Monday, December 16, 2019

تم زندہ ہوانسانیت مرگئی ہے

دسمبر سولہ  2014کا دن نہ ہماری یادداشتوں سے نکلے گا اور نہ اس ملک کی تاریخ کے سیاہ باب سے ۔۔۔۔ بہت سارے عام سے دنوں کیطرح وہ بھی ایک عام سا دن تھا ۔۔۔تمام کام روٹین کے مطابق ہو رہے تھے ۔۔صاحب حضرات اپنے دفتروں اور بچے اپنے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیز کو روانہ ہوچکےتھے۔۔۔۔ خواتین خانہ اپنے معمول کے گھریلو کاموں میں مصروف ہو چکی تھیں۔۔۔کچھ لوگ مارننگ شوز انجوائے کر رہے تھے اور کچھ خبریں سن رہے تھے ۔۔۔اچانک ایک خبر بریکنگ نیوز بن کر ٹی وی پر چلتی ہے کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول پہ حملہ۔۔۔۔ تو لوگ چونک جاتے ہیں، حیران ہوتے ہیں کہ سکول پہ حملہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔ لوگ مختلف ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کچھ واضح نہیں۔۔۔پھر  چند ہی گھنٹوں بعد ہر طرف دہشت، خوف، امیدو یاس کی کیفیت میں گھرے لوگ دوڑتےبھاگتے  نظر آتے ہیں۔۔۔ قیامت کا سماں لگ رہا ہے۔۔۔۔لوگ بے تابانہ کبھی ایکطرف جاتے ہیں ، کبھی دوسری طرف، سیکیورٹی اداروں نے سکول کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ۔۔۔۔۔اور امدادی کاروائیوں میں سرگرم ہیں۔۔۔۔۔نہ کوئی اندر جا سکتا نہ کوئی باہر آسکتا۔۔۔غرض اک افراتفری اور ہیجان برپا نظر آرہا ہے۔۔۔۔ بڑی مشکلوں سے والدین کو اندر جانے کی اجازت ملتی ہے تو اندر ایک اور حشر برپا ہے۔۔ایک اور قیامت انکی منتظر ہے ۔۔۔تاحد نگاہ خون ہی خون ہے۔۔۔۔والدین، اعزا، احباب روتے دھوتے اپنے بچوں کی تلاش میں گم ہیں۔۔۔۔ مائیں بے چین و مضطرب دعائیں مانگتی دوڑتی پھر رہی ہیں کہ ہمارا بچہ مرنے والوں میں شامل نہ ہو۔۔۔۔ ہر کوئی شہیدہونے والوں سے نظر چرا رہا ہے اور امید سے اپنے بچوں کو کھوج رہا ہے۔۔۔لیکن ہائے افسوس کچھ بچے وہیں شہید ہو جاتے ہیں اور کچھ ہسپتال میں دم توڑ دیتے ہیں۔ گھر والوں کے علاوہ رضاکاروں کی ایک بڑی ٹیم ہے جو وہاں موجود پریشان حال والدین کی دلجوئی بھی کر رہے ہیں اور انکی تلاش میں مدد بھی دے رہے ہیں۔۔۔۔ کوئی دعا کارگر نہ ہوئی ، ماوُں کی فریاد رسی نہ ہوئی اور وہ سینہ کوبی کرتے نامراد لوٹ گئیں کیونکہ انکے لخت جگر تو حوروں کے جلو میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے  اور سبز باغوں کی جنتوں میں جا سمائے۔ اونچے منبروں پر بیٹھے اپنے والدین کے منتظر ہیں۔۔لیکن انہیں والدین کی تڑپ ، انکا رونا ، کرلانا ، کچھ یاد نہیں۔۔۔۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔۔۔وہ تو حریر و ریشم کے جوڑے پہنے اتراتے پھر رہے ہیں۔۔۔۔انہیں کیا غم کہ ماں زندہ ہے یا زندہ جسم میں ایک چلتا پھرتا مردہ وجود ۔۔۔وہ کیا جانیں کہ باپ جو دنیا کے سامنے فخر تو کر رہا ہے لیکن اندر سے کس بری طرح ٹوٹ چکا ہے کہ کھڑا ہونا بھی محال ہے۔۔۔۔وہ تو ان معذوب دہشت گردوں کے ہاتھوں ابدی زندگی پا گِئے ۔۔۔ ان شیطانوں کے ہاتھوں انہیں فرشتگی حاصل ہو گئی ۔۔۔وہ معصوم فرشتوں کی صورت میں سبز باغوں میں چہلیں کرتے پھر رہے ہیں اس بات سے بے نیاز کہ  دنیا میں انکے  پیچھےانکے نام پر کیا کیا سیاستیں اور کیا کیا منافقتیں ہو رہی ہیں۔۔۔وہ تو مر کر امر ہو گئے اور انکے والدین جی کر بھی مر گئے ۔۔۔۔ہائے اے کاش کوئی تو انکو بتائے کہ مرے بچو تم تو امن کے علمبردار بن گئے ۔۔۔۔تمھارے  بعد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا۔۔۔  تمھارے بعد بہت سی طاغوتی قوتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ بہت سے فرعونوں کے غرور خاک میں مل گِئے ۔۔۔ اور تمھیں شہادت کے درجے پر فائز کرنے والے کتنی عبرتناک موت مرے۔۔۔کوئی تو انکو بتائے کہ مرے بچوں تمھارا خون رائیگاں نہیں گیا۔۔تمھاری معصوم جانوں کے بدلے کروڑوں لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئیں ۔۔میرے بچوں تم تو امن کے پیامبر بن گئے۔۔۔۔ تم تو جن درجات پر پہنچے انپر پہنچنے کی تمنا میں لوگ کیا کیا مشقت کرتے ہیں۔۔۔کتنی دعائیں مانگتے ہیں۔۔۔لیکن میرے بچوں ۔۔یہی تمھارا نصیب تھا جو تمھیں ملا لیکن انسانیت کو شرمندہ کرکے۔۔۔۔۔ تم زندہ ہو ۔۔۔انسانیت مر گئی ہے.
تحریر: آمنہ سردار
خیال آسٙ

