Thursday, January 7, 2021

بلا عنوان

ڈیلیٹ کا لفظ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔۔یہ ہماری ورچوئیل زندگی میں بہت استعمال ہوتا ہے جسکا مطلب ہے حذف کرنا ۔۔۔خارج کرنایا نکالنا۔۔۔ہم بڑی آسانی سے اپنی ناپسندیدہ چیزوں کو" ڈیلیٹ" کاآپشن استعمال کرتے ہوئے اپنے کمپیوٹر،لیپ ٹاپ یا موبائل سے خارج کر دیتے ہیں۔۔۔ اسی طرح اپنی زندگی کو مثبت اور مفیدبنانے کے لئے، ناپسندیدہ افراد کو بھی اپنی زندگی سے خارج یا ڈیلیٹ کرتےجائیے۔ اسکا طریقہ بہت آسان ہے وہ ایسے کہ ایک شخص جوہمیشہ آپکے لئے پریشانی اور ذہنی تناوُ کاباعث بنتا ہو اسے اپنی زندگی سے ڈیلیٹ کیجئے۔۔ ایسے لوگوں کے ہر وقت کے منفی رویوں کو برداشت کرنے سے بہتر ہے اسکواپنی زندگی سے خارج کیجئے ۔۔۔ بظاہر یہ بہت مشکل امر ہے عملی طور پہ اتنا آسان نہیں۔۔۔ لیکن اسکاطریقہُ کار یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے منفی رویوں پر ردعمل دیناچھوڑ دیجئے۔۔۔انکی بات کو ہلکا لیجئے یعنی پروا نہ کیجئے۔۔ اپنے ذہن میں انکے نام پر کراس لگا دیجئے تو پھر انکی باتیں آپکو زیادہ پریشان نہیں کرینگی۔۔آپکی دل آزاری کاباعث نہیں بنیں گی۔۔ حقیقی زندگی میں کچھ ایسےقریبی رشتے ہوتے ہیں جنہیں چھوڑا نہیں جا سکتا نہ ہی زندگی سے نکالا جا سکتا ہے لہذا انہیں برداشت کرنے اور خاموش رہنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔۔لیکن انکے لئے بھی یہی کلیہ استعمال کیجئے کہ انکی بات کو دل پہ نہ لیں۔۔۔ اسکے لئے اپنی برداشت اور تحمل کو بڑھانا پڑتا ہےیا خاموشی کو اختیار کرنا ہڑتا ہے کہ اسکے بغیر گزارانہیں۔۔جاننے والوں یا ایسے دوستوں کو جو ذہنی تناوُ کا باعث ہوں اور انکا آپکی زندگی میں رہنا ناگزیرنہ ہو تو ان سے تعلق کم کرتے جائیں۔۔۔کیونکہ آپکا ذہنی سکون ہر چیز پر مقدم ہے۔۔۔ لیکن اپنی ورچوئیل زندگی میں جو لوگ یا دوست آپ کے لئے پریشانی کا باعث بن رہےہوں انہیں ڈیلیٹ نہ بھی کریں تو "ان فالو" اور "ان فرینڈ" کی آپشن تو موجودہی ہے۔۔خوامخوا بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے مول لینے کی بجائے ان آپشنزکا استعمال کریں یقین جانیں زندگی پرسکون ہو جائیگی۔۔۔ اب آپ سوچیں گے کہ ایک طرف تو میں نے تحمل اور برداشت کا درس دیا دوسری طرف میں نے بلکل متضاد بات کی تو عرض یہ ہے کہ عملی زندگی میں تورشتے ناطے ختم نہیں کئے جاسکتے انکے لئے وسعت پیدا کرنے کے طریقے اختیار کئے جا سکتےہیں جبکہ ورچوئیل یا سوشل میڈیا کی زندگی میں آپکے لئے قوانین مختلف ہیں کیونکہ یہ عارضی تعلق ہیں۔۔۔ بعض اوقات مخلص بھی نہیں ہوتے ۔۔۔ آپکی پوسٹ پہ خوامخواکے تلخ کمنٹ کرکے آپ کے لئے بھی ذہنی پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات دیگر لوگوں کے لئے بھی۔۔۔ یہ چند ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکو بقراطیت جھاڑنےکابڑا شوق ہوتا ہے۔۔بھلے گھر میں انکی کوئی سنتا نہ ہو لیکن سوشل میڈیا کے وہ عالم فاضل ہوتے ہیں ۔۔۔