Thursday, May 2, 2019

پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوُ گے . فبای آلاء ربکما تکذبٰن


آج بہت اداس ہوں۔۔۔ اپنی تخلیق پہ غور کر رہی ہوں کہ خدا نے مجھے کتنا مکمل بنایا۔کسی چیز کی کمی نہیں دی۔ کتنا شکر ادا کرتی ہوں میں؟؟؟؟۔۔۔۔۔جتنا بھی کروں کم ہے۔یہ خیال اس وقت آیا جب میں سپیشل ایجوکیشن سکول میں سپیشل بچوں سےملنے گئی۔ وہاں بچوں کا چھوٹا سا فنکشن تھا ، celebration بھی تھی۔۔۔۔۔مختلف بچے تھے جوdownsyndrome,  deafness  
,  low blindness , handicap
کا شکار تھے۔وہ بچے گپ شپ بھی کر رہے تھے
 ، ہنس بول بھی رہے تھے،  انجوائے بھی کر رہے تھے۔۔ جتنی دیر میں وہاں رہی ان بچوں کے ساتھ  involve رہی ۔ لیکن گھر آکر طبیعت پر ایک بوجھ سا تھا  کہ ہم کتنے نا شکرے ہیں۔وہ بچے اپنی کمیوں کے ساتھ بھی مطمئن ہیں اور ہمارے پاس دنیا کی تمام نعمتیں ہیں، مکمل اعضاء ہیں ، صحت ہے، تندرستی ہے لیکن پھر بھی ہم لوگ مطمئن نہیں۔ جوہمارے پاس نہیں ہے، جو ہمیں پسند نہیں ہے،اس پہ ہمارا رونا جاری رہتا ہے اور جو ہے اس پر شکر گزاری نہیں ،احسان مندی نہیں۔سورہ رحمٰن پورے ترجمے کیساتھ میری آنکھوں کے آگے آ گئی اور کانوں میں گونجنے لگی 
فباُٙئ آُ لاء ربکما تکذبٰن 
یہ آواز آتے ہی آنکھوں سے سجدے ٹپک پڑے ۔ اس شکرانے کے جو عموماً ہم ادا نہیں کرتے ، جو ہم اپنا حق سمجھتے ہیں،جو ہم خدا سے چھیننے سے بھی نہیں چوکتے ۔ 
اگر ہم اپنے رب کے احسانات گننے لگ جائیں تو وقت ختم ہو جائےساری دنیا کے سمندر سیاہی اور سارے درخت قلم بن جائیں تو بھی  اسکے احسانات کی فہرست ختم نہیں ہو گی۔ سورہ رحمٰن میں صرف33 بار اللہ نے پوچھا کہ " پس تم اپنے رب کی  کون کو سی نعمت کو جھٹلاوُ گئے " اگر اس ایک آیت کو ہی ہم روزانہ سوچ اور سمجھ کر پڑھ لیں تو ہمارے آدھے دلدر دور ہو جائیں ۔ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہ رہے کوئی حاجت ہی نہ رہے۔۔۔
 اللہ کریم ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پراستقامت دے دیں لیکن ہم ناشکرے لوگ ایسا سوچتے کب ہیں۔۔قرآن کریم میں ہی اللہ سبحانہْ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ " بے شک انسان عجلت پسند ناشکرا ہے۔" جب میرے رب نے ہی اپنے بندے کی وضاحت کر دی تو ہم کیا کہنے کے اہل  ہیں بھلا۔ ہماری کیا اوقات اس ہستی کے سامنے۔۔۔ پیغام فقط یہ ہے کہ 

*جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے*

اگر یہ بات سمجھ آجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی عاقبت اس دنیا میں رہتے ہوئے سنوارنہ  پائیں۔۔کچھ دوسروں کے لئے کرجائیں۔۔ کچھ اپنے ہاتھ خالی نہ لےکر  جائیں اسکے حضور۔ وہاں آخرت میں اس سے منہ چھپاتے نہ پھریں۔۔۔دوسروں کے وسیلے نہ تلاش کرتے  پھریں۔اس میدان میں رسوائی سےبچنے کے لئے ، اسکے حضور سیاہ رو لئے نگاہیں نہ چرا رہے ہوں بلکہ روشن چہروں کیساتھ ، شادمانی لئے اسکے حضور حاضر ہوں۔۔ فتح اور کامرانی  ہمارے انگ انگ سے پھوٹی پڑ رہی ہو۔۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اللہ کے بنائے ہوئے ان بندوں کی خدمت کے لئے کوشاں ہوں ، جدو جہد کریں۔انکے حقوق پورے کریں۔ ان تمام لوگوں کے جنکا ہم پر حق ہے۔ معاشرے کے کمزور لوگوں معذور، یتیم ، بے سہارا، کی طاقت بنیں۔ جن لوگوں کا میں نے ذکر کیا یہ ہمارے لئے عطیہُ خداوندی ہیں۔ اللہ کریم انکے ذریعے ہماری آزمائش کرتا ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس آزمائش میں پورے اتریں۔۔۔
معاشرے کے محروم طبقات جیسے معذور افراد، نابیناافراد ،یتیم بچے، ضعیف لوگ ان سب کو سہولتیں فراہم کرنے، انکی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنےکے لئے جُت جائیں ۔ ہماری نمازیں،ہماری عبادات ،ہمارے عمرے، ہمارے حج ہماری قربانیاں ہمارے لئے ہیں لیکن ہماری زکوٰة ، ہمارے  صدقات اور تمام charitiesاللہ کے لئے اور  انہی لوگوں کے لئے ہیں۔ہمارا وقت، ہماری محبت، ہمارا اخلاص ، ہماری صلاحیتں سب اللہ کے لئے اور اللہ کے ان بندوں کی امانت ہے۔ دعا ہے کہ ہم سب یہ امانت احسن طریقے سے انکے مستحقین تک پہنچائیں۔انکی ضروریات ذندگی کو اپنی لایعنی ضروریات پہ ترجیح دیں۔ خود اس احسن عمل کو کرنے میں سبقت کریں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ بنکر انکو بھی اس راہ  کی ترغیب دیں
 
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں 
بٙنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے 
میں اسکا بندہ بنوں گا جسکو 
خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

جب ہم خدا کی راہ میں آگے بڑھیں گے تو بہت سے لوگ ہماری طرف بڑھیں گے۔خدا کا بندہ مخلوق کا بھی پسندیدہ ہو جاتا ہے۔۔ اور مخلوق کا پسندیدہ بننے کے لئے ہم دنیا میں کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔
رمضان کی برکتوں سے فیض یاب ہوتے ہوئے ہم اللہ کی  رحمتوں کے امیدوار بن سکتے ہیں۔فقط تھوڑا سا اپنی خواہشات پر قابو پانے کی بات ہے۔اور اللہ کی راہ میں لگانے کی بات ہے۔۔۔اور کیا چاہئیے۔

اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو
اور ہمیں نیکیوں میں سبقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ثم آمین