Sunday, November 10, 2019

نبی کریم ﷺ کی خانگی زندگی۔۔۔

۔

میں کیا اور میری اوقات کیا کہ نبی ﷺ کی مدح سرائی کر سکوں لیکن ایک ادنیٰ سی کاوش ہے آپؐ کے حضور ہدیہُ عقیدت پیش کرنے کی ۔۔۔
آج ہم بات کرینگے آپ ﷺکی ازواج مطہرات اور انکے ساتھ آپکے تعلق کی۔۔۔۔ نبی کریم ﷺکو امت کے بالمقابل یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ آپ مختلف اغراض کے پیش نظرچار سے زائد شادیاں کر سکتے تھے ۔۔ چنانچہ جن عورتوں سے آپ نے عقد فرمایاانکی تعداد گیارہ تھی۔۔۔ جن میں سے نو ازواج مطہرات آپ  ﷺ کی وفات کے وقت حیات تھیں جبکہ دو خواتین آپکی زندگی میں ہی وفات پا چکی تھیں یعنی حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت زینب بنت خزیمہؓ  ۔۔۔ذیل میں ان ازواج مطہرات کے نام اورانکے مختصرحالات  پیش کئے جا رہے ہیں ۔۔۔ 
١)حضرت خدیجةالکبریٰ سے تو کون مسلمان ہے جو واقف نہیں ۔۔آپؐ کی پہلی زوجہ محترمہ۔شریک حیات، شریک غم، ہمدم و دمساز و غمگسار۔۔۔پہلی مسلمان خاتون۔۔۔آپؓ سے نبی کریمﷺ  کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ان ہی کے بطن سے تھیں ۔۔۔
٢) حضرت سودہؓ بنت زمعہ حضورؐ کے چچازاد بھائی سکران بن عمرو کی بیوہ تھیں اور آپؐ نے بی بی خدیجہ ؓ کی وفات سے چند دن بعد ان سے نکاح کیا۔۔۔
٣) حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابی بکرؓ سے آپؐ کا نکاح نبوت کے گیارہویں سال ہوا جبکہ رخصتی شوال سن ١ھ میں ہوئی ۔انکی عمر اسوقت ٩ برس تھی(مختلف جگہوں پر مختلف روایات ہیں )۔۔۔ حضرت عائشہ آپؐ کی واحد باکرہ زوجہ تھیں ۔۔۔ اور سب سے محبوب ترین بیوی بھی ۔۔مسلمان عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہہ اور صاحب علم تھیں ۔۔۔
۴) حضرت حفصہ بنت عمر ؓ خنیس بن حذافہ کی بیوہ تھیں ان سے آپؐ نے ٣ ھ میں نکاح کیا۔
۵) حضرت زینب بنت خزیمہؓ انکالقب ام المساکین تھا کیونکہ انتہا درجے کی رحمدل اور خداترس تھیں ۔عبداللہ بن جحش کی بیوہ تھیں جو جنگ احد میں شہید ہوئے تو ۴ھ میں آپؐ کے عقد میں آگئیں ۔۔۔لیکن صرف آٹھ ماہ بعد وفات پاگئیں ۔۔۔آپکا تعلق قبیلہ بنو ہلال سے تھا ۔۔
٦) ام سلمہ بنت ابی امیہ ؓ یہ ابوسلمہؓ کی بیوہ تھیں ۴ ھ میں آپؐ کے عقد میں آئیں ۔
٧)زینب بنت جحش ؓ یہ قبیلہ بنواسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں اور آپؐ کی پھوپھی زاد تھیں ۔انکا نکاح آپؐ کے منہ بولے بیٹے  زید بن حارث سے ہوا لیکن انکے ساتھ آپکا نباہ نہ ہو سکا تو انہوں نے طلاق دے دی۔۔خاتمہُ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی ۔۔"جب زید نے ان سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے انہیں آپکی زوجیت میں دے دیا "٣٧:٣٣۔۔۔۔۔۔حضرت زینب سے آپ ؐ کی شادی ۵ ھ میں ہوئی ۔۔۔
٨) جویریہ بنت حارثؓ یہ قبیلہ خزاعہ کے سردار کی بیٹی تھیں ۔۔یہ بنو مصطلق کے قیدیوں میں لائی گئ تھیں اور حضرت ثابت بن قیس کے حصے میں آئی تھیں انہوں نے ان سے مکاتبت کرلی یعنی مقررہ رقم پہ آزاد کرلیاآپؐ نےانکی طرف سے مقررہ رقم عطا فرمائی اور ان سے ۵/٦،ہجری میں  شادی کر لی ۔۔۔
٩) ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان ؓ ۔یہ عبیداللہ بن جحش کی بیوی تھیں انکے ساتھ حبشہ ہجرت کی لیکن انکے شوہر مرتد ہوگئے اور وہیں انتقال ہوا۔۔لیکن یہ اپنی ہجرت اور ایمان پہ قائم رہیں۔۔رسول ﷺ نے نجاشی کو عمرو بن امیہ کے ہاتھ ایک خط دیکر بھیجا اور اسمیں ام حبیبہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا۔۔۔ یہ ٧ ہجری کا واقعہ ہے۔۔۔
١٠) حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ یہ بنی اسرائیل سے تھیں اور خیبر میں قید کی گئی تھیں لیکن آپ ﷺنے انکو اپنے لئے منتخب کیااور آزاد کر کے شادی کر لی یہ فتح خیبر کے بعد ٧ ہجری کا واقعہ ہے ۔۔
١١) حضرت میمونہ بنت حارثؓ یہ حضرت ام لفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں ۔۔ان سے رسول ﷺ نے عمرہُ قضا سے فارغ ہونے کے بعد٧ہجری میں  احرام سے حلال ہونے کے بعد شادی کی ۔۔۔
یہ گیارہ بیویاں تھیں جو نبی کریم ؐ کے عقد میں رہیں اور آپؐ کی صحبت و رفاقت میں رہیں ۔۔ان میں سے دو بیویاں آپؐ کی حیات میں فوت ہوئیں اور نو بیویاں آپؐ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔۔۔۔
جہاں تک لونڈیوں کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے دو لونڈیوں کو اپنے پاس رکھا ایک ماریہ قبطیہ ؓ جنہیں فرمانروائےمصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا   اور انکے بطن سے آپکے بیٹے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے ۔
دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں انکا تعلق یہود کے قبیلہ بنی نظیر یا بنی قریظہ سے تھا ۔یہ بنو قریظہ کے قیدیوں میں تھیں ۔رسول ﷺ نے انکو اپنے لئےمنتخب فرمایااوروہ آپکی لونڈی تھیں۔۔۔

آپ ﷺ کی پہلی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی جو آپکے جوانی کے عمدہ ایام تھے۔۔۔ اسی دور میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اولاد کی نعمت سے بھی نوازا جو کہ ایک نارمل زندگی کی نشاندہی کرتی ہے ۔۔۔ آپؐ کی اتنی شادیوں کے پیچھے کچھ اغراض و مقاصد تھے ۔۔۔جنکے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مثالیں قائم کیں ۔۔۔ جو عام شادیوں سے بہت ہی زیادہ عظیم اور جلیل المرتبہ تھے۔۔۔ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ کی بیٹیوں سے عقد ان جلیل القدر اصحاب سے تعلقداری کا ذریعہ تھا اسی طرح آپﷺ نے اپنی بیٹیوں کے رشتے حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کو دیئے وجہ یہ تھی کہ یہ  چاروں  جلیل القدر اور بلند مرتبہ اصحاب پیچیدہ ترین دور میں اسلام کیلیئے فداکاری کا امتیازی وصف و جذبہ رکھتے تھے ۔۔۔
عرب کا دستور تھا کہ وہ رشتہُ مصاہرت کا بڑا احترام کرتے تھے انکے نزدیک دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے درمیان قربت کا ایک اہم سبب رھا اور داماد سے جنگ لڑنا اور محاذ آرائی کرنا بڑے شرم اور عار کی بات سمجھی جاتی تھی ۔۔اس دستور کو سامنے رکھکر آپﷺ کو چند شادیاں کرنی پڑیں   ۔۔اسکے علاوہ ان سب سے عظیم بات یہ ہے کہ رسولﷺ ایک غیر مہذب قوم کو تربیت دینے ، اسکا تزکیہُ نفس کرنے اور تہذیب و تمدن سکھانے پر معمور تھے ۔۔آپ ﷺ نے مختلف عمر اور لیاقت کی اتنی عورتوں کو منتخب فرمایا جو عورتوں کی تعلیم وتربیت میں معاون ثابت ہوں انکی تعلیم، تربیت، تزکیہ نفس کریں اور مسائل شریعت سکھا سکیں ۔۔۔۔
نبی کریم ﷺ کا ایک نکاح ایک ایسی جاہلی رسم توڑنے کے لئے بھی عمل میں آیا جو عرب معاشرہ  میں پشت ہا پشت سے چلی آ رہی تھی کہ متبنیٰ کو حقیقی بیٹے کے برابر جانا جاتا تھا۔۔۔ اسکی حرمت اور حقوق بھی حقیقی بیٹے کے برابر تھے۔۔جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب سے آپکا نکاح کروا کر ان سبکو باطل ثابت کر دیا ۔۔۔
امہات المومنین کیساتھ آپ ﷺکی زندگی انتہائی بلندپایہ، شریفانہ ، باعزت اور عمدہ انداز کی تھی ۔ازواج مطہرات بھی شرف ، قناعت ، صبر تواضع خدمت اور ازدواجی حقوق کی نگہداشت کا مرقع تھیں۔۔۔ آپؐ اپنی ازواج سے انتہائی شفیق رویہ رکھتے تھے۔۔۔ انکے اوپر خوامخوا کے کاموں کا بوجھ نہیں ڈالتے تھے بلکہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔۔۔ روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کیساتھ آپؐ نے  دوڑ کا مقابلہ بھی کیا  ۔ازواج سے لطیف انداز میں گفتگو بھی آپؐ کا وطیرہ تھی۔۔۔ ایکدفعہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ آپ ؐ سے گلے شکوے کر رہی تھیں اور آپؐ مسکرا کر انکا جواب دے رہے تھے۔۔۔۔ کبھی اپنی ازواج کیساتھ نہ سخت کلامی فرمائی نہ ترش روئی سے پیش آئے ۔۔آپ ﷺ سراپا رحمت تھے۔۔۔سراپاالفت تھے۔۔۔۔ آپ ؐ نے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بیویوں کی باریاں  مقرر کر رکھی تھیں  گو کہ آپﷺ  پر اپنی بیویوں کے بارے میں باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے محبت و الفت کو برقرا ر رکھنے کے لئے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر فر مایا تھا جس کی آپ ﷺ پابندی کرتے تھے اور کبھی کسی وجہ سے ایک کے پاس تشریف لے جاتے تو پھر ساری ازواج مطہرات کے پاس خبر گیری کے لئے تشریف لے جاتے ۔آپ ﷺ کے اسی بے مثال محبت کا نتیجہ تھا کہ ازواج مطہرات میں سے ہر ایک اپنے آپ کو آپ ﷺکے سب سے زیادہ قریب سمجھتی تھیں۔
جب آپ ﷺ سفر میں تشریف لے جاتے تو خاص اپنی مرضی سے کسی کو لے جا سکتے تھے مگر آپ ﷺ قرعہ اندازی فر ماتے اور جن کانام نکلتا ان کو لے جاتے ۔زندگی بھر آپ ﷺ انہیں اصولوں پر قائم رہے یہاں تک کہ زندگی کے آخر لمحات میں جب کہ آپ ﷺ کی طبیعت بڑی ناساز تھی اس وقت بھی اس کا مکمل خیا ل رکھا اورجب سب کے پاس جانے کی طاقت نہ رہی تو آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے حضرت عائشہ کے حجرے میں رہنے کی ’اجازت مانگی‘ جسے سارے ازواج نے بخوشی قبول فر مالیا۔

اور ان سب کے باوجود آپ ﷺ اپنے رب کریم سے دعا مانگتے کہ:اے میرے مولیٰ!جو برابری میرے بس میں تھی وہ میں نے کی لیکن جس بات پر میں قادر نہیں اس پر مجھے ملامت نہ فرما۔

حوالہ جات
(نسائی،کتاب عشرۃ النسائ
 رحیق المختوم
تحریر آمنہ سردار

یہ میر ی ایک کاوش ہے۔۔۔۔
اللہ کریم اسے قبول فرمائے آمین ۔۔۔اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو رب تعالیٰ سے معافی کی خواستگار ہوں ۔۔۔

Wednesday, November 6, 2019

کیا جنگ مسائل کا حل ہے

۔۔۔۔۔
ہم بھی کیا سادہ لوح لوگ ہیں  جواپنے مسائل کے حل کے لئے دوسروں کی جانب نظر کرتے  ہیں ۔۔۔خود آگے بڑھکر اس مسئلے کو نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہی اسکو حل کرنے کی ۔۔۔۔ یہ ہماری کمزوری بھی ہے اور کوتاہی بھی ۔۔۔۔اس پر قابو پانا سب سے اہم ہے۔۔۔۔مسئلے ملک کے اندرونی معاملات کے ہوں یا بیرونی ہم نے عادت بنا لی ہے کہ اس کے حل کے لئے دنیا بھر کے لوگوں کو امید افزا نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں ۔۔۔ ملکی مسائل کے لئے ہماری نظر امداداور قرضوں پر لگی رہتی ہے جبکہ ملکی سالمیت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہم اقوام متحدہ کی طرف نظر کئے ہوتے ہیں۔۔۔۔اور وہاں سے طبل جنگ بج اٹھنے کا اعلان ہوتا ہےبجائےمصالحت کے۔۔
آجکل دنیا میں مسائل کی بھر مار ہے اور یہ مسائل بھی خود حضرت انسان کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔۔۔دنیا امن کا گہوارا توخیر کبھی نہیں رہی لیکن آج کی دنیا گزرے وقت کی دنیا سےقدرے بہتر تھی۔۔ہتھاروں اور اسلحےکی ایجادسےپہلے ۔۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی  سے  پہلے۔۔۔ایٹمی ہتھیاروں اور نیوکلیئیر بم کی دریافت و ایجاد سےپہلے دنیا بہت بہتر حالت میں تھی۔۔۔۔ لیکن پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے تواتر نے دنیا کو حالت جنگ میں ہی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ایک صدی گزرنے کے بعد بھی دنیا پہلی جنگ عظیم کے اثرات سےابھی تک مکمل طور پر  باہر نہیں آ پائی ۔۔۔۔ آئے دن کچھ نہ کچھ۔۔۔کہیں نہ کہیں   لڑائیاں چِھڑی ہوتی ہیں۔۔۔۔یہ ان پچھلے اثرات کی بدولت ہی ہیں ۔۔۔حالات کو گفت و شنید سے درست کرنے کی بجائے ہتھیار اٹھا لئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔مصالحت کی بجائے جنگ کے لئے رستہ ہمور کیاجاتا ہے  ۔۔لڑائیاں  مذاکرات کی راہ بند کر دیتی ہیں۔۔۔۔ بجائے اس کے مسئلے پر بات بیٹھ کر ہو اسے جنگ کے الاوُ میں جھونک دیا جاتا ہے ۔۔۔جس سے مسائل کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے جاتے ہیں اوریوں یہ  جنگ دنیا بھرکو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جاتی ہے۔۔۔۔ 
سوال یہ اٹھتا ہے کیا جنگ مسائل کا حل دے گی۔۔۔۔تو ایسا نہیں ہے ۔۔۔جنگ مسائل کا حل نہیں  بلکہ مزید مسائل کا پیش خیمہ ہے ۔۔۔۔۔ جنگ  پہلے سے بڑھکر بڑے مسائل  کو جنم دیتی ہے ۔۔۔دنیا بھر میں ہونیوالی جنگوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ دنیا میں کتنی تباہی اور بربادی ان جنگوں نے پھیلائی ہے ۔۔۔۔ جس مسئلے کو نقطہ بنا کر جنگ شروع کی گئی وہ برسوں گزرنے کے بعد بھی جوں کا توں وہیں موجود ہے۔۔۔۔اس سے نا صرف وہ خطہ متاثر ہوتا ہے بلکہ اسکے اثرات پوری دنیاپر پڑتے ہیں۔۔۔معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔۔۔۔ لوگ اپنی جانوں سے تو ہاتھ دھوتے ہی ہیں۔۔۔انکے خاندان ایک تباہ حال زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ خوشحالی بدحالی میں۔۔۔ترقی تنزلی میں۔۔۔۔ عروج زوال میں بدل جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جنگیں چلتی رہتی ہیں اور ساتھ تباہی کے در وابھی کئے رکھتی ہیں۔۔۔۔ کشمیر۔۔۔فلسطین۔۔۔۔بوسنیا۔۔۔افغانستان ۔۔۔۔۔انکو جنگ نے کیا دیا الٹا ان ممالک کو غربت اور تنزلی کی چکی میں پسنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔ یہ ممالک چاہ کر بھی واپس اپنی جگہ پر نہیں آسکتے۔۔۔اسکے لئے انکو بہت وقت درکار ہے۔۔۔۔۔ بڑی طاقتیں جو انکے استحصال کے لئے ہمہ وقت پنجے تیز کئے بیٹھے ہوتی ہیں۔۔۔۔ جو ان غریب پسماندہ ممالک کی قسمتوں کے فیصلے کرتی ہیں۔۔۔ جو انکے حقوق سلب کرتی ہیں ایسے خاموشی سے کہ انکو خبر تک نہیں ہوتی۔۔۔۔ اب ہتھیاروں کی جنگ سے نکل کر عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔۔۔۔اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہو گی۔۔۔۔اپنے نامساعد حالات۔۔۔۔ بدتر معیشت ۔۔۔ اور غربت و تنزلی سے نکل کر اپنی آواز کوایسے فورمز پر اٹھانا ہوگا جہاں انکی شنوائی ہو۔۔۔۔ اپنی پست آواز میں جان خود پیدا کرنی ہو گی۔۔۔اور یہ سب اسی وقت ممکن ہو گا جب حالت جنگ سے نکل کر اپنے حالات کا جائزہ لیاجائے  اور ان سے نمٹنے کے اسباب کئے جا سکیں۔۔اسکےلئےمحنت ۔۔۔اخلاص ۔۔اتحاد ۔۔عزم اور استقامت کی ضرورت ہے۔۔۔۔ہمارے سامنے نیلسن مینڈیلا جیسے عظیم شخص کی مثال موجود ہے جو ہمت۔۔۔۔ جہدِ مسلسل اوراستقامت کا پیکر نکلا۔۔۔جسنے اپنی عوام کو غربت ۔۔۔بے چارگی اور غلامی سے نکال کر ایک باحوصلہ قوم بنایا۔۔۔۔
ضروری نہیں ہے کہ ہتھیاروں کی جنگ سے دوسرےکو شکست دی جائے۔۔۔دلائل۔۔۔مذاکرات۔۔مباحث ۔۔مناظرے ۔۔۔ان سب کے دروازے کھلے ہیں۔۔انکے ذریعے بھی اپنے ملک۔۔قوم۔۔نسل۔۔کے لئے لڑا جا سکتا ہے ۔۔۔انکے حقوق کے لئے آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔۔۔انکے مفادات کا تحفظ ممکن ہے ۔۔۔۔لیکن المیہ یہ ہے کہ چھوٹے اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے۔۔۔ان کی فریاد رسی کی بجائے انپر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے چاہے وہ ہتھیاروں کی جنگ ہو۔۔۔۔معیشت کی جنگ ہو۔۔۔۔ثقافت کی جنگ ہو ۔۔ میڈیا کی جنگ ہو یا آجکل ففتھ جنریشن  وار کی جنگ ہو۔۔۔۔ جنگ تو جنگ ہوتی ہے چاہے وہ کسی طور بھی لڑی جائے ۔۔۔ غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کو ملکر کوئی ایسا فورم تلاش کرنا ہو گا  جہاں انکی بات کو وزن دیا جائے۔۔۔۔انکے مسائل کو دیکھا جائے سنا جئے ۔۔۔۔ ۔انکے حل کا سد باب کیا جائے ۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے یہ طاقتور کہلانے والے ۔۔۔۔ترقی یافتہ ممالک خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔یہ چھوٹے ممالک کو آپس میں لڑا کر خود کو اور محفوظ و مضبوط سمجھتے ہیں۔۔۔۔ ففتھ جنریشن وار ان ہی کا نیا حربہ ہے کہ اب ہتھیاروں کی بجائے انکو جدید طریقوں سے ہراساں کیا جائے ۔۔۔اب انکو نفسیاتی مار ماری جائے۔۔۔معاشی طور پہ کھوکھلا کیا جائے۔۔۔ثقافتی طور پہ انکی اقدار کا جنازہ نکالا جائے ۔۔۔یہ ہے طاقتور دنیا کی نئی بساط ۔۔۔۔ ففتھ جنریشن وار۔۔۔۔ اس قسم کی جنگ سے اس دنیا کے ٹھیکیداروں کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ کم خرچ بالا نشینی والی حکمت عملی کے تحت ہے کہ جس میں نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے کے مصداق صرف پراپیگنڈےکے ذریعے۔۔۔میڈیا وار کے ذریعے اقوام کو خوف وہراس میں مبتلا کر کے نفسیاتی طور پہ کمزور اور دنیا سے الگ تھلگ کرنا ہے۔۔۔اس میں ہمارے پاس دو مختلف امثال موجود ہیں۔ایک ایران کی جو امریکہ کے پراپیگنڈے کی نذر ہوا اور عراق کی جسے ففتھ جنرہشن وار کے ذریعےنشانہ  بنایا گیا۔۔۔۔
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو ۔۔۔۔ کسی بھی خطے میں ہو۔۔۔۔ جنگ طاقت کے حصول کے لئے  اور دوسرے کو کمزور کرنے کے لئے لڑی جاتی رہی ہے اور لڑی جاتی رہے گی۔۔۔۔۔ ہمیں اس اصل فتنے یعنی طاقت کے حصول اور قوت کے نشے کی سرشاری کے زعم کو ختم کرنا ہوگا۔۔۔۔یہ دنیا اسوقت تک امن و امان کا گہوارا نہیں بن سکتی جبتک کہ ان خدائی فوجداروں کے دلوں سے طاقت حاصل کرنے کی ہوس نکل نہ جائے.  ۔۔۔۔بھلے کتنے ہی فورم بنا لئے جائیں ۔۔۔کتنی ہی تنظیمیں سرگرم عمل ہوں جبتک دنیا کے ان ٹھیکیداروں کی نیتیں صاف نہءں ہونگی۔۔انکے نزدیک ہرچیز کا حل جنگ میں ہی ہوگا۔۔۔جبکہ حقیقت کا اسمیں کوئی دخل نہیں یہ پراکسی وارز ہیں جو زبردستی ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک پر نافذ کی جاتی ہیں کہ وہ کبھی سر اٹھاہی نہ سکیں۔۔۔لیکن ہمارے سامنے بہت سی غیرتمند اقوام ہیں جنہوں نے تمام مشکل حالات کے باجود سر تسلیم خم نہیں کیا اور غیرت و جرات کے ساتھ ڈٹی رہیں۔۔۔جرمنی۔۔۔ایران۔۔ بنگلہ دیش ۔۔۔۔ ایسی ہی مثالیں ہیں۔۔۔جنہوں نے جنگوں کے بد اثرات کو خود پر سے ہٹایا اور اپنی معیشت کو مضبوط کر کے آج اپنے پیروں پہ کھڑی ہیں۔۔۔۔۔ ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔

Saturday, October 5, 2019

سوشل میڈیا کا ہماری زندگی میں کردار


آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔۔۔ جوں جوں حضرت انسان ترقی کرتا گیا ترقی کی منازل طے کرتا گیا توں توں معاشرے پہ بھی اسکے اثرات نظر آنے لگے۔۔۔۔آج سے ہزاروں سال پہلے کے ردل و رسائل کافی سست رفتار تھے۔۔۔پیامبر اور نامہ بر اونٹوں اورگھوڑوں پر سفر کرکے مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ شاعری میں ان نامہ بروں کا بڑا ذکر ملتا ہے
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں

اسکے بعد کبوتروں کا دور آیا ۔۔۔پھر ڈاکخانے، ٹیلیگرام ، پوسٹ کارڈز کا زمانہ گزرا۔۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعدجب انٹرنیٹ آیا۔۔ اسنے تو مانو تہلکہ ہی مچا دیا ۔۔۔۔اسکے مختلف ذرائع ابلاغ جنمیں چند ایک بہت ہی زیادہ استعمال ہونے والے ہیں جیسے فیس بک ، ٹوئیٹر،  وٹس ایپ،  انسٹا گرام، ، سکائپ ، ایمو اور مذید بھی بہت سے ہیں  جنکو ہم عرف عام میں سوشل میڈیا کہتے ہیں ۔۔۔اسنے ہماری زندگی بہت ساری ترجیحات کو پس پشت ڈالا ۔۔جہاں ہمارے لئے فائدے کا باعث بنا وہیں اسکے  ذریعے کچھ خرابیاں معاشرے میں پھیلیں ۔۔میری کوشش ہو گی کہ آج میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی  دونوں پہلووُں کے حوالے سے بات کروں۔۔
۔میرے نزدیک سوشل میڈیا کے بہت سے مثبت استعمالات ہیں۔اور بہت سے منفی ۔۔۔لیکن جو عام طور پر ہمارے معاشرے میں نظر آتے ہیں ۔۔۔زیادہ بات انکے بارے میں ہی کی جائیگی۔
١) سوشل میڈیا  سے ہم تعلیم و تربیت کا کا م لے سکتے ہیں۔۔۔بہت سے ایسے پیجز یا گروپس ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔۔۔۔ یعنی لوگوں کو تعلیم دینے کا کام ۔۔۔۔طلباء یا بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام کر رہے ہیں۔۔
٢) اس سے ہم ہنر سیکھنے اور سکھانے کو فروغ دے سکتے ہیں۔۔۔۔بہت سے گروپس میں کوکنگ ، بیکنگ، فلاور میکنگ، آرٹ اینڈ کرافٹس نٹنگ، کروشیا کے کام، پودوں کی افزائش، بچوں کی نشو نما، خوراک کے فائدےو نقصانات، طب کے حوالے سے نئی ریسرچز، ورزش کے طریقے و فوائد وغیرہ پاے جاتے ہیں۔بہت سی خواتین، بچیاں اور بزرگ خواتین تک ان سے استفادہ کرتی ہیں ۔۔
۔۔٣) آگاہی پروگرام ۔۔۔۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم بہت اچھے سے آگہی مہم چلا سکتے ہیں۔۔۔ جیسے درختوں کی کٹائی سےروکنا، صفائی کے متعلق آگاہی دینا۔۔۔۔کہیں کوئی مثبت سرگرمی ہو رہی ہو اسکی اطلاع فراہم کرنا
۴) لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ۔۔۔انکے لئے مثبت آگاہی کے  پروگرام ترتیب دینا۔۔شجر کاری کی ترغیب، پلاسٹک بیگز کے استعمال کو ختم کرنے کی مہم۔۔صفائی کی مہم وغیرہ
۵) لوگوں کی مختلف ہنرمندیوں کو سراہنا اور انکے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔۔۔۔
٦)ادبی گروپ جو لوگوں کی سوچوں اور تخیل کو مہمیز کرتے ہیں اور انکو لکھنے کی جرات و سہولت دیتے ہیں۔۔۔۔۔
٧)فیس بک ہو ٹویٹر ۔۔۔لنکڈ ان ہو انسٹا گرام آپ مثبت اطلاعات ، انفارمیشن اور آگاہی پروگرام اور معلومات سے آگاہی دے سکتے ہیں۔۔۔۔ ایک دوسرے کو اچھی تجاویز ، اچھے مشورے دئیے جاسکتے ہیں۔۔۔اب تو بہت سے لوگ سوشل میڈیا کی وجہ سے گھر بیٹھے لاکھوں کما رہے ہیں۔۔۔۔
٨) سوشل میڈیا کے ذریعے اب آپ دنیا کے ہر ٹی وی چینل تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔۔خبریں ہوں، میچز ہوں، ڈرامے، فلمیں یا ٹاک شو۔۔۔۔سب کچھ سوشل میڈیا پر میسر ہے۔۔۔
٩) گھر بیٹھے علاج کرنا اور کرانا یہ بھی اب سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہے ۔۔۔آپ اپنے گھر میں بیٹھے امریکہ میں موجود ماہر کے مشورے سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔۔
١٠) سوشل میڈیا کے ذریعے سیاستدان، افسران بالا اور سماجی کارکنان اپنے مثبت کاموں کے فروغ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔۔۔
یہ تو میں نے بہت تھوڑے فوائد گنوائے ہیں۔۔۔۔جو عام طور پر ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں ۔اس سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔
اب میں کچھ منفی اثرات کچھ بات بھی کرونگی ۔۔۔
١)سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال سے اپنے دور اور دور والے قریب ہو گئے ہیں۔
٢) سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال صحت کو متاثر کرتا ہے،۔اسکء وجہ سے نظراور  پٹھوں کی کمزوری ، اعصابی اور نفسیاتی بیماریاں بہت عام ہیں ۔۔
٣) اسکی وجہ سے بہت سے لوگ فریبی اور دغاباز لوگوں کے ہاتھوں بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں۔۔بہت سے رشتے ٹوٹتے اور ناپائیدار رشتے بنےت اور بگڑتے دیکھے ہیں ۔
۴) بہت سے لوگ سوشل میڈیا کی وجہ سے بلیک میلرز کے ہتھے چڑھ گئے ۔۔اس ضمن میں ہزاروں لڑکیوں نے اپنی عزت اور جان سے ہاتھ دھوئے۔۔۔ایک اندازے کے مطابق کئی ہزار لڑکیاں خودکشی کی مرتکب ہوئیں اور کتنی ہی قتل ہوئیں۔
۵) بہت سے گروپس اور پیجز ایسے ہوتے ہیں جسمیں غیر معیاری مواد کی فراوانی ہوتی ہے جو ہماری نوجوان نسل کے لئے زہر قاتل ہیں ۔۔
٦) ہمارے بچوں اور نئی نسل کو اپنے مذہب اور کلچر  سے دورکرنے کی سازشیں بھی کچھ گروپس اور  پیجز نے اپنا رکھی ہیں۔
٧) فروعی، لسانی، گروہی تعصبات کو بھی سوشل میڈیا پر بڑے منظم طریقے پر پھیلایا جاتا ہے۔
٨) دہشتگردی کے بہت سے واقعات بھی سوشل میڈیا کی ہی دین ہیں۔۔۔تازہ ترین واقعہ جو نیوزی لینڈ میں پیش آیا وہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہج بنا بھی اور منظر عام پر آیا بھی۔۔۔
٩) دنیا بھر میں فوری پراپیگنڈا پھیلانے میں بھی  سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے۔۔۔
١٠)نفرت ، تعصب، بغض بھی اسکے پھیلائے جانے والے اثرات میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔جیسے کہ گستاخئ رسولؐ وغیرہ۔۔۔۔
یہ چند ایک منفی رحجانات ہیں جنکا ذکر ضروری تھا تاکہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ گویا  ہم سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کر رہے ہیں یا منفی۔۔۔۔
اصل میں ہمیں خیال یہ رکھنا چاہئیے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تعصب نہ پھیلائیں۔۔۔۔نفرت کو ہوا نہ دیں۔۔۔۔ایک دوسرے کو نیچا نہ دکھائیں  بلکہ بحیثیت پاکستانی اور مسلمان کےاپنا بہترین امیج پیش کریں۔۔سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ 
اگر میں ذاتی طور پہ بات کروں تو میرے لئے سوشل میڈیا اپنی روز کی سیاسی و سماجی، تعلیمی و آفیشل  سرگرمیاں اپنے لوگوں تک پہنچانے کا باعث بنا۔۔۔۔ میں اپنے آرٹیکلز اخبارات میں بھی لکھتی  ہوں اور انکو سوشل میڈیا پہ بھی ضرور شئیر کرتی ہوں۔۔۔۔موٹر سائیکل کے حادثات پر جو کچھ لکھا اسکا لوگوں نے بہت اچھا فیڈ بیک بھی دیا ۔۔۔۔شاپنگ بیگز کے استعمال اور نقصانات پر  آگاہی مہم بھی سوشل میڈیا پر ہی شروع کی۔۔۔۔غرض میں نے سوشل میڈیا کے فائدے ہی دیکھے۔۔۔۔۔۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ اس سے ہم فائدہ اٹھائیں یا اسکو تخریب کاری یا کسی اور غلط مقصد کے لئے استعمال کریں ۔

