Tuesday, April 30, 2019

عورت کی ذہانت بمقابلہ مرد کی ذہانت

مرد عورت کی ذہانت سے متاثر ہوتا ہے،اسکی تحسین کرتا ہے، توصیف کرتا ہے، اسے سراہتا ہے،  اسکی طرف بڑھتا ہے اور پھر،پتہ نہیں کیوں  ایک وقت میں خائف ہو کر رک جاتا ہے، پیچھے پلٹ جاتا ہے۔۔۔۔۔ شاید احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ یا کوئی اور وجہ۔۔۔۔۔۔۔
دراصل مرد اپنے کو ہر لحاظ سے عورت سے برتر سمجھتا ہے .. وہ کسی صورت برداشت نہیں کر پاتا کہ عورت اس سے آگے نکل جائے یا اس پر چھا جائے ، حاوی ہو جائے۔۔۔ اسمیں اس مرد کا بھی کوئی قصور نہیں کیونکہ اسکی تربیت ہی پدرسری معاشرے میں ہوئی ہے۔  لہذا وہ اس سوچ سے باہر آ ہی نہیں سکتا۔ اگر بالفرض محال کوئی مرد کسی عورت کی ذہانت سے متاثر ہوتا ہے اسکو ایڈمائر کرتا ہے تو کسی نہ کسی سٹیج پہ وہ بھی پیچھے ضرور ہٹے گا۔۔۔کیونکہ یہ خلاف فطرت ہے اسکے لئے ۔۔۔۔
مرد کا یہ احساس برتری کبھی کبھی احساس کمتری کا روپ دھار لیتا ہے۔۔۔۔ جسے وہ اپنی بڑھائی سمجھ رہا ہوتا ہے دراصل وہ اسکی کمزوری ہوتی ہے جو کمتری کے احساس کو ہوا دیتی ہے۔ اور یوں برتری کا احساس کمتری میں حلول کر جاتا ہے۔
مرد کو ذہانت سے زیادہ ایک پجارن کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر وقت اسکے نام کی مالا جپتی رہے۔ وہ  ذہین عورت پر  کم عقل عورت کو ترجیح دیتا ہے۔ کیونکہ وہ کم عقل عورت اسکی شیدائی ہوگی ، جو وہ کہے گا مانے گی، جیسا اسکو بنائے گا بنے گی۔۔۔ جبکہ ذہین عورت دلیل سے بات کرتی ہے، ہر بات میں توجیہات  پیش کرتی ہے۔۔۔۔۔ عقل کا سہارا لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے انداز سے رہنا پسند کرتی ہے۔۔۔ لیکن مرد کو دلیل کی نہیں تابعداری کی خواہش ہوتی ہے۔۔۔۔۔ یہ مرد کی ذہانت پر مصر ہے کہ وہ اس ذہین عورت کو کیسے قابو کرتا ہے۔۔۔۔یا اس عورت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ذہانت ، دلیل اور فراست کو پس پشت ڈالے اور مرد کو اپنی تابعداری سے زیر کر لے۔۔۔۔۔ دراصل عقلمند عورت وہی ہوتی ہے جو اپنے کو عقل کل نہ سمجھے بلکہ اپنے مرد کے دل کو اپنی مٹھی میں رکھے۔۔۔۔۔اور عقلمند مرد بھی وہی ہے جو ذہین عورت کو اپنے فہم و تدبر سے زیر کرے۔۔۔۔ یہی ہے انکی فراست و فہم۔۔۔۔