ایسےلوگوں کا بہترین علاج یہ ہے کہ انکے کمنٹس پہ ردعمل نہ دیں۔۔پھر بھی وہ باز نہ آئیں تو انکا کہا ڈیلیٹ کر دیں۔۔۔ اسکے باوجود افاقہ نہ ہو تو ان فرینڈ کی آپشن تو موجود ہے ہی۔۔۔ یہاں پہ مجھے بسوں اورویگنوں پہ لکھا جملہ یاد آ رہا ہے "پاس کریا برداشت کر " تو ایسے لوگوں کو پاس کرناہی بہتر ہے۔۔۔ یعنی ان سے گزر جانا۔۔۔ اور یقین جانئے آپ جب اس قسم کے لوگوں کو اپنی زندگی سے اپنی فرینڈ لسٹ سے اورکونٹیکٹ لسٹ سے نکالتے ہیں ایک سکون کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ ساتھ ہی یہ سوچ کہ کاش یہ بہت پہلے ہی کر دیا ہوتا ۔۔۔ آپ چاہے کسی جماعت ، کسی گروہ ، مسلک یا نظرئیے کے ماننے والے ہیں تو اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے سے گریز کیجئے۔۔۔ مثال کے طورپہ آپ کسی مخصوص جماعت سےہیں اور کوئی ایسی پوسٹ لگاتے ہیں کہ جسپر بہت زیادہ تنقید ہوتی ہے مثبت تنقید تو قابل برداشت ہوتی ہے لیکن جب لوگ طعنے تشنیع اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ ایک بہت ہی غلط تاثر جاتاہے۔۔ اسی طرح دوسروں کی پوسٹ پہ جا کر اپنا نظریہ تھوپنایا بے مقصدبحث کرنا مناسب نہیں اگر تو بات ٹھوس دلیل سے کی جائے پھر تو ٹھیک ہے لیکن بے دلیل بات اور بے مقصد بحث سے گریز بہت سی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔۔۔آپ ہر ایک سے نہ متفق ہو سکتے ہیں اور نہ ہیں اختلاف کر سکتے ہیں۔۔تعریف نہیں کرسکتے تو تنقید بھی نہ کیجئے۔۔۔ خاموشی بہتر ہے۔۔خوامخوااپنی توانائی ضاِئع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔بہتر ہے کہ یہ مثبت سرگرمی میں استعمال ہو۔۔۔لہذا اول تو ایسی پوسٹس سے ہی گریز کرنا چاہئیے اور اگر ممکن نہیں تو بتایاگیا طریقہ استعمال کیجئے۔۔۔ اکثر گروپس میں جو ادب کے نام پر بنائے گئے ہوتےہیں۔۔عجیب و غریب قسم کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے۔۔۔ اور نوبت گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ تو اس قسم کی بحث سے بھی بچ نکلنا ہی اصل حکمت ہے۔۔۔ایک دو تلخ تجربات کے بعد بندہ خود ہی سمجھدار ہو جاتا ہے۔۔۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے حقیقی لوگوں سے کٹ کر ان عارضی لوگوں سے مخاطب ہیں اور اگر وہاں بھی ہم ایکدوسرے کو احترام نہیں دے سکتے ۔۔ایکدوسرے کی بات برداشت نہیں کر سکتے تو بہتر ہے عزت سے وہاں سے نکل جائیں یا انکو اپنی زندگی سے خارج کر دیں۔۔۔۔ اج کی اس مصروف ترین اور ٹف لائف میں انسان اگر ریلیکس کرنا چاہتا ہے تو اسے ان تمام چیزوں کا خیال خود بھی رکھنا ہوگا اور دوسروں کو بھی اسپر قائل کرنا ہوگا۔۔سوشل میڈیا زندگی کا حصہ ضروربن گیا ہے لیکن ضرورت نہیں ۔۔۔ذہنی سکون کے لئے ضروری ہے کہ منفی قسم کے لوگوں ، گروپس اور پیجز سے گریز کیا جائے۔۔ عزت کیجئے اور عزت کروائیے کے تحت اپنی زندگی گزارئیے جو عزت نہیں دے سکتا اسے اپنی لسٹ سے ڈیلیٹ کردینا ہی بہتر ہے۔۔۔۔ اس تحریرمیں بہت سے لوگوں کے تجربے کا نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔امید ہے مثبت ردعمل آئیگا ۔۔۔مثبت رہئیے اور ارگرد بھی پازیٹیویٹی پھیلائیے۔۔۔ خوش رہئیے اور خوشیاں پھیلائیے یہی اصل زندگی کا مقصدہے اور ہونا بھی چاہئیے۔۔ #تحریرآمنہ_سردار Amna Sardar

