Tuesday, February 19, 2019

Role of Women in Environment / Agriculture ماحولیات /زراعت میں عورت کا کردار




ہمارے ہاں عورتوں کو صرف چار دیواری تک محدود سمجھا جا تا رہا ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنا ہنر، اپنی تعلیم اور اپنا فن سکھاتی نظر آتی ہیں۔ تدریس کا شعبہ ہو یا طب کا ، نرسنگ ہو یا ہوسٹنگ،ٹی وی  سکرین ہویا براڈ کاسٹنگ،  پولیس ہو یا آرمی ، بنک ہو یا عدالت ، صحافت ہو یا میزبانی،  سرکاری دفاتر ہوں یا غیر سرکاری ادارے، قانون سازی ہو یا بیوروکریسی ہر جگہ خواتین اپنی ذہانت، فطانت اور فکر و تدبر کیساتھ کام کرتی نظر آتی ہیں۔
ان شعبوں کے علاوہ بھی بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں خواتین کام تو کر رہی ہیں لیکن انہیں وہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہروں میں کام کرنے والی خواتین تو کافی حد تک خودکفیل ہوتی ہیں لیکن دیہاتوں میں کھیتوں میں کام کرنیوالی خواتین مکمل طور پر اپنے مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔

 پاکستان ایک زرعی ملک ہےجسکا 70 فیصد انحصار زراعت پر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں مردوں کیساتھ ساتھ دیہات میں عورتیں بھی زراعت و گلہ بانی اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے کا کا م کرتی ہیں ۔ یہ عورتیں نا صرف اپنے مردوں کا زراعت میں  ہاتھ بٹاتی ہیں بلکہ جنگل سے لکڑی کاٹنے،ایندھن لانےاور  دور دراز سے پانی لانے کا کام بھی یہی عورتیں کرتی ہیں۔ کام میں ہاتھ  تو وہ پورا بٹاتی ہیں لیکن انکو نہ اجرت مردوں کے مقابلےمیں  ملتی ہے اور نہ ہی باقی سہولتیں و آسانیاں ۔ہمارے ہاں تومزارعے کو چاہے وہ مرد ہی کیوں نہ ہو کوئی خاص اجرت اور سہولت نہیں ملتی تو عورتوں کو تو بہت ہی مشکل ہے۔
 ہمارے ملک میں پدرسری معاشرہ رائج ہے جو عورتوں کو اتنی آسانی سے سہولتیں فراہم نہیں کرتا۔ بہت ہی کم عورتیں ایسی ہونگی جنکی اپنی زمین ہو اور وہ اس پر کھیتی باڑی یا زمینداری کرتی ہوں۔ سو میں سے کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملے گی۔ ہمارے ملک میں پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں خواتین کھیتوں میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خواتین زیادہ تر گھر میں مویشیوں کی دیکھ بھال تو کرتی ہیں لیکن کھیتوں میں یا زمینداری میں انکا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔
جو خواتین کھیتوں میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں  تو انکو سہولیات بھی ویسی ہی ملنی چاہئیں۔

ان خواتین کو معاشی استحکام فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ انکو اپنے اخراجات کے لئے دوسروں کے ہاتھوں کیطرف نہ دیکھنا پڑے۔
کچھ  خواتین کی ذاتی زمین ہوتی ہے جو انکو وراثت میں ملتی ہے۔ لیکن وراثتی زمین انکے  شوہروں ، بھائیوں   یا بیٹوں  کے حصے میں چلی جاتی ہے۔ جبکہ اگر وہ کام کر رہی ہیں تو انکو انکاحصہ ملنا چاہئیے نا کہ وہ کسی کی محتاج بن کے رہیں۔ یا اگر وہ زمین خریدنے کا قصد کرتی بھی ہیں تو اس مقصد کے لئےبھی  انکو اپنے ساتھ کسی مرد کو رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ انکو زمین کی ملکیت ملنی ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور بنا دی جاتی ہے۔ ایسی خواتین کےلئے زمین خریدنے کا حصول آسان بنایا جائے۔ 

