Sunday, November 10, 2019

نبی کریم ﷺ کی خانگی زندگی۔۔۔

۔

میں کیا اور میری اوقات کیا کہ نبی ﷺ کی مدح سرائی کر سکوں لیکن ایک ادنیٰ سی کاوش ہے آپؐ کے حضور ہدیہُ عقیدت پیش کرنے کی ۔۔۔
آج ہم بات کرینگے آپ ﷺکی ازواج مطہرات اور انکے ساتھ آپکے تعلق کی۔۔۔۔ نبی کریم ﷺکو امت کے بالمقابل یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ آپ مختلف اغراض کے پیش نظرچار سے زائد شادیاں کر سکتے تھے ۔۔ چنانچہ جن عورتوں سے آپ نے عقد فرمایاانکی تعداد گیارہ تھی۔۔۔ جن میں سے نو ازواج مطہرات آپ  ﷺ کی وفات کے وقت حیات تھیں جبکہ دو خواتین آپکی زندگی میں ہی وفات پا چکی تھیں یعنی حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت زینب بنت خزیمہؓ  ۔۔۔ذیل میں ان ازواج مطہرات کے نام اورانکے مختصرحالات  پیش کئے جا رہے ہیں ۔۔۔ 
١)حضرت خدیجةالکبریٰ سے تو کون مسلمان ہے جو واقف نہیں ۔۔آپؐ کی پہلی زوجہ محترمہ۔شریک حیات، شریک غم، ہمدم و دمساز و غمگسار۔۔۔پہلی مسلمان خاتون۔۔۔آپؓ سے نبی کریمﷺ  کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ان ہی کے بطن سے تھیں ۔۔۔
٢) حضرت سودہؓ بنت زمعہ حضورؐ کے چچازاد بھائی سکران بن عمرو کی بیوہ تھیں اور آپؐ نے بی بی خدیجہ ؓ کی وفات سے چند دن بعد ان سے نکاح کیا۔۔۔
٣) حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابی بکرؓ سے آپؐ کا نکاح نبوت کے گیارہویں سال ہوا جبکہ رخصتی شوال سن ١ھ میں ہوئی ۔انکی عمر اسوقت ٩ برس تھی(مختلف جگہوں پر مختلف روایات ہیں )۔۔۔ حضرت عائشہ آپؐ کی واحد باکرہ زوجہ تھیں ۔۔۔ اور سب سے محبوب ترین بیوی بھی ۔۔مسلمان عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہہ اور صاحب علم تھیں ۔۔۔
۴) حضرت حفصہ بنت عمر ؓ خنیس بن حذافہ کی بیوہ تھیں ان سے آپؐ نے ٣ ھ میں نکاح کیا۔
۵) حضرت زینب بنت خزیمہؓ انکالقب ام المساکین تھا کیونکہ انتہا درجے کی رحمدل اور خداترس تھیں ۔عبداللہ بن جحش کی بیوہ تھیں جو جنگ احد میں شہید ہوئے تو ۴ھ میں آپؐ کے عقد میں آگئیں ۔۔۔لیکن صرف آٹھ ماہ بعد وفات پاگئیں ۔۔۔آپکا تعلق قبیلہ بنو ہلال سے تھا ۔۔
٦) ام سلمہ بنت ابی امیہ ؓ یہ ابوسلمہؓ کی بیوہ تھیں ۴ ھ میں آپؐ کے عقد میں آئیں ۔
٧)زینب بنت جحش ؓ یہ قبیلہ بنواسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں اور آپؐ کی پھوپھی زاد تھیں ۔انکا نکاح آپؐ کے منہ بولے بیٹے  زید بن حارث سے ہوا لیکن انکے ساتھ آپکا نباہ نہ ہو سکا تو انہوں نے طلاق دے دی۔۔خاتمہُ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی ۔۔"جب زید نے ان سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے انہیں آپکی زوجیت میں دے دیا "٣٧:٣٣۔۔۔۔۔۔حضرت زینب سے آپ ؐ کی شادی ۵ ھ میں ہوئی ۔۔۔
