Saturday, October 27, 2018

#واک_کی_واک_اورشہرکےمسائل_سےآگاہی During Walk noted the issues of city



آجکل شہر کے مختلف حصوں کی واک کرنے کا اتفاق ہوا۔ واک کے لئے میں کچھ مخصوص جگہوں پر جاتی تھی۔لیکن شہر کے حالات سےبہتر طور پر واقفیت حاصل کرنے کے لئے میں نے سوچا کہ مجھے شہر کے مختلف حصوں میں جانا چاہئیے تاکہ وہاں کے مسائل و ایشوز سے بخوبی آگاہ رہوں۔ اس مقصد کے لئیے لنک روڈ، کالج روڈ، آرام باغ، چنار روڈ ،مری روڈ، جھانیاں روڈ(نواں شہر) پی ایم اے۔کاکول روڈ ، بائی پاس اور کامرس کالج روڈ پر واک کی۔اور ان تمام جگہوں کے مسائل سے آگاہی ہوئی ۔
لنک روڈ  سے بات شروع کرونگی لنک روڈ بہت زیادہ رش والی سڑک بن گئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سوزوکیاں اور ڈبے تو بہت زیادہ ہیں پرائیویٹ گاڑیاں بھی بے تحاشہ نظر آتی ہیں ۔ اس روڈ کا سب سے بڑا مسئلہ ریڑھیاں ہیں۔ دسیوں بار آپریشن ہوئے ، کئی باران ریڑھیوں کو یہاں سے ہٹا کر دیگر مختص مقامات پر منتقل کیا گیا لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔۔ دوبارہ اس پہ ریڑھیاں براجمان  نظر آتی ہیں۔ میں مانتی ہوں کہ یہ غریب لوگ ہیں انکی روزی پہ بھی لات نہیں مارنی چاہئیے لیکن یہ بھی تو تھوڑا تعاون کریں۔ نالوں پہ قبضہ کر کے  انہوں نے اپنی دکانیں سجالی ہیں۔ اور جب بارش ہوتی ہے تو نالوں کے بند ہونے کی وجہ سے سارا گندا پانی لنک روڈ کی دکانوں اور مکانوں میں چلا جاتا ہے۔اور لوگوں کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انتظامیہ کو بھی چاہئیے کہ ان ریڑھی بانوں کو ایسی جگہ الاٹ کی جائے جہاں پر انکو بھی روزگار کے بھر پور مواقع ملیں اور عوام الناس کو بھی تکلیف نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ اس روڈ پر پارکنگ کا ہے۔ لوگ روڈ پر گاڑی پارک کر دیتے ہیں جسکی وجہ سے ٹریفک میں بہت زیادہ تعطل پیدا ہوتا ہے۔ اسوقت یہ شہر کی مصروف ترین سڑک ہے لہذا میری تجویز ہے کہ اسکے دونوں چوکوں ( سربن چوک، توت والا چوک)میں ٹریفک پولیس والے تعینات ہونے چاہئیں۔تاکہ ٹریفک کا نظام درست طریقےسے چلتا رہے۔ ایک اور مسئلہ ہے یہاں پر دوکانوں کے آگے تک لوگوں نے بورڈ اور چیزیں رکھی ہوتی ہیں۔ یعنی چھوٹی چھوٹی تجاوزات کی ہوئی ہیں جس سےراہگیروں کو چلن میں بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
کالج روڈ کیطرف آئیں تو یہاں بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے۔ کینٹ بورڈ نے سڑک بھی بنائی اور فٹ پاتھس بھی نئے بنے۔اسمیں ایک تکلیف دہ بات یہ ہے کہ موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں والے بچے یہاں اکثر ون ویلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ اس روڈ کے شروع میں بننے والے ورکشاپس  اور روڈ کے اوپربنے  سروس سٹیشنز موجود ہیں۔جسکی وجہ سے انتہائی گند بنا ہوتا ہے کیچڑ والا۔ اس روڈ پر  گاڑیوں کو سڑک کے کنارے کھولا ہوا ہوتا ہے جو کہ ٹریفک میں تعطل کاباعث بنتا ہے۔ یہاں موجودنالے  کو کور کر کے سڑک کو وسعت دی گئی ہے لیکن افسوس ہماری جاہلیت پر کہ اسکو پارکنگ بنا دیا جاتا ہے۔ ایک اور وجہ یہاں پر پھلوں کی ایک شاپ ہے جس سے زیادہ تر امیر لوگ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے چیزیں آرڈر کرتے ہیں اور اتنی دیر تک روڈ بلاک رہتا ہے۔ ایک اور مسئلہ کہ یہاں پوسٹ گریجویٹ کالج کے باہر جگہ پر اکثر یاتو پارکنگ کی گئی ہوتی ہے یا ریت ، بجری ، اینٹیں پھینکیں گئی ہوتی ہیں ۔ایک اور مسئلہ کہ یہاں پر بھی رہاشی کوڑا کوڑے دان میں نہیں پھینکتے بلکہ اردگرد بکھیر دیتے ہیں۔