خواتین زمینداروں کو آسان اقساط پر  قرضے ملنے چاہئیں۔

ایسی خواتین جو فصلوں، بیجوں اور کھتی باڑی کی سمجھ رکھتی ہیں لیکن وسائل اور آمدن کی کمی کی وجہ سے اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتیں ۔ حکومت کو چاہئیے کہ وہ انہیں چھوٹے قرضے فراہم کرے۔ انہیں اچھے بیج اور کھاد مہیا کرے۔

زمینداریا کسان خواتین  کو حکومت کی طرف سے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہئیے۔ انہیں اچھی نسل کے بیج ، اسکی درست  بوائی کے طریقے اور اچھی فصل کی کاشت سے روشناس کرایا جائے۔

اسی طرح وہ خواتین جنکا کوئی سہارایا ذریعہ آمدن نہیں ہوتا  نہیں ہوتا ان کے لئے حکومت کو چاہئیے کہ کچن  گارڈننگ کے پروگرامز کو فروغ دیں۔ یعنی انکو چھوٹی چھوٹی جگہوں پر پھل، سبزیاں اور جڑی بوٹیاں لگانے کے طریقے سکھائیں تاکہ وہ اپنا روز گار کما سکیں ۔

اسی طرح وہ علاقے جہاں پٙھلوں کے باغات زیادہ ہوتے ہیں حکومت محکمہ زراعت کے ذریعے  وہاں کی  خواتین  کو فاضل اور زیادہ پکا ہوا پھل محفوظ کرنے کے طریقے سکھائے۔ ان پھلوں کو سُکھانے، انکو محفوظ کرنے، ان کے مربے ، جیم، جیلی اور چٹنیاں بنانے کے طریقے سکھائے جائیں۔

اسکے علاوہ  خواتین چونکہ ماحولیات سے، فطری طور پر زیادہ لگاوُ رکھتی ہیں تو انکو موسمی پُھول جو کہ آجکل مختلف مواقع پر  بڑی مانگ میں ہیں۔ حکومت انکے لگانے اور انکی حفاظت کرنے کے طریقے سکھائے۔اور کس طرح انہیں چند دنوں تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب  وہ گھر بیٹھے کرنے  سے اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔
اسی طرح ان ڈور پلانٹس بھی بہت مانگ میں ہیں ۔انکو صرف اچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے وہ خواتین اپنی فطری صلاحیت سے کر سکتی ہیں اور ان پودوں سے ایک منافع بخش کاروبار کر سکتی ہیں۔
 
اسکے علاوہ خواتین گلہ بانی اور مویشیوں کی افزائش میں بھی اپنے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔توحکومت کو چاہئیے کہ انکو مویشی آسان اقساط پر  فراہم کئے جائیں اور ساتھ ہی انکو  پولٹری  اور ڈیری فارمنگ سے متعلق معلومات بھی فراہم کی جائیں ۔

یہ ناصرف حکومت کی زمہ داری ہے بلکہ سول سوسائٹی کے لوگوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ خواتین کو مالی طور پر مستحکم کرنے میں ان تمام کاموں میں حصہ لیں۔
اس طرح انکو گھرسے دور بھی نہیں جانا پڑے گا اور گھر کے قریب اپنی زمینوں پر وہ ان پودوں اور فصلوں کو اگا کر اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔ویسے بھی آجکل بہت سے لوگ دوبارہ سے organic food (دیسی خوراک ) کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ وہ ان خواتین سے ڈائریکٹ آکر اپنی ضرورت کی چیزیں دیسی انڈے، دیسی مرغیاں اور خالص دودھ اور اس سے بنی مصنوعات  خرید سکتے ہیں۔یہ دیسی خوراک یا organic food کے فروغ  کیطرف بھی ایک مثبت قدم ہو گا۔
پانی اسوقت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جسکو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے بھی ان خواتین کی تربیت کی جانی چاہئیے ۔ خواتین فطری طور پر کفایت شعار ہوتی ہیں۔دور دراز سے پانی لانے کا کام بھی انہی کے ذمے ہوتا ہے۔ لہذا انکو آگاہی پروگراموں کے ذریعے پانی کی قدرو قیمت کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔

حکومت اگر ان تمام خطوط پر سنجیدگی سے عملی کام کرے اور ان خواتین کو صرف گھروں تک محدود نہ رہنے دے اور انکو یہ تمام سہولتیں فراہم کرے جنکا ذکر کیا گیا ہے تو وہ یقیناً ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرینگی۔ اپنے گھروں میں وہ یہ سارے  کام تو کرتی ہیں لیکن انکا صلہ انہیں کچھ نہیں ملتا۔ لہذا آج کی دیہاتی عورت کو بھی معاشی طور پر مستحکم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

Women and Environment

Environmental hazards have become a major global issue this century. Pakistan is one of the highly vulnerable countries to climate change.Major environmental issues currently confronting Pakistan include climate change, water, energy, pollution and waste management, salinity and water logging, irrigated agriculture, biodiversity and more that are too numerous to count. These hazards are not only  impacting the national, social and economic landscape but the human being living here especially Women.Man-made interferences in this natural systems are the chief reasons behind this problem.
The developing world's 1.3 billion rural poor make up the world's largest group of natural sources managers. Understanding their roles and responsibilities including the gender discrimination of natural resource management . It is a starting point for reserving environmental degradation. Women have a major role in this regard.  Women manage natural resources  daily in their roles as farmers and household providers . Typically they are responsible for growing subsistence crops and often have unique knowledge of local crop species.To meet family needs, rural women and girls walk long distances to get fuel, wood and water. Women have less access to and control over Natural Resources than men.  Being the resident of mountainous area I'm  eye witness to this. Usually it is men who put land water ,plants and animals to commercial use  which is unfortunately more valued than women for domestic uses .

Gender inequality is most evident in access to land . Our custom prohibits women for owing land . Landless rural women often depend on common property resources for fuel wood, fodder and food. Without  secure land rights ,farmers especially women farmers have limited access to credit and little incentives to invest in improved management. Women are more likely to make environmentally sound land, management decisions when they have secure ownership and know they can benefit.

Improved water management, especially irrigation is critical to higher agricultural productivity. Women farmers have limited access to irrigation networks  . Women's limited water entitlements force them to use subsistence agricultural practices  that may lead to soil erosion , a major source of instability in watersheds .To protect the natural resources  rural women and men must be empowered to participate in decisions that affect their needs and vulnerabilities .

In a survey, balancing work life with family life is the number of career concern for both men n women with about half of both genders saying it is a major concern. Yet on a variety of indicators women seem more concerned about achieving it. Women can manage  home better as well as job as compared to men .Even these women can play their role in kitchen gardening. It is an efficient and productive way of earning for women who are usually illiterate and have farming skills.

The survey also reports that  women are more stressed out on finances than men, the more ability to pay of credit card, debt or student loans as a big concern. They are also more concerned about getting a raise and given a gender wage gap, this is not surprising . In another  survey 31% of women said they thought they would be paid more if they were a man .The imbalance ends up affecting women more than men who are still thought of as the default caretakers . While more than 20% women are out of workplace and 0.8% men are taking care of children. Working mothers spend double the time than fathers  do on raising children and they end up putting in half the hours that men do in paid employment .

If these women are given equal opportunities to men they can excel in this field. 
Modern Technology should be introduced .They should be given modern  trainings and skills.
They should be provided  with small scale loans and other such incentives so that they can work independently .
If these women are given equal opportunities to those of men they will bring revolutionary changes in the field of Agriculture as well as maintaining favourable  Environment .
Women are the best human being  who can save environment. Women should be encouraged and empowered to utilize their skills in productive works especially undertake the pro-environmental activities that are beneficial not to their surroundings only but bring an overall positive  impact.