٨) جویریہ بنت حارثؓ یہ قبیلہ خزاعہ کے سردار کی بیٹی تھیں ۔۔یہ بنو مصطلق کے قیدیوں میں لائی گئ تھیں اور حضرت ثابت بن قیس کے حصے میں آئی تھیں انہوں نے ان سے مکاتبت کرلی یعنی مقررہ رقم پہ آزاد کرلیاآپؐ نےانکی طرف سے مقررہ رقم عطا فرمائی اور ان سے ۵/٦،ہجری میں  شادی کر لی ۔۔۔
٩) ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان ؓ ۔یہ عبیداللہ بن جحش کی بیوی تھیں انکے ساتھ حبشہ ہجرت کی لیکن انکے شوہر مرتد ہوگئے اور وہیں انتقال ہوا۔۔لیکن یہ اپنی ہجرت اور ایمان پہ قائم رہیں۔۔رسول ﷺ نے نجاشی کو عمرو بن امیہ کے ہاتھ ایک خط دیکر بھیجا اور اسمیں ام حبیبہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا۔۔۔ یہ ٧ ہجری کا واقعہ ہے۔۔۔
١٠) حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ یہ بنی اسرائیل سے تھیں اور خیبر میں قید کی گئی تھیں لیکن آپ ﷺنے انکو اپنے لئے منتخب کیااور آزاد کر کے شادی کر لی یہ فتح خیبر کے بعد ٧ ہجری کا واقعہ ہے ۔۔
١١) حضرت میمونہ بنت حارثؓ یہ حضرت ام لفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں ۔۔ان سے رسول ﷺ نے عمرہُ قضا سے فارغ ہونے کے بعد٧ہجری میں  احرام سے حلال ہونے کے بعد شادی کی ۔۔۔
یہ گیارہ بیویاں تھیں جو نبی کریم ؐ کے عقد میں رہیں اور آپؐ کی صحبت و رفاقت میں رہیں ۔۔ان میں سے دو بیویاں آپؐ کی حیات میں فوت ہوئیں اور نو بیویاں آپؐ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔۔۔۔
جہاں تک لونڈیوں کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے دو لونڈیوں کو اپنے پاس رکھا ایک ماریہ قبطیہ ؓ جنہیں فرمانروائےمصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا   اور انکے بطن سے آپکے بیٹے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے ۔
دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں انکا تعلق یہود کے قبیلہ بنی نظیر یا بنی قریظہ سے تھا ۔یہ بنو قریظہ کے قیدیوں میں تھیں ۔رسول ﷺ نے انکو اپنے لئےمنتخب فرمایااوروہ آپکی لونڈی تھیں۔۔۔

آپ ﷺ کی پہلی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی جو آپکے جوانی کے عمدہ ایام تھے۔۔۔ اسی دور میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اولاد کی نعمت سے بھی نوازا جو کہ ایک نارمل زندگی کی نشاندہی کرتی ہے ۔۔۔ آپؐ کی اتنی شادیوں کے پیچھے کچھ اغراض و مقاصد تھے ۔۔۔جنکے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مثالیں قائم کیں ۔۔۔ جو عام شادیوں سے بہت ہی زیادہ عظیم اور جلیل المرتبہ تھے۔۔۔ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ کی بیٹیوں سے عقد ان جلیل القدر اصحاب سے تعلقداری کا ذریعہ تھا اسی طرح آپﷺ نے اپنی بیٹیوں کے رشتے حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کو دیئے وجہ یہ تھی کہ یہ  چاروں  جلیل القدر اور بلند مرتبہ اصحاب پیچیدہ ترین دور میں اسلام کیلیئے فداکاری کا امتیازی وصف و جذبہ رکھتے تھے ۔۔۔
عرب کا دستور تھا کہ وہ رشتہُ مصاہرت کا بڑا احترام کرتے تھے انکے نزدیک دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے درمیان قربت کا ایک اہم سبب رھا اور داماد سے جنگ لڑنا اور محاذ آرائی کرنا بڑے شرم اور عار کی بات سمجھی جاتی تھی ۔۔اس دستور کو سامنے رکھکر آپﷺ کو چند شادیاں کرنی پڑیں   ۔۔اسکے علاوہ ان سب سے عظیم بات یہ ہے کہ رسولﷺ ایک غیر مہذب قوم کو تربیت دینے ، اسکا تزکیہُ نفس کرنے اور تہذیب و تمدن سکھانے پر معمور تھے ۔۔آپ ﷺ نے مختلف عمر اور لیاقت کی اتنی عورتوں کو منتخب فرمایا جو عورتوں کی تعلیم وتربیت میں معاون ثابت ہوں انکی تعلیم، تربیت، تزکیہ نفس کریں اور مسائل شریعت سکھا سکیں ۔۔۔۔
نبی کریم ﷺ کا ایک نکاح ایک ایسی جاہلی رسم توڑنے کے لئے بھی عمل میں آیا جو عرب معاشرہ  میں پشت ہا پشت سے چلی آ رہی تھی کہ متبنیٰ کو حقیقی بیٹے کے برابر جانا جاتا تھا۔۔۔ اسکی حرمت اور حقوق بھی حقیقی بیٹے کے برابر تھے۔۔جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب سے آپکا نکاح کروا کر ان سبکو باطل ثابت کر دیا ۔۔۔
امہات المومنین کیساتھ آپ ﷺکی زندگی انتہائی بلندپایہ، شریفانہ ، باعزت اور عمدہ انداز کی تھی ۔ازواج مطہرات بھی شرف ، قناعت ، صبر تواضع خدمت اور ازدواجی حقوق کی نگہداشت کا مرقع تھیں۔۔۔ آپؐ اپنی ازواج سے انتہائی شفیق رویہ رکھتے تھے۔۔۔ انکے اوپر خوامخوا کے کاموں کا بوجھ نہیں ڈالتے تھے بلکہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔۔۔ روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کیساتھ آپؐ نے  دوڑ کا مقابلہ بھی کیا  ۔ازواج سے لطیف انداز میں گفتگو بھی آپؐ کا وطیرہ تھی۔۔۔ ایکدفعہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ آپ ؐ سے گلے شکوے کر رہی تھیں اور آپؐ مسکرا کر انکا جواب دے رہے تھے۔۔۔۔ کبھی اپنی ازواج کیساتھ نہ سخت کلامی فرمائی نہ ترش روئی سے پیش آئے ۔۔آپ ﷺ سراپا رحمت تھے۔۔۔سراپاالفت تھے۔۔۔۔ آپ ؐ نے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بیویوں کی باریاں  مقرر کر رکھی تھیں  گو کہ آپﷺ  پر اپنی بیویوں کے بارے میں باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے محبت و الفت کو برقرا ر رکھنے کے لئے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر فر مایا تھا جس کی آپ ﷺ پابندی کرتے تھے اور کبھی کسی وجہ سے ایک کے پاس تشریف لے جاتے تو پھر ساری ازواج مطہرات کے پاس خبر گیری کے لئے تشریف لے جاتے ۔آپ ﷺ کے اسی بے مثال محبت کا نتیجہ تھا کہ ازواج مطہرات میں سے ہر ایک اپنے آپ کو آپ ﷺکے سب سے زیادہ قریب سمجھتی تھیں۔
جب آپ ﷺ سفر میں تشریف لے جاتے تو خاص اپنی مرضی سے کسی کو لے جا سکتے تھے مگر آپ ﷺ قرعہ اندازی فر ماتے اور جن کانام نکلتا ان کو لے جاتے ۔زندگی بھر آپ ﷺ انہیں اصولوں پر قائم رہے یہاں تک کہ زندگی کے آخر لمحات میں جب کہ آپ ﷺ کی طبیعت بڑی ناساز تھی اس وقت بھی اس کا مکمل خیا ل رکھا اورجب سب کے پاس جانے کی طاقت نہ رہی تو آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے حضرت عائشہ کے حجرے میں رہنے کی ’اجازت مانگی‘ جسے سارے ازواج نے بخوشی قبول فر مالیا۔

