Sunday, October 21, 2018

ایک سوزوکی ڈرائیور کے ساتھ مکالمہ۔ A dialogue with Suzuki Drivet

ایک سوزوکی ڈرائیور کیساتھ مکالمہ

آج چنار روڈ پہ واک کی اور طویل واک کے بعد لوکل سواری سوزوکی میں اس غرض سے سفر کیا کہ موجودہ کرایوں اور سواریوں کی صورتحال سےاور ڈرائیوروں کے مسائل سے بھی مکمل آگاہی حاصل کر سکوں ۔
تمام راستہ ڈرائیور کا انٹرویو لیا۔ نوجوان لڑکا تھا۔ ایک بات اسکی اچھی لگی کہ میرے احترام میں اسنے میوزک آہستہ کر دیا حالانکہ مجھے سننے میں آتا ہے کہ ڈرائیور خاتون سواری کی موجودگی میں میوزک تیز کر دیتے ہیں۔ شاید میری عمر اور برقعے کا رعب ہو۔   اس سے موجودہ مسائل پوچھے۔ وہ غریب بھرا بیٹھا تھا اسنے جو مہنگائی کا رونا رویا تو راستہ ہی ختم ہو گیا۔ گیس کی مہنگائی کا شکوہ، سوزوکی کے پرزوں کی مہنگائی کا رونا، اڈوں کے کرایے دینا، سوزوکی مالکان کو انکا حصہ دینا، کنڈیکٹر کو دینا ، اور روز کیدیہاڑ  گھر لے کر جانا۔ غرض اسنے مہنگائی کو ہی تمام مسائل کی جڑ قرار دیا۔
میں نے اسکو پوچھا کہ کیا تمھیں پتہ ہے بزرگ سواریوں (( Senior Citizens) کے کیا حقوق ہیں اور طالبعلموں کے کیا ہیں ؟ تو اسنے لاعلمی کا اظہار کیا۔صرف یہ کہا کہ جو دے نہیں سکتے ان سے ہم مانگتے نہیں ہیں ۔ اسی طرح students  کا بتایا کہ زیادہ تر بچے نہیں دے سکتے تو ہم لیتے نہیں۔ میں نےاسکو بتایا کہ بزرگ شہری اور طالبعلموں کا کرایہ آدھا ہوتا ہے بلکہ بعض جگہوں پر تو لیا ہی نہیں جاتا ۔ تو وہ حیران ہوا۔ 
میں نے اسکو بتایا کہ میں اس ایشو پرکام کر رہی ہوں کہ سنئیر سٹیزنز بزرگ شہریوں کے لئے خیبر پختونخوا حکومت میں قانون تو موجود ہے لیکن کیا اسپر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔اور اگر ہو رہا ہے تو کس حد تک؟
اس قانون میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں کہ یہ بزرگ شہریوں کے لئے فائدہ مند ہو۔
اسکے علاوہ میں نے اس سے خواتین کے لئے علیحدہ سوزوکیاں  چلانے کی بات بھی کی جس پر اسنے کچھ خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ بلکہ کہا کہ الگ سوزوکیوں سے مسئلہ کیسے حل ہو گا جبکہ لوگوں کو  جانے کی جلدی ہوتی ہے اور وہ انتظار نہیں کر سکتے ۔ اسی طرح خواتین کو جو سواری میسر ہو گی وہ اسپر سفر کرینگی۔ میں نے اسکو کہا کہ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ جو خواتین مردوں والی سواری میں سفر کرنا نہیں چاہتیں وہ ضرور انتظار کرینگی اور اسطرح اوقات کار بھی سیٹ ہو جائینگے ۔بہت سی خواتین اور بچیاں راستے میں  ہراس منٹ کا شکار ہوتی ہیں جسکے لئے وہ خواتین کی گاڑی کو ترجیح دینگی۔ 
اسپر اسنے کچھ زیادہدلچسپی  نہیں لی۔
مجھے تمام روٹس کے کرایے بتائے جو کہ ظاہر ہے 2 روپے سے 10 روپے تک زیادہ بڑھ گئے  ہیں۔ اور یہ ایک عام آدمی کے لئے بہت زیادہ ہیں جس نے روزانہ سفر کرنا ہوتا ہےاسکے لئیے تو ڈبل ہوگئے جو ظاہر ہے اسکے اوپر اضافی بوجھ ہے۔ اسی طرح ڈرائیور بھی ایک عام آدمی ہے اور اسکے بھی اخراجات ہیں۔ بہر حال انتظامیہ کو کوئہ بیچ کی راہ نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو سہولت ملے نا کہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
یہ تھی آج کی روداد سوچا آپ لوگوں سے شئیر کروں۔ اس تحریر میں جن قوانین کا ذکر ہوا ہے یا مسائل کا۔ انکے حوالے سے اگر کوئی تجویز دینا چاہئیں تو ضرور دیجئے۔

No comments:

Post a Comment