Saturday, October 5, 2019

سوشل میڈیا کا ہماری زندگی میں کردار


آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔۔۔ جوں جوں حضرت انسان ترقی کرتا گیا ترقی کی منازل طے کرتا گیا توں توں معاشرے پہ بھی اسکے اثرات نظر آنے لگے۔۔۔۔آج سے ہزاروں سال پہلے کے ردل و رسائل کافی سست رفتار تھے۔۔۔پیامبر اور نامہ بر اونٹوں اورگھوڑوں پر سفر کرکے مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ شاعری میں ان نامہ بروں کا بڑا ذکر ملتا ہے
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں

اسکے بعد کبوتروں کا دور آیا ۔۔۔پھر ڈاکخانے، ٹیلیگرام ، پوسٹ کارڈز کا زمانہ گزرا۔۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعدجب انٹرنیٹ آیا۔۔ اسنے تو مانو تہلکہ ہی مچا دیا ۔۔۔۔اسکے مختلف ذرائع ابلاغ جنمیں چند ایک بہت ہی زیادہ استعمال ہونے والے ہیں جیسے فیس بک ، ٹوئیٹر،  وٹس ایپ،  انسٹا گرام، ، سکائپ ، ایمو اور مذید بھی بہت سے ہیں  جنکو ہم عرف عام میں سوشل میڈیا کہتے ہیں ۔۔۔اسنے ہماری زندگی بہت ساری ترجیحات کو پس پشت ڈالا ۔۔جہاں ہمارے لئے فائدے کا باعث بنا وہیں اسکے  ذریعے کچھ خرابیاں معاشرے میں پھیلیں ۔۔میری کوشش ہو گی کہ آج میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی  دونوں پہلووُں کے حوالے سے بات کروں۔۔
۔میرے نزدیک سوشل میڈیا کے بہت سے مثبت استعمالات ہیں۔اور بہت سے منفی ۔۔۔لیکن جو عام طور پر ہمارے معاشرے میں نظر آتے ہیں ۔۔۔زیادہ بات انکے بارے میں ہی کی جائیگی۔
١) سوشل میڈیا  سے ہم تعلیم و تربیت کا کا م لے سکتے ہیں۔۔۔بہت سے ایسے پیجز یا گروپس ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔۔۔۔ یعنی لوگوں کو تعلیم دینے کا کام ۔۔۔۔طلباء یا بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام کر رہے ہیں۔۔
٢) اس سے ہم ہنر سیکھنے اور سکھانے کو فروغ دے سکتے ہیں۔۔۔۔بہت سے گروپس میں کوکنگ ، بیکنگ، فلاور میکنگ، آرٹ اینڈ کرافٹس نٹنگ، کروشیا کے کام، پودوں کی افزائش، بچوں کی نشو نما، خوراک کے فائدےو نقصانات، طب کے حوالے سے نئی ریسرچز، ورزش کے طریقے و فوائد وغیرہ پاے جاتے ہیں۔بہت سی خواتین، بچیاں اور بزرگ خواتین تک ان سے استفادہ کرتی ہیں ۔۔
۔۔٣) آگاہی پروگرام ۔۔۔۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم بہت اچھے سے آگہی مہم چلا سکتے ہیں۔۔۔ جیسے درختوں کی کٹائی سےروکنا، صفائی کے متعلق آگاہی دینا۔۔۔۔کہیں کوئی مثبت سرگرمی ہو رہی ہو اسکی اطلاع فراہم کرنا
۴) لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ۔۔۔انکے لئے مثبت آگاہی کے  پروگرام ترتیب دینا۔۔شجر کاری کی ترغیب، پلاسٹک بیگز کے استعمال کو ختم کرنے کی مہم۔۔صفائی کی مہم وغیرہ
۵) لوگوں کی مختلف ہنرمندیوں کو سراہنا اور انکے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔۔۔۔
٦)ادبی گروپ جو لوگوں کی سوچوں اور تخیل کو مہمیز کرتے ہیں اور انکو لکھنے کی جرات و سہولت دیتے ہیں۔۔۔۔۔
٧)فیس بک ہو ٹویٹر ۔۔۔لنکڈ ان ہو انسٹا گرام آپ مثبت اطلاعات ، انفارمیشن اور آگاہی پروگرام اور معلومات سے آگاہی دے سکتے ہیں۔۔۔۔ ایک دوسرے کو اچھی تجاویز ، اچھے مشورے دئیے جاسکتے ہیں۔۔۔اب تو بہت سے لوگ سوشل میڈیا کی وجہ سے گھر بیٹھے لاکھوں کما رہے ہیں۔۔۔۔
٨) سوشل میڈیا کے ذریعے اب آپ دنیا کے ہر ٹی وی چینل تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔۔خبریں ہوں، میچز ہوں، ڈرامے، فلمیں یا ٹاک شو۔۔۔۔سب کچھ سوشل میڈیا پر میسر ہے۔۔۔
٩) گھر بیٹھے علاج کرنا اور کرانا یہ بھی اب سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہے ۔۔۔آپ اپنے گھر میں بیٹھے امریکہ میں موجود ماہر کے مشورے سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔۔
١٠) سوشل میڈیا کے ذریعے سیاستدان، افسران بالا اور سماجی کارکنان اپنے مثبت کاموں کے فروغ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔۔۔
یہ تو میں نے بہت تھوڑے فوائد گنوائے ہیں۔۔۔۔جو عام طور پر ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں ۔اس سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔
اب میں کچھ منفی اثرات کچھ بات بھی کرونگی ۔۔۔
١)سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال سے اپنے دور اور دور والے قریب ہو گئے ہیں۔
٢) سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال صحت کو متاثر کرتا ہے،۔اسکء وجہ سے نظراور  پٹھوں کی کمزوری ، اعصابی اور نفسیاتی بیماریاں بہت عام ہیں ۔۔
٣) اسکی وجہ سے بہت سے لوگ فریبی اور دغاباز لوگوں کے ہاتھوں بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں۔۔بہت سے رشتے ٹوٹتے اور ناپائیدار رشتے بنےت اور بگڑتے دیکھے ہیں ۔
۴) بہت سے لوگ سوشل میڈیا کی وجہ سے بلیک میلرز کے ہتھے چڑھ گئے ۔۔اس ضمن میں ہزاروں لڑکیوں نے اپنی عزت اور جان سے ہاتھ دھوئے۔۔۔ایک اندازے کے مطابق کئی ہزار لڑکیاں خودکشی کی مرتکب ہوئیں اور کتنی ہی قتل ہوئیں۔
۵) بہت سے گروپس اور پیجز ایسے ہوتے ہیں جسمیں غیر معیاری مواد کی فراوانی ہوتی ہے جو ہماری نوجوان نسل کے لئے زہر قاتل ہیں ۔۔
٦) ہمارے بچوں اور نئی نسل کو اپنے مذہب اور کلچر  سے دورکرنے کی سازشیں بھی کچھ گروپس اور  پیجز نے اپنا رکھی ہیں۔
٧) فروعی، لسانی، گروہی تعصبات کو بھی سوشل میڈیا پر بڑے منظم طریقے پر پھیلایا جاتا ہے۔
٨) دہشتگردی کے بہت سے واقعات بھی سوشل میڈیا کی ہی دین ہیں۔۔۔تازہ ترین واقعہ جو نیوزی لینڈ میں پیش آیا وہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہج بنا بھی اور منظر عام پر آیا بھی۔۔۔
٩) دنیا بھر میں فوری پراپیگنڈا پھیلانے میں بھی  سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے۔۔۔
١٠)نفرت ، تعصب، بغض بھی اسکے پھیلائے جانے والے اثرات میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔جیسے کہ گستاخئ رسولؐ وغیرہ۔۔۔۔
یہ چند ایک منفی رحجانات ہیں جنکا ذکر ضروری تھا تاکہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ گویا  ہم سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کر رہے ہیں یا منفی۔۔۔۔
اصل میں ہمیں خیال یہ رکھنا چاہئیے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تعصب نہ پھیلائیں۔۔۔۔نفرت کو ہوا نہ دیں۔۔۔۔ایک دوسرے کو نیچا نہ دکھائیں  بلکہ بحیثیت پاکستانی اور مسلمان کےاپنا بہترین امیج پیش کریں۔۔سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ 
اگر میں ذاتی طور پہ بات کروں تو میرے لئے سوشل میڈیا اپنی روز کی سیاسی و سماجی، تعلیمی و آفیشل  سرگرمیاں اپنے لوگوں تک پہنچانے کا باعث بنا۔۔۔۔ میں اپنے آرٹیکلز اخبارات میں بھی لکھتی  ہوں اور انکو سوشل میڈیا پہ بھی ضرور شئیر کرتی ہوں۔۔۔۔موٹر سائیکل کے حادثات پر جو کچھ لکھا اسکا لوگوں نے بہت اچھا فیڈ بیک بھی دیا ۔۔۔۔شاپنگ بیگز کے استعمال اور نقصانات پر  آگاہی مہم بھی سوشل میڈیا پر ہی شروع کی۔۔۔۔غرض میں نے سوشل میڈیا کے فائدے ہی دیکھے۔۔۔۔۔۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ اس سے ہم فائدہ اٹھائیں یا اسکو تخریب کاری یا کسی اور غلط مقصد کے لئے استعمال کریں ۔

Wednesday, October 2, 2019

ہم بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔

میں کافی عرصے سے سپیشل بچوں کے سکولزکا وزٹ بھی کر رہی ہوں اور کئی جگہوں پر انکے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا ۔ان سکولز میں ہر قسم کے بچے ہوتے ہیں۔۔یہ بہت  پیارے بچے ہوتے ہیں۔۔۔۔انکو جب بھی کسی فنکشن میں پرفارم کرتا دیکھتی ہوں تو انکی صلاحیتوں کی معترف ہو جاتی ہوں۔۔
۔۔سپیشل بچوں کی ٹرم ہم معذور یا پسماندہ افراد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔عام بندے کو ان بچوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا۔۔۔۔عموماً انکو معاشرے کا ناکارہ حصہ سمجھا جاتا ہے ۔۔۔جبکہ ایسا ہےنہیں۔۔۔ ہماری تھوڑی سی محبت اور توجہ سے یہ بچے معاشرے میں فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔۔۔۔ لہذا آج میں نے ان ذہنی اور جسمانی طور پہ پسماندہ بچوں کے بارے میں قلم اٹھانے کا سوچا۔۔۔۔اور کوشش کی کہ عام فہم انداز میں ایک عام شخص کو انکے متعلق معلومات فراہم کی جائیں تاکہ لوگوں میں کم از کم انکو سمجھنے کی تھوڑی سی صلاحیت تو ہو اور انکو معاشرے کا فعال کردار بنانے میں تمام لوگ شامل ہوں۔۔۔میں بہت تکنیکی انداز میں بات نہیں کرونگی بلکہ سادہ انداز میں بیان کرونگی۔۔۔۔بات کی ابتدا کرینگے کہ معذور کیا ہے ؟
ہر وہ شخص جس کے لیے عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر عام کاروبارِ زندگی میں حصہ لینا محدود بن جائے اُسے معذور کہتے ہیں۔
معذوری" کے وسیع درجات اور مختلف کیفیات ہیں، جن میں کچھ واضح ہیں اور کچھ غیر واضح۔ ہو سکتا ہےکہ یہ  کسی حادثے کے باعث  ہو یا  پیدائش کے وقت سے ہی موجود ہو، یا وقت کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوئی ہو۔ اسکی مختلف اقسام ہیں یعنی جسمانی، دماغی اور سیکھنےکی معذوریاں، دماغی امراض، سماعت یا بینائی کی معذوریاں، مرگی، دوا اور الکوحل پر انحصار، ماحولیات سے حساسیت، اور دیگر صورتیں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے کنونشن (برائے معذور افراد کے حقوق)کے مطابق ۔۔۔ وہ افراد جنہیں طویل المعیاد جسمانی ،ذہنی یا حسیاتی کمزوری کا سامنا ہو جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو انہیں معذور کہا جاتا ہے۔
