Tuesday, November 17, 2020

میراسوہنڑادیس ہریپور

Haripur is one of the famous n big cities of Khyber Pakhtunkhaw... The city is surrounded by hundreds of small beautiful villages having lush green farms...Beautiful fruit n flower gardens .... The name of Haripur is derived from a Sikh ruler Hari Singh Nalwa who was Nazim of Hazara Region appointed by Ranjeet Singh ....It was founded by him in 1822۔۔۔۔This city is surrounded by Taxila, Abbottab and Swabi..The distance of Islamabad is about 40 km. The biggest dam of the world Tarbila Dam is situated in this district... Two lakes Khanpur n Tarbela lake are famous for their beauty... There are many Archeological sites in suburbs n surroundings of Haripur... The most famous are Julian, Sirkup..Boali.Badalpur۔۔Piplan site..Bhamala Stupa site.Pind Gahkhran Mound. Mirpur Mound، Bahera Mound Ternawa n others.. There are stupas of Buddha ... The people of Haripur are well educated.Its literacy rate is the highest one in KP. Most of the people are landowners /farmers...There are different tribes and casts live in Haripur including the Hindko Speaking Pashtun Tribes: Jadoon,Tareen, Utmanzai,Pani, Musa Khail, Dilazakand Some Other Castes Includes Douli Mughals, Abbassi, Awan,Gujjar, Tanoli, Mashwanis and Gakhars..The main language of Haripur is Hindko..Pashto is also speaking in this region.. Haripur is famous for its Horse n Cattle show..I can recall how we love to go to Committee Ground n enjoy this show in our childhood۔۔۔ بہت سے لوگ جانتےہیں کہ میرا تعلق ہزارہ سے ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ بنیادی طور پر میرا تعلق ہریپور سے ہے۔۔۔۔ تو آج میں آپکو اپنی جائے پیدائش سے روشناس کراتی ہوں۔۔۔۔گوکہ اس شہر کو چھوڑے قریباً تین دہائیاں گزرنے کو ہیں لیکن اس سے محبت اسی طرح قائم و دائم ہے ۔۔کوشش کرونگی کہ اس شہر سے محبت کا کچھ حق ادا کرسکوں ۔۔۔۔سرسبز کھیتوں۔۔۔شاداب باغوں۔۔۔۔ خوبصورت پھولوں اور چھوٹی چھوٹی ندیوں کی سرزمین ہری پور، ہزارہ کا ایک اہم اور بڑا شہر ہے۔۔۔ پہلے یہ ایبٹ آباد کی تحصیل تھی لیکن بعد ازاں اپنی آبادی کے بڑھنے کی وجہ سےنوے کی دہائی میں یہ ضلع کی شکل اختیار کر گیا ۔۔ہری پور کے اردگرد سینکڑوں چھوٹے بڑے دیہات آباد ہیں۔۔۔یہ ایک مصروف شہر ہے۔۔۔۔اسکا ایک بہت لمبا سا بازار ہے جسکا *ٹپوں اور *ماہیوں میں بڑا ذکر آتا ہے۔۔۔۔اسکی تازہ سبزیاں۔۔