اور ان سب کے باوجود آپ ﷺ اپنے رب کریم سے دعا مانگتے کہ:اے میرے مولیٰ!جو برابری میرے بس میں تھی وہ میں نے کی لیکن جس بات پر میں قادر نہیں اس پر مجھے ملامت نہ فرما۔

حوالہ جات
(نسائی،کتاب عشرۃ النسائ
 رحیق المختوم
تحریر آمنہ سردار

یہ میر ی ایک کاوش ہے۔۔۔۔
اللہ کریم اسے قبول فرمائے آمین ۔۔۔اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو رب تعالیٰ سے معافی کی خواستگار ہوں ۔۔۔

Wednesday, November 6, 2019

کیا جنگ مسائل کا حل ہے

۔۔۔۔۔
ہم بھی کیا سادہ لوح لوگ ہیں  جواپنے مسائل کے حل کے لئے دوسروں کی جانب نظر کرتے  ہیں ۔۔۔خود آگے بڑھکر اس مسئلے کو نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہی اسکو حل کرنے کی ۔۔۔۔ یہ ہماری کمزوری بھی ہے اور کوتاہی بھی ۔۔۔۔اس پر قابو پانا سب سے اہم ہے۔۔۔۔مسئلے ملک کے اندرونی معاملات کے ہوں یا بیرونی ہم نے عادت بنا لی ہے کہ اس کے حل کے لئے دنیا بھر کے لوگوں کو امید افزا نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں ۔۔۔ ملکی مسائل کے لئے ہماری نظر امداداور قرضوں پر لگی رہتی ہے جبکہ ملکی سالمیت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہم اقوام متحدہ کی طرف نظر کئے ہوتے ہیں۔۔۔۔اور وہاں سے طبل جنگ بج اٹھنے کا اعلان ہوتا ہےبجائےمصالحت کے۔۔
آجکل دنیا میں مسائل کی بھر مار ہے اور یہ مسائل بھی خود حضرت انسان کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔۔۔دنیا امن کا گہوارا توخیر کبھی نہیں رہی لیکن آج کی دنیا گزرے وقت کی دنیا سےقدرے بہتر تھی۔۔ہتھاروں اور اسلحےکی ایجادسےپہلے ۔۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی  سے  پہلے۔۔۔ایٹمی ہتھیاروں اور نیوکلیئیر بم کی دریافت و ایجاد سےپہلے دنیا بہت بہتر حالت میں تھی۔۔۔۔ لیکن پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے تواتر نے دنیا کو حالت جنگ میں ہی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ایک صدی گزرنے کے بعد بھی دنیا پہلی جنگ عظیم کے اثرات سےابھی تک مکمل طور پر  باہر نہیں آ پائی ۔۔۔۔ آئے دن کچھ نہ کچھ۔۔۔کہیں نہ کہیں   لڑائیاں چِھڑی ہوتی ہیں۔۔۔۔یہ ان پچھلے اثرات کی بدولت ہی ہیں ۔۔۔حالات کو گفت و شنید سے درست کرنے کی بجائے ہتھیار اٹھا لئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔مصالحت کی بجائے جنگ کے لئے رستہ ہمور کیاجاتا ہے  ۔۔لڑائیاں  مذاکرات کی راہ بند کر دیتی ہیں۔۔۔۔ بجائے اس کے مسئلے پر بات بیٹھ کر ہو اسے جنگ کے الاوُ میں جھونک دیا جاتا ہے ۔۔۔جس سے مسائل کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے جاتے ہیں اوریوں یہ  جنگ دنیا بھرکو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جاتی ہے۔۔۔۔ 
