Monday, September 30, 2019

شادی ایک بندھن ہے نہ کہ بوجھ"



جب شادی ہوتی ہے تو دو چیزیں ہیں جو دونوں فریقوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔پہلا فریق جو بچی کو بیاہ کر لے جارہے ہیں۔۔۔۔وہ ایک دوسرے گھر کی بچی کو اپنے ہاں بڑے چاوُ سے لاتے ہیں۔۔۔۔ انکو زرا بڑے ظرف کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ اس بچی کے گھر کا ماحول آپکے گھر سے مختلف ہوتا ہے۔۔۔ اسکو نئے گھر میں سیٹل ہوتے ٹائم لگے گا۔۔۔۔ اسکو دوستانہ ماحول فراہم کیاجائےتاکہ وہ جلدی ایڈجسٹ ہو۔۔۔۔اس ماحول میں ڈھل جائے ۔۔۔۔ پیار، توجہ اور محبت سے یہ کام بہت آسانی سے ہو جاتا ہے ۔جب یہ بندھن ہمیشہ کا ہے تو اسمیں کھینچا تانی کیوں۔۔۔۔۔۔کیوں نہ ایکدوسرے کو  سپیس
دی جائے ۔۔۔۔۔ اسی طرح دوسرا فریق وہ بچی ہے جو بیاہ کر  آتی ہے تو اسکو بھی تھوڑا دل بڑا کرنا ہو گا ۔۔۔اپنے آپکو نئے ماحول میں ڈھالنے کے لئے بغور اس گھر کے طور طریقوں کا جائزہ لینا ہو گا۔۔۔۔اور اسکے مطابق اپنی ایڈجسٹمنٹ کرنی ہو گی۔۔۔۔ جب  رہنا وہیں ہے تو بھلے طریقے سے بھی رہا جا سکتا ہے ۔۔ضروری ہے دل برے کئے جائیں ۔۔۔۔
میں اپنے اردگرد دیکھتی ہوں ۔۔۔۔بہت سی بیاہتا بیٹیوں کی مائیں انکی روزانہ کی رپورٹ سے  جو وہ سسرال والوں کے خلاف  پیش کرتی ہیں،، شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں۔۔۔۔ بیٹی تو اپنے سسرال میں سیٹ ہو جاتی ہے لیکن وہ بیٹی کی محبت میں کڑھتی رہتی ہیں۔۔۔۔
 مجھے دکھ ہوتا ہے کہ لڑکیاں والدین کو سسرال کی ہر بات کیوں بتاتی ہیں۔۔۔۔۔ اور خاص طورپہ ماں کو ۔۔۔۔بےبس والدین پریشان ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹی نے رہنا  اپنے سسرال میں ہی ہے تو کسی نہ کسی طور  ایڈجسٹ ہو جا نا چاہئیے  ۔۔۔تو کیا ضرورت ہے انہیں پریشان کرنے کی جبکہ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ہاں سیریس معاملہ ہو تو ضرور بتائیں لیکن یہ کیا کہ چھوٹی چھوٹی بات اٹھا کر ان تک پہنچائی جائے۔۔۔۔ میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہوتا ہے کہ سو بار تکرار ہوتی ہے تو سو بار پیار بھی . .  ۔کہیں عزت، کہیں بھرم  اور کہیں سمجھوتہ۔۔۔۔۔۔لیکن جب اسی شوہر کے ساتھ رہنا ہے تو اسے اپنے گھر والوں کے سامنے نیچا کیوں کرے۔۔۔۔قرآن کریم میں شوہر بیوی کو ایکدوسرے کا لباس کہا گیا ہے ۔۔۔لباس کے کیا فوائد ہیں ۔۔۔۔
*شرم ڈھکنا*
*پردہ پوشی کرنا*
*زینت*
یہی کام اگر ازواج کریں ایکدوسرے کے لئے تو انکی زندگیاں بڑی آسان ہو جائیں۔۔۔

نئے رشتوں کو بنانے میں ایک اور اہم امر کی طرف توجہ مرکوز کرانا چاہونگی وہ ہے شادی سے قبل اور رشتہ طے ہونے کے دوران سیل فون کا استعمال ۔۔۔یعنی ابھی رشتہ پوری طرح طے نہیں ہوا ہوتا اور لڑکا لڑکی آپس میں رابطے میں ہوتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ سچ ہے کہ یہ سیل فون بھی ایک دجالی فتنہ ہے ۔۔۔اسپر کانٹیکٹ کرکے منٹوں میں معاملہ کہاں تک پہنچ جاتا ہے ۔۔۔یہ بہت افسوسناک بات ہے۔۔۔۔اسکا سد باب یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایجوکیٹ
کریں انکی بہتر تربیت اور گرومنگ کریں کہ وہ حالات کے مطابق اپنے آپکو ڈھالنے کی قدرت رکھیں۔۔۔۔اتنا ہی رابطہ رکھیں جتنا مناسب ہے۔۔۔۔۔ایکدوسرے کو جاننے کے چکر میں خود سےاور اپنے خاندان سے متعلق   ہر بات ایکدوسرے کے گوش گزار کی جاتی ہے ۔۔۔۔ نتیجتاً رشتے بننے سے پہلے یا تو ٹوٹ جاتے ہیں اور یا دلوں میں پہلے سے ہی خاندان کے افراد کے بارے میں  بغض بھر جاتا ہے ۔۔۔۔ لہذا اس عادت کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے کہ بلاوجہ زیادہ رابطے چاہتوں کوفروغ دینے کی بجائے دوری کو باعث بنتے ہیں۔۔۔۔
ایک اور اہم چیز جو رشتوں کو کمزور کرتی ہے وہ دونوں جانب سے فرمائشیں ہوتی ہیں۔۔۔۔لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کی لسٹ، دولہے کو بھاری سلام اور پہناوُنیوں کی فرمائش  اور لڑکی والوں کی طرف سے بھاری بھرکم بری ، اعلیٰ اور مہنگے ترین پارلر سے اپائنٹمنٹ ، سونے کی ڈیمانڈ اور ماہوار خرچے تک کی فرمائشیں شامل ہوتی ہیں۔۔۔اب اگر شادی سے پہلے ہی یہ سب ہو گا تو دلوں میں محبت کی بجائے نفرت اور دوری آئیگی۔۔۔جو رشتوں کی پائیداری پر اثر انداز ہوتی ہے۔۔۔۔۔شادی یا نکاح دو لوگوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔۔۔۔ایک گرہ ہے جو انکو ایک تعلق میں ، بندھن میں جوڑتی ہے۔۔۔۔اس قسم کی فرمائشیں اور خواہشیں بہت منفی اثرات مرتب کرتی ہیں دونوں فریقوں پر بھی اور معاشرے پر بھی ۔۔۔۔

میں تمام  ماوُں کو بھی ایک  مشورہ دینا چاہونگی خدارا بیٹی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہ کریں۔۔آپ اسکے گھر کے مکمل حالات سے واقف نہیں آپ ایک سائیڈ کی بات سن رہی ہیں ۔۔ کیسے انصاف کر سکتی ہیں آپ۔۔۔۔اسطرح آپ اپنی اور انکی دونوں کی زندگی مشکل بنارہی ہیں۔۔
جب اس نے اسی گھر میں رہنا ہے تو اسے اسکے مطابق چلنے کی تلقین کریں ۔۔اپنی بہووُں کے لئے اصول مختلف ہوتے ہیں ۔۔۔وہ بھی تو کسی کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔لہذا عدل کریں تمام رشتوں میں۔۔تبھی بہتری بھی آئیگی۔۔۔۔اللہ کریم ہماری بچیوں کو اپنے گھروں میں سکون و عافیت کے ساتھ آباد کریں اور ہمیں دوسروں کی بچیوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے توفیق عطا فرمائے آمین۔۔۔۔
دعاگو آمنہ سردار

"کتب بینی ناپیدہوتی جا رہی ہے"


کتاب کی اہمیت ہماری زندگیوں میں بہت زیادہ ہے۔ یہ کتاب ہی ہے جو ہمیں بھلے برے میں تفریق کرنا سکھاتی ہے۔اسی نے ہمیں شعور بخشا۔ آگہی دی۔ یہ تو بات ہوئی اس کتاب کی جو ہم نصاب میں پڑھتے ہیں۔ جو ہمیں ہمارے مضمون کے مطابق آگہی اور علم دیتی ہے۔ لیکن میرا آج کا موضوع نصابی کتب نہیں ہیں.  بلکہ میں بات کرونگی غیر نصابی کتاب کی جسکا ہماری تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی وہ کتابیں جو ہم نصاب سے ہٹ کر پڑھتے ہیں۔
کتاب پڑھنے سے انسان کو علم و آگہی تو ملتی ہی ہے بلکہ ایک سکون اور طمانیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے کتاب پڑھکر جو سکون ملتا ہے وہ الفاظ میں بیان کرنے لائق نہیں۔ کتاب انسانی زندگی پر مختلف اور مثبت اثرات ڈالتی ہے۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف سوچتا ہے اور اسکی نفسیات  بھی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کتاب کا اثر بھی ہر شخص پر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اگر کسی ایک کتاب کو پڑھکر ایک تاثر لیتے ہیں تو کچھ لوگ بلکل اسکے متضاد سوچتے ہیں.  ۔ لیکن کتاب کا کام دراصل ہر شخص کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ جیسے ہم کسی بڑے فلسفی کی کتاب پڑھکر تھوڑا مختلف انداز میں سوچنے لگتے ہیں۔زندگی کو ایک دوسرے رخ سے دیکھتے ہیں ۔اسی سطرح دین و مذہب کی کتاب سے ہم نصیحت لیتے ہیں۔اپنی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔  شاعری کی کتب سے ہم محظوظ ہوتے ہیں۔بعض اوقات یوں محسوس کرتے ہیں کہ شاعر نے ہمارے دل کی بات کہہ دی۔  تاریخ کی کتاب ہمیں ماضی کی سیر کراتی ہے ، اس سے ہمیں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کا علم ہوتا ہے۔ ادب کی کتاب سے ہم ادبی فن پاروں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔انمیں زندکی کے تمام موضوعات پر لکھا جا چکا ہے۔ کسی ملک کا ادب اس ملک کی صحیح نمائندگی کرتا ہے۔ مختلف ممالک کا ادب پڑھنے سے ہم انکی تہذیب و تمدن سے واقف ہوتے ہیں۔  سانئس اور ٹیکنالوجی کی کتابوں سے ہم نئے دور کے بارے میں صحیح طور پر سمجھنے اور جاننے کے قابل ہوتے ہیں۔سائنسی ایجادات کے مثبت اور منفی عوامل کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔   فکشن پڑھنے سے ہمیں لوگوں کے ذہنی و فکری نکتہ نظر سے واقفیت ملتی ہے۔ وہ کیا اور کیسی سوچ رکھتے ہیں اور  اس سے ہمیں زمانے کیساتھ چلنے کی تحریک ملتی ہے۔ کیونکہ فکشن حقائق کی ہی ایک ترمیم شدہ تصویر ہوتی ہے۔ نفسیات پہ لکھی گئی کتاب پڑھنے سے ہمیں اپنی اور دوسروں کی نفسیات کو بہتر طور پر جاننے کاموقع ملتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اگلے   شخص کی عادت و خصلت کے مطابق اس سے رویہ روا رکھیں آپ بیتیاں ، سفر نامے، سوانح عمریاں یہ ہمارے علم میں اضافے کیساتھ ساتھ دلچسپی کا باعث بھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔  جغرافیہ، جنگی کتب ، مختلف مہارتوں پر لکھی گئی کتب ،سیاست پر،  کھیلوں پر ، پودوں پر سبزیوں پھلوں ، فصلوں کی نشو نما پر ، طب پر ، فنون لطیفہ پر غرض ہر طرح کی کتب موجود ہیں.  جنکو پڑھکر ان سے فیض اٹھایا جا سکتا ہے ۔ ان سے متعلقہ مہارتوں یا متعلقہ مضامین کے بارے میں مفصل آگاہی ملتی ہے۔
کتاب سے ہم صرف آگہی ہی نہیں حاصل کرتے بلکہ اچھی کتب پڑھنے سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ تسکین قلب حاصل ہوتا ہے۔ کتاب پڑھنے کے عادی لوگ جبتک مطالعہ نہ کریں انکو چین نہیں ملتا۔ انکو کتاب پڑھنے سے سرور حاصل ہوتا ہے۔ وہ اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال و عادات میں بھی بہتری لاتے ہیں ۔ ایک اچھی کتاب انسان میں مذید اچھے اوصاف پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اسکی عادات و اطوار میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔اسکی سوچوں اور خیالات کو وسعت ملتی ہے۔  اسکا انداز ایک عام آدمی سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اچھی کتاب ایک انسان کی کردارسازی میں اہم ترین رول ادا کرتی ہے۔

بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں اس عادت کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے۔کتب بینی بلکل ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ میں نے جو کتابوں کے پڑھنے پر اتنی تفصیل سے بات کی ہے اسکا مقصد ہی یہ تھا کہ یہ بتایا جائے کہ کتاب سے ہمیں کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یا ہم نےکیا فوائد حاصل کئے۔ اگر میں اپنے دور کی بات کروں تو ہمارے زمانے میں غیر نصابی کتاب پڑھنے کا بڑا رواج تھا۔ بچپن میں ہم تعلیم و تربیت، نونہال، ہمدردجیسے ماہنامے اور عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں پڑھتے تھے۔ پھر اصلاحی کہانیوں کا دور آیا۔ تھوڑے اور بڑے ہوئے تو جاسوسی کہانیاں پڑھنے کا دور تھا۔ عمران سیریز، انسپکٹر جمشید سیریز بڑے مشہور جاسوسی کردار تھے۔ ابن صفی اور اشتیاق احمد کا بڑا کردار رہا۔ اسکے بعد کی عمر میں رضیہ بٹ کے رومانی ناول پڑھنے کا دور آتاہے۔ ۔ لیکن ادبی گھرانہ ہونے کی وجہ سے بہت چھوٹی عمر سے ہی قراةالعین حیدر، عصمت چغتائی ، منٹو ، صدیق سالک، شفیق الرحمان ، انتظار حسین، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ جیسے بڑے ادباء کو  پڑھنے کا موقع ملا۔  اس دور کے  بیشر لوگ مطالعے کے عادی تھے۔ اتنے بڑے ادباء کو ہر کسی نے تو نہیں پڑھا ہوتا لیکن بہر حال ایک مطالعے کی عادت لوگوں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔اسوقت مختلف ادبی، اصلاحی و سیاسی  ڈائجسٹس بھی ہوتے تھے جنمیں اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ خاص اہمیت کے حامل تھے۔ ہفت روزہ اخبار جہاں  بھی ایک اچھا اضافہ تھا۔ خواتین کے کچھ ڈائجسٹس بہت مقبول تھے۔ ہم سے کچھ پہلے "بتول" اور "نقوش" جیسےاصلاحی ماہنامے بہت مشہور تھے۔جو خواتین اور بچیوں کی اخلاقی  تربیت و نشونما کے لئے بڑی بہترین تحاریر کا انتخاب کرتے تھے۔ یہ کتب ، ڈائجسٹس معاشرے میں لوگوں کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ میں یہ تو نہیں کہونگی کہ یہ ختم ہو گئے لیکن نایاب ضرور ہوگئے ہیں۔
افسوس مجھے آج کے دور کے لوگوں پر ہوتا ہے کہ کتاب کا استعمال انتہائ کم ہو کر رہ گیا ہے ۔ کتاب کی جگہ نئی ٹیکنالوجی نے، نئی gadgets  نے لے لی ہے ۔ آج کے بچے کے ہاتھ میں جدید ٹیکنالوجی ہے جسکی وجہ سے وہ کتاب اور کتب بینی سے دور ہو گیا ہے۔ بہت سے لوگ کتاب کو کمپیوٹر پہ، ٹیب پہ، موبائل پہ ڈاوُن لوڈ کر لیتے ہیں یاآجکل کتاب(ebook) کو سننے کا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ لیکن جو مزا کتاب کو ہاتھ میں لیکر پڑھنے میں آتا ہے وہ اس ٹیکنالوجی میں کہاں۔ میں نے کوشش کی تھی کہ میں انٹر نیٹ سے کتاب پڑھ سکوں لیکن مجھے ناکامی ہوئی کیونکہ کتاب سے محبت کرنیوالا کسی اور طریقے یا ذریعے سے اس سے حِظ نہیں اٹھا سکتا۔،،لیکن بہرحال کسی بھی طریقے سے پڑھیں کتاب لیکن پڑھیں ضرور۔۔
ہمیں کتب بینی کو فروغ دینے کے لیئے کچھ اقدامات کرنےکی ضرورت ہے۔
ایک تویہ  کہ والدین چھوٹی عمر سے بچے کو کتاب کا تحفہ دینے کی عادت ڈالیں۔
 اساتذہ بچوں کے دلوں میں کتاب کی محبت پیدا کریں ۔انکو کتاب سے پڑھ کر کہانی سنائیں۔
 حکومت کتابوں کو کم قیمت پر فروخت کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔ جیسے نیشنل فاوُنڈیشن کا اس میں بڑا اہم کردار ہے۔
 لائیبریریز کے قیام پر اور ریڈرز کوانکی طرف  متوجہ کرنے کے لئے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے سٹوڈنٹ لائیبریری کارڈز ہوں جو انکے لئے باآسانی دستیاب ہوں۔
 سکولوں اور کالجوں میں ایک پیریڈ لائیبریری کا ضرور رکھا جائے جہاں بچے عملی طور پر جا کے کتب کا مطالعہ کریں۔
 حکومت  قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ایسے پروگرامز منعقد کرےجس میں طالبعلموں کو ریڈنگ کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انکو رعایتی قیمتوں پر مفید کتابیں مہیا ہوں۔
 لکھاری ، ادیب، شاعر خود بھی ان پروگراموں کا حصہ بنیں۔ ایسے پروگرام ہمیں اسلام آباد کی یا چند بڑے شہروں کی حد تک تو نظر آتے ہیں لیکن چھوٹے شہروں میں ایسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کتاب کی محبت پیدا کرنے کے لئے لائیبریریز کے تحت ہر ضلع میں تعلیمی و تدریسی پروگرام منعقد ہوں۔
لائیبریریاں تو موجود ہیں لیکن پڑھنے والے بہت کم ہیں ۔ لہذا لائیبریریز کے تحت ایسے پروگرام منعقد ہوں جو سکولوں میں جا کر بچوں کو مطالعے کی عادت کیطرف راغب کریں ۔
چھوٹے بچوں کے لیئے کتاب میں دلچسپی کے عناصر ہوں تاکہ وہ شوق سے اسکو دیکھیں ، پڑھیں اور اس سے سیکھنے کی عادت ڈالیں۔
جن لوگوں کا ذکر پہلے کیا جیسےکہ والدین ، اساتذہ ، حکومت کے مختلف ادارے ، یہ سب اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اوراسی طریقے سے ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کیطرف واپس لا سکتے ہیں۔

Saturday, September 28, 2019

قراة العین حیدر کی ایک جھلک

قراة العین حیدر کی گردش رنگ چمن زیر مطالعہ ہے۔ایک دلچسپ دستاویزی ناول ہے جسمیں مسلمانوں کی پر تعیش زندگی کا ذکر بھی ملتا ہے اور انکے زوال کی وجوہات بھی۔۔۔۔۔ مختلف شہروں اور کردارں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔۔۔۔ جدت اور قدیم رسوم و روایات کا ایک حسیں امتزاج نظر آتا ہے۔۔۔۔بہت پہلے لیا تھا شاید لاہور ایئرپورٹ سے لیکن مکمل نہ کرپائی مصروفیت کی وجہ سے۔۔۔سوچا آجکل گھر میں ہوں تو اسکو ہی مکمل کر لوں۔۔۔
قراة العین حیدر کو میں لگ بھگ ،26,27 سال سے پڑھ رہی ہوں۔۔۔انکے تمام ناولز، ناولٹ، افسانوی مجموعے ، سفر نامے اور انشائیے ہر تصنیف کمال کی ہے۔۔۔۔ آٹھویں جماعت میں پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا اپنی اماں کی لائیبریری سے تو آج تک انکے سحر میں مبتلا ہوں۔۔۔
آخر شب کے ہمسفر، کارجہاں دراز ہے، چاندنی بیگم، میرے بھی صنم خانے ، آگ کا دریا، سفینہ غم دل ۔۔۔۔یہ تمام تو پڑھ چکی ہوں۔۔۔ایک ناول جو زیر مطالعہ ہے یہ نہیں پڑھا اور چند ایک اور ہیں جو نہیں پڑھ پائی۔وہ ابھی پڑھنے ہیں۔۔۔میری پسندیدہ مصنفہ ہیں۔۔سوچا جنہوں نے نہیں پڑھا انکو ، انکے لئے کچھ رہنمائی کر دوں۔۔۔۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے لکھے انکے ناول کو پڑھیں تو اسمیں بھی ایک جدت، فلسفہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔
انکی تصانیف درج ذیل ہیں
انہوں نے 4 ناولٹ بھی لکھے، جن کے نام ’دلربا‘، ’سیتاہرن‘، ’چائے کے باغ‘، ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘ ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعوں کی تعداد 8 ہے، جن میں ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘، ’پت جھڑ کی آواز‘، ’روشنی کی رفتار‘، ’جگنوؤں کی دنیا‘، ’پکچر گیلری‘، ’کف گل فروش‘ اور ’داستان عہد گل‘ شامل ہیں۔ 5 سفرنامے جبکہ 7 مغربی ادیبوں کی کتابوں کے تراجم بھی اُن کے قلمی اشتراک کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر معروف امریکی ادیب ’ہنری جیمز‘ کے ناول ’دی پورٹریٹ آف اے لیڈی‘ کا اُردو ترجمہ اُن کے چند بہترین تراجم میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اُن کی کئی تخلیقات پر ہندوستان میں فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں ۔