پھل اور اناج صوبے بھر میں مقبول ہے۔۔۔۔ یہاں کے لوگوں کا تعلق چونکہ اردگرد کے دیہاتوں سے ہے تو انکا پیشہ زیادہ تر زراعت ہے۔۔۔۔۔ لیکن تعلیم میں بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں۔۔صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا ضلع ہے۔۔۔۔ اس شہر کو ہری سنگھ نلوہ نے رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں 1822 میں بسایا ۔بعد میں اسکو انگریزوں نے1867میں میونسپلٹی کا درجہ دیا۔۔۔ہری پوراطراف سے صوابی، ٹیکسلا اور ایبٹ آبادسے گھرا ہے۔اسلام آباد سے اسکا فاصلہ قریباً 40 کلومیٹر ہے۔ ہری پور کے چند مشہور قصبوں میں سرائے صالح ۔کوٹ نجیب اللہ۔سریکوٹ ۔خانپور۔غازی ۔تربیلہ اور کھلابٹ شامل ہیں۔۔ ہری پور چونکہ سکھوں کے زمانے میں آباد ہو لہذا یہاں پر اس دور کی لاتعداد عمارات نظر آتی ہیں۔۔خاص طور پہ ہندو طرز تعمیر بہت عام ہے۔۔۔ان عمارات کو ماڑی کہا جاتا ہے ۔...مجھے یاد ہے میرا سکول جناح ہال کا آغاز ایک ماڑی سے ہوا۔۔۔ وہ بہت بڑی اور قدیم عمارت تھی ۔۔۔مجھے ہمیشہ بہت متاثر کرتی تھی۔۔۔۔بلکہ ابھی بھی بچپن کی یادوں میں سب سے نمایاں اسکی یادیں ہیں ۔۔۔لکڑی اور پتھر کی بہت خوبصورت کندہ کاری تھی۔۔۔بہت سارے کمرے ہوتے تھے اسوقت تو اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن اب جب یاد کرتی ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ ان میں کچھ حصے رہائشی تھے کچھ مہمان خانے اور کچھ گودام۔۔۔اگر آج بھی مجھ سے اسکا نقشہ پوچھا جائے تو میں آنکھیں بند کرکے بتا سکتی ہوں۔۔۔اس سکول اور اس عمارت سے بہت خوبصورت اور سنہری یادیں وابستہ ہیں۔۔۔یہ تین منزلہ ایک پرشکوہ عمارت تھی ۔۔۔۔۔ایسی متعدد قدیم ہندو طرز تعمیر کی عمارات شہر میں موجودہیں انہی میں ایک مشہور ترین شہر کے وسطی بازار میں تھی جسپر دو شیر بنے تھے اسی نسبت سے اسکا نام شیرانوالا گیٹ پڑ گیا۔۔ یہاں کا ہرکشن گڑھ کا قلعہ جو انتظامیہ کے تحت تھا ہندو طرز تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار تھا۔۔اسکو اب عجائب گھر میں ڈھالا جا رہا ہے تاکہ لوگوں میں دلچسپی پیدا ہو.... ہری پور کے اردگرد مضافاتی علاقوں میں بہت سی آثار قدیمہ کی سائٹس ہیں۔۔ یہ ہری پور سے ٹیکسلا جاتے ہوئے خانپور اور اسکےمضافات میں واقع ہیں۔۔ان میں جولیاں۔۔سرکپ ۔۔باوُلی۔۔بادل پور۔۔پپلاں۔۔بھیرہ وغیرہ کافی مشہور ہیں۔۔۔۔خانپور کی 140 سالہ مسجد راجگان بھی یہاں کی قدیم عمارات میں شمار ہوتی ہے ۔۔یہ مسجد راجہ سلطان جہانداد نے تعمیر کرائی تھی۔۔ تربیلہ جھیل اور خانپور جھیل سیاحت کے خوبصورت ترین مراکز ہیں۔ یہاں کےزیادہ تر علاقے میدانی ہیں لیکن کچھ علاقے ڈھلوان اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر مشتمل ہیں۔۔یہاں *کٹھے اور *دوڑیں بہت زیادہ بہتے ہیں۔۔یہاں تیتر اور مرغابیوں اور ایک رشین پرندے جسے مقامی زبان میں چمبی کہتے ہیں،کا شکار کافی مشہور ہے۔۔۔۔۔ ہری پور کا موسم شدید ہے گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے۔۔ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔۔۔ ہری پور کا خوبصورت ترین موسم بہار کا ہوتا ہے جسمیں رنگ برنگ پھول جابجا کھلے پڑے ہوتے ہیں ۔۔لوکاٹ ۔۔مالٹا۔۔امرود ۔۔آلوچہ۔۔چکوترہ۔۔بیر اور لیچی یہاں کے مشہور ترین اور رسیلے پھل ہیں۔۔سبزیوں میں ہر قسم کی موسمی سبزی اور اناج وافر مقدار میں اگایا جاتا ہے۔۔۔ جانوروں کیلئے شفتل اگائی جاتی ہے۔۔۔ تانگہ یہاں کی مشہور ترین سواری ہے لیکن اب اسکی جگہ رکشے لیتے جا رہے ہیں ۔۔۔۔ ہری پور کے لوگ محنتی۔۔جفاکش۔۔اور رف ٹف ہیں۔۔۔یعنی ہر جگہ ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔۔پڑھے لکھے ہونے اور نوکریوں کی وجہ سے بہت سے لوگ اس شہر سے ہجرت بھی کر گئے ہیں۔۔ دیہاتوں کے بہت سے جوان فوج اور پولیس میں بھرتی ہوتے ہیں۔۔۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد آکر اپنے کھیت آباد کرتےہیں۔۔۔ہری پور کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ میجرجنرل صدر ایوب مرحوم کا تعلق یہاں کے ایک گاوُں ریحانہ سے تھا۔۔اسی طرح مشہور شاعر قتیل شفائی بھی اسی شہر کے باسی ہیں۔۔ڈاکٹر شیربہادرجو ہزارہ کے پہلے میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور ائیر چیف مارشل انور شمیم بھی یہیں کے باسی تھے۔۔ کمیٹی گراوُنڈ میں میلہ مویشیاں دیکھنے کا بھی اپنا ہی مزا ہوتا تھا۔۔۔ وہیں پہ سرکس اور موت کا کنواں بھی ہوا کرتے تھے۔۔مویشیوں کو سجا بنا کے لایا جاتا اور گھوڑے کا رقص بھی ہوتا تھا۔۔اسکے علاوہ نیزہ بازی یہاں کا خاص کھیل ہے۔۔۔پتھر اٹھانے کا بھی ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ہزارہ کا لوک رقص جھومر بھی بہت مشہور ہے۔۔۔ جسے مقامی زبان میں گھمبر کہتے ہیں۔۔۔یہ رقص ڈھول اور *تُری کیساتھ کیا جاتا ہے۔۔انکے ہاتھ میں لکڑی کی چٹکیاں ہوتی تھیں اور بعض اوقات ڈنڈے ۔۔بہرحال یہ ایک خوبصورت رقص ہوتا ہے حطار بھی ضلع ہری پور کا ہی حصہ ہے۔ یہ ایک انڈسٹریل سٹیٹ ہے جہاں بہت سے چھوٹے بڑے صنعتی کارخانے موجود ہیں۔۔۔ملک کی بیشتر صنعتی پیداوار یہیں سے پوری ہوتی ہے۔۔حطار کے راستے اگر ہری پور آئیں تو راستے میں کھاد فیکٹیریوں کے آثار نظر آتے ہیں جو نوے کی دہائی میں پرائیویٹائزکر دی گئیں اور آہستہ آہستہ ختم ہو گئیں ۔اسکے بعد یہ علاقہ ویران نظر آتا ہے۔۔۔۔۔یہیں کچھ آگے ہری پور یونیورسٹی ہے۔۔۔ کچھ اور آگے آئیں تو ٹیلیفون انڈسٹریز واقع ہے۔۔۔یہ بہت بڑا سیٹ اپ تھا لیکن افسوس یہ مختلف حکومتوں کی نااہلیوں کی نذر ہو گیا ۔مجھے یاد ہے میرا پہلا سکول اسی کالونی میں تھا اورکیا چہل پہل ہوتی تھی لیکن اب وہ حالات نہیں۔۔اس سے آگے آئیں تو صوبے کا سب سے بڑا سنٹرل جیل بھی یہیں واقع ہے جہاں پر صوبہ بھر کے خطرناک ترین مجرم رکھے جاتے ہیں ۔کچھ اور آگے آئیں تو ریلوے سٹیشن ہے۔ بچپن میں یہاں سے گزرتے ہوئے سیٹی بجاتی ہوئی ریل گاڑی بہت fascinate کرتی تھی۔۔۔۔ کھلابٹ ٹاوُن شپ ہریپور کے ایک سرے پہ واقع ہے جہاں تربیلہ جھیل کے پار ٹوپی صوابی کی حدود شروع ہوتی ہیں۔۔ تربیلہ ڈیم کے بننے کے بعد جب دربند کا علاقہ زیر آب آیا تو یہ ٹاوُن شپ بسایا گیا۔۔یہانپر زیادہ تر دربند کے متاثرین رہتے ہیں۔۔۔ کیاہی بچپن کی حسین یادیں جو آج بھی ماضی کے دریچوں سے پکار پکار کراپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔۔۔پھلوں کے موسم میں درختوں پر چڑھ کر لوکاٹیں کھانے اور باغوں میں رکھوالے سے نظر بچا کر امرود کھانے کا جو مزا تھا وہ آج کے امرود کھا کےکبھی نہیں آیا۔۔ جب ماسیاں ساگ توڑنے کھیتوں میں جاتیں تو ہم بھی ساتھ ہو لیتے اور انکو ساگ کیساتھ گھاس پھونس توڑ کے دیتے جس سے انکی گھرکیاں کھاتے۔۔ہریپور میں چونکہ بیشتر دیہات ہیں تو ساگ وہاں کی بڑی پسندیدہ خوراک ہے جسکو بڑی لگن سے پکایاجاتا تھا ۔تنور پہ روٹی کی خوشبو تو آج بھی سانسوں میں مہک رہی ہے۔۔باڑے میں جاکر بھینسوں کا دودھ دوہتے دیکھنا بھی ایک دلچسپ مشغلہ ہوتا تھا۔۔ہریپور کی سرزمین بہت ہی زرخیز اور ہریالی والی ہے۔۔ہر قسم کی سبزی پھل کیساتھ پھولوں کی بھی فراوانی ہے۔۔پورے ہزارہ میں بہترین نرسریز آپکو ہری پور میں ہی ملیں گی۔۔ ہریپور آکے رہنے اور گردو نواح کی سیاحت کرنے کا بہترین موسم مارچ۔اپریل۔۔اکتوبر اور نومبر ہے ۔۔اسکے علاوہ باقی مہینوں میں گرمی اور سردی ہوجاتی ہے۔۔یہاں آپکو جھیلیں بھی ملیں گی۔۔سرسبز میدان۔بھی۔۔۔گھنے باغات بھی اور ڈھلوانی اور تھوڑے پہاڑی علاقے بھی۔۔سیر و تفریح کے تمام لوازمات یہاں موجود ہیں۔۔ہوٹلز کے بارے میں میری معلومات کم ہیں جبکہ گیسٹ ہاوُسز یا سرکٹ ہاوُسز دستیاب ہو سکتے ہیں۔۔۔اس دعا کیساتھ اللہ اس خوبصورت شہر کو یونہی آباد رکھے اختتام کیطرف بڑھوں گی۔۔۔ امید کرتی ہوں کہ آپکو یہ قسط وار سلسلہ پسند آیا ہوگا۔۔۔اپنی آرا سے ضرور آگاہ کیجئے ۔۔۔ *ٹپے اور *ماہئیے لوک گیتوں کی اصناف ہیں۔۔۔ *کٹھے: صاف پانی کے نالے ۔۔۔(( بدقسمتی سے اب گدلا گئے ہیں)) *دوڑ: نالوں سے بڑا اور جھیل سے چھوٹا بہتا پانی *تُری۔۔شہنائی #تحریرآمنہ_سردار