Wednesday, October 2, 2019

ہم بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔

میں کافی عرصے سے سپیشل بچوں کے سکولزکا وزٹ بھی کر رہی ہوں اور کئی جگہوں پر انکے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا ۔ان سکولز میں ہر قسم کے بچے ہوتے ہیں۔۔یہ بہت  پیارے بچے ہوتے ہیں۔۔۔۔انکو جب بھی کسی فنکشن میں پرفارم کرتا دیکھتی ہوں تو انکی صلاحیتوں کی معترف ہو جاتی ہوں۔۔
۔۔سپیشل بچوں کی ٹرم ہم معذور یا پسماندہ افراد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔عام بندے کو ان بچوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا۔۔۔۔عموماً انکو معاشرے کا ناکارہ حصہ سمجھا جاتا ہے ۔۔۔جبکہ ایسا ہےنہیں۔۔۔ ہماری تھوڑی سی محبت اور توجہ سے یہ بچے معاشرے میں فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔۔۔۔ لہذا آج میں نے ان ذہنی اور جسمانی طور پہ پسماندہ بچوں کے بارے میں قلم اٹھانے کا سوچا۔۔۔۔اور کوشش کی کہ عام فہم انداز میں ایک عام شخص کو انکے متعلق معلومات فراہم کی جائیں تاکہ لوگوں میں کم از کم انکو سمجھنے کی تھوڑی سی صلاحیت تو ہو اور انکو معاشرے کا فعال کردار بنانے میں تمام لوگ شامل ہوں۔۔۔میں بہت تکنیکی انداز میں بات نہیں کرونگی بلکہ سادہ انداز میں بیان کرونگی۔۔۔۔بات کی ابتدا کرینگے کہ معذور کیا ہے ؟
ہر وہ شخص جس کے لیے عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر عام کاروبارِ زندگی میں حصہ لینا محدود بن جائے اُسے معذور کہتے ہیں۔
معذوری" کے وسیع درجات اور مختلف کیفیات ہیں، جن میں کچھ واضح ہیں اور کچھ غیر واضح۔ ہو سکتا ہےکہ یہ  کسی حادثے کے باعث  ہو یا  پیدائش کے وقت سے ہی موجود ہو، یا وقت کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوئی ہو۔ اسکی مختلف اقسام ہیں یعنی جسمانی، دماغی اور سیکھنےکی معذوریاں، دماغی امراض، سماعت یا بینائی کی معذوریاں، مرگی، دوا اور الکوحل پر انحصار، ماحولیات سے حساسیت، اور دیگر صورتیں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے کنونشن (برائے معذور افراد کے حقوق)کے مطابق ۔۔۔ وہ افراد جنہیں طویل المعیاد جسمانی ،ذہنی یا حسیاتی کمزوری کا سامنا ہو جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو انہیں معذور کہا جاتا ہے۔
 جن سکولز کی میں بات کر رہی تھی ان میں  جسمانی معذوری اور ذہنی معذوری دو قسم  کےادارے ہوتے ہیں ۔۔۔جن میں یہ بچے موجود ہوتے ہیں۔۔
پہلے میں ذکر کرونگی جسمانی معذوری کے بچوں کا ۔۔۔۔ ان میں
*سماعت سے محروم*
*گویائی سے محروم*
*بینائی سے محروم*
اور *جسمانی طور پر اپاہچ*
بچے شامل ہوتے ہیں۔۔یہ جسمانی نقص کا شکار ہوتے ہیں باقی انکا ذہن ایک عام بندے کی طرح ہی کام کرتا ہے ۔۔۔یا بعض اوقات تھوڑا سا سست رفتار لیکن بہر حال ان میں سیکھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔۔۔۔۔ایسے بچوں کو ہینڈل کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے ۔۔۔۔انکے لئے ماہر اساتذہ ہوتے ہیں جو انکو انکی معذوری کے مطابق تعلیم دیتے ہیں جبکہ ذہنی معذوری کے بچے کافی مشکل ٹارگٹ ہوتے ہیں۔۔۔۔
ذہنی معذوری کی کئی اقسام ہیں لیکن ان میں زیادہ عام جو ہیں میں انکا ذکر کرنا چاہوں گی۔۔۔۔
*ڈاوُن سینڈروم*
*آٹزم*
ڈاوُن سینڈروم کے بچے وہ ہوتے ہیں جو دیکھنے میں منگول دکھائی دیتے ہیں۔انکی گردن موٹی، سر بڑا ، چہرہ گول  اور آنکھیں بڑی اور کچھ باہر کو نکلی ہوتی ہیں۔یہ ایک سنگین جنیاتی نقص کا شکار بچے ہوتے ہیں
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور سے یہ بچے بہت خوش طبع ہوتے ہیں۔ ان کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے، جس میں وہ مگن رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی زبان میں لکنت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی توجہ کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ عام بچوں کی طرح مختلف دلچسپیاں نہیں رکھتے بلکہ اپنی توجہ بہت ہی کم چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں۔ایسے بچوں کی عام اسکول میں تربیت  مشکل ہوتی ہے کیونکہ اساتذہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان بچوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کس طرح ابھارا جائے۔
طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد معذوری کے باوجود قدرت کی دیگر صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں جن کی بدولت ڈاؤن سنڈروم کے شکار مریض بھی معاشرے میں ایک باعزت زندگی بسر کر سکتے ہیں بشرطیکہ انکو توجہ ، محبت اور شفقت سے سکھایا جائے ۔۔۔یہ سُلو لرنرزہوتے ہیں لیکن آخر کار سیکھ ہی جاتے ہیں۔۔۔۔انکے ساتھ مستقل محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔اسکے علاوہ انکی کچھ مشقیں اور ورزشیں ہوتی ہیں جنکا مسلسل استعمال انکو بہتری کی طرف لاتا ہے ۔۔۔۔ ایسے بچوں کو گھر میں رکھنے کی نسبت سپیشل ایجوکیشن کے سکول میں بھیجنازیادہ مناسب ہے جہاں انکو مستقل طور پر ٹرین  کیا جاتا ہے۔۔۔گھر میں اگر انکوکوئی فل ٹائم اور مکمل توجہ   دے پائے تو اس صورت میں تو ٹھیک ہے لیکن توجہ نہ ملنے کی صورت میں انکے مرض میں شدت آجاتی ہے ۔لہذا سب سے بہتریہی ہے کہ  انکو سکول ہی بھیجاجائے ۔۔
*آٹزم*
دوسرے نمبر پہ آٹزم آتا ہے ۔۔۔۔یہ ایک نشونمائی معذوری ہے۔۔۔۔جوکسی شخص کی  دوسرے لوگوں سے بات چیت اور تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے۔۔۔۔اسکو آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر[اے ایس ڈی]بھی کہتے ہیں جس سے مراد ہے کہ یہ  مخصوص رویوں اور نشونما کے مسائل اور مشکات کا سیٹ ھے۔ اے ایس ڈی بچے کی ترسیل، سماجی اور کھیلنے کی مہارت کو متاثر کرتا ھے۔
اے ایس ڈی میں لفظ "سپیکٹرم" کا مطلب یہ ھے کہ ھر بچہ منفرد ھے اور اسکی اپنی خصوصیات ھیں۔ یہ خصوصیات مل کر اسکو ایک مخصوص ترسیل اور رویوں کی پروفائل دیتی ھیں۔ جیسے جیسے آپکا بچہ بڑا ھوگا اور نشونما پائے گا اسکی مشکلات کی نوعیت تبدیل ھوتی جائے گی۔ عموماً اے ایس ڈی ASD والے فرد میں پوری زندگی کیلئے سماجی اختلافات یا\اور رویوں کے اختلافات پائے جاتے ھیں۔
ایسے بچے اپنے نام پر ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔
کوئی مخاطب کرے تو توجہ نہیں دیتے۔
کھلونوں سے عمومی طریقے سے نہیں کھیلتے بلکہ غیر معمولی انداز میں کھیلتے ہیں ۔
کبھی بہت تنک مزاجی کامظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی سستی کا۔۔۔انکا کوئی مستقل موڈ نہیں ہوتا بلکہ بدلتا رہتا ہے ۔
عموماً  انکا موڈ فوراً تبدیل ہوتا ہے ایکدم سستی سے چڑچڑا پن یا چڑچڑے پن سے فوراً سستی۔۔۔
یہ عام طور پر نظر ٹکا کر بات نہیں کرتے بلکہ مستقل طور پہ ادھر ادھر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔
ان کا ارتکاز ایک جگہ نہیں ہوتا ۔۔۔عرف عام میں ہم انکو ہائپر ایکٹو کہہ سکتے ہیں۔۔۔
آٹزم اے ایس ڈی ذہنی بیماری نہیں گنی جاتی اور نہ اسکا باقاعدہ طور پر کوئی طبی علاج ہے۔۔۔۔
اس بچے کو وہ تمام سماجی ترسیلی مہارت سکھانی چاھیے جسکی نشونما کے تمام مراحل پر ضرورت پڑ سکتی ھے۔ اور اسکی نگرانی کسی ایسے شخص کے سپرد ھونی چاھیے جوکہ اے ایس ڈی اور اسکے علاج کا ماھر ھو۔