 جن سکولز کی میں بات کر رہی تھی ان میں  جسمانی معذوری اور ذہنی معذوری دو قسم  کےادارے ہوتے ہیں ۔۔۔جن میں یہ بچے موجود ہوتے ہیں۔۔
پہلے میں ذکر کرونگی جسمانی معذوری کے بچوں کا ۔۔۔۔ ان میں
*سماعت سے محروم*
*گویائی سے محروم*
*بینائی سے محروم*
اور *جسمانی طور پر اپاہچ*
بچے شامل ہوتے ہیں۔۔یہ جسمانی نقص کا شکار ہوتے ہیں باقی انکا ذہن ایک عام بندے کی طرح ہی کام کرتا ہے ۔۔۔یا بعض اوقات تھوڑا سا سست رفتار لیکن بہر حال ان میں سیکھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔۔۔۔۔ایسے بچوں کو ہینڈل کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے ۔۔۔۔انکے لئے ماہر اساتذہ ہوتے ہیں جو انکو انکی معذوری کے مطابق تعلیم دیتے ہیں جبکہ ذہنی معذوری کے بچے کافی مشکل ٹارگٹ ہوتے ہیں۔۔۔۔
ذہنی معذوری کی کئی اقسام ہیں لیکن ان میں زیادہ عام جو ہیں میں انکا ذکر کرنا چاہوں گی۔۔۔۔
*ڈاوُن سینڈروم*
*آٹزم*
ڈاوُن سینڈروم کے بچے وہ ہوتے ہیں جو دیکھنے میں منگول دکھائی دیتے ہیں۔انکی گردن موٹی، سر بڑا ، چہرہ گول  اور آنکھیں بڑی اور کچھ باہر کو نکلی ہوتی ہیں۔یہ ایک سنگین جنیاتی نقص کا شکار بچے ہوتے ہیں
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور سے یہ بچے بہت خوش طبع ہوتے ہیں۔ ان کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے، جس میں وہ مگن رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی زبان میں لکنت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی توجہ کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ عام بچوں کی طرح مختلف دلچسپیاں نہیں رکھتے بلکہ اپنی توجہ بہت ہی کم چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں۔ایسے بچوں کی عام اسکول میں تربیت  مشکل ہوتی ہے کیونکہ اساتذہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان بچوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کس طرح ابھارا جائے۔
طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد معذوری کے باوجود قدرت کی دیگر صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں جن کی بدولت ڈاؤن سنڈروم کے شکار مریض بھی معاشرے میں ایک باعزت زندگی بسر کر سکتے ہیں بشرطیکہ انکو توجہ ، محبت اور شفقت سے سکھایا جائے ۔۔۔یہ سُلو لرنرزہوتے ہیں لیکن آخر کار سیکھ ہی جاتے ہیں۔۔۔۔انکے ساتھ مستقل محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔اسکے علاوہ انکی کچھ مشقیں اور ورزشیں ہوتی ہیں جنکا مسلسل استعمال انکو بہتری کی طرف لاتا ہے ۔۔۔۔ ایسے بچوں کو گھر میں رکھنے کی نسبت سپیشل ایجوکیشن کے سکول میں بھیجنازیادہ مناسب ہے جہاں انکو مستقل طور پر ٹرین  کیا جاتا ہے۔۔۔گھر میں اگر انکوکوئی فل ٹائم اور مکمل توجہ   دے پائے تو اس صورت میں تو ٹھیک ہے لیکن توجہ نہ ملنے کی صورت میں انکے مرض میں شدت آجاتی ہے ۔لہذا سب سے بہتریہی ہے کہ  انکو سکول ہی بھیجاجائے ۔۔