اقتباس عورت کی محبت

عورت ذہین ہو یا سادہ مزاج اسے اگر محبت ہوجائے  تو وہ اپنی ہستی اس شخص کے لِئے  مٹا دیتی ہے جسکو وہ چاہتی ہے۔ ۔خود کو راکھ اور خاک کر دیتی ہے اسکے عشق میں لیکن اسے   پا نے کی خواہش پوری نہیں ہوتی۔  مرد کی انا کواسکے اس جذبے سے تسکین  ملتی ہے  اور وہ اس تسکین کو لئے اسے دھتکارےمحبت کی  اگلی دریافت کی طرف بڑھتا ہے۔ اسکے لئے عورت کی نسوانیت کے غرور کو روندھنا ،اسے توڑنا  ہی سب کچھ ہوتا ہے۔وہ خرمست ہاتھی کی مانند جھومتاجھامتا آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ فتح اورغرور  کے نشے میں سر شار ۔۔۔۔۔لیکن کبھی کبھی وہ ایسی جگہ سے دھتکارا جاتا ہے جہاں سے اسنے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہیں سے پھر وہ عورت کو مکار ، دھوکے باز، مفادپرست قرار دیتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ جو سلوک اس سے اب ہوا وہ تو کئیوں کیساتھ یہ سلوک برت کے آیا ہے۔ یہ احساس ہی تو اسکو نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو کوئی حوا کی بیٹی کسی مرد کی لچھے دار باتوں میں آکر اپنی زندگی کی بربادی کا سامان نہ کرے۔ کبھی کبھی یہ بات قائل کرتی ہے کہ اچھی اچھی عقلمند و ذہین عورتیں بھی  کیسے باتوں کے جال میں الجھ کر ایک بے وقوف عورت کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔۔۔۔ پھر ساری زندگی اُسی ایک نام کی دہائی دیتے زندگی گزار دیتی ہیں۔۔۔۔یہ فرق ہے مرد اور عورت میں۔۔۔۔

Sunday, April 21, 2019

اقبال کا اقبال بلند ہو ۔۔۔۔۔Iqbal ka Iqbal Buland ho

اقبال کے لئے ہدیہُ عقیدت

اقبال نا صرف ایک عظیم شاعرومفکر تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ وہ شاعر قرآن تھے جنہوں نے نہایت عمدگی سے قرآن کریم کے پیغام کو اپنی شاعری میں ڈھالا اور اس پیغام کو گھر گھر پہنچا دیا۔ اقبال کی شاعری سے کون واقف نہیں۔ جیسے ہی ہم لکھنے پڑھنے لائق ہوتے ہیں تو پہلا شعر ہمیں انہی کا یاد کرایا جاتا ہے۔

*کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں *

اسکے بعد جوں جوں ہم اپنی عمر کی منازل طے کرتے جاتے ہیں اقبال کی شاعری بھی ہمیں ساتھ لئے چلتی ہے۔ لڑکپن میں پہنچتے ہیں تو یہ درس ملتا ہے
*ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں*

اور جوانی کی منازل طے کرتے ہوئے ہمیں اس شاعری سے گرمایا جاتا ہے

*نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر*

خودی کی بات کریں تو اقبال یہ سبق خاص طور پر جوانوں کو دیتے نظرآتے ہیں۔

*خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے*

مرد مجاہد کے بارے میں فرماتے ہیں
*پلٹ کے جھپٹنا کے ، جھپٹ کے پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہےایک بہانہ *

ایک مومن کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

*ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان ، نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان *

عشق کی وادی میں گر قدم رکھو تو کیا خوبصورت الفاظ میں محبوب ،کی دلربائی کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں
*سو سو امیدیں بندھتی ہیں اک اک نگاہ پر
مجھکو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی*

عملی زندگی میں قدم رکھو تو بے اختیار کہتے ہیں
*عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری *

اور جب روزگار کی تلاش میں نکلو تو کیا خوبصورت درس دیتے ہیں رزق حلال و حرام کے فرق کو واضح کرتے ہوئے
*جس رزق سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس رزق کے ہر خوشہُ گندم کو جلا دو*

ناداں شخص کے اوپر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں
*پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر*

مسلم نوجواں کو یقیں محکم کا سبق کیا خوب دیتے ہیں
*نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں*

من حیث القوم مسلمانوں سے انکے اسلاف کا ذکر کرتے ہوئے شکوہ کناں ہیں کہ
*وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر *

ملک وملت کے ہر شخص کو ایک اہم فرد گنواتے ہوئے فرماتے ہیں
*افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ*

عورت کو کیا خوبصورت انداز میں خراج تحسین  پیش کرتے ہیں ۔
*وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے زندگی کا سوز دروں *
استاد کو کیا بہترین انداز میں ہدیہُ عقیدت سے نوازتے ہیں کہ
*کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو *

طالبعلم کو نصیحت کرتے ہوئے   کہتے ہیں

*خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں*

آخرت کا تزکرہ اس انداز میں کرتے ہیں
*کھو نہ جااس سحر وشام میں اے صاحب دوش
اک جہاں اور بھی ہے جسمیں نہ فردا ہےنہ دوش*

اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن ہمارے دلوں میں موجود ہیں۔ اپنے اشعار کی صورت ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔ ہمیں چاہئیے کہ انکے اشعار ہم اپنی گفتگو میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال میں بھی ڈھالیں۔
اللہ تعالیٰ  انکے درجات بلند فرمائے آمین ۔

آمنہ سردار

Wednesday, April 10, 2019

کیا ہم درندوں کی بستی میں بستے ہیں ؟ Are we living in the world of barbarians?

