا، لوہے کا سامان وغیرہ علیحدہ کر کے تھیلے بھر کر مختلف فیکٹریوں میں بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح سے کچرا فروشی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ہزاروں ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر کچرے کے ڈھیروں سے چنا جاتا ہے اور ان کو علیحدہ کر کے فیکٹریوں تک لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بغیر قرض لیے اور سرمایہ لگائے ایک منافع بخش کاروبار بن  سکتا ہے۔ اگر یہی کام ٹھیکےدار  کو ٹھیکے پر دے دیا جائے تو اس سے کروڑوں روپے حکومت کو میسر آ سکتے ہیں اور شہروں کی صفائی کا نظام بھی  بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔  

#کچراچننےوالوں_کوکیسےکارآمدبنایاجائے

سیکڑوں ٹن کچرے میں سے کارآمد اشیاء نکالنے والے اِن ہزاروں ہنرمندوں اور رضا کاروں کی ایک فوج بنا کر اس کچرے کو صاف کیا جاسکتا ہے اور اس خودکار رضا کار فورس کو جب آپ معقول اور مناسب معاوضہ دیں گے تو یہ آپ کیلئے بہت کارآمد ثابت ہوں گے اور آپ اس فورس کو   کوڑا صاف کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں، یہ لوگ خوشی خوشی اس کام پر تیار بھی ہو جائیں گے کیونکہ وہ سارا دِن یہی کام تو کررہے ہوتے ہیں اور ہم اس طرح کم پیسوں میں اس کوڑے کو صاف اور اِسے کام میں لاسکتے ہیں ۔انکو ہم ٹرین train کر سکتے ہیں کہ وہ پلاسٹک کی  ، لوہے کی  ، اور دیگر کار آمد اشیاء کو الگ الگ چنیں اور جمع کریں یوں آسانی سے ان پلاسٹک بوتلوں  کو recycling سے اور باقی چیزوں کو فروخت کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے ۔ 

#کچرےکابہتراستعمال 
 اگر کچرے کو استعمال میں لایاجائے تو نہ صرف کثیرزرمبادلہ بچایاجاسکتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں کیونکہ 
1)کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بجلی اورکھاد کی پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔ 
2)کچرے کا ایک حصہ پروٹین‘ فرٹیلائزر (کھاد) کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ انرجی کی پیداوار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ 
3)کچرے کا تیسرا حصہ جو قابل استعمال نہیں اسے خاکستر دانوں کے ذریعے تلف کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کیمیکلز اورجراثیم پر مشتمل یہ کچرا انتہائی خطرناک اور آلودگی کا باعث ہوتاہے۔
 دنیا بھر میں 100 میں سے 65فیصد کچرا کارآمد ہوتا ہے جبکہ 35فیصد ضائع کردیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو زیر استعمال لاکر اربوں روپے کی معیشت کا اضافہ ہورہا ہے جس سے بجلی اورکھاد کی پیداوار جاری ہے۔ سالڈ ویسٹ اکانومی آج دنیا بھرمیں اربوں ڈالر تک پھیل چکی ہے۔لیکن افسوس ہمارے ہاں اس قسم کے منصوبے اول تو شروع ہی  نہیں کئے جاتے اگر کر بھی دئیے جائیں تو وہ بد انتظامی، ناتجربہ کاری اور کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔اس مقصد کے لئے ہماری حکومت کو متعلقہ محکموں کے افسران کو جدید ٹریننگ دلوانی ہو گی۔
سالڈ ویسٹ ایک مضمون بن چکا ہے جس پر لوگ باقاعدہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرف حکومت توجہ دے اور کوالیفائیڈ لوگوں کو ان محکموں میں تعینات کرے۔ اسی طرح کچھ بہتری آنے کے امکان ہیں۔
مزید یہ کہ اس امر کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس سلسلے میں آگاہی دی جائے تاکہ وہ تلف کئے جانے والے کوڑے کو باآسانی تلف کر سکیں۔ اس مقصد کے لئیے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیمینارز ، ورکشاپس اورتعلیم اداروں میں  معلوماتی پروگرامز اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ 