Monday, February 18, 2019

بچے ہمارے عہد کے۔۔۔۔۔۔۔۔Children of our Era



آج میرا موضوع سخن ہے بچے۔ میں ایک ماں ہوں اور ماں کی ممتا بلا تمیز و امتیاز سب بچوں کے لئے یکساں ہوتی ہے۔ میرے لئے 25 سال کا جوان بھی بچہ ہے۔ لہذا میرا موضوع سخن چھوٹے بچوں سے لیکر نوجوانوں تک رہے گا۔ آج کے بچے میں اور ہمارے دور کے بچے میں بہت نمایاں فرق ہے۔ ہم ہوتے تھے معصوم، بھولے بلکہ بدھو اور آج کا بچہ ہوشیار، موقع پرست،حاضر جواب ،  انتہائی ذہین۔ ہمارے دور میں ذہانت ناپنے کاپیمانہ کلاس میں پوزیشن لینا ہوتی تھی۔ جبکہ آج کے بچے کی ذہانت تعلیمی قابلیت سے نہیں اسکی حاضر جوابی اور مفاد پرستی سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ کیسے موقع محل کے مطابق بات کرکے اپنے بڑوں کو بھی لاجواب کر دیتا ہے ۔ اور اسے پتہ ہے کہاں اسے موقعے سے فائدہ اٹھا کر اپنی بات منوانی ہے۔ آج کا بچہ بلا کاپُر اعتماد ہے۔ یہ اعتماد یقیناً جدید دور کے والدین کا دیا ہوا ہے۔ اگر یہ اعتماد تہذیب کے دائرے میں ہو تو کوئی قباحت نہیں۔ لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو مسئلہ بن جاتاہے ناصرف والدین کے لئے بلکہ پورے معاشرے کے لئے۔
ہمارے والدین کی سوچ ہوتی تھی کھلاوُ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے۔ اسی لئے ہم تمام آسائشوں اور سہولیات کے باوجود والدین کی ایک نگاہ سے بھی ڈر جاتے تھے۔ وہ صرف خوف یا ڈر نہیں تھا بلکہ محبت بھرااحترام ہو اکرتا تھا ۔ دراصل ہم جس سے  محبت کرتے ہیں اسکی محبت کی وجہ سے ایسا کوئی  کام نہیں کرتے کہ وہ ناراض ہو جائے، دراصل وہ انکی ناراضگی کا خوف ہوتا تھا۔ یہ اس وقت کے تمام بچوں کی تربیت کا حصہ تھا۔ بڑے بڑے طُرم خان اپنے والدین خاص طور پر والد کے سامنے بات کرتے ہوئے گھگھیاتے تھے۔ یہ بظاہر کمیونیکیشن گیپ ضرور تھا لیکن یہ دور  ایک رکھ رکھاوُ ایک تہذیب کا آئینہ دار تھا۔
آج کا بچہ ذہین ، حاضر جواب اور پراعتماد تو ضرور ہے لیکن اس میں وہ رکھ رکھاوُ ، وہ تہذیب نہیں جسکے تحت ہماری تربیت ہوئی۔آج کے والدین نے کمیونیکیشن گیپ کے نام پر بچوں کو کچھ زیادہ ہی فرینک اور نڈر بنا دیا۔ وہ بلاجھجک اپنی بات کرتا ہے۔ آج کے بچے میں برداشت کامادہ انتہائی کم ہے۔وہ رو کے ، چِلاکر ،سانس روک کے ، اپنی بات منوالیتا ہے۔ اسکی یہی بات ماننی اسے ضدی بناتی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ ہر چیز اسکے تابع ہے۔ اور وہ ہر چیز حاصل کر سکتا ہے۔ اسکو میں کسی حد تک والدین کی کمزوری بھی کہوں گی۔ کیونکہ وہ بچے کی جا بے جا ہر بات مانتے چلے جاتے ہیں۔ بچے کی بات ضرور مانیں لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے جیسے اگر وہ کسی چیز کی فرمائش کرتا ہے اسکے لئے مچلتا ہے تو اسکو وہی چیز نہ لیکر دی جائے بلکہ اسی سے ملتی جلتی کوئ اور چیز دلائی جائے اور رسان سے اسے سمجھایا جائے کہ کیا درست ہے اسکے لیئے اور کیا نہیں.  آج کا بچہ دلیل سے قائل ہونیوالا بچہ ہے۔ لہذا والدین کو اپنے بچوں کی نفسیات سے واقفیت ہونی بہت ضروری ہے۔ اور یہ کوئی اتنی مشکل بات نہیں۔ بچے سے دوستانہ ماحول میں اسکی پسند ناپسند ، اسکے مشاغل ، اسکے شوق کے متعلق بات کرنی چاہئں تاکہ آپ اسکی نفسیات سے واقف ہوں۔ بہت سے بچے مشکل بچے ثابت ہوتے ہیں۔دوسروں پر کُھلتے نہیں۔ لیکن پیار اور دوستانہ ماحول انکو  اپنے والدین کے قریب لے جاتا ہے۔