قرۃ العین حیدر نے کُل 8 ناول لکھے، جن میں ’میرے بھی صنم خانے‘، ’سفینہ غم دل‘، ’آگ کا دریا‘، ’آخر شب کے ہمسفر‘، ’کار جہاں دراز ہے‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’چاندنی بیگم‘، ’شاہراہِ حریر‘ شامل ہیں۔ اُن کا ناول ’کار جہاں دراز ہے‘ تین حصوں پر مشتمل اور سوانحی ناول ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے کئی ذاتی گوشوں پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔

کچرا بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے

ایک تحقیقی سروے کے مطابق ماحولیات کے ماہرین کو تشویش لاحق ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غریب عوام کی ایک بڑی آبادی  کوڑے کرکٹ کے پاس رہتی ہے۔ جن کی وجہ سے انمیں بے شمار مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے پاس رہنے سے انہیں جسمانی عوارض لاحق ہونے کیساتھ ساتھ ذہنی بیماریاں بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں ۔جنمیں ملیریا اور فضائی آلودگی سے متعلقہ مسائل شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسکی وجہ کوڑا کرکٹ کی جگہوں پر زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان ممالک میں نہ ختم ہونیوالی  بیماریوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2010 میں ان ممالک میں اسی لاکھ ساٹھ ہزار افراد کچرے کے قریب رہنے پر مجبور ہیں۔ اسی رپورٹ کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ سیسہ، فاسفیٹ اور لوہا اور دیگر کئی طرح کے کیمیکلز صحت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس علاقے میں سیسے کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے ۔ماہرین کی رائے کیمطابق اگر یہ زہریلا مادہ انسان کے خون میں جذب ہو جائے تو اس سے رحم مادر میں بچوں کو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔
ترقی یافتہ  ملکوں میں ماحول د وست اصول کے تحت اسکو ٹھکانے لگانے کے بہت اچھے اور سائنٹفیک  طریقےموجود  ہیں۔ اور  اس کچرےسے فائدہ اٹھانے کے لئےبھی انکے پاس بہت سی سہولتیں اورسائنسی طریقہُ کار موجود ہیں۔دنیا بھر میں آجکل ویسٹ مینجمنٹ کےانہی اصولوں  کے تحت کام ہو رہا ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

#کچرےکی_اقسام:
 ہمارے ملک میں ہر قسم کا ٹھوس کچرا پایا جاتا ہے۔یہ گھریلو ، صنعتی،زرعی یا محض قدرتی  بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے
1)گھریلو کچرا : باورچی خانے کا کچرا جسمیں ٹوٹی کانچ،پلاسٹک، برتن، گتے کے ڈبے، استعمال شدہ پرانے اخبارات اور چھلکے وغیرہ۔
2)فالتو کچرا: اینٹ، ریت ،فرنیچر اور بیکار اشیاء، کاٹھ کباڑ۔
3)حیاتاتی  و طبی کچرا: مردہ جانور۔ شاخ سے گرنے والے پتے، ڈالیاں، تنے، شاخیں ، گلے سڑے پھل ، چھلکے۔
4)زرعی کچرا: فصلوں سے بچنے والا کچرا ، کھیت کے جانوروں کے فضلات ، راکھ اور کیڑا کش ادویہ ۔
5) صنعتی کچرا: جیسے کیمیاوی مادہ، پینٹ وغیرہ
6) کوئلے کی کان کا کچرا۔
یہ کچرا زیادہ  تر شہروں میں ملتا ہے۔

#کچرےکی_نکاسی_کےلئےاقدامات:
 شہروں میں  اس کچرے کی نکاسی کے لئے حسب ذیل اقدامات کئے گئے ہیں۔
1) ٹھوس کچرے کا جمع کرنا ۔ شہر کے مختلف مقامات سے ٹرکوں اور ٹریلوں کے ذریعے کچرا جمع کیا جاتا ہے جو ٹرانسفر سٹیشنز پر بھیجا جاتا ہے۔۔ بلڈوزر ان کچروں کو انتقالی مستقروں سے نکال کر نکاسی کی جگہوں کو لے جاتے ہیں جو عمومًا کسی زمین پر یکجا کیا جاتا ہے ۔ نباتاتی، زرعی اور گھریلو کچرا تو زمین میں دفن کیا جا سکتا ہے لیکن پلاسٹک اور باقی کیمیاوی کچرے کو یا تو recycling کے عمل سے گزارا جاتا ہے یا تلف کر دیا جاتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو کنٹینر میں بھر کر تلف کر دیا جاتا ہےاور پھر گہری جگہوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

#کچرےاورکچرادانوں_کامناسب_انتظام

ِیہ بہتر ہو گا  کہ ہر گھر کے سامنے ایک بڑے سائز کا ’’ڈرم‘‘ کوڑا ڈالنے کے لیے رکھ دیا جائے جسے کچرا اٹھانے والا آ کر اپنی ہتھ گاڑی میں ڈال کر لے جائے۔ اس کچرے کو کچرے کے بڑے ڈھیر  میں ڈال دیا جائے جہاں سے گاڑیاں محفوظ طریقے سے وہ کچرا ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے لیے مخصوص جگہوں پر پہنچا دیں۔ متعلقہ لوگ اس کچرے کو ری سائیکل کر کے اسے کار آمد بنا کر پھر نئے سرے سے نئی اشیا بنانے میں لگاسکتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ  سڑکیں صاف کرنے والوں کے پاس سائیکلیں ہوں  جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈبے لگے ہوں،تاکہ سڑک کو صاف کر کے کوڑا ان میں جمع کیا جائے۔ اسی طرح  ترتیب وار مخصوص فاصلوں پر بڑے بڑے ٹرالر کچرا ڈالنے کے لیے رکھ دیے جائیں جہاں گھروں اور سڑکوں سے اکٹھا کیا ہوا کچرا جمع کیا جائے، جو ٹرکوں کے ذریعے مخصوص فیکٹریوں یا ان جگہوں تک لے جایا جائےجہاں انکو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزاراجائے۔ اس طرح کا کام کرنے کے لیے کے MC  یاTMA یا  متعلقہ ادارے اس کام کا ٹھیکہ کسی شہرت یافتہ  کمپنی کودیں، جو ہر شہر کو اپنے  طریقہُ کار  سے صاف رکھیں۔ان  ٹھیکوں  کی وجہ سے کوڑا ری سائیکل ہو کر کار آمد بھی ہو گا ،  جس کو آگے فیکٹریوں کو فروخت کر دیا جائے اور ٹھیکہ دینے سے بھی کروڑوں کا منافع ہو سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے اس کام کے لیےہمیں بہت زیادہ  پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی ہم  کچھ کر  سکتے ہیں  مگر اصل کام بڑے پیمانے کا ہے، جو ہر شہر کی بلدیاتی حکومت انجام دے سکتی ہے۔ اس میں ماہرین کی ضرورت ہو گی اور ایسے ایماندار افسران کی ضرورت ہے جو  دیانتداری اور جانفشانی سے اس کام کو انجام تک پہنچائیں۔

#ری_سائیکلنگ:
پوری دنیا میں Recycling کا رجحان ہے۔ لوگ پرانی اشیا کو پھر سے قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایسی بے شمار اشیا کو کسی حد تک کار آمد کرنے کے لیے کسی اور شکل میں ڈھالتے ہیں۔ مثال کے طور پر پلاسٹک کی بڑی بوتلوں کو کاٹ کر ان پر کلر کر کے ان میں پھول اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔انڈیامیں ایک سائنسدان نے 10%پلاسٹک کو بجری اور کولتار  کے ساتھ مکس کر کے اس سے سڑکیں بھی بنائی ہیں۔ کچھ ممالک میں بوتلیں ٹرین کے ٹکٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
 پرانے کاغذ کا گتہ بنتا ہے اور پلاسٹک بیگز پھر بیگز بنانے یا پلاسٹک کا سامان تیار کرنے کے کام آ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر استعمال شدہ چیز کا کوئی نہ کوئی مصرف ہوتا ہے۔

#کچرا_جمع_کرناایک_منافع_بخش_کام_ 

 چند سالوں سے لوگوں نے کچرے کا مصرف تلاش کر لیا ہے، گویا کچرا بھی ایک کار آمد بزنس بن گیا ہے۔۔ 
کتنے ہی بچے اور نوجوان لوگوں نے کچرے کے قریب اپنے مسکن بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ کاغذ، پلاسٹک کی اشیا، لوہے کا سامان وغیرہ علیحدہ کر کے تھیلے بھر کر مختلف فیکٹریوں میں بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح سے کچرا فروشی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ہزاروں ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر کچرے کے ڈھیروں سے چنا جاتا ہے اور ان کو علیحدہ کر کے فیکٹریوں تک لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بغیر قرض لیے اور سرمایہ لگائے ایک منافع بخش کاروبار بن  سکتا ہے۔ اگر یہی کام ٹھیکےدار  کو ٹھیکے پر دے دیا جائے تو اس سے کروڑوں روپے حکومت کو میسر آ سکتے ہیں اور شہروں کی صفائی کا نظام بھی  بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔ 

#کچراچننےوالوں_کوکیسےکارآمدبنایاجائے

سیکڑوں ٹن کچرے میں سے کارآمد اشیاء نکالنے والے اِن ہزاروں ہنرمندوں اور رضا کاروں کی ایک فوج بنا کر اس کچرے کو صاف کیا جاسکتا ہے اور اس خودکار رضا کار فورس کو جب آپ معقول اور مناسب معاوضہ دیں گے تو یہ آپ کیلئے بہت کارآمد ثابت ہوں گے اور آپ اس فورس کو   کوڑا صاف کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں، یہ لوگ خوشی خوشی اس کام پر تیار بھی ہو جائیں گے کیونکہ وہ سارا دِن یہی کام تو کررہے ہوتے ہیں اور ہم اس طرح کم پیسوں میں اس کوڑے کو صاف اور اِسے کام میں لاسکتے ہیں ۔انکو ہم ٹرین train کر سکتے ہیں کہ وہ پلاسٹک کی  ، لوہے کی  ، اور دیگر کار آمد اشیاء کو الگ الگ چنیں اور جمع کریں یوں آسانی سے ان پلاسٹک بوتلوں  کو recycling سے اور باقی چیزوں کو فروخت کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے ۔

#کچرےکابہتراستعمال
 اگر کچرے کو استعمال میں لایاجائے تو نہ صرف کثیرزرمبادلہ بچایاجاسکتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں کیونکہ
1)کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بجلی اورکھاد کی پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔
2)کچرے کا ایک حصہ پروٹین‘ فرٹیلائزر (کھاد) کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ انرجی کی پیداوار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
3)کچرے کا تیسرا حصہ جو قابل استعمال نہیں اسے خاکستر دانوں کے ذریعے تلف کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کیمیکلز اورجراثیم پر مشتمل یہ کچرا انتہائی خطرناک اور آلودگی کا باعث ہوتاہے۔
 دنیا بھر میں 100 میں سے 65فیصد کچرا کارآمد ہوتا ہے جبکہ 35فیصد ضائع کردیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو زیر استعمال لاکر اربوں روپے کی معیشت کا اضافہ ہورہا ہے جس سے بجلی اورکھاد کی پیداوار جاری ہے۔ سالڈ ویسٹ اکانومی آج دنیا بھرمیں اربوں ڈالر تک پھیل چکی ہے۔لیکن افسوس ہمارے ہاں اس قسم کے منصوبے اول تو شروع ہی  نہیں کئے جاتے اگر کر بھی دئیے جائیں تو وہ بد انتظامی، ناتجربہ کاری اور کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔اس مقصد کے لئے ہماری حکومت کو متعلقہ محکموں کے افسران کو جدید ٹریننگ دلوانی ہو گی۔
سالڈ ویسٹ ایک مضمون بن چکا ہے جس پر لوگ باقاعدہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرف حکومت توجہ دے اور کوالیفائیڈ لوگوں کو ان محکموں میں تعینات کرے۔ اسی طرح کچھ بہتری آنے کے امکان ہیں۔


Saturday, September 14, 2019

خاموش زہر قاتل



پلاسٹک جدید کیمیائی صنعت میں بہت ہی سستی اور عام شے ہےجو ہماری زندگی میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ پلاسٹک کو آج ہمارے یہاں اس قدر اہمیت حاصل ہوچکی ہے
کہ اس کے بغیر اب روزمرہ کی زندگی ہمیں  ادھوری دکھائی دیتی ہے۔ ہم روزانہ پلاسٹک
سے بنائی گئی کوئی نہ کوئی چیز ضرور
استعمال کرتے ہیں، جبکہ پلاسٹک کا سب سے زیادہ استعمال ہم پولیتھین لفافوں یا بیگز کی صورت میں کرتے ہیں۔ یہ بیگ یا لفافے وزن میں انتہائی ہلکے اور سستے ہوتے ہیں اور ہم انہیں کسی بھی طرح سے استعمال کرسکتے ہیں۔ ان
ہی فائدوں کو دیکھ کر ہم ان کا بکثرت استعمال کرتے ہیں،لیکن اس کے مضر اثرات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان پلاسٹک بیگز کو استعمال کےبعد پھینک دیا جاتا ہے، لیکن یہ اپنی کیمیاوی خصوصیات کے باعث مٹی، پانی یا ہوا میں گلنے سڑنے کے بجائے ہمارے ماحول کے لئے مضر اور ضرر رساں بن جاتے ہیں۔
#شاپنگ_بیگزکی_تاریخ:
پلاسٹک کے تھیلے یا شاپنگ بیگز یا عرف عام میں شاپر کہلانے والے اس ماحول کو برباد
کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ہماری
اس کائنات کے لئے خاموش زہر قاتل کا سا
کام انجام دے رہے ہیں۔ 20ویں صدی میں
ایجاد ہونیوالے پلاسٹک سے بعد میں کیا کیا تباہی ہوگی یہ اسوقت کے لوگوں نے یقینا"
نہیں سوچا تھا ۔ پلاسٹک اپنی ساخت اور
بناوٹ میں لچکدار، نرم اور مضبوط ہر شکل
و صورت میں تیار کیا جاسکتا ہے۔ اسلئیےاس سے ہرقسم کےاستعمال کی چیزیں بننی شروع ہوئیں۔ باورچی خانے کے برتن و اشیاء سے لیکر کھلونوں، جوتوں، کمپیوٹر ، ٹی وی، مختلف مشینری اور گاڑیوں تک میں اسکا استعمال ہوا۔ اسکے علاوہ طبی آلات کو دیکھیں تو انمیں انجکشنز اور ٹیوبز وغیرہ پلاسٹک سے ہی بنی ہوتی ہیں۔ پہلی بار شاپنگ بیگ یا تھیلے کا استعمال 1957 میں سینڈوچ بیگ سے ہوا۔ جسکے بعد ان تھیلوں کے استعمال کا یہ سلسلہ چل نکلا۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پلاسٹک میں بیکری کا سامان زیادہ دیر تک تازہ رہتا تھا۔ لہذا 1969 میں امریکہ میں ڈبل روٹی اور اشیائے خورد ونوش کو انہی تھیلوں میں فروخت کیا جانے لگا۔ 1977 تک انکا استعمال بڑھکر جنرل سٹورز اور سبزی فروشوں تک
آچکا تھا۔ 1996 تک ان تھیلوں کا استعمال
دنیا بھر میں 80% تک بڑھ چکا تھا۔ یہ
شاپنگ بیگز دکانداروں کو نسبتاً سستے پڑتے تھے ۔لہذا دکاندار بھی انکا بے دریغ استعمال
کرنے لگے اور گاہک بھی۔  ایک اندازے کیمطابق پوری دنیا میں پلاسٹک کے تقریباًایک ٹریلین شاپنگ بیگزیا اس سے کچھ زائد  استعمال
ہونے لگے۔ اس حساب سے ہر شخص  ایک
سال میں اوسطاً150 تھیلے استعمال کرتا ہے۔
اور ہر سال انکے استعمال میں تقریباً 15% اضافہ ہو رہا ہے۔صرف پاکستان میں پلاسٹک
بیگ بنانے والے کارخانوں کی تعداد آٹھ سے
دس ہزار کے درمیان ہے۔اور ان میں سے ایک کارخانہ اوسطاً 250 سے 500 کلوگرام
پلاسٹک بیگ بنا رہا ہے۔ ایک سرکاری جائزہ رپورٹ کیمطابق ملک میں استعمال ہونیوالے
ان تھیلوں کی تعداد 55 ارب تک پہنچ چکی
ہے۔ جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ 
#پلاسٹک_کےشاپنگ_بیگزکےنقصانات:
پلاسٹک کی مصنوعات کاسب سے بڑا نقصان
یہ ہے کہ وہ دھوپ اور پانی سے رفتہ رفتہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں  تو  تبدیل  ہو
جاتی ہیں لیکن کئی صدیوں تک ختم (dissolve) نہیں ہوتیں ۔ انکا بیشتر حصہ
ندی نالوں، دریاوُں کے ذریعے ہوتا ہوا سمندروں میں جاتا ہے جس میں سے 70 %سمندروں کی تہہ میں چلا جاتا ہے اور آبی آلودگی کا باعث
بنتا ہے اور30% سطح پہ تیرتا رہتا ہے۔ ایک تجزئےکیمطابق سمندروں سے نکالا جانیوالا 90%کچرا پلاسٹک اور ان بیگز پر مشتمل
ہوتا ہے۔ 2006 کی ایک ریسرچ کیمطابق
سمندر کے کئی حصوں میں ایک مربع
میل کے رقبے کے اندر پلاسٹک کے تقریبا" 46000 ٹکڑے موجود ہوتے ہیں جو سمندروں میں زہریلا مواد پھیلا رہے ہیں.اور آبی
جانداروں کی موت کا باعث بن رہے ہیں۔
شہروں میں پلاسٹک کے تھیلے کوڑے کے
ڈھیروں سے اڑ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ جو ٹریفک میں بھی تعطل پیدا کرتے ہیں۔اسکے
علاوہ گٹروں اور نالیوں میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔یہ پانی جب سڑکوں پر پھیلتا ہے تو انمیں شگاف اور دراڑیں پیدا کر دیتا ہے۔
جس سے سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔  نکاسی آب  کے نظام میں رکاوٹ کے نتائج
کسی بھی ملک یا شہر کے لئے انتہائی
خطرناک ثابت ہوتے ہیں.  اس سے اردگرد
کا ماحول بھی آلودہ ہو جاتا ہے۔ اور یہی گندا پانی پینے کے صاف پانی میں بھی شامل ہو کر گیسٹرو، ہیضہ جیسی خطرناک بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ یہی پانی جوہڑوں کی شکل اختیار
کر کے مچھروں کی آماجگاہ بن جاتا ہےجو ڈینگی، ملیریااور پیٹ کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ پلاسٹک کے ذرات اور زہریلے
عناصر زمین میں جذب ہو کر چشموں اور کنووُں کے پانی کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق 80 % بچوں  اور 93 % بڑوں کے
جسموں میں پلاسٹک سے ملے جلےاجزا پائے
جاتے ہیں۔جو ہارمونز بنانے والے غدودوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ مختلف قسم کے کینسرز بھی انہی شاپنگ بیگز اور پلاسٹک کی مصنوعات سے پھیل رہے ہیں۔خاص طور پر پلاسٹک کی بوتلیں اور ڈسپوزیبل کپس جن
میں چائے پی جاتی ہے ۔انتہائی نقصان دہ ہیں۔ سانس کی بیماریاں ، کالا یرقان اور موذی بیماریاں بھی اسی سے  لاحق ہوتی ہیں۔
پلاسٹک کی کوڑے میں موجودگی اس کو زمین میں جذب ہونے سے رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں کوڑے کی
بھی کیٹیگریز ہیں۔ پلاسٹک کو الگ، نباتاتی کوڑے کو الگ اور کاغذ کو الگ الگ حصوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ پلاسٹک کو ضائع کیا جائے یا ری سائکلنگ کی جائے اور باقی نباتاتی کوڑے
کو کھاد یا کسی اور مفید مقصد کے لئے
استعمال کیا جائے۔پلاسٹک اور پلاسٹک بیگز کا استعمال زمین کے نظام کے لئے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
اسکے استعمال کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں پلاسٹک پرپابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اور اسکے متبادل متعارف کرائے جارہے ہیں ۔  1997 میں وزیراعظم پاکستان  نےملک میں  تمام رنگ کے تھیلوں پر پابندی عائد کر
دی تھی۔2013 میں بھی حکومت نے انپر
پابندی لگائی اسی طرح  مختلف صوبائی حکومتوں نے بھی مختلف ادوار میں ان
تھیلوں کے استعمال پر پابندیاں  عائد کی تھیں لیکن افسوس کے انپر عملدرآمد نہیں کیا جاتا
رہا۔
پلاسٹک کے تھیلوں کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ جبتک ان کو مکمل طور پر ban نہیں کیا
جائیگا اسوقت تک ہمیں اس بھیانک حقیقت کا سامنا رہے گا کہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ پلاسٹک اور پولیتھین بیگز ہیں۔ ان بیگز کے متبادل کے طور پر ہم پٹ سن اور کاغذ کے بیگز کو فروغ دے سکتے ہیں۔پلاسٹک کے ان تھیلوں سے قبل پٹ سن کی بوریاں یا موٹے
کاغذ کے لفافے استعمال ہوا کرتے تھے ۔ ہمارے بچپن میں سبزی اور پھلوں کے لئے ٹوکرے یا پٙچھے استعمال ہوا کرتے تھے ۔ ہمیں چاہئیے کہ
ہم انہی چیزوں کا استعمال دوبارہ کریں کیونکہ یہ ماحول کے لئے کسی بھی قسم کے نقصان کا باعث نہیں بنتے جبکہ پلاسٹک کو نہ جلایا جا سکتا ہے ، نہ انکو dissolveکیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسکا کوئی اور مفید استعمال ہے۔ یہ ہر صورت میں ناقابل تلف ہے۔ ہمارے ماحول کے
لئے زہر قاتل کا کام دے رہا ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے اسکو ختم کرنے اور اسکے متبادل کے طور
پر کارآمد بیگز کو متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب  عام آدمی کو اسکے مضمر اثرات کے بارے میں علم ہوگا۔ ہم عوام کی آگاہی کے لئے مختلف سیمینارز ، کانفرنسز اور پروگرامز کا اہتمام گورنمنٹ کی سطح پر بھی اور سول سوسائٹیز اور NGOs کیساتھ ملکر کر سکتے ہیں۔ ان آگاہی پروگرامز کا انتظام لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں، یونیورسٹی، کالجز ،سکولوں کے طلبا،سوشل ورکرز، ماحولیات کے لئے کام کرنیوالے سارے اداروں کے لوگوں اور ماحولیات کے لئے کام کرنیوالی NGOs کے لئے ہونا چاہئیے ۔جہاں سے آگاہی عام آدمی تک پہنچے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ  سوشل میڈیا کا بھی مثبت استعمال لوگوں کو آگاہی دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسکے علاوہ انتظامیہ، لوکل گورنمنٹ ، TMA, WASCCAکے ادارےاسکی روک تھام اور اسکی تشہیر کے لئے اہم رول ادا کر سکتے ہیں جب لوگ آگاہ ہونگے۔
موجودہ
  تو اس زہر قاتل کے استعمال کو ترک کر دینگے۔ اور اسکےبہتر متبادل تلاش کرینگے۔ آیئے ہم سب اس مہلک شے سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلائیں ۔ اچھی بات کو پھیلانا بھی صدقہُ جاریہ ہے۔