*آٹزم*
دوسرے نمبر پہ آٹزم آتا ہے ۔۔۔۔یہ ایک نشونمائی معذوری ہے۔۔۔۔جوکسی شخص کی  دوسرے لوگوں سے بات چیت اور تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے۔۔۔۔اسکو آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر[اے ایس ڈی]بھی کہتے ہیں جس سے مراد ہے کہ یہ  مخصوص رویوں اور نشونما کے مسائل اور مشکات کا سیٹ ھے۔ اے ایس ڈی بچے کی ترسیل، سماجی اور کھیلنے کی مہارت کو متاثر کرتا ھے۔
اے ایس ڈی میں لفظ "سپیکٹرم" کا مطلب یہ ھے کہ ھر بچہ منفرد ھے اور اسکی اپنی خصوصیات ھیں۔ یہ خصوصیات مل کر اسکو ایک مخصوص ترسیل اور رویوں کی پروفائل دیتی ھیں۔ جیسے جیسے آپکا بچہ بڑا ھوگا اور نشونما پائے گا اسکی مشکلات کی نوعیت تبدیل ھوتی جائے گی۔ عموماً اے ایس ڈی ASD والے فرد میں پوری زندگی کیلئے سماجی اختلافات یا\اور رویوں کے اختلافات پائے جاتے ھیں۔
ایسے بچے اپنے نام پر ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔
کوئی مخاطب کرے تو توجہ نہیں دیتے۔
کھلونوں سے عمومی طریقے سے نہیں کھیلتے بلکہ غیر معمولی انداز میں کھیلتے ہیں ۔
کبھی بہت تنک مزاجی کامظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی سستی کا۔۔۔انکا کوئی مستقل موڈ نہیں ہوتا بلکہ بدلتا رہتا ہے ۔
عموماً  انکا موڈ فوراً تبدیل ہوتا ہے ایکدم سستی سے چڑچڑا پن یا چڑچڑے پن سے فوراً سستی۔۔۔
یہ عام طور پر نظر ٹکا کر بات نہیں کرتے بلکہ مستقل طور پہ ادھر ادھر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔
ان کا ارتکاز ایک جگہ نہیں ہوتا ۔۔۔عرف عام میں ہم انکو ہائپر ایکٹو کہہ سکتے ہیں۔۔۔
آٹزم اے ایس ڈی ذہنی بیماری نہیں گنی جاتی اور نہ اسکا باقاعدہ طور پر کوئی طبی علاج ہے۔۔۔۔
اس بچے کو وہ تمام سماجی ترسیلی مہارت سکھانی چاھیے جسکی نشونما کے تمام مراحل پر ضرورت پڑ سکتی ھے۔ اور اسکی نگرانی کسی ایسے شخص کے سپرد ھونی چاھیے جوکہ اے ایس ڈی اور اسکے علاج کا ماھر ھو۔

انکی تربیت میں والدین، دیکھ بھال کرنے والوں اور اساتذہ کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اے ایس ڈی کی تربیت کے بغیر خاندان، کلاس کے اساتذہ اور دوسرے دیکھ بھال کرنے والوں کیلئے بچے کی مدد کرنا مشکل ھو سکتا ھے۔لہذا انکو پہلے خود اس معذوری کو ٹریٹ کرنے کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنی پڑتی ہے۔۔۔
اس مضمون میں بہت سے ماہر لوگوں کی نظر میں کئی خامیاں ہو نگی لیکن  میں نہ تو ماہر نفسیات ہوں نہ سپیشل سکول کی استاد اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر۔۔۔۔لہذا اس مضمون میں، میں نے کوشش کی ہے عام بندہ ان بچوں کی معذوری سے واقفیت حاصل کرکے ان سے محبت اور توجہ سے پیش آئے۔۔۔۔ تاکہ یہ بچے معاشرے کا ناکارہ حصہ نہ بنیں۔۔۔۔آمین
آمنہ سردار