ہمارا ایک المیہ  یہ بھی ہے کہ ہمارے آج کے والدین میں بھی  توازن نہیں ۔ اگر والد سخت ہیں تو والدہ انتہائی نرم اور اگر والد نرم مزاج ہیں تو والدہ انتہائی اصولی اور سخت گیر۔ یوں بچے بھی شدت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں بعض اوقات وہ اپنے ساتھ  اس مسئلے کی وجہ سے دبی شخصیت کا شکار ہو جاتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ خوداعتماد ہو جاتے ہیں ۔ اور یہ دونوں شدتیں ہی بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں۔
اگر میں کچھ پہلے دور کی بات کروں تو وہ یہ کہ  والدین گو کہ سختی کرتے تھے لیکن انہوں نے بچوں کو اخلاقیات کا ethics کا درس دیا تھا۔ والدہ اگر نرم مزاج ہوتی بھی تھی تو وہ والد کی سرزنش کے دوران کبھی بچے کی حمایت نہیں کرتی تھی۔ ان والدین نے بچے کی  تربیت میں اپنا وقت دیا جبکہ آج کے والدین وقت کی کمی کا شکار ہیں ۔وہ اپنے بچوں کو جدید کھلونے اور gadgets تو پکڑا دیتے ہیں لیکن تربیت نہیں کرتے ، اچھے برے کی تمیز نہیں سکھاتے اور سب سے بڑھ کر وقت نہیں دیتے۔ جسکی وجہ سے آج کا بچہ رشتوں سے دور اور مشینوں سے قریب ہے۔ اور یہی مشینیں اسکی تربیت کر رہی ہیں۔ بہت سے والدین کو قطعی علم نہیں کہ انکے بچے کیاچیز استعمال کرتے ہیں اور کیسے۔ بہت سے والدین نئی ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں۔ لیکن وہ بھی فخریہ اپنے بچوں کو یہ تمام جدید آلات خرید کر تو دیتے ہیں۔انہیں جیب خرچ کے نام پر بھاری رقوم دیتے ہیں۔ لیکن نظر نہیں رکھتے کہ وہ کیسے  استعمال کر رہا ہے اور اسپر یہ چیزیں   مثبت اثرات ڈال رہی  ہیں  یا منفی۔
آجکل جو چند واقعات میری نظر سے گزرے اسکا ذمہ دار میں کسے ٹھراوُں ۔آج کے  بچوں میں خودکشی کابڑھتا ہوا رجحان ۔۔عدم برداشت پرمار پیٹ یا  قتل کا اقدام۔والدین ، اساتذہ اور پڑھائی کےدباوُ و  تناوُ کی وجہ سے نو عمر بچوں کا ہارٹ فیل ہوجانا ۔لوئر مڈل کلاس میں بچوں کا گھر سے بھاگ جانا۔۔۔ شاگرد کا استاد کو قتل کر دینا ۔۔۔۔ نوعمر بچوں کا منشیات کااستعمال ۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟؟؟_
اگر میں تمام عوامل کو اکٹھا  کروں کہ آج کا بچہ کس نہج پر چل رہا ہے اور کیا وہ مثبت ہے ؟ تو اسکی مختلف وجوہات ہونگی۔ کچھ پر میں بات کر چکی ہوں اور کچھ پر کرنا باقی ہے لہذا نمبر وار اگر اسکو لیں تو
1) والدین کا حد سے زیادہ لاڈ پیار
2) والدین کا بچوں کی جائز ناجائز خواہشات پوری کرنا
3) بچوں کی درست خطوط پر تربیت نہ کرنا( اسمیں دینی اور دنیاوی تربیت شامل ہے یعنی اخلاقیات )
4) انگریزی تعلیم کے نام پر بچوں کو ایسے سکولوں میں بھیجنا جو اصل ثقافت سے دور کر رہے ہیں اور مغربی معاشرے کی ترویج کر رہے ہیں )
5) بچوں کو بزرگوں کی صحبت سے دور رکھنا( پہلے وقتوں میں دادیوں نانیوں کا اہم کردار ہوتا تھا تربیت میں)
6) اساتذہ کا بچوں کو تعلیم تو دینا لیکن تربیت نہ کرنا۔ اخلاقیات نہ سکھانا۔ صرف کتابی علم سے مستفید کرنا۔
7) آج کے بچوں کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں۔ بلکہ مغربی طرز کے اداروں میں انپر تنقید کی جاتی ہے۔
8)پہلے وقتوں میں محلے ، کالونی کے بچے آپس میں اکٹھے کھیلتے تھے اور یوں ایکدوسرے سے بہت کچھ سیکھتے تھے۔ آج کا بچہ اگر کھیلے توآپس کی  لڑائی کی والدین کی لڑائی بن جاتی ہے۔ جو خونخوار نتائج کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
9) تحمل و برداشت جسکی پہلے بچوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ وہ اب مفقود ہو گئی ہے۔ انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا سکھایا جاتا ہے۔
10) پہلے وقتوں میں استاد کی عزت والد کی عزت پر مقدم ہوتی تھی۔ والدین استاد کی شکایت لگانے پر الٹا بچے کی سرزنش کرتے تھے جبکہ آج کے والدین فوراً لٹھ لیکر استاد کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اورانکے لئے بغض و عناد دل میں رکھتے ہیں ایسے میں بچہ کیسے استاد کی عزت کر سکتا ہے ۔
11) آج کا استاد بھی مشینی انداز میں کام کرنے کا عادی ہو گیا ہے۔ یعنی اسے بچے کی پوزیشن سے غرض ہے اسکے کردار سے نہیں ۔ پہلے کے استاد سارا زور کردار سازی پہ دیا کرتے تھے۔
12) کتاب کی جگہ اب ٹیبلٹ  نے لے لی ہے۔ پہلے بچہ اچھی کتب پڑھتا تھا ۔ جس سے اسکی ذہنی نشو و نما ہوتی تھی۔ جو کہ اب اسطرح سے ممکن نہیں ۔
13) پہلے بچہ آوُٹ ڈور کھیلوں میں مگن ہوتا تھا۔ اسطرح وہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ رہتا تھا۔ آجکا بچہ ن ڈور گیمز میں زیادہ وقت گزارتا ہے ۔اسکی آوُٹ ڈور ایکٹیویٹیز انتہائی کم ہوگئی ہیں۔ جس سے اسکی ذہنی وجسمانی نشو و نما متاثر ہوئی ہے۔
یہ تو چند ایک وجوہات ہیں جو میں یہاں بیان  کر سکی ہوں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جنکا ذکر یہاں نہیں ہو سکا۔
آج اور کل کے بچے کے درمیان موازنہ کرنے کی ایک وجہ یہ  تھی آج کا بچہ پراعتماد اور ذہین تو ہے ہی لیکن اسکے ساتھ منہ پھٹ بھی۔ برداشت کی کمی کی وجہ سے وہ بڑے چھوٹے کا لحاظ کرنے سے قاصر ہے۔ اسمیں ضد اور انا کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ انا کی بجائے اگر اسے خودداری کا درس دیا جاتا تو حالات مختلف ہوتے۔
بہرحال مقصد تنقید کرنا نہیں ہے  بلکہ اپنے بچوں کی تربیت اخلاقیات  اور دینی تعلیمات کے دائرے میں کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں صحتمندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے اشد ضرورت ہے۔ ہم نے بچوں پر کتابوں کا بوجھ تو لاد دیا ہے لیکن انکی تربیت سے لاپروا ہو گئے ہیں.ہمیں اپنے بچے کو ایک بہترین انسان بنانے کے لئے اسکے ساتھ وقت بتانا ہوگا۔ اسکی ذہانت کو مثبت انداز میں ڈھالنا ہو گا اور اسکی خوداعتمادی کو اخلاقی اقدارکے ذریعے اجاگر کرنا ہوگا ۔  یہی آج کے والدین کی اور اساتذہ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ استاد کی توجہ دلانے کی بھی کوشش کی ہے کہ صرف تعلیم نہ دیں، کتابی علم سے مستفید نہ کریں بلکہ تربیت اور کردار سازی پہ توجہ دیں جو کہ اساتذہ کا وصف تھا یہیں سے اچھی قوم بنے گی۔ جو ملک وملت کا نام روشن کریگی۔
اللہ کریم ہمیں اور   ہمارے بچوں کو حکمت عطا کرے آمین