؟

بچے عطیہُ خداوندی ہوتے ہیں۔ ہماری ساری زندگی بچوں کے لئے ہی کمانے کی فکر میں گزرجاتی ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے بچوں کو وہ چیز مہیا کر رہے ہیں جو اسکی اس وقت انکی  اہم ترین ضرورت ہے۔ اور وہ ہے والدین کی مکمل  توجہ اور وقت۔
  آجکل کےوالدین بچوں کو توجہ نہیں دیتے۔ انکا خیال نہیں رکھتے انکی ضروریات زندگی تو پوری کرتےہیں ، انکو ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں، دنیا جہاں کی آسائشیں انکے قدموں میں ڈھیر کرتے ہیں،  لیکن اپنا وقت انکو نہیں دیتے۔آج کا بچہ آپکے وقت کا محتاج  ہے۔ پہلے زمانے میں  لوگ اپنے بچوں کوبظاہر  توجہ نہیں  دیتے تھےلیکن انکی بچوں کے ہر فعل پر گہری نظر ہوتی تھی۔ انہیں اپنے بچوں سےمتعلق تمام معاملات کے بارے میں علم ہوتا تھا۔ وہ کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں وغیرہ ۔ دوسرا اسوقت جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا تھا جسمیں اگر والدین کی توجہ بچے سے بٹتی بھی تھی تو دادا دادی، چچا تایا، پھپھو وغیرہ بچوں کا خیال رکھتے تھے۔ یوں بچے کو بھی یہ خوف رہتا تھا کہ اسکے اوپر اتنی نظریں گڑی ہیں۔ وہ محتاط زندگی گزارتا تھا ۔انکی اجازت کے بغیر کہیں آگح پیچھے نہءں ہوتا تھا ۔ کوئی ایسی بات جو گھر والوں کی ناراضگی کا باعث بنتی تھی، اس سے گریز کرتا تھا۔ لہذا اسوقت کے بچے میں ایک احساسِ ذمہ داری ہوتا تھا ۔جو آجکل کے بچوں میں عموماً مفقود ہے۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ آجکل آئے دن سننے میں آتا ہے کہ ننھے پھول زیادتی کے بعد قتل کر دئیے گئے۔ایسی خبر سنکر سنگدل سے سنگدل شخص بھی تڑپ جاتا ہے۔  یہ سب اب اتنے تواتر سے ہو رہا ہے کہ لگتا ہے شاید ہم درندوں کی بستی میں بستے ہیں.  ہمارے اندر انسانیت ختم ہو گئی ہے۔ ہم صرف جنسی درندے بنکر رہ گئے ہیں۔ نفسیاتی و ذہنی طور پر لوگ اتنے مفلوج ہو گئے ہیں کہ وہ اچھے برے کی تمیز ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ محرم نا محرم کا فرق ہی نہیں جان پا رہے۔ ذہنی پستی اپنی انتہاوُں کو چھو رہی ہے۔ اس سارے میں معصوم بچوں کا کیا قصور ۔ وہ کیسے ان درندوں سے محفوظ رہ  سکتے ہیں جبکہ قدم قدم پہ جنسی بھیڑیئے اپنے ناپاک ارادے لئے کھڑے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کس طریقے سے ان سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کریں اور کس طریقے سے ان معصوموں کو ان وحشیوں سے بچا کے رکھیں۔
پہلے تو میں بات کرونگی ان درندوں کی کہ کیسے وہ اس درندگی پر آمادہ ہوتے ہیں اور کیا محرکات ہیں اس سب کے پیچھے؟
یہ عام طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ناآسودہ خواہشات کا بدلہ یہ قبیح فعل کرکے ، لیتے ہیں۔کچھ ایڈونچر کے طور پر ایسی حرکت کرتے ہیں ۔ کچھ ذہنی پستی اور گراوٹ کی انتہا پر پہنچ کر اپنی چند لمحوں کی بھوک مٹانے کے لئے اس بہیمانہ فعل کو انجام دیتے ہیں۔ کچھ نفسیاتی طور پر ، کچھ انتقام کے طور پر۔ دراصل جتنے لوگوں کا اور جن محرکات کا میں نے ذکر کیا یہ دراصل غیر انسانی رویے ہیں۔ ان لوگوں میں جانوروں کی خصلت ہے لیکن جانور بھی اتنا غلیظ نہیں ہوتا جتنے کہ یہ لوگ۔ جبتک ان گرے ہوئے لوگوں کو عبرتناک اور شرعی سزا نہیں  ہو گی یہ گندا کھیل جاری رہے گا۔شرعی سزا کی جو تاویلات ہمیں حدیث و  فقہ میں ملتی ہیں ان پر ظاہر ہے عمل اتنا آسان نہیں ۔ایک سخت ترین مرحلہ ہے گواہوں کا لانا اور سچی گواہی دینا لیکن  میڈیکل سائنس نےاب  اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ ہر بات کا ثبوت پیش کر سکتی ہے۔
میں  حیران ہوتی ہوں کہ لوگ جانتے بوجھتے ایسے لوگوں سے کیسے تعلق کو نبھا سکتے ہیں۔ مجھے تو سنکر گھن آتی ہے اور انکو ان سے بات کرنے پر بھی کراہت نہیں آتی۔ ایسے لوگ سر عام پھانسی کے مستحق ہیں۔اور اب اسپر اسلامی نظریاتی کونسل اور قانون سازوں کو مل بیٹھکر کوئی سزا تجویز کرنی ہوگی۔
اب میں دوسری بات کی طرف آتی ہوں کہ ان واقعات میں تواتر کیوں آرہا ہے اور کس طبقے میں زیادہ ہے۔ زیادہ تر یہ واقعات لوئر مڈل کلاس میں ہوتے ہیں جہاں باپ فکر معاش میں مبتلا ہوتا ہے اور مائیں چولہا چوکی کی فکر میں سر گرداں ہوتی ہیں۔ بچوں کو وہ توجہ نہیں مل پاتی جو انکا حق ہے۔ اسطرح کے واقعات زیادہ گلی محلے میں کھیلنے والے بچوں کیساتھ پیش آتے ہیں جنہیں کوئ بھی بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ جانے پہ آمادہ کر سکتا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں زیادہ تر جاننے والے ہی ملوث ہوتے ہیں۔ بعض اوقات محرم رشتے بھی ہوتے ہیں جو ذہنی پستی کی انتہا ہے۔
اپر کلاس میں ایسے واقعات میں زیادہ تر نوکر،  ڈرائیور، خانساماں، مالی وغیرہ ملوث ہوتے ہیں کیونکہ وہاں بھی صاب لوگ پیسہ بنانے میں لگے ہوتے ہیں اور بیگمات سماجی رابطے بنانے میں ۔ لہذا انکے بچے نوکروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور وہی انکے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں۔ وہاں پہ عام طور پر قتل نہیں کیا جاتا لیکن بچوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ۔انہیں اور انکے والدین کومارنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
دونوں طبقوں میں دیکھیں تو بے توجہی اور لاپرواہی ہی سبب بنتی ہے۔لہذا والدین اور رشتہ داروں کو بہت زیادہ چوکس ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
والدین سے یہی گزارش کرونگی کہ.  خدارا اپنے بچے کوچاہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی  نوکروں کیساتھ ، رشتہ داروں کیساتھ ، حتیٰ کہ ٹیوٹرز اور قاری کیساتھ بھی تنہا نہ چھوڑیں۔اکیلے باہر نہ بھیجیں۔ آپکی تھوڑی دیر کی غفلت آپکے بچے کی جان لے سکتی ہے ۔

اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ وہ کسی سے کوئی چیز نہ لیں، لالچ میں نہ آئیں، ہر ایک کے ساتھ چل نہ پڑیں۔ ہر بات والدین سے یا بڑے بہن بھائیوں سے شیئر کریں۔ ڈریں نہیں جھجکیں نہیں ۔چار سال سے چھوٹی عمر کے بچے کو سمجھایا نہیں جا سکتا لیکن ان پہ نظر رکھی جاسکتی ہے۔ زیادہ واقعات اسی عمر کے بچوں کیساتھ ہوتے ہیں۔اور والدین کی لاپرواہی کیوجہ سے ہوتے ہیں جتنے بھی واقعات اٹھائیں جیسے زینب کا واقعہ۔ تو اسمیں والدین خود موجود ہی نہیں تھے ملک میں اور بچوں کو رشتے داروں کے آسرے پر چھوڑ کر گئے تھے۔ اسی طرح فریال کے واقعے میں بھی لاپرواہی سامنے آتی ہے کہ والدہ کو خبر ہی نہ ہوئی اور بچی دادا کے پیچھے باہر نکلی۔ نہ ماں کو پتہ لگا نہ دادا کو۔ اسی طرح اور بھی بہت سے واقعات ہورہے ہیں ۔ روزانہ ہی کچھ سننے کو ملتا ہے۔ ہری پور کا واقعہ، گلیات کا واقعہ، نوشہرہ کا واقعہ، مردان کا واقعہ۔ کس کس واقعے کا ذکر کروں دل خون کے آنسو روتاہے۔ ایسے لوگوں کے راضی نامے کرانے والے ان سے بھی بڑے گنہگار ہیں جو اس گناہ پر پردہ ڈالتے ہیں۔ وہ بھی انکے گناہ مءں برابر کے شریک ہوئے پھر تو۔شاید میں کچھ زیادہ تلخ ہو گئی ہوں۔ لیکن روزانہ کی بنیادوں پر جب ایسی خبریں سننے کو ملیں تو بندہ تلخ بھی ہو حاتا ہے اور زمیں میں گڑ جانے کو بھی جی چاہتا ہے کہ وہ کیونکر ان درندوں کو ، وحشیوں کو روک سکے۔ اگر ان لوگوں کو قانونی طور پر سزا نہءں ملتی تو الگ بات ہے لیکن اللہ ایسے لوگوں کو نیست و نابود کرے اور کرتا بھی ہے۔
اللہ کریم ہمارے سب بچوں کی حفاظت فرمائے اور ان
شیطانوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
 کب کوئی بلا صرف دعاوُں سے ٹلی ہے۔