ایک تحقیقی سروے کے مطابق ماحولیات کے ماہرین کو تشویش لاحق ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غریب عوام کی ایک بڑی آبادی  کوڑے کرکٹ کے پاس رہتی ہے۔ جن کی وجہ سے انمیں بے شمار مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے پاس رہنے سے انہیں جسمانی عوارض لاحق ہونے کیساتھ ساتھ ذہنی بیماریاں بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں ۔جنمیں ملیریا اور فضائی آلودگی سے متعلقہ مسائل شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسکی وجہ کوڑا کرکٹ کی جگہوں پر زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان ممالک میں نہ ختم ہونیوالی  بیماریوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2010 میں ان ممالک میں اسی لاکھ ساٹھ ہزار افراد کچرے کے قریب رہنے پر مجبور ہیں۔ اسی رپورٹ کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ سیسہ، فاسفیٹ اور لوہا اور دیگر کئی طرح کے کیمیکلز صحت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس علاقے میں سیسے کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے ۔ماہرین کی رائے کیمطابق اگر یہ زہریلا مادہ انسان کے خون میں جذب ہو جائے تو اس سے رحم مادر میں بچوں کو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ 
ترقی یافتہ  ملکوں میں ماحول د وست اصول کے تحت اسکو ٹھکانے لگانے کے بہت اچھے اور سائنٹفیک  طریقےموجود  ہیں۔ اور  اس کچرےسے فائدہ اٹھانے کے لئےبھی انکے پاس بہت سی سہولتیں اورسائنسی طریقہُ کار موجود ہیں۔دنیا بھر میں آجکل ویسٹ مینجمنٹ کےانہی اصولوں  کے تحت کام ہو رہا ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

#کچرےکی_اقسام: 
 ہمارے ملک میں ہر قسم کا ٹھوس کچرا پایا جاتا ہے۔یہ گھریلو ، صنعتی،زرعی یا محض قدرتی  بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے 
1)گھریلو کچرا : باورچی خانے کا کچرا جسمیں ٹوٹی کانچ،پلاسٹک، برتن، گتے کے ڈبے، استعمال شدہ پرانے اخبارات اور چھلکے وغیرہ۔
2)فالتو کچرا: اینٹ، ریت ،فرنیچر اور بیکار اشیاء، کاٹھ کباڑ۔
3)حیاتاتی  و طبی کچرا: مردہ جانور۔ شاخ سے گرنے والے پتے، ڈالیاں، تنے، شاخیں ، گلے سڑے پھل ، چھلکے۔ 
4)زرعی کچرا: فصلوں سے بچنے والا کچرا ، کھیت کے جانوروں کے فضلات ، راکھ اور کیڑا کش ادویہ ۔ 
5) صنعتی کچرا: جیسے کیمیاوی مادہ، پینٹ وغیرہ
6) کوئلے کی کان کا کچرا۔ 
یہ کچرا زیادہ  تر شہروں میں ملتا ہے۔

#کچرےکی_نکاسی_کےلئےاقدامات: 
 شہروں میں  اس کچرے کی نکاسی کے لئے حسب ذیل اقدامات کئے گئے ہیں۔
1) ٹھوس کچرے کا جمع کرنا ۔ شہر کے مختلف مقامات سے ٹرکوں اور ٹریلوں کے ذریعے کچرا جمع کیا جاتا ہے جو ٹرانسفر سٹیشنز پر بھیجا جاتا ہے۔۔ بلڈوزر ان کچروں کو انتقالی مستقروں سے نکال کر نکاسی کی جگہوں کو لے جاتے ہیں جو عمومًا کسی زمین پر یکجا کیا جاتا ہے ۔ نباتاتی، زرعی اور گھریلو کچرا تو زمین میں دفن کیا جا سکتا ہے لیکن پلاسٹک اور باقی کیمیاوی کچرے کو یا تو recycling کے عمل سے گزارا جاتا ہے یا تلف کر دیا جاتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو کنٹینر میں بھر کر تلف کر دیا جاتا ہےاور پھر گہری جگہوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ 