Friday, January 1, 2021

کیا کھویا کیا پایا

بات شروع کرونگی 2020 کےاوائل سے جب دنیا بھرمیں لاک ڈاوُن شروع ہوا...۔۔۔ اس سے پہلے زندگی بہتے پانیوں کی طرح رواں دواں تھی۔۔۔نظام زندگی بہترین طریقے سے چل رہا تھا لیکن2019 میں چین سے شروع ہونیوالے کووڈ 19 کی وبا نے جیسے دنیا کی ہر چیز پر جمود طاری کر دیا۔۔۔ خداجانے یہ بائیو وار ہے یا اللہ کریم کی طرف سے آزمائش جو بھی ہے اس نے بڑے بڑے طرم خانوں کے کس بل نکال دئیے ۔۔شمالی و جنوبی امریکہ ۔۔یورپ ۔۔آسٹریلیا۔۔۔۔ایشیا۔۔افریقہ غرض دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ وبا نہ پہنچی ہو۔۔۔ اسکے متعلق افواہیں بھی بہت پھیلیں کہ یہ وبا خود پھیلائی گئی ہے تاکہ دنیا کی بڑھتی خوفناک آبادی پہ قابوپایا جاسکے۔چندسال پہلے بننے والی فلموں اور لکھی گئی کتابوں کے حوالے دئیے گئےکہ یہ خودساختہ وبا ہے۔۔۔جو بھی ہے اسنے دنیا کے اقتصادی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کو بہت بری طرح متاثر کیا۔۔۔اسکے بہت بد اثرات پڑے لیکن ایک مثنت نتیجہ بھی سامنے آیا کہ اخلاقی کردار اور انسانیت کھل کر سامنے آئی ۔۔۔ اس وبا سے متاثر ہونیوالے بڑی تعداد میں اس دنیا سے رخصت ہوئے جسمیں زیادہ تعداد بزرگوں کی رہی ..ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق آٹھ کروڑ سے زائد کرونا کے کیسز سامنے آئے۔۔۔اموات کی صحیح شرح اسلئے نہیں بتائی جا سکتی کہ بہت سےممالک میں کیسز رجسٹر نہیں ہوئے اور بہت سے کیسز کرونا کے علاوہ بھی گنتی میں شامل رہے۔۔۔بہرحال یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے ۔۔۔ اسمیں انسانیت یوں سامنے آئی کہ پوری دنیا بند ہو گئی لیکن ڈاکٹر مسیحاوُں کے روپ میں ڈٹ کر کھڑے رہے ۔۔نرسز۔۔پیرامیڈیک سٹاف اور ہسپتالوں کے دیگر عملے نے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر انسانیت کی بہترین مثال قائم کر دی۔۔۔۔ یہ سب لوگ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔۔۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔۔انکے خاندان متاثر ہوئے لیکن پھر بھی انکا جذبہ متاثر نہیں ہوا۔۔۔ میں سمجھتی ہوں 2020 کے سال کو ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا سال قرار دیاجانا چاہئیے۔۔۔ جہاں اس وبا نے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا وہیں اسنے بہت سے لوگوں کو بیروزگار کر دیا ۔۔۔ غربت کی شرح ایکدم سے بہت نیچے چلی گئی۔۔۔ایسے میں درد دل رکھنے والے لوگ سامنے آئے اور اپنے محروم طبقات کے بہن بھائیوں کی مدد کو آگے بڑھے۔۔۔رضاکاروں کی ٹیمیں آگے بڑھیں جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اس مشکل وقت میں ساتھ دیا۔۔۔فوج ہو یا پولیس ۔۔۔انتظامیہ ہو یا تاجر ۔۔۔ڈاکٹر و صحت کا عملہ ہو یااساتذہ، صحافی ہوں یا آرٹسٹ سب نے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کیا۔۔۔۔شروع شروع میں تو سب ایک اچنبھے کی کیفیت میں تھے ۔۔صدمےکی حالت میں تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔لیکن وقت کیساتھ ساتھ سب ماحول کے مطابق ڈھلتے گئے۔۔۔ جہاں بہت نقصان ہوا وہاں کچھ اچھی چیزیں بھی ہوئیں ۔۔لوگوں میں خلوص ۔۔ہمدردی محبت کے جذبات نظر آئے۔۔ایثار و قربانی کا جذبہ ابھرا۔۔۔ اپنے پراٙئے کی پروا کئے بغیر اس مشکل وقت میں سب ایک ساتھ کھڑے ہوئے۔۔۔ لوگ گھروں میں محصور ہوئے لیکن ایکدوسرے کی خبر گیری کرنے لگے۔۔۔وہ لوگ جوزمانوں سے غم روزگارو معاش میں الجھے تھے انکو جب فرصت میسر آئی تو انہوں نے گھر اور اہل و عیال میں دلچسپی لینی شروع کی۔۔۔مائیں جو بچوں کو موبائل اور ٹیب پکڑا کر اپنی جان چھڑاتی تھیں اب بچوں کیساتھ بیٹھ کر آن لائن کلاسز لیتی نظر آئیں۔۔۔ بچوں کو اپنے باپوں کی توجہ بھی حاصل ہوئی ۔۔روایتی کھیل دوبارہ سامنے آئے جو کہ بلکل ختم ہو چکے تھے۔۔۔ٹیکنالوجی نے ترقی کی ۔۔۔ہر شخص ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتا نظر آیا۔۔۔بہت سے آن لائن کام شروع ہوگئے۔۔ بہت سے لوگوں کو فرصت نے اپنے پرانے مشغلوں کی طرف راغب کیا۔۔۔ کوئی کتب بینی کیطرف مائل نظر آیا اور کوئی باغبانی کی طرف ۔۔کسی نے اپنی کوکنگ کے جوہر آزمائے اور کسی نے اپنے زنگ آلود ہنر کو چمکایا ۔۔۔ یوں معلوم ہونے لگا جیسے تیس پینتیس سال پہلے کا زمانہ لوٹ آیا ہو جب لوگ زیادہ تر اپنے گھروں میں رہتے اور گھر بار،اہل وعیال و خاندان کیساتھ بیشتر وقت بتاتے تھے۔۔ ایکدوسرے کی فکر کرتے تھے جب نفسا نفسی کا عالم نہیں تھا۔۔جب بے غرضی تھی اخلاص تھا۔۔۔ اپناپن تھا۔۔۔ 2020 میں یقیناً بہت کچھ کھویا ۔۔لوگوں نے اپنے پیارے رشتے کھوئے۔۔اپنے کاروبار ۔۔اپنا ذریعہ معاش کھویا لیکن بہت کچھ پایا بھی۔۔۔اخلاص۔۔۔اپنائیت ۔۔۔ہمدردی ۔۔۔ایثار اور محبت۔۔۔ سب کچھ جیسے فطرت کی طرف لوٹ آیا۔۔۔۔روایات زندہ ہو گئیں ۔۔اقدار واپس آگئیں ۔۔۔ماحول صاف ہوگیا۔۔۔ چرند پرند فضاوُں میں آزادی سے چہکنے لگے۔۔۔ آسمان شفاف نظر آنے لگا۔۔۔ بہتا پانی ۔۔۔بہتے جھرنے ۔۔۔فضا سب آلودگی سے پاک ہوگئے۔۔۔ انسانوں میں صفائی کی عادت کو فروغ ملا۔۔۔ بہت سی اچھی اقدار دوبارہ سماج کا حصہ بنیں۔۔۔ بحیثیت مجموعی انسانوں کی عادات و اطوار میں بہتری آئی ۔۔۔ لب لباب تحریر کا یہ ہے کہ کچھ کھویا تو کچھ پایا بھی ۔۔۔۔ رب تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ امسال یہی سب اقدار و اطوار ہم انسانوں میں موجود رہیں لیکن اس وبا و دیگر ایسی ہی موذی بیماریوں سے اللہ پاک محفوظ و مامون رکھے آمین۔۔۔۔ #تحریرآمنہ_سردار