Wednesday, September 11, 2019

ہمارا اپنا قائد



آج جی چاہا کہ اپنے قائد کو اپنی تحریر کے ذریعے خراج تحسین پیش کروں۔۔۔۔قائد اعظم محمد علی جناح سے ناصرف اس قوم کا بچہ بچہ  بلکہ پوری دنیا واقف ہے۔۔۔۔ہر کوئی انکے کردار کی مثالیں دیتا ہے۔۔۔انکی پوری زندگی کے سفر کےبارے میں سب جانتے ہیں ۔۔میں آج اس تحریرمیں صرف انکی شخصیت کے مختلف پہلووُں پر روشنی ڈالوں گی۔۔۔انکا اخلاص ، دردمندی،  تدبر، ارادے کی پختگی،  امانتداری، عزم صمیم ، بلندحوصلگی ، استقامت ،وعدے کی پابندی، سچائی کی عادت ،پر دلیل گفتگو، انتھک محنت ، بااصول شخصیت۔۔۔۔یہ سب وہ خصوصیات ہیں جو انکی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہمیں حاصل ہوئیں۔۔۔۔وہ ایک کامیاب اور اسوقت کے مہنگے ترین وکیل تھے لیکن مسلمانوں کے لئے دردمندی اور اخلاص چونکہ انکے دل میں موجود تھا جسے حالات نے عیاں کیا اور وہ اپنی پر تعیش زندگی کے عیش و آرام تج کرکے جدوجہد آزادی کے لئے پورے عزم اور بلند حوصلگی کے ساتھ جُت گئے ۔ اس سفر کو اپنے ارادے کی پختگی اور استقامت کے ساتھ لیکر آگے بڑھے اور اسوقت تک چین سے نہیں بیٹھے جبتک کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لئے ایک الگ ریاست حاصل نہ کر لی۔۔۔۔ آج جو ہم اس ملک میں آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں یہ قائد ہی کی انتھک محنت، پرعزم ارادے اور بروقت قوت فیصلہ سے ممکن ہوئی اگر انکی دور اندیشی اور تدبر نہ ہوتا تو آج ہم ہندوستان میں غلامی کی چکی پیس رہے ہوتے۔۔۔۔ قائد کی پردلیل گفتگو، دور اندیشی اور تدبرکے بڑے بڑے عالم فاضل بھی قائل ہیں۔۔اپنے تو اپنے پرائے بھی انکے پختہ کردار کی تعریف کرتے ہیں۔۔۔انکا انداز بیاں انتہائی شستہ، نفیس  سادہ اور پُر دلیل ہوتا تھا۔۔۔کم لیکن مدلل گفتگو کرتے ۔۔۔فالتو بات نہ خود کرتے تھے نہ پسند فرماتے تھے۔۔۔انکی شخصیت کا ایک اور پہلو کہ انکو اپنے جذبات و احساسات پر مکمل کنٹرول حاصل تھا ۔۔۔کبھی کسی نے انکو غصے میں یا بہت خوشی میں نہیں دیکھا ۔۔۔انکی شخصیت میں ایک خاص توازن تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان سے مرعوب رہتے تھے ۔۔۔قائد ایک سنجیدہ لیکن خوش اخلاقی کی حامل شخصیت تھے۔۔۔انہوں نے اپنی  شدید بیماری کو لوگوں سے ، دنیا سے چھپا کے رکھا کہ اسکو انکی کمزوری نہ سمجھا جائے۔۔۔۔۔وہ بہت زیادہ محنتی انسان تھے ۔۔گو کہ انکا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا لیکن معاشرے میں بلند مقام و اعلیٰ رتبہ  انہوں نے اپنی انتھک محنت سے حاصل کیا۔۔۔۔ انکے باقی بہن بھائی اتنے تعلیم یافتہ نہیں تھےجتنے کہ قائد۔۔۔انہوں نے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کو دریافت کیا اور ان کو بروئے کار لاتے ہوئے عظمت کی اس بلندی پر پہنچے کہ آج دوست تو دوست دشمن بھی انکی تعریف کرنے پر مجبور ہے ۔۔
انکی وفات کے بعد ہندوستان کی اسمبلی میں ڈاکٹر راجندر پرساد نے4 نومبر 1948میں انکے کردار پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی  کہ
"قابل صد احترام ممبران اسمبلی ۔۔میں آپ سے ملتمس  ہوں کہ اپنی جگہوں پر کھڑے ہوجائیے اور  قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کیجئےجنہوں نے اپنے عزم صمیم ، لازوال کوششوں اور انتہائی اخلاص نیت سے خطہُ پاکستان حاصل کیا اور اس گھڑی انکی وفات  ایک ناقابل تلافی  نقصان ہے۔"
یہ ہے کردار جسکے دشمن بھی معترف تھے۔۔
آزادی کے بہت بڑے داعی نیلسن مینڈیلا نے 1955 میں قائد سے اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا
"جناح ان تمام لوگوں کے لئےمستقل طور پر قابل تقلید ہیں جو کہ نسلی اور گروہی تفریق کے خلاف لڑ رہے ہیں"
صٙرت چندرا بوس نے ان الفاظ میں قائد کی پیشہ وارانہ  زندگی اور شخصیت پر روشنی ڈالی کہ
"مسٹر جناح نا صرف ایک بڑےنامور وکیل تھے بلکہ ایک بہترین کانگرس مین ، مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما ، دنیاکےایک قدآورسیاستدان و سفیر اور سب سے بڑھ کر ایک  بہت ہی باکردار انسان تھے "
قائد کی یہ خصوصیات ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔۔۔۔ وہ ایک باعمل ، پر عزم ، دوراندیش راہنما۔۔۔ایک  بہترین پیشہ ور وکیل۔۔ایک مدبر اور بااصول سیاستدان ، اور  سب سے بڑھکر بہترین شخصیت کے حامل انسان تھے۔۔۔۔
آج انکی وفات کا دن ہے ۔۔۔ہم انکی مغفرت کے لئے دعاگو ہیں۔۔۔۔اور امید کرتے ہیں کہ اخلاص نیت  انتھک کوششوں اور لازوال قربانیوں سے حاصل کیا گیا یہ ملک تا قیامت قائم رہے۔۔۔۔اس ملک کو ان جیسے باعمل اور بااصول رہنما کی ضرورت ہے۔۔۔
قائد اعظم ۔۔۔۔زندہ باد
پاکستان ۔۔۔۔۔پائندہ باد