#کچرےاورکچرادانوں_کامناسب_انتظام 

ِیہ بہتر ہو گا  کہ ہر گھر کے سامنے ایک بڑے سائز کا ’’ڈرم‘‘ کوڑا ڈالنے کے لیے رکھ دیا جائے جسے کچرا اٹھانے والا آ کر اپنی ہتھ گاڑی میں ڈال کر لے جائے۔ اس کچرے کو کچرے کے بڑے ڈھیر  میں ڈال دیا جائے جہاں سے گاڑیاں محفوظ طریقے سے وہ کچرا ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے لیے مخصوص جگہوں پر پہنچا دیں۔ متعلقہ لوگ اس کچرے کو ری سائیکل کر کے اسے کار آمد بنا کر پھر نئے سرے سے نئی اشیا بنانے میں لگاسکتے ہیں ۔ 
دوسری بات یہ کہ  سڑکیں صاف کرنے والوں کے پاس سائیکلیں ہوں  جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈبے لگے ہوں،تاکہ سڑک کو صاف کر کے کوڑا ان میں جمع کیا جائے۔ اسی طرح  ترتیب وار مخصوص فاصلوں پر بڑے بڑے ٹرالر کچرا ڈالنے کے لیے رکھ دیے جائیں جہاں گھروں اور سڑکوں سے اکٹھا کیا ہوا کچرا جمع کیا جائے، جو ٹرکوں کے ذریعے مخصوص فیکٹریوں یا ان جگہوں تک لے جایا جائےجہاں انکو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزاراجائے۔ اس طرح کا کام کرنے کے لیے کے MC  یاTMA یا  متعلقہ ادارے اس کام کا ٹھیکہ کسی شہرت یافتہ  کمپنی کودیں، جو ہر شہر کو اپنے  طریقہُ کار  سے صاف رکھیں۔ان  ٹھیکوں  کی وجہ سے کوڑا ری سائیکل ہو کر کار آمد بھی ہو گا ،  جس کو آگے فیکٹریوں کو فروخت کر دیا جائے اور ٹھیکہ دینے سے بھی کروڑوں کا منافع ہو سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے اس کام کے لیےہمیں بہت زیادہ  پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی ہم  کچھ کر  سکتے ہیں  مگر اصل کام بڑے پیمانے کا ہے، جو ہر شہر کی بلدیاتی حکومت انجام دے سکتی ہے۔ اس میں ماہرین کی ضرورت ہو گی اور ایسے ایماندار افسران کی ضرورت ہے جو  دیانتداری اور جانفشانی سے اس کام کو انجام تک پہنچائیں۔

#ری_سائیکلنگ:
پوری دنیا میں Recycling کا رجحان ہے۔ لوگ پرانی اشیا کو پھر سے قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایسی بے شمار اشیا کو کسی حد تک کار آمد کرنے کے لیے کسی اور شکل میں ڈھالتے ہیں۔ مثال کے طور پر پلاسٹک کی بڑی بوتلوں کو کاٹ کر ان پر کلر کر کے ان میں پھول اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔انڈیامیں ایک سائنسدان نے 10%پلاسٹک کو بجری اور کولتار  کے ساتھ مکس کر کے اس سے سڑکیں بھی بنائی ہیں۔ کچھ ممالک میں بوتلیں ٹرین کے ٹکٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
 پرانے کاغذ کا گتہ بنتا ہے اور پلاسٹک بیگز پھر بیگز بنانے یا پلاسٹک کا سامان تیار کرنے کے کام آ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر استعمال شدہ چیز کا کوئی نہ کوئی مصرف ہوتا ہے۔


#کچرا_جمع_کرناایک_منافع_بخش_کام_  

 چند سالوں سے لوگوں نے کچرے کا مصرف تلاش کر لیا ہے، گویا کچرا بھی ایک کار آمد بزنس بن گیا ہے۔۔  
کتنے ہی بچے اور نوجوان لوگوں نے کچرے کے قریب اپنے مسکن بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ کاغذ، پلاسٹک کی اشیا، لوہے کا سامان وغیرہ علیحدہ کر کے تھیلے بھر کر مختلف فیکٹریوں میں بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح سے کچرا فروشی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ہزاروں ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر کچرے کے ڈھیروں سے چنا جاتا ہے اور ان کو علیحدہ کر کے فیکٹریوں تک لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بغیر قرض لیے اور سرمایہ لگائے ایک منافع بخش کاروبار بن  سکتا ہے۔ اگر یہی کام ٹھیکےدار  کو ٹھیکے پر دے دیا جائے تو اس سے کروڑوں روپے حکومت کو میسر آ سکتے ہیں اور شہروں کی صفائی کا نظام بھی  بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔  

#کچراچننےوالوں_کوکیسےکارآمدبنایاجائے

سیکڑوں ٹن کچرے میں سے کارآمد اشیاء نکالنے والے اِن ہزاروں ہنرمندوں اور رضا کاروں کی ایک فوج بنا کر اس کچرے کو صاف کیا جاسکتا ہے اور اس خودکار رضا کار فورس کو جب آپ معقول اور مناسب معاوضہ دیں گے تو یہ آپ کیلئے بہت کارآمد ثابت ہوں گے اور آپ اس فورس کو   کوڑا صاف کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں، یہ لوگ خوشی خوشی اس کام پر تیار بھی ہو جائیں گے کیونکہ وہ سارا دِن یہی کام تو کررہے ہوتے ہیں اور ہم اس طرح کم پیسوں میں اس کوڑے کو صاف اور اِسے کام میں لاسکتے ہیں ۔انکو ہم ٹرین train کر سکتے ہیں کہ وہ پلاسٹک کی  ، لوہے کی  ، اور دیگر کار آمد اشیاء کو الگ الگ چنیں اور جمع کریں یوں آسانی سے ان پلاسٹک بوتلوں  کو recycling سے اور باقی چیزوں کو فروخت کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے ۔ 

#کچرےکابہتراستعمال 
 اگر کچرے کو استعمال میں لایاجائے تو نہ صرف کثیرزرمبادلہ بچایاجاسکتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں کیونکہ 
1)کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بجلی اورکھاد کی پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔ 
2)کچرے کا ایک حصہ پروٹین‘ فرٹیلائزر (کھاد) کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ انرجی کی پیداوار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ 
3)کچرے کا تیسرا حصہ جو قابل استعمال نہیں اسے خاکستر دانوں کے ذریعے تلف کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کیمیکلز اورجراثیم پر مشتمل یہ کچرا انتہائی خطرناک اور آلودگی کا باعث ہوتاہے۔
 دنیا بھر میں 100 میں سے 65فیصد کچرا کارآمد ہوتا ہے جبکہ 35فیصد ضائع کردیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو زیر استعمال لاکر اربوں روپے کی معیشت کا اضافہ ہورہا ہے جس سے بجلی اورکھاد کی پیداوار جاری ہے۔ سالڈ ویسٹ اکانومی آج دنیا بھرمیں اربوں ڈالر تک پھیل چکی ہے۔لیکن افسوس ہمارے ہاں اس قسم کے منصوبے اول تو شروع ہی  نہیں کئے جاتے اگر کر بھی دئیے جائیں تو وہ بد انتظامی، ناتجربہ کاری اور کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔اس مقصد کے لئے ہماری حکومت کو متعلقہ محکموں کے افسران کو جدید ٹریننگ دلوانی ہو گی۔
سالڈ ویسٹ ایک مضمون بن چکا ہے جس پر لوگ باقاعدہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرف حکومت توجہ دے اور کوالیفائیڈ لوگوں کو ان محکموں میں تعینات کرے۔ اسی طرح کچھ بہتری آنے کے امکان ہیں۔
مزید یہ کہ اس امر کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس سلسلے میں آگاہی دی جائے تاکہ وہ تلف کئے جانے والے کوڑے کو باآسانی تلف کر سکیں۔ اس مقصد کے لئیے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیمینارز ، ورکشاپس اورتعلیم اداروں میں  معلوماتی پروگرامز اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں

No comments:

Post a Comment