سوال یہ اٹھتا ہے کیا جنگ مسائل کا حل دے گی۔۔۔۔تو ایسا نہیں ہے ۔۔۔جنگ مسائل کا حل نہیں  بلکہ مزید مسائل کا پیش خیمہ ہے ۔۔۔۔۔ جنگ  پہلے سے بڑھکر بڑے مسائل  کو جنم دیتی ہے ۔۔۔دنیا بھر میں ہونیوالی جنگوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ دنیا میں کتنی تباہی اور بربادی ان جنگوں نے پھیلائی ہے ۔۔۔۔ جس مسئلے کو نقطہ بنا کر جنگ شروع کی گئی وہ برسوں گزرنے کے بعد بھی جوں کا توں وہیں موجود ہے۔۔۔۔اس سے نا صرف وہ خطہ متاثر ہوتا ہے بلکہ اسکے اثرات پوری دنیاپر پڑتے ہیں۔۔۔معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔۔۔۔ لوگ اپنی جانوں سے تو ہاتھ دھوتے ہی ہیں۔۔۔انکے خاندان ایک تباہ حال زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ خوشحالی بدحالی میں۔۔۔ترقی تنزلی میں۔۔۔۔ عروج زوال میں بدل جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جنگیں چلتی رہتی ہیں اور ساتھ تباہی کے در وابھی کئے رکھتی ہیں۔۔۔۔ کشمیر۔۔۔فلسطین۔۔۔۔بوسنیا۔۔۔افغانستان ۔۔۔۔۔انکو جنگ نے کیا دیا الٹا ان ممالک کو غربت اور تنزلی کی چکی میں پسنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔ یہ ممالک چاہ کر بھی واپس اپنی جگہ پر نہیں آسکتے۔۔۔اسکے لئے انکو بہت وقت درکار ہے۔۔۔۔۔ بڑی طاقتیں جو انکے استحصال کے لئے ہمہ وقت پنجے تیز کئے بیٹھے ہوتی ہیں۔۔۔۔ جو ان غریب پسماندہ ممالک کی قسمتوں کے فیصلے کرتی ہیں۔۔۔ جو انکے حقوق سلب کرتی ہیں ایسے خاموشی سے کہ انکو خبر تک نہیں ہوتی۔۔۔۔ اب ہتھیاروں کی جنگ سے نکل کر عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔۔۔۔اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہو گی۔۔۔۔اپنے نامساعد حالات۔۔۔۔ بدتر معیشت ۔۔۔ اور غربت و تنزلی سے نکل کر اپنی آواز کوایسے فورمز پر اٹھانا ہوگا جہاں انکی شنوائی ہو۔۔۔۔ اپنی پست آواز میں جان خود پیدا کرنی ہو گی۔۔۔اور یہ سب اسی وقت ممکن ہو گا جب حالت جنگ سے نکل کر اپنے حالات کا جائزہ لیاجائے  اور ان سے نمٹنے کے اسباب کئے جا سکیں۔۔اسکےلئےمحنت ۔۔۔اخلاص ۔۔اتحاد ۔۔عزم اور استقامت کی ضرورت ہے۔۔۔۔ہمارے سامنے نیلسن مینڈیلا جیسے عظیم شخص کی مثال موجود ہے جو ہمت۔۔۔۔ جہدِ مسلسل اوراستقامت کا پیکر نکلا۔۔۔جسنے اپنی عوام کو غربت ۔۔۔بے چارگی اور غلامی سے نکال کر ایک باحوصلہ قوم بنایا۔۔۔۔
ضروری نہیں ہے کہ ہتھیاروں کی جنگ سے دوسرےکو شکست دی جائے۔۔۔دلائل۔۔۔مذاکرات۔۔مباحث ۔۔مناظرے ۔۔۔ان سب کے دروازے کھلے ہیں۔۔انکے ذریعے بھی اپنے ملک۔۔قوم۔۔نسل۔۔کے لئے لڑا جا سکتا ہے ۔۔۔انکے حقوق کے لئے آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔۔۔انکے مفادات کا تحفظ ممکن ہے ۔۔۔۔لیکن المیہ یہ ہے کہ چھوٹے اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے۔۔۔ان کی فریاد رسی کی بجائے انپر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے چاہے وہ ہتھیاروں کی جنگ ہو۔۔۔۔