آرام باغ کی طرف رُخ کیجئے توایکدم تنگ سڑک شروع ہو جاتی ہے۔ پرانے بورڈ آفس اور اسکی جگہ بننے والے نئے وکیشنل سنٹر کی نئی دیوار تیار ہو بھی گئی ہے لیکن پچھلی یعنی پرانی دیوار ابھی تک نہیں توڑی گئی جو کہ راستے کی تنگی میں مزید اضافہ کر رہی ہے متعلقہ اداروں کو فواری طور پر پرانی دیوار کو ہٹانا چاہئیے تاکہ چار سے پانچ فٹ جگہ سڑک کو مذید مل جائے ۔ اور یہ واحد سڑک ہے شہر کی جسپرتانگے چلتے نظر آتے ہیں۔ جو ٹریفک کے تعطل کاباعث بنتے ہیں کیونکہ اس روڈ پر اوور ٹیکنگ کی بلکل گنجائش نہیں ہوتی۔تو ٹریفک بلکل سست چلتی ہے۔ مجھے تانگے سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس روڈ پر تانگے سے کافی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ اس علاقے کے فٹ پاتھ پر لوگ ٹولیاں بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں جس سے پیدل چلنے والےراہگیروں کو انتہائی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ یہاں روڈ پر اینٹیں اور بجری، ریت پھینکی جاتی ہے جو ٹریفک کے تعطل کی ایک اور اہم وجہ ہے۔ جبکہ دفعہ 144 نافذ ہے تو اس پر ضرور ایکشن ہونا چاہئیے۔ایک اور بات کہ فٹ پاتھ پر داہنے ہاتھ پر ایک گہرا نالہ ہے اسکے آگے کوئی رکاوٹ نہیں خدانخواستہ کسی کے اس نالے میں گرنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ لہذا اسکے آگے fence یعنی جنگلہ ہونا چاہئیے۔ یہ کافی رش والا علاقہ ہے اور بہت بچے یہاں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔انکی حفاظت ضروری ہے۔
چنار روڈ کی بات اگر کروں تو اس پر فٹ پاتھ بننے سے بہت فرق پڑا ہے ۔ کم ازکم اس خوبصورت روڈ پر  چلنے کے لئے ایک باقاعدہ ٹریک تو  بن گیا ہے لیکن افسوس لوگ پھر بھی فٹ پاتھ پر چلنےکی بجائے سڑک پر چل رہے ہوتے ہیں جو کہ بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ اس روڈ پر ٹریفک بہت تیز چلتی ہے اور حادثات کے خدشات بڑھ جاتے ہیں ۔
نڑیاں روڈ کو وسعت کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی فٹ پاتھ کی کیونکہ اس روڈ پر آپکو بہت زیادہ لوگ چلتے ہوئے نظر آئینگے۔ اور یہ بہت ہی گنجان آباد علاقہ بن گیا ہے۔

