Sunday, March 31, 2019

یوم حساب ۔۔ The Day of Judgement



آج31 مارچ ہے یہ دن ہماری سٹوڈنٹ لائف کا اہم ترین دن ہوتا تھا ۔اسدن  بڑے ملے جلے سے احساسات ہوتے تھے۔ کیونکہ رزلٹ اناوُنس ہوتا تھا۔ پاس ہونیوالوں کو عزت اور فیل ہونیوالوں کو شرمندگی کا سامنا ہوتا تھا۔ اسدن کیفیات بڑی مختلف سی ہوتی تھی۔ خوف و خوشی کے ملے جلے احساسات ہوتے تھے۔ رزلٹ کا خوف ،اگلی کلاس میں جانے کی شدید چاہ، نئے علوم و کتب کو جلد از جلد پڑھنے کی  کی جستجو، اپنے پچھلے اساتذہ سے بچھڑنے کی اداسی ، چند اک دوستوں سے بچھڑنے کا غم۔۔۔ والدین اور رشتے داروں کی طرف سے تحفے آور پیسے ملنے کی پیشگی خوشی۔ ۔۔۔۔۔ہمارے خاندان میں بچوں کو بہت encourage کیا جاتا رھا انکے اچھے رزلٹ پر۔ تمام قریبی رشتہ داروں سے قیمتی تحائف اور پیسے ملا کرتے تھے۔ غرض اک خوبصورت دن ہوتا تھا۔۔۔۔ سنہرے دن۔
میں اسدن کے احساسات کو آج بھی اسی شدت سے محسوس کر سکتی ہوں۔ الحمداللہ وہ ہمارے لِے ہمیشہ خوشی کا دن ہوتا تھا کیونکہ ہمیشہ پوزیشن لی اور عزت کمائی ۔
لیکن میں کبھی جب غور کرنے بیٹھوں تو ان لوگوں کا سوچ کر دکھ ہوتا ہے جنکو اسدن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ وہ اتنے مایوس و نامراد لوٹتے تھے کہ انکا دکھ دیکھکر اپنی خوشی پھیکی لگتی تھی۔ لیکن ظاہر ہے محنت آپکو ضرور کچھ دیتی ہے اور سستی یا لاپرواہی نقصان کا ہی باعث بنتی ہے۔
دکھ ان لوگوں کو دیکھکر زیادہ ہوتا تھا جو  محنت کرنے کے باوجود نمبر نہیں لے سکتے تھےاور غصہ ان لوگوں کو دیکھکر آتا تھا جو سارا سال نالائقی اور سستی کا مرقع ہوتے تھے اور آخر ی دن پڑھ کے نمبر لے لیتے تھے یا نقلیں مار کے ہم جیسے ایماندار سٹوڈنٹس کا حق مارتے تھے۔ ۔
بہرحال یہ ہماری زندگی کا ایک خوبصورت دن ہوتا تھا۔ میں ابھی بھی اگر اسدن کو سوچوں تو بڑی پیاری یادیں وابستہ ہیں۔ جیسے عید کے دن کی تیاری ہوتی ویسی ہی اسدن کی بھی۔ کیونکہ یونیفارم پہن کے نہیں جانا ہوتا تھا تو نئے کپڑے امی جان سے سلوائے جاتے تھے۔ میچنگ جوتے وغیرہ ساتھ ہوتے ۔ اک عجیب سماں ہوتا تھا۔آج کے بچوں کے شاید وہ جذبات نہ ہوں یا ہم ہی بہت سادہ مزاج کے بچے ہوتے تھے۔ تھوڑے میں خوش رہنے والے۔ قناعت پسند۔
اس دن کو اگر میں یوم حساب کے دن سے تعبیر کروں تو بےجا نہیں ہوگا۔ اسدن جنکا نامہ اعمال بھاری ہو گا ، جنہوں نے اللہ کی راہ کے لئے محنت کی ہوگی، اللہ کی بتائی ہوئی حدود و قیود کا خیال رکھا ہو گا ۔۔ اسکے رستے پہ چلے ہونگے۔۔۔اسدن وہ خوشحال ہونگے اور انکا نامہُ اعمال انکے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور وہ کلاس میں فرسٹ آنیوالے بچوں کیطرح بے اندازہ خوش ہونگے۔ جبکہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی سستی، کوتاہی اور کاہلی کی وجہ سے کم نمبر حاصل کئے ہونگے یا اپنی نااہلی کی وجہ سے فیل ہوئے ہونگے تو اسدن انکو نامہُ اعمال انکے بائیں ہاتھ میں ملے گا اور وہ افسوس کر رہے ہونگے۔ ہاتھ مل رہے ہونگے۔ لیکن اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔شرمندگی کے مارے وہ چہرے چھپا رہے ہونگے۔ لیکن کوئی حل نہیں اب۔ کوئی شرمندگی، کوئی معافی  کام نہیں  آئیگی۔
يَآ اَيُّـهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيْهِ (6)
اے انسان! تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک کام میں کوشش کر رہا ہے پھر اس سے جا ملے گا۔
فَاَمَّا مَنْ اُوْتِىَ كِتَابَهٝ بِيَمِيْنِهٖ (7)
پھر جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا۔
فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْـرًا (8)
تو اس سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا۔
وَيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (9)
اور وہ اپنے اہل و عیال میں خوش واپس آئے گا۔
وَاَمَّا مَنْ اُوْتِـىَ كِتَابَهٝ وَرَآءَ ظَهْـرِهٖ (10)
اور لیکن جس کو نامہٴ اعمال پیٹھ پیچھے سے دیا گیا۔
فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًا (11)
تو وہ موت کو پکارے گا۔
وَيَصْلٰى سَعِيْـرًا (12)
اور دوزخ میں داخل ہوگا۔
اِنَّهٝ كَانَ فِىْ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (13)
بے شک وہ اپنے اہل و عیال میں بڑا خوش و خرم تھا۔
اِنَّهٝ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ (14)
بے شک اس نے سمجھ لیا تھا کہ ہرگز نہ لوٹ کر جائے گا۔
بَلٰٓى ۚ اِنَّ رَبَّهٝ كَانَ بِهٖ بَصِيْـرًا (15)
کیوں نہیں، بے شک اس کا رب تو اس کو دیکھ رہا تھا۔
((سورہ انشقاق ۔۔پارہ 30))
 دنیا کے رزلٹ میں تو موقع ہوتا ہے پلٹنے کا رجوع کرنے کا لیکن اسدن کوئی موقع کوئی ندامت ، کوئی رجوع نہیں ہوگا۔ لہذا ہم سب کے لئے لمحہُ فکریہ ہے کہ آج اگر اللہ کریم نے ہمیں دنیا میں، دنیاوی معاملات میں سرخرو کیا ہے تو ہمیں آخرت کے دن بھی ایسی ہی کامیابی اور خوشی مرحمت فرمائے آمین۔
آپ لوگ سوچیں گے کہ ایک ہلکی پھلکی تحریر میں سنجیدگی کا عنصر شامل کر دیا تو عرض یہی ہے کہ دنیا کی زندگی تو عارضی ہے جسمیں ہم اسکے پیچھے بھاگتے چلے جاتے ہیں۔ ابدی ٹھکانے کا بھی کچھ سوچیں کہ کل کو ہمیں جہاں رہنا ہے اور وہی ابدیت ہوگی۔ اللہ کے پیاروں میں ہوئے تو اللہ اپنے پیاروں کی طرح خاطر داری کریگا خوبصورت باغ عطا کریگا ، جہاں نہریں بہہ رہی ہوں گی اور چشمے پھوٹ رہے ہونگے کوئی غم نہیں ، کوئی درد نہیں، کوئ فکر نہیں، کوئی حزن نہیں  ، کوئی ملال نہیں، بس اک سکون، اطمینان اور خوشی ہی ہر سو ہو گی۔ایسی زندگی کی تمنا کون نہیں کرتا۔
دنیا کے امتحان میں کامیاب ہونیوالے بعض اوقات بہت کامیابیاں حاصل نہیں کرپاتے لیکن اللہ کے رستے پر چلنے والوں سے انکے رب کا وعدہ ہے جو ضرور پورا ہوگا کیونکہ وہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ لہذا اس امر پر ضرور  سوچئے اور دنیا کے ساتھ آخرت کا امتحان پاس کرنے کی بھی کوشش کیجئے۔
اللہ ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے آمین۔