معیشت کی جنگ ہو۔۔۔۔ثقافت کی جنگ ہو ۔۔ میڈیا کی جنگ ہو یا آجکل ففتھ جنریشن  وار کی جنگ ہو۔۔۔۔ جنگ تو جنگ ہوتی ہے چاہے وہ کسی طور بھی لڑی جائے ۔۔۔ غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کو ملکر کوئی ایسا فورم تلاش کرنا ہو گا  جہاں انکی بات کو وزن دیا جائے۔۔۔۔انکے مسائل کو دیکھا جائے سنا جئے ۔۔۔۔ ۔انکے حل کا سد باب کیا جائے ۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے یہ طاقتور کہلانے والے ۔۔۔۔ترقی یافتہ ممالک خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔یہ چھوٹے ممالک کو آپس میں لڑا کر خود کو اور محفوظ و مضبوط سمجھتے ہیں۔۔۔۔ ففتھ جنریشن وار ان ہی کا نیا حربہ ہے کہ اب ہتھیاروں کی بجائے انکو جدید طریقوں سے ہراساں کیا جائے ۔۔۔اب انکو نفسیاتی مار ماری جائے۔۔۔معاشی طور پہ کھوکھلا کیا جائے۔۔۔ثقافتی طور پہ انکی اقدار کا جنازہ نکالا جائے ۔۔۔یہ ہے طاقتور دنیا کی نئی بساط ۔۔۔۔ ففتھ جنریشن وار۔۔۔۔ اس قسم کی جنگ سے اس دنیا کے ٹھیکیداروں کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ کم خرچ بالا نشینی والی حکمت عملی کے تحت ہے کہ جس میں نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے کے مصداق صرف پراپیگنڈےکے ذریعے۔۔۔میڈیا وار کے ذریعے اقوام کو خوف وہراس میں مبتلا کر کے نفسیاتی طور پہ کمزور اور دنیا سے الگ تھلگ کرنا ہے۔۔۔اس میں ہمارے پاس دو مختلف امثال موجود ہیں۔ایک ایران کی جو امریکہ کے پراپیگنڈے کی نذر ہوا اور عراق کی جسے ففتھ جنرہشن وار کے ذریعےنشانہ  بنایا گیا۔۔۔۔
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو ۔۔۔۔ کسی بھی خطے میں ہو۔۔۔۔ جنگ طاقت کے حصول کے لئے  اور دوسرے کو کمزور کرنے کے لئے لڑی جاتی رہی ہے اور لڑی جاتی رہے گی۔۔۔۔۔ ہمیں اس اصل فتنے یعنی طاقت کے حصول اور قوت کے نشے کی سرشاری کے زعم کو ختم کرنا ہوگا۔۔۔۔یہ دنیا اسوقت تک امن و امان کا گہوارا نہیں بن سکتی جبتک کہ ان خدائی فوجداروں کے دلوں سے طاقت حاصل کرنے کی ہوس نکل نہ جائے.  ۔۔۔۔بھلے کتنے ہی فورم بنا لئے جائیں ۔۔۔کتنی ہی تنظیمیں سرگرم عمل ہوں جبتک دنیا کے ان ٹھیکیداروں کی نیتیں صاف نہءں ہونگی۔۔انکے نزدیک ہرچیز کا حل جنگ میں ہی ہوگا۔۔۔جبکہ حقیقت کا اسمیں کوئی دخل نہیں یہ پراکسی وارز ہیں جو زبردستی ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک پر نافذ کی جاتی ہیں کہ وہ کبھی سر اٹھاہی نہ سکیں۔۔۔لیکن ہمارے سامنے بہت سی غیرتمند اقوام ہیں جنہوں نے تمام مشکل حالات کے باجود سر تسلیم خم نہیں کیا اور غیرت و جرات کے ساتھ ڈٹی رہیں۔۔۔جرمنی۔۔۔ایران۔۔ بنگلہ دیش ۔۔۔۔ ایسی ہی مثالیں ہیں۔۔۔جنہوں نے جنگوں کے بد اثرات کو خود پر سے ہٹایا اور اپنی معیشت کو مضبوط کر کے آج اپنے پیروں پہ کھڑی ہیں۔۔۔۔۔ ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