Tuesday, October 23, 2018

موت کا کھیل اور ہمارے بچے Game of death n our children



آجکل یہ موت کا کھیل بہت عام ہو گیا ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ میرا اشارہ کسطرف ہے۔ تو چلئے بتائے دیتی ہوں کہ میں موٹر سائیکل عرف عام موٹر بائیک کی بات کر رہی ہوں۔ گو کہ یہ ایک سواری ہے لیکن خطرناک ترین۔ اور جب سے موٹر سائیکلز سستی ہوئی ہیں یا قسطوں میں ملنے لگی ہیں تو اسکے بعد تو سڑکوں پر انکا اژدھام نظر آتا ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے یہ ایک باکفایت سواری ہے۔ اسپر ہمارے ہاں دو سے پانچ تک لوگ بآسانی بیٹھے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔یہ صرف پاکستان میں یا تیسری دنیا کے ممالک میں  ہی ممکن ہے ورنہ مہذب دنیا میں اسپر صرف دو ہی لوگ سوار ہو سکتے ہیں۔اس سواری  نے جہاں لوگوں کو آمدورفت میں آسانی اور سہولت دی ہے وہیں ٹریفک میں بہت مشکلات پیدا کر دہی ہیں۔آئے دن موٹر سائیکل سوار مختلف حادثوں کا شکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کبھی تیز رفتاری کے باعث ، کبھی غلط اوور ٹیکنگ کے باعث ، کبھی ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے ، کبھی دوسرے موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ریس لگانے کی وجہ سے ، اوور لوڈنگ کی وجہ سے اور اکثر و بیشتر ٹریفک کے قوانین توڑنے کی وجہ سے۔بہر حال چند سالوں میں سب سے زیادہ حوادث کا شکار یہ موٹر سائیکل سوار ہی ہوتے ہیں۔اور ان میں بھی زیادہ تر نوجوان لڑکے ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں  کے حادثات گاڑیوں کے حادثات سے زیادہ خوفناک نتائج کے حامل ہوتے ہیں ۔ گاڑیوں کے حادثات میں تو پھر کہیں زندگی بچ جاتی ہے لیکن موٹر سائیکلوں کے حادثات میں فوری اموات یاسیریس  انجریز زیادہ ملتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن 2014/15WHO کےشماریات کے تحت پاکستان دنیا بھر میں حادثات  میں  67ویں  نمبر پر ہے جسمیں سے 50% سے زائد اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں۔ایک اندازے  کے مطابق یہ تعداد 2030 تک بہت زیادہ  بڑھ جائیگی اور  ملک میں سب سے زیاہ اموات انہی حادثات کی وجہ سے ہونگی۔صرف کراچی میں تقریباً 150 سے زائد حادثات روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہوتے ہیں۔جنمیں سب سے زیادہ اموات  15 سے 30 سال تک کے عمر کے لوگوں کی ہوتی  ہیں۔۔جنمیں 40 سے 50% اموات ہیڈ انجری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔اور اسکی سب سے بڑی وجہ ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں 12056 روڈ ایکسیڈنٹس ہوئے جنمیں 528 اموات ہوئیں  11551لوگ کم زخمی ہوئے اور 2960 سیریس زخمی ہوئے ۔ انمیں 13% پندرہ سال سے کم عمر بچوں کی تھی اور 36% 16 سے 25 سال کے نوجوانوں کی ۔ یہ تقریباً پچھلے سالوں کے  ہیں ۔ حالیہ شماریات ان سے کہیں زیادہ ہیں۔چونکہ وہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکے اسلئیے انہی
 پر بات کرتے ہوئے  آگے بڑھتے ہیں۔ اگر یہ صرف ایک شہر کا ڈیٹا ہے تو آپ سوچئے کہ پورے ملک میں تو لاکھوں حادثات روزانہ کی بنیاد پر وقوع  پزیر ہوتے ہیں۔


ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ان حادثات کی وجوہات کیا ہیں۔ اور انکا کیا سد باب کیا جا سکتا ہے
زیادہ تر تیزرفتاری حادثے کا باعث بنتی ہے
 موٹر سائیکل سوار اچانک کسی  موڑ سے نکل آتے ہیں اور گاڑیوں کے سامنے آجاتے ہیں جس سے حادثہ رونما ہوتا ہے۔اسکا حل یہی ہے کہ موڑ پر سوار احتیاط برتیں ۔ اپنا بھی خیال رکھیں اور دوسرے لوگوں کا بھی۔ 
بلائنڈ کارنرز پر اچانک بریک لگانے کے باعث بھی حادثات رونما ہوتے ہیں۔۔ یہاں پر انکو ٹرائیل بریکنگ تکنیک جو کہ زندگی بچانے کے لئے ہوتی ہے اس کا سہارا لینا  چاہئیے۔   ٹرائیل بریکنگ تکنیک آجکل کے جدید موٹر سائیکلز میں متعارف کرائی گئی ہے ۔یہ فرنٹ ڈسک بریکس کا درست استعمال ہے جو  حادثوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔
لین چینج کرتے ہوئے بھی بہت سے حادثات ہوتے ہیں ۔اسمیں ایک خاص اینگل پر جب موٹر سائیکل سوار گرتا ہے تو اسکے گھٹنے کہنیاں وغیرہ چھلنی ہو جاتی ہیں۔بعض اوقات ہیڈ انجری بھی ہوتی ہے۔
موٹر سائیکل سوار اچانک کھڑی ہوئی گاڑیوں کے پاس سے گزرتے ہیں۔ گاڑی سے نکلنے والے مسافر کو پتہ بھی نہیں ہوتا وہ جیسے ہی  دروازہ کھولتا ہے تو فوری حادثہ ہو جاتا ہے اسلئے کھڑی ہوئی گاڑیوں کے پاس سے انکو احتیاط سے گزرنا چاہئیے کیونکہ کار سوار کو اچانک آنیوالا موٹر سائیکل سوار نظر نہیں آتا جو حادثے کا باعث بنتا ہے
۔نشہ آور دوائیوں کے زیر اثر موٹر سائیکل سواروں کو احتیاط کرنی چاہئیےکہ اس حالت میں سفر نہ کریں ۔
 کچھ لوگوں نے خوبصورتی یا شو کے لِے عام موٹر سائیکلوں کے ساتھ  بڑے بڑے ٹائر لگا رکھے ہوتے ہیں جو توازن کو خراب کرنے کا باعث بھی  بنتے  ہیں اور  بعض اوقات انکی مینٹینس درست نہ ہو تو بھی حادثے کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔
ون ویل ڈرائیونگ تو موت کا کھیل ہے جسمیں آج کل کے نوجوانوں اور پندرہ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہیں ۔ یہ خود کو موت کے شکنجے میں دینے والی بات ہے۔ ٹین ایجر (13 سے 19 سال تک کے بچے) خاص طور پر یہ حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔
اسکے علاوہ بہت کم عمری کے باعث بھی حادثات ہوتے ہیں۔  12 ، 13 سال کا بچہ جب موٹر سائیکل لے کر سڑک پر نکلتا ہے تو اکثر اس سے اتنی بڑی سواری سنبھالی  نہیں جاتی اور وہ حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قصور وار پہلے تو والدین ہیں کہ وہ بچے کو اس عمر میں موٹر سائیکل کیوں دیتے ہیں اور دوسری طرف ٹریفک وارڈنز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کو فوری طور پر روکیں۔ اور ایسے سخت قوانین بنائیں  والدین کے لئے بھی کہ اگلی بار وہ بچوں کو discourage کریں ۔اور اس سواری کے استعمال سے روکیں ۔
ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ہیلمٹس کا استعمال نہیں کرتے ۔جسکی وجہ سے ہیڈ انجری کا فوری شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہیلمٹ کے استعمال کو قانون کے ذریعے لازم کیا جائے۔ بلکہ دونوں سواریوں کے لئے لازمی ہو ۔
اوورلوڈنگ بھی حادثات کے رونما ہونے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک عام درجے کی  موٹر سائیکل پر پورا خاندان سوار نظر آتا ہے۔ چار پانچ بندے تو موٹر سائیکل پر بیٹھنا کوئی بات ہی نہیں اور کوئی چالان بھی نہیں ہوتا۔
حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ موٹر سائیکل کرائے پر بھی با آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ جن نوجوانوں یا بچوں کو ٹھیک سے چلانا نہیں بھی آتا تو وہ بھی انتہائی کم قیمت پر کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور ناتجربہ کاری یا کم عمری کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔
ایک سب سے عام وجہ حادثات کی یہ ہے کہ وہ تمام سڑک پر چلتے ہیں یعنی کہ ایک طرف سے نکلے کبھی درمیان میں چلے اور کبھی دائیں بائیں۔ اگر وہ ایک ہی سائیڈ پر چلیں جو قوانین کے مطابق انکو بتائی گئی ہےتو حادثات میں خاطر  خواہ کمی آسکتی ہے۔
مزید یہ کہ جب خواتین موٹر سائیکل پر بیٹھتی ہیں تو اکثر اپنے دوپٹے یاچادر سمیٹ کر نہیں بیٹھتیں جس سے وہ حادثے کا باعث بنتی ہیں اور  بعض اوقات اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ ایک اور بہت ہی اہم اور عام مسئلہ یہ ہے کہ جب نو عمر بچے یا بغیر لائسنس کے بچے نکلتے ہیں تو انکو اگر راستے میں روکا جائے تو وہ ڈر کے مارے بھاگ نکلتے ہیں یہ بہت ہی خطرناک بات ہے کیونکہ سیکیورٹی ادارے انکو دہشت گرد سمجھ کر ان پرفائر کھول سکتے ہیں ۔ لہذا اس سلسلے میں بھی بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
موت کا دکھ تو ہوتا ہی ہے لیکن جب میں کسی نوجوان بچے کے موٹر سائیکل حادثے کا سنتی ہوں تو دل تڑپ جاتا ہے کہ ایک بچہ یا جوان گھر سے کوئی چیز لینے نکلا اور واپسی پہ اسکی میت آئی۔ اس سے زیادہ دردناک بات ایک ماں یا والدین کے لئے کیا ہو سکتی ہے۔
میں تمام والدین سے گزارش کرونگی کہ آپ تھوڑا سا مشکل وقت گزار لیں لیکن اپنے نو عمر بچے کو یہ موت کی سواری نہ لے کر دیں۔
میری متعلقہ محکموں کے لوگوں سے بھی اس پسخت ترین ایکشن لینے کے حوالے سے بات ہوتی رہی ہے۔اس ضمن میں سخت سے سخت قوانین بنان کی ضرورت ہے تاکہ حادثات میں کمی آ سکے۔

3 comments:

  1. Great Mam Amna Sardar I really appreciate your efforts to transform the society.

    ReplyDelete
  2. Yes, it is a major issue. Need continuity to raise voice on this issue.

    ReplyDelete
  3. Madam you mentioned very valid issues.
    First we need traffic education .
    Any way Glad to know there is some people who really care about Human life.

    ReplyDelete