تحریر
امنہ سردار

Tuesday, September 10, 2019

محترمہ کلثوم نوازکی یادمیں



وقت کیسے گزرتا جاتا ہے نہ کسی کا انتظار کرتا ہے نہ کسی کو مہلت دیتا ہے۔بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑے چلا جاتا ہے۔کبھی یہ ہمیں خوشیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور کبھی ہمارے دامن میں گہری اداسیاں چھوڑے جاتا ہے ۔اسکی قدرو قیمت اسکے گزرنے کے بعد ہی معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔وقت کی ستم ظریفیاں سہتے بہت سے جواں ہشاش بشاش لوگ کیسے ضعف و اجل کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔۔
 آج میں ذکر کرونگی محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کو جنہوں نے آج ہی کے دن اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کر دی۔۔۔ایک طویل بیماری سے جنگ لڑتے ہوئے آخر وہ ہار گئیں اور اجل جیت گئی۔۔۔۔بیماری کی شدت  اور اپنے پیاروں  سے دوری کے غم نے انکی عمر  کو مذید مختصر کر دیا۔۔۔۔ اپنے عزیز از جان شوہر جنکے ساتھ ہر دم ہر پل وہ  موجود رہتی تھیں ۔۔ان سے دوری کے دکھ نے انکی بیماری کی شدت کو بڑھا دیا اور آخرکئی دن  زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔۔۔۔

انکی بیماری کے دوران بہت سے معزز لوگوں کی زبان سے انکی بیماری کو ڈرامہ اور ڈھونگ کہے جانے نے مجھے نہ صرف افسردہ کیا بلکہ بہت حیران کیا کہ کیا لوگ اتنے شقی القلب بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔اتنے ظالم ۔۔اتنے کٹھور اور اتنے سنگدل کہ ایک عورت جو موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے اسکو آپ ان الفاظ سے نواز رہے ہیں۔۔۔۔سچ بتاوُں تو میرا ان سوکالڈ مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔۔۔۔ بات پارٹی بازی یا اختلاف کی نہیں ہوتی کبھی کبھی اخلاقیات کی بھی ہوتی ہے ۔۔کیا یہی ہماری اخلاقیات رہ گئی  ہیں کہ ہم بے بس لوگوں کا اس طریقے سے استہزا کریں ۔۔۔۔ مذاق اڑائیں۔
مرنا سب نے ہی ہے تو کیوں بندہ ایسی باتیں کر کے اپنی اصلیت دوسروں پر عیاں کرے۔۔۔۔بہرحال ضمناً ایک بات یاد آگئی تو تذکرہ کر دیا  ۔۔۔
تھوڑی سی بات کرونگی محترمہ کی شخصیت کے حوالے سے۔۔۔مرحومہ ایک نیک خاتون تھیں۔اپنےپرائے ،دوست دشمن ، حریف حلیف سب انکے اخلاق کے گن گاتے تھے ۔۔۔ وہ سراپا شفیق تھیں۔۔۔ہنستا مسکراتا شاداب چہرہ ۔۔۔۔جیسے انکا باطن انکے ظاہر سے جھلکتا تھا۔۔۔ان سے اک مامتا کی مہک آتی تھی۔۔۔۔جب وہ پہلی بار میاں صاب کی گرفتاری کے زمانے میں نکلیں تو بڑی شفقت اور اخلاص سے پارٹی کے لوگوں سے ملیں۔۔۔۔اور جب وہی لوگ ان سے بعد میں بھی ملتے تو  ان سے اسی خلوص اور محبت سے پیش آتیں۔۔۔۔بہت سے پارٹی ورکرز مرد و خواتین انکے اخلاق کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔۔۔یہ انکا اخلاق ہی تھا کہ انکی وفات پہ انکےحریفوں نے بھی ازحد افسوس کا اظہار کیا۔۔۔۔محترمہ تو اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن ان کا نام ہمیشہ اچھے الفاظ میں لیا جاتا رہے گا ۔۔ میری یہ تحریر میری طرف سے مرحومہ کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔۔۔۔۔اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائیں آمین۔۔۔

تحریر
آمنہ سردار