مری روڈ کا اول حصہ چونکہ آرمی کے تسلط میں ہے لہذا راوی وہاں چین ہی چین لکھتا ہے۔ لیکن اسکے مین روڈ کے چوک میں خوفناک رش ہوتا ہے ۔ میری تجویز کے مطابق وہاں ٹریفک وارڈن کے ساتھ ملٹری پولیس کا سپاہی بھی کھڑا ہو تو خاطر خوا فرق پڑسکتا ہے۔مری روڈ کو اگر جھگیاں والے علاقے سےآخر تک دیکھیں تو کافی رش نظر آتا ہے لیکن U ٹرنزمیں زیادہ فاصلہ  کرنے کی وجہ سے خاطر خوافرق پڑا ہے ۔ یہاں ایک بات جو تکلیف دہ نظر آئی وہ یہ تھی کہ نہ تو لوگ فٹ پاتھ پہ راستہ دیتے ہیں اور  نہ یہاں کے فٹ پاتھ زیادہ صاف ہیں۔ ایک اور hurdle بورڈز ہیں جو لوگوں نے دوکانوں سے باہر کرکے رکھے ہوتے ہیں۔ یا لوگ ان روڈز پر کرسیاں رکھکر بیٹھ جاتے ہیں جو پیدل چلنے والوں کے لئے کافی تکلیف دہ ہے۔اسی طرح اس روڈ پر کوڑا کرکٹ بھی نسبتاً زیادہ نظر آیا۔ اسکے لئے الزام میں محکموں کو نہیں بلکہ عوام الناس کو دونگی کہ انہیں خود یہ احساس ہونا چاہئیے کہ کوڑے کو کوڑا دان کے اندر پھینکا جائے نہ کہ باہر پھیلا دیا جائے۔
جھانیاں روڈ نواں شہر کی بات کروں تو اول تو یہ کہ وہاں فٹ پاتھس نہیں ہیں جو کہ ہونے چاہئیں کیونکہ زیادہ تر لوگ اس سڑک پر چلتے نظر آتے ہیں۔ دوسرا ٹریفک وہاں بہت تیزی سے گزرتی ہے ۔ ڈرائیونگ میں احتیاط کرنی چاہئیے جبکہ یہ کافی گنجان آباد علاقہ بن گیا ہے۔ اس روڈ پر ایک اور تکلیف دہ چیز ہے ٹیوب ویلز سے فاضل پانی کا اخراج ہے  جو کہ خومخواہ ضائع ہوتا ہے۔ اسکا کوئی سد باب ہونا چاہئیے ۔ واسا کے چیف ایگزیکٹو سے بھی اس سلسلے میں بات ہوئی تھی لیکن تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اور کچھ نہیں تو وہاں واٹر ٹینکس ہی رکھ دیئے جائیں تاکہ پانی بے جا ضائع ہونے سے بچ جائے۔

پی ایم اے کاکول روڈ کی طرف بڑھتے ہیں ۔ یہ نسبتاً مذکورہ تمام علاقوں سے صاف ہے۔ لیکن یہاں پانی کا مسئلہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے برسات کے موسم میں۔ خاص طور پر بلال ٹاوُن بہت متاثر ہوتا ہے بارش میں۔ بہتر سیوریج سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہو جاتا ہے جس سے بہت نقصان  ہوتاہے۔ اس روڈ پر باوجود رہائشی علاقہ ہونے کے گاڑیاں بہت تیز رفتاری سے گزرتی ہیں۔ جو کہ کئی بار  حادثات  کا باعث بنیں۔
بائی پاس ایک اچھی اور روشن بل کھاتی سڑک ہے لیکن وہاں فٹ پاتھ کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ واک اور جاگنگ کے لئے اچھا ٹریک ثابت ہو سکتا ہے۔اسکو اگر مذید کشادہ کیا جاسکتاہو تو بہتر ہے۔ جگہ تو آرمی کے پاس ہے اگر وہ تھوڑی سی مہربانی کر کے اسکو کشادہ کر دیں تو انکو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن عوام الناس کا فائدہ ہو جائیگا۔
کامرس کالج روڈ اور جناح آباد اور حبیب اللہ کالونی کے اندرونی روڈز انتہائی تنگ ہیں۔ اور اکثر جگہوں پر تو پانی کی وجہ سے کیچڑ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں شہر کی کریم رہتی ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں والےاصحاب جنکا تعلق زیادہ تر سرکاری نوکریوں سے ہے  وہاں سے دن میں کئی بار گزرتے ہیں لیکن انکو کھڈوں والی سڑکیں اور کوڑا کرکٹ کا ڈھیر نظر نہیں آتا۔ یہ نسبتاً پڑھے لکھے لوگوں کا پوش علاقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔
یہ تو تھا میری واک کے نتیجے میں نظر آنیوالے مسائل کامشاہداتی جائزہ۔ اگر میں ایک یا دو دنوں میں یہ سب observe کر سکتی ہوں تو وہاں پر رہنے والے اصحاب کو کن دشواریوں کا سامناہو گا ؟ یہ لمحہُ فکریہ ہے ہم سب کے لئیے ۔ ہمیں اپنے اپنے علاقوں اور انکے مسائل کے سدباب ک لئے گاہے گاہے اداروں کو اپنی متحدہ آواز سے جگانے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنا حق آگے بڑھ کر خود لینا ہو گا اور نہیں تو کم از کم اپنے مسائل کے حل کے لئے آواز تو اٹھانا ہوگی۔
مزید یہ سلسلہ جاری رہیگا ۔ اور جن علاقوں میں واک کے لئے گئی تو ضرور شئیر کرونگی۔ اور آپ سب سے بھی التماس ہے کہ آج جن علاقوں کا ذکر ہوا ان میں موجود دیگر مسائل بھی آپ کمنٹس میں share کریں تاکہ ان سب مسائل کے سد باب کے لئے کوئی مناسب  لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔

2 comments: