Thursday, January 31, 2019

Hum zinda Qaum hey ہم زندہ قوم ہیں



آج بہت دنوں بعد قلم اٹھا رہی ہوں ۔ وجہ کچھ ملکی حالات کا ناسازگار ہونا ہے۔ ملک میں کیا چل رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ سہولیات کا فقدان دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ غربت کی لکیر کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دم گھٹتا جا رہا ہے۔ ملک میں کوئی بڑا پراجیکٹ ،کوئی بڑا تعمیری کام ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ جو پراجیکٹس پچھلی حکومت کے تھے وہ بھی یا روک دئیے گئے یا انکی رفتار سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی سست ہو گئی۔ ڈالر کی پرواز راکٹ کی طرح اوپر اور اوپر کی طرف رواں دواں جبکہ روپیہ ہے کہ گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری صفر ہوگئی ہے۔ بڑے بڑے صنعتکار اور سرمایہ دار ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے ایسے ممالک کا رخ اختیار کر رہے ہیں جہاں انہیں آسان شرائط کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ لاء این آرڈر کی سچوئشن سب کے سامنے ہے۔ دن دیہاڑے سڑک پر حکومتی اہلکار معصوموں کو سر عام گولیاں مار دیتے ہیں۔ اور کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ معصوم بچیاں دن رات ہوس کے پجاریوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں.  لیکن کوئی سو موٹو نہیں آتا۔ کوئی مذمتی بیان حکومت کی طرف سے نہیں آتا۔ "ملزموں کی تلاش جاری ہے " جیسا جملہ سننے کو ملتا ہے۔ آئے دن غریب ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ بے روزگاری کا عفریت ہماری نوجوان نسل کو نگلنے کے در پے ہے۔ ٹیلنٹڈ ، ذہین ، قابل لڑکے لڑکیاں ملازمتوں کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کلاس فور کی پوسٹ کے لئے پی ایچ ڈی/ ایم اے پاس  حضرات اپلائی کرتے ہیں ۔ کیا المیہ ہے۔ پچھلے اکہتر سالوں میں بھی ہم نے کوئی بہت کمال نہیں کئے نہ ہی کوئی بہت آئیڈیل دورگزارے لیکن اس سے پہلے ملک کی یہ حالت دیکھنے کو کبھی نہی ملی۔   انصاف کا نعرہ لگانے والے انصاف کی تقسیم میں عدل سے کام نہیں لے رہے۔ انتقامی کارروائیاں جاری ہیں۔ بجلی ، گیس  کے نرخ تو بڑھا دئے گئے لیکن لوڈشیڈنگ نے زندگی محال کر دی۔ سخت سردی میں صبح اور شام کے وقت گیس اور بجلی کا نہ ہونا، نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے ۔ ان تمام باتوں کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں  ہے بلکہ ہم سب اجتماعی طور پر اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔تمام سٹیک ہولڈرز  کا حصہ اس جرم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ حکومتی نمائندے ہوں یا حزب اختلاف سےسیاستدان، انتظامیہ ہو، بیوروکریسی ہو، قانون ساز ادارے ہوں ،قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں ،محکمے ہوں ، سرکاری و غیر سرکاری ادارے ہوں یا عوام ہوں سب قصور وار ہیں ملک کو اس حال میں پہنچانے کے لئے۔   
کوئی مسئلہ اٹھتا ہے سب سے پہلے گریبان سیاستدان کا پکڑا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ بھی کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہوتے ہیں۔  لیکن ایک عوامی نمائندہ اپنے علاقے کے لوگوں کو ہر طرح سے سہولیات بہم پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ۔اسکا یہ کام نہیں کہ انتخابات کے وقت تو عوام کو سبز باغ دکھائے اور وقت آنے پر حلقے سے ہی غائب ہو جائے اور بیرونی دوروں کے مزے لوٹے۔ بلکہ اپنی عوام کیساتھ انکے مشکل وقت میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہر نا انصافی اور مشکل کےخلاف ڈٹ جائے۔ انکو یہ اعتماد دے کہ وہ انکا صحیح نمائندہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے چند ایک لوگوں کو چھوڑ کر ایسا نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنے مفاد کو مدنظر رکھتا ہے۔
اگر مثال انتظامیہ کی لوں تو وہ کام تو کر رہی ہے لیکن اتنے پر اثر انداز میں نہیں جو اسکا فرض ہے ۔ اگر خوش قسمتی سے ضلع کا اعلیٰ افسر کوئی محنتی  اور ایماندار شخص آ جائے تو اسے چند دن بھی ٹکنے نہیں دیا جاتا۔ نہ صرف سیاستدان اسکے پیچھے ہو سکتے ہیں بلکہ محکموں میں پورے پورے مافیا موجود ہیں جو ان افسران کو وہاں ٹکنے نہیں دیتے۔ بعض اوقات کچھ افسران بھی شاہانہ مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے عوامی نہ ہونے کی وجہ سے پر فارم نہیں کرتے۔
محکموں کی مثال پیش کروں تو دل درد سے بھر جاتا ہے ۔ اتنے بڑے محکمے ، انمیں قابل لوگ، خدمت کے پیش نظرآنیوالے لوگ ، ایماندار لوگ جو بڑے شوق سے جذبہُ خدمت لیکر ان محکموں میں آتے ہیں.  لِیکن  کچھ عرصے بعد وہ بھی سسٹم کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ جذبہُ خدمت کے بجائے زیادہ روزگار حاصل کرنے کی علت لگ جاتی ہے۔ پیسہ کمانا برا نہیں لیکن ناجائز ذرائع سے پیسہ بنانا، دھوکہ دہی، فریب دیکر پیسہ بٹورنا، کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانااور اس سے رقم بٹورنا ۔ یہ سب تمام محکموں کااہم جزو بن چکا ہے۔  سرکاری کاموں میں تاخیر کرنا ، لمبے لمبے پروسس میں ڈالنا ، فائلوں کو جان بوجھ کر آگے پیچھے کرنا، یہ تاخیری حربے بھی کرپشن کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔
اسی طرح سول سوسائٹیز جو معاشرے کا اہم حصہ ہیں وہ بھی اپنا کردار اس طریقے سے ادا نہیں کر رہیں جو کہ انکی ذمہ داری ہے۔برننگ ایشوز کو تو ایسے ادارے خوب ہوا دیتے ہیں جن سے دنیا میں انکے اداروں کو تو شہرت ملے لیکن ملک کی بدنامی ہو۔ خیر خواہی کے کاموں میں یہ ادارے رفاہی و فلاحی اداروں کا کردارادا نہیں کرتے بلکہ ایسے معاملات سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں اس اہم ترین طبقے کی جو مظلوم بھی ہے اور ظالم بھی۔ اور وہ ہے عوام ۔ درج بالا تمام طبقات کے درست و غلط ہر قسم کے فعل کا براہ راست اثر اس مظلوم طبقے پر ہی پڑتا ہے۔لیکن انکو ظالم کہنے کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ یہ اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے ۔ مسائل میں گھرے رہینگے، انکے ساتھ ہی زندگی گزارنے کی عادت ڈال لیں گئے  لیکن چوں بھی نہیں کرینگے۔ انکا ایک اور سنگین جرم بھی ہے اور وہ ہے قوانین کی پابندی نہ کرنا ۔ قوانین توڑنا۔اپنے کو قانون سے بالاتر سمجھنا ۔ کچھ لوگ تو شعور کی کمی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اور کچھ لوگ طاقت اور دولت کے نشے میں چور ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اسکے ساتھ ساتھ ایک اور وجہ جو اہم ترین ہے وہ ہے انصاف کی عدم فراہمی۔ چونکہ لوگوں کو بروقت، فوری اور سستا انصاف نہیں ملتا جس سےانمیں مایوسی تو پھیلتی ہی ہے بلکہ سزا و جزا کا خوف ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اگر مجرم کو وقت پر اور جرم کے مطابق سزا ملے تو کوئی وجہ  نہیں کہ جرائم میں کمی نہ آئے۔ اسی طرح سزا کےبروقت نفاذ اور اچھے کاموں پر لوگوں کو انعامات دیئے جائیں تو کیسے ممکن نہیں کہ وہ اچھائی کا بول بالا کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کریں. REWARD & PUNISHMENT کے اصول پر جبتک ہم عمل پیرا نہیں ہونگے ہم کبھی ایک اچھے معاشرے کی تشکیل نہیں کر سکتے۔
ایک اور اہم ترین وجہ ہمارے زوال کی یہ بھی ہے کہ ہم عوام اپنے حقوق سے آگاہی نہیں رکھتے ۔ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا حق کیا ہے، ہمارا فرض کیا ہے اور ہماری ذمہ داری کیا ہے اور دوسرے پہ کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے کسی بھی قسم کے حالات میں۔ اگر ہمیں آگاہی اور شعور مل جائے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس معاشرے میں فعال کردار ادا نہ کریں اور اسے ایک بہترین معاشرہ بنائیں ۔
جو گزر گیا اسپر لکیر پیٹنے کی بجائے ہمیں اپنی نوجوان نسل پر جو کہ اسوقت ملکی آبادی کا تقریبا 63% حصہ ہیں ، فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ انکو ہر قسم کی تعلیم و تربیت کے ہتھیاروں سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔ انکو نئے علوم، فنون و ہنر کیطرف راغب کرنے کیساتھ ساتھ انکی درست سمت میں راہنمائی کی ضرورت ہے۔ اور یہ سب اسی صورت ممکن ہو گا جب ہم ایک قوم کی شکل اختیار کرینگے۔ گروہ بندیوں،جماعتوں ،  خاندانوں، ذات پاتوں، فرقوں اور مسلکوں پر بحث کرنے کی بجائے ایک مسلمان ، ایک امت، ایک قوم،  ایک پاکستانی کی حیثیت سے اس ملک کے  میں اہم کردار ادا کرینگے۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرینگے۔ امر بالمعروف بھی جس قوم سے ختم ہو جائے تو وہ بھی زوال کی طرف گامزن ہوتی ہے۔لہذا ان تمام باتوں پر عمل کرتے ہوئے ایک اچھے انسان اور اچھے شہری کی خصوصیات سے مزین ہو کر اس ملک کے کاروبارِ زندگی میں اپنا بہترین  حصہ ڈالیں  اوریہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمیں ملکر ثابت کرنا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