انکی تربیت میں والدین، دیکھ بھال کرنے والوں اور اساتذہ کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اے ایس ڈی کی تربیت کے بغیر خاندان، کلاس کے اساتذہ اور دوسرے دیکھ بھال کرنے والوں کیلئے بچے کی مدد کرنا مشکل ھو سکتا ھے۔لہذا انکو پہلے خود اس معذوری کو ٹریٹ کرنے کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنی پڑتی ہے۔۔۔
اس مضمون میں بہت سے ماہر لوگوں کی نظر میں کئی خامیاں ہو نگی لیکن  میں نہ تو ماہر نفسیات ہوں نہ سپیشل سکول کی استاد اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر۔۔۔۔لہذا اس مضمون میں، میں نے کوشش کی ہے عام بندہ ان بچوں کی معذوری سے واقفیت حاصل کرکے ان سے محبت اور توجہ سے پیش آئے۔۔۔۔ تاکہ یہ بچے معاشرے کا ناکارہ حصہ نہ بنیں۔۔۔۔آمین
آمنہ سردار

Monday, September 30, 2019

شادی ایک بندھن ہے نہ کہ بوجھ"



جب شادی ہوتی ہے تو دو چیزیں ہیں جو دونوں فریقوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔پہلا فریق جو بچی کو بیاہ کر لے جارہے ہیں۔۔۔۔وہ ایک دوسرے گھر کی بچی کو اپنے ہاں بڑے چاوُ سے لاتے ہیں۔۔۔۔ انکو زرا بڑے ظرف کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ اس بچی کے گھر کا ماحول آپکے گھر سے مختلف ہوتا ہے۔۔۔ اسکو نئے گھر میں سیٹل ہوتے ٹائم لگے گا۔۔۔۔ اسکو دوستانہ ماحول فراہم کیاجائےتاکہ وہ جلدی ایڈجسٹ ہو۔۔۔۔اس ماحول میں ڈھل جائے ۔۔۔۔ پیار، توجہ اور محبت سے یہ کام بہت آسانی سے ہو جاتا ہے ۔جب یہ بندھن ہمیشہ کا ہے تو اسمیں کھینچا تانی کیوں۔۔۔۔۔۔کیوں نہ ایکدوسرے کو  سپیس
دی جائے ۔۔۔۔۔ اسی طرح دوسرا فریق وہ بچی ہے جو بیاہ کر  آتی ہے تو اسکو بھی تھوڑا دل بڑا کرنا ہو گا ۔۔۔اپنے آپکو نئے ماحول میں ڈھالنے کے لئے بغور اس گھر کے طور طریقوں کا جائزہ لینا ہو گا۔۔۔۔اور اسکے مطابق اپنی ایڈجسٹمنٹ کرنی ہو گی۔۔۔۔ جب  رہنا وہیں ہے تو بھلے طریقے سے بھی رہا جا سکتا ہے ۔۔ضروری ہے دل برے کئے جائیں ۔۔۔۔
میں اپنے اردگرد دیکھتی ہوں ۔۔۔۔بہت سی بیاہتا بیٹیوں کی مائیں انکی روزانہ کی رپورٹ سے  جو وہ سسرال والوں کے خلاف  پیش کرتی ہیں،، شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں۔۔۔۔ بیٹی تو اپنے سسرال میں سیٹ ہو جاتی ہے لیکن وہ بیٹی کی محبت میں کڑھتی رہتی ہیں۔۔۔۔
 مجھے دکھ ہوتا ہے کہ لڑکیاں والدین کو سسرال کی ہر بات کیوں بتاتی ہیں۔۔۔۔۔ اور خاص طورپہ ماں کو ۔۔۔۔بےبس والدین پریشان ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹی نے رہنا  اپنے سسرال میں ہی ہے تو کسی نہ کسی طور  ایڈجسٹ ہو جا نا چاہئیے  ۔۔۔تو کیا ضرورت ہے انہیں پریشان کرنے کی جبکہ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ہاں سیریس معاملہ ہو تو ضرور بتائیں لیکن یہ کیا کہ چھوٹی چھوٹی بات اٹھا کر ان تک پہنچائی جائے۔۔۔۔ میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہوتا ہے کہ سو بار تکرار ہوتی ہے تو سو بار پیار بھی . .  ۔کہیں عزت، کہیں بھرم  اور کہیں سمجھوتہ۔۔۔۔۔۔لیکن جب اسی شوہر کے ساتھ رہنا ہے تو اسے اپنے گھر والوں کے سامنے نیچا کیوں کرے۔۔۔۔قرآن کریم میں شوہر بیوی کو ایکدوسرے کا لباس کہا گیا ہے ۔۔۔لباس کے کیا فوائد ہیں ۔۔۔۔
*شرم ڈھکنا*
*پردہ پوشی کرنا*
*زینت*
یہی کام اگر ازواج کریں ایکدوسرے کے لئے تو انکی زندگیاں بڑی آسان ہو جائیں۔۔۔

نئے رشتوں کو بنانے میں ایک اور اہم امر کی طرف توجہ مرکوز کرانا چاہونگی وہ ہے شادی سے قبل اور رشتہ طے ہونے کے دوران سیل فون کا استعمال ۔۔۔یعنی ابھی رشتہ پوری طرح طے نہیں ہوا ہوتا اور لڑکا لڑکی آپس میں رابطے میں ہوتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ سچ ہے کہ یہ سیل فون بھی ایک دجالی فتنہ ہے ۔۔۔اسپر کانٹیکٹ کرکے منٹوں میں معاملہ کہاں تک پہنچ جاتا ہے ۔۔۔یہ بہت افسوسناک بات ہے۔۔۔۔اسکا سد باب یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایجوکیٹ
کریں انکی بہتر تربیت اور گرومنگ کریں کہ وہ حالات کے مطابق اپنے آپکو ڈھالنے کی قدرت رکھیں۔۔۔۔اتنا ہی رابطہ رکھیں جتنا مناسب ہے۔۔۔۔۔ایکدوسرے کو جاننے کے چکر میں خود سےاور اپنے خاندان سے متعلق   ہر بات ایکدوسرے کے گوش گزار کی جاتی ہے ۔۔۔۔ نتیجتاً رشتے بننے سے پہلے یا تو ٹوٹ جاتے ہیں اور یا دلوں میں پہلے سے ہی خاندان کے افراد کے بارے میں  بغض بھر جاتا ہے ۔۔۔۔ لہذا اس عادت کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے کہ بلاوجہ زیادہ رابطے چاہتوں کوفروغ دینے کی بجائے دوری کو باعث بنتے ہیں۔۔۔۔
ایک اور اہم چیز جو رشتوں کو کمزور کرتی ہے وہ دونوں جانب سے فرمائشیں ہوتی ہیں۔۔۔۔لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کی لسٹ، دولہے کو بھاری سلام اور پہناوُنیوں کی فرمائش  اور لڑکی والوں کی طرف سے بھاری بھرکم بری ، اعلیٰ اور مہنگے ترین پارلر سے اپائنٹمنٹ ، سونے کی ڈیمانڈ اور ماہوار خرچے تک کی فرمائشیں شامل ہوتی ہیں۔۔۔اب اگر شادی سے پہلے ہی یہ سب ہو گا تو دلوں میں محبت کی بجائے نفرت اور دوری آئیگی۔۔۔جو رشتوں کی پائیداری پر اثر انداز ہوتی ہے۔۔۔۔۔شادی یا نکاح دو لوگوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔۔۔۔ایک گرہ ہے جو انکو ایک تعلق میں ، بندھن میں جوڑتی ہے۔۔۔۔اس قسم کی فرمائشیں اور خواہشیں بہت منفی اثرات مرتب کرتی ہیں دونوں فریقوں پر بھی اور معاشرے پر بھی ۔۔۔۔

میں تمام  ماوُں کو بھی ایک  مشورہ دینا چاہونگی خدارا بیٹی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہ کریں۔۔آپ اسکے گھر کے مکمل حالات سے واقف نہیں آپ ایک سائیڈ کی بات سن رہی ہیں ۔۔ کیسے انصاف کر سکتی ہیں آپ۔۔۔۔اسطرح آپ اپنی اور انکی دونوں کی زندگی مشکل بنارہی ہیں۔۔
جب اس نے اسی گھر میں رہنا ہے تو اسے اسکے مطابق چلنے کی تلقین کریں ۔۔اپنی بہووُں کے لئے اصول مختلف ہوتے ہیں ۔۔۔وہ بھی تو کسی کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔لہذا عدل کریں تمام رشتوں میں۔۔تبھی بہتری بھی آئیگی۔۔۔۔اللہ کریم ہماری بچیوں کو اپنے گھروں میں سکون و عافیت کے ساتھ آباد کریں اور ہمیں دوسروں کی بچیوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے توفیق عطا فرمائے آمین۔۔۔۔
دعاگو آمنہ سردار

"کتب بینی ناپیدہوتی جا رہی ہے"


کتاب کی اہمیت ہماری زندگیوں میں بہت زیادہ ہے۔ یہ کتاب ہی ہے جو ہمیں بھلے برے میں تفریق کرنا سکھاتی ہے۔اسی نے ہمیں شعور بخشا۔ آگہی دی۔ یہ تو بات ہوئی اس کتاب کی جو ہم نصاب میں پڑھتے ہیں۔ جو ہمیں ہمارے مضمون کے مطابق آگہی اور علم دیتی ہے۔ لیکن میرا آج کا موضوع نصابی کتب نہیں ہیں.  بلکہ میں بات کرونگی غیر نصابی کتاب کی جسکا ہماری تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی وہ کتابیں جو ہم نصاب سے ہٹ کر پڑھتے ہیں۔
کتاب پڑھنے سے انسان کو علم و آگہی تو ملتی ہی ہے بلکہ ایک سکون اور طمانیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے کتاب پڑھکر جو سکون ملتا ہے وہ الفاظ میں بیان کرنے لائق نہیں۔ کتاب انسانی زندگی پر مختلف اور مثبت اثرات ڈالتی ہے۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف سوچتا ہے اور اسکی نفسیات  بھی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کتاب کا اثر بھی ہر شخص پر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اگر کسی ایک کتاب کو پڑھکر ایک تاثر لیتے ہیں تو کچھ لوگ بلکل اسکے متضاد سوچتے ہیں.  ۔ لیکن کتاب کا کام دراصل ہر شخص کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ جیسے ہم کسی بڑے فلسفی کی کتاب پڑھکر تھوڑا مختلف انداز میں سوچنے لگتے ہیں۔زندگی کو ایک دوسرے رخ سے دیکھتے ہیں ۔اسی سطرح دین و مذہب کی کتاب سے ہم نصیحت لیتے ہیں۔اپنی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔  شاعری کی کتب سے ہم محظوظ ہوتے ہیں۔بعض اوقات یوں محسوس کرتے ہیں کہ شاعر نے ہمارے دل کی بات کہہ دی۔  تاریخ کی کتاب ہمیں ماضی کی سیر کراتی ہے ، اس سے ہمیں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کا علم ہوتا ہے۔ ادب کی کتاب سے ہم ادبی فن پاروں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔انمیں زندکی کے تمام موضوعات پر لکھا جا چکا ہے۔ کسی ملک کا ادب اس ملک کی صحیح نمائندگی کرتا ہے۔ مختلف ممالک کا ادب پڑھنے سے ہم انکی تہذیب و تمدن سے واقف ہوتے ہیں۔  سانئس اور ٹیکنالوجی کی کتابوں سے ہم نئے دور کے بارے میں صحیح طور پر سمجھنے اور جاننے کے قابل ہوتے ہیں۔سائنسی ایجادات کے مثبت اور منفی عوامل کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔   فکشن پڑھنے سے ہمیں لوگوں کے ذہنی و فکری نکتہ نظر سے واقفیت ملتی ہے۔ وہ کیا اور کیسی سوچ رکھتے ہیں اور  اس سے ہمیں زمانے کیساتھ چلنے کی تحریک ملتی ہے۔ کیونکہ فکشن حقائق کی ہی ایک ترمیم شدہ تصویر ہوتی ہے۔ نفسیات پہ لکھی گئی کتاب پڑھنے سے ہمیں اپنی اور دوسروں کی نفسیات کو بہتر طور پر جاننے کاموقع ملتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اگلے   شخص کی عادت و خصلت کے مطابق اس سے رویہ روا رکھیں آپ بیتیاں ، سفر نامے، سوانح عمریاں یہ ہمارے علم میں اضافے کیساتھ ساتھ دلچسپی کا باعث بھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔  جغرافیہ، جنگی کتب ، مختلف مہارتوں پر لکھی گئی کتب ،سیاست پر،  کھیلوں پر ، پودوں پر سبزیوں پھلوں ، فصلوں کی نشو نما پر ، طب پر ، فنون لطیفہ پر غرض ہر طرح کی کتب موجود ہیں.  جنکو پڑھکر ان سے فیض اٹھایا جا سکتا ہے ۔ ان سے متعلقہ مہارتوں یا متعلقہ مضامین کے بارے میں مفصل آگاہی ملتی ہے۔
کتاب سے ہم صرف آگہی ہی نہیں حاصل کرتے بلکہ اچھی کتب پڑھنے سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ تسکین قلب حاصل ہوتا ہے۔ کتاب پڑھنے کے عادی لوگ جبتک مطالعہ نہ کریں انکو چین نہیں ملتا۔ انکو کتاب پڑھنے سے سرور حاصل ہوتا ہے۔ وہ اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال و عادات میں بھی بہتری لاتے ہیں ۔ ایک اچھی کتاب انسان میں مذید اچھے اوصاف پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اسکی عادات و اطوار میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔اسکی سوچوں اور خیالات کو وسعت ملتی ہے۔  اسکا انداز ایک عام آدمی سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اچھی کتاب ایک انسان کی کردارسازی میں اہم ترین رول ادا کرتی ہے۔

بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں اس عادت کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے۔کتب بینی بلکل ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ میں نے جو کتابوں کے پڑھنے پر اتنی تفصیل سے بات کی ہے اسکا مقصد ہی یہ تھا کہ یہ بتایا جائے کہ کتاب سے ہمیں کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یا ہم نےکیا فوائد حاصل کئے۔ اگر میں اپنے دور کی بات کروں تو ہمارے زمانے میں غیر نصابی کتاب پڑھنے کا بڑا رواج تھا۔ بچپن میں ہم تعلیم و تربیت، نونہال، ہمدردجیسے ماہنامے اور عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں پڑھتے تھے۔ پھر اصلاحی کہانیوں کا دور آیا۔ تھوڑے اور بڑے ہوئے تو جاسوسی کہانیاں پڑھنے کا دور تھا۔ عمران سیریز، انسپکٹر جمشید سیریز بڑے مشہور جاسوسی کردار تھے۔ ابن صفی اور اشتیاق احمد کا بڑا کردار رہا۔ اسکے بعد کی عمر میں رضیہ بٹ کے رومانی ناول پڑھنے کا دور آتاہے۔ ۔ لیکن ادبی گھرانہ ہونے کی وجہ سے بہت چھوٹی عمر سے ہی قراةالعین حیدر، عصمت چغتائی ، منٹو ، صدیق سالک، شفیق الرحمان ، انتظار حسین، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ جیسے بڑے ادباء کو  پڑھنے کا موقع ملا۔  اس دور کے  بیشر لوگ مطالعے کے عادی تھے۔ اتنے بڑے ادباء کو ہر کسی نے تو نہیں پڑھا ہوتا لیکن بہر حال ایک مطالعے کی عادت لوگوں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔اسوقت مختلف ادبی، اصلاحی و سیاسی  ڈائجسٹس بھی ہوتے تھے جنمیں اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ خاص اہمیت کے حامل تھے۔ ہفت روزہ اخبار جہاں  بھی ایک اچھا اضافہ تھا۔ خواتین کے کچھ ڈائجسٹس بہت مقبول تھے۔ ہم سے کچھ پہلے "بتول" اور "نقوش" جیسےاصلاحی ماہنامے بہت مشہور تھے۔جو خواتین اور بچیوں کی اخلاقی  تربیت و نشونما کے لئے بڑی بہترین تحاریر کا انتخاب کرتے تھے۔ یہ کتب ، ڈائجسٹس معاشرے میں لوگوں کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ میں یہ تو نہیں کہونگی کہ یہ ختم ہو گئے لیکن نایاب ضرور ہوگئے ہیں۔
افسوس مجھے آج کے دور کے لوگوں پر ہوتا ہے کہ کتاب کا استعمال انتہائ کم ہو کر رہ گیا ہے ۔ کتاب کی جگہ نئی ٹیکنالوجی نے، نئی gadgets  نے لے لی ہے ۔ آج کے بچے کے ہاتھ میں جدید ٹیکنالوجی ہے جسکی وجہ سے وہ کتاب اور کتب بینی سے دور ہو گیا ہے۔ بہت سے لوگ کتاب کو کمپیوٹر پہ، ٹیب پہ، موبائل پہ ڈاوُن لوڈ کر لیتے ہیں یاآجکل کتاب(ebook) کو سننے کا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ لیکن جو مزا کتاب کو ہاتھ میں لیکر پڑھنے میں آتا ہے وہ اس ٹیکنالوجی میں کہاں۔ میں نے کوشش کی تھی کہ میں انٹر نیٹ سے کتاب پڑھ سکوں لیکن مجھے ناکامی ہوئی کیونکہ کتاب سے محبت کرنیوالا کسی اور طریقے یا ذریعے سے اس سے حِظ نہیں اٹھا سکتا۔،،لیکن بہرحال کسی بھی طریقے سے پڑھیں کتاب لیکن پڑھیں ضرور۔۔
ہمیں کتب بینی کو فروغ دینے کے لیئے کچھ اقدامات کرنےکی ضرورت ہے۔
ایک تویہ  کہ والدین چھوٹی عمر سے بچے کو کتاب کا تحفہ دینے کی عادت ڈالیں۔
 اساتذہ بچوں کے دلوں میں کتاب کی محبت پیدا کریں ۔انکو کتاب سے پڑھ کر کہانی سنائیں۔
 حکومت کتابوں کو کم قیمت پر فروخت کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔ جیسے نیشنل فاوُنڈیشن کا اس میں بڑا اہم کردار ہے۔
 لائیبریریز کے قیام پر اور ریڈرز کوانکی طرف  متوجہ کرنے کے لئے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے سٹوڈنٹ لائیبریری کارڈز ہوں جو انکے لئے باآسانی دستیاب ہوں۔
 سکولوں اور کالجوں میں ایک پیریڈ لائیبریری کا ضرور رکھا جائے جہاں بچے عملی طور پر جا کے کتب کا مطالعہ کریں۔
 حکومت  قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ایسے پروگرامز منعقد کرےجس میں طالبعلموں کو ریڈنگ کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انکو رعایتی قیمتوں پر مفید کتابیں مہیا ہوں۔
 لکھاری ، ادیب، شاعر خود بھی ان پروگراموں کا حصہ بنیں۔ ایسے پروگرام ہمیں اسلام آباد کی یا چند بڑے شہروں کی حد تک تو نظر آتے ہیں لیکن چھوٹے شہروں میں ایسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کتاب کی محبت پیدا کرنے کے لئے لائیبریریز کے تحت ہر ضلع میں تعلیمی و تدریسی پروگرام منعقد ہوں۔
لائیبریریاں تو موجود ہیں لیکن پڑھنے والے بہت کم ہیں ۔ لہذا لائیبریریز کے تحت ایسے پروگرام منعقد ہوں جو سکولوں میں جا کر بچوں کو مطالعے کی عادت کیطرف راغب کریں ۔
چھوٹے بچوں کے لیئے کتاب میں دلچسپی کے عناصر ہوں تاکہ وہ شوق سے اسکو دیکھیں ، پڑھیں اور اس سے سیکھنے کی عادت ڈالیں۔
جن لوگوں کا ذکر پہلے کیا جیسےکہ والدین ، اساتذہ ، حکومت کے مختلف ادارے ، یہ سب اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اوراسی طریقے سے ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کیطرف واپس لا سکتے ہیں۔

Saturday, September 28, 2019

قراة العین حیدر کی ایک جھلک

قراة العین حیدر کی گردش رنگ چمن زیر مطالعہ ہے۔ایک دلچسپ دستاویزی ناول ہے جسمیں مسلمانوں کی پر تعیش زندگی کا ذکر بھی ملتا ہے اور انکے زوال کی وجوہات بھی۔۔۔۔۔ مختلف شہروں اور کردارں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔۔۔۔ جدت اور قدیم رسوم و روایات کا ایک حسیں امتزاج نظر آتا ہے۔۔۔۔بہت پہلے لیا تھا شاید لاہور ایئرپورٹ سے لیکن مکمل نہ کرپائی مصروفیت کی وجہ سے۔۔۔سوچا آجکل گھر میں ہوں تو اسکو ہی مکمل کر لوں۔۔۔
قراة العین حیدر کو میں لگ بھگ ،26,27 سال سے پڑھ رہی ہوں۔۔۔انکے تمام ناولز، ناولٹ، افسانوی مجموعے ، سفر نامے اور انشائیے ہر تصنیف کمال کی ہے۔۔۔۔ آٹھویں جماعت میں پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا اپنی اماں کی لائیبریری سے تو آج تک انکے سحر میں مبتلا ہوں۔۔۔
آخر شب کے ہمسفر، کارجہاں دراز ہے، چاندنی بیگم، میرے بھی صنم خانے ، آگ کا دریا، سفینہ غم دل ۔۔۔۔یہ تمام تو پڑھ چکی ہوں۔۔۔ایک ناول جو زیر مطالعہ ہے یہ نہیں پڑھا اور چند ایک اور ہیں جو نہیں پڑھ پائی۔وