Sunday, October 21, 2018

چادر کی حرمت

سوشل میڈیا پہ چلنے والی پوسٹس دیکھیں ۔جسمیں پنجاب میں شعبہ صحت کی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کی طرف سے دوپٹے لازم  کرنے کاکوئی ذکر نظر آیا ۔بعد میں اس کی تردید بھی کی گئی ہے۔ زیادہ تفصیلات نہ مل سکیں لیکن  اسمیں کیا قباحت ہے اگر دوپٹے کرنے کا کہا گیا ہے۔ شلوار قمیص اور دوپٹہ تو ہمارا قومی لباس ہے۔ اور اگر دینی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو پھر تو باقاعدہ پردہ بنتا ہےخواتین کااس ملک میں۔ چلئیے ابھی اس دینی بحث کو رہنے دیتے ہیں۔
مجھے حیرانی ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ دوپٹہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔   سمجھ نہیں آتی وہ کونسی ترقی ہے جسمیں دوپٹہ حائل ہوتا ہے.بہرحال جو لوگ نہیں کرنا چاہتے وہ یہ عذر گھڑ لیتے ہیں۔لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ دوپٹہ اور چادر تو عورت کے وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔نہ یہ کسی کی ترقی کی راہ میں حائل ہوا نہ رکاوٹ بنا۔ حتیٰ کہ اس ملک کی کچھ نامور خواتین نے تو برقع پہن کر بھی زندگی کے ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ اگر ماضی میں جھانکیں تو آپ کو یاد آئے گا کہ پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ شکریہ خانم ایک پردہ دار خاتون تھیں ۔ انکے لئے تو برقع رکاوٹ نہیں بنا۔ انکا نام تو تاریخ میں پہلی خاتون  پائلٹ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ اگر میں کھلاڑیوں کی مثال لوں تو بہت سی خواتین  کھلاڑی حجاب پہن کر کھیلتی ہیں انکے کھیل پر تو انکا حجاب اثر انداز نہیں ہوا۔ محترمہ فاطمہ جناح ، بیگم رعنا لیاقت علی خان ، بے نظیر بھٹو ، بیگم کلثوم نواز جیسی نامور خواتین نے ہمیشہ سروں پہ دوپٹے لئے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم رہیں لیکن انہوں نے قومی لباس کی عزت رکھتے ہوئے ہمیشہ سر پہ دوپٹہ لیا۔ اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین برقع، گاوُن ، حجاب، سکارف ،دوپٹہ اور چادر پہنتی ہیں جنمیں افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی ہیں، پولیس سے تعلق رکھنے والی بھی ، CSP آفیسرز بھی ہیں ججز بھی ہیں اور خواتین وکلاء بھی۔پروفیسرز بھی ہیں اور سانئسدان بھی۔ ڈاکٹرز بھی ہیں اور نرسز بھی۔  سیاستدان خواتین بھی ہیں اور عاصمہ شیرازی جیسی اینکرز بھی۔  لیکن انکی کارکردگی پر، انکے کام پر تو کوئی منفی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ خواتین مکمل خوداعتمادی سے اپنے متعلقہ فرائض بہ احسن طریقے سے انجام دیتی ہیں۔
اگر اپنی مثال پیش کروں تو اسمبلی میں پانچ سال گزارے اور الحمداللہ اپنی طرف سے بہترین وقت گزارا۔ اسمبلی بزنس میں ٹاپ 10 لوگوں میں نام رہا، اپنے علاقے کےاور جنرل مسائل پر آواز اٹھانے کے حوالے سے سرفہرست رہا چار ممالک کے دورے کئے۔ یورپ اور برطانیہ میں برقع کیساتھ گئے ۔ میرے ساتھ پانچ اور خواتین بھی برقع والی تھیں لیکن الحمداللہ ہاوُس آف کامنز اور ہاوُس آف لارڈز میں شرکت کی اور West Minister Abbey میں ہونیوالی تمام میٹنگز میں ویمن پارلیمنٹری کاکس کی وائس پریذیڈنٹ کی حیثیت سے پاکستان کی بھر پور نمائندگی بھی کی اور بہترین تاثر بھی چھوڑا۔جینوا کے UN ہیڈ کوارٹرز میں بھی یہی تمام خواتین  تھیں جنہوں نے تمام  میٹنگز میں شرکت کی اور برما میں ہونیوالے ظلم کیخلاف آواز بلند کی۔ ہم خواتین کو تو کوئ رکاوٹ نظر نہیں آئی۔ سیاست میں اسکے علاوہ اور بھی مثالیں موجود ہیں جیسے سمعیہ راحیل صاحبہ، عائشہ سید صاحبہ، نعیمہ کشور جیسی باکمال سیاستدان خواتین جنہوں نے اسمبلی فلور پر ہر مسئلے کو اجاگر کیا۔
اگر آپ دینی نقطہُ نظر سے اس کو نہیں دیکھتے تو کم از کم معاشرتی و ثقافتی انداز میں ہی لے لیں۔ کہ یہ ہمارے اس خطے کی ثقافت ہے۔ اسی ثقافت کے فروغ کے لئے ہی ہم دوپٹے یا چادر کا استعمال کریں۔ لباس ہر ملک اور کلچر کی پہچان ہوتا ہے۔ ہماری پہچان شلوار قمیص اور دوپٹہ یا چادر ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے کہ اگر آپ چادر اور دوپٹہ لیں گے تو دقیانوسی کہلائیں گے۔ ایسا نہیں ہے بہت سی پڑھی لکھی خواتین جو بظاہر پردہ کرتی ہیں وہ ذہنی طور پر بہت  سی بے پردہ خواتین سے زیادہ باشعور ہوتی ہیں ۔  وہ بچیوں کی تعلیم کے حق، انکی مرضی سے شادی کے حق، وراثت کے حق اور بزنس یا نوکری کرنے کے حق کی حامی ہوتی ہیں۔
ایک دور تھا جب پی ٹی وی کے خبرنامے اور اناوُنسرز سروں پہ دوپٹے لیتی تھیں تو بہت باوقار دکھائی دیتی تھیں۔ گو کہ دوپٹہ کرناہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ ایک قومی لباس کی حیثیت سے اسکو لباس کا حصہ ضرور بنایا جائے۔
دوپٹہ /چادر ایک مسلمان اور پاکستانی عورت کی پہچان یے ۔ اور اسکو اپنی اس پہچان کے تقدس کو بحال رکھنا چاہئیے ۔

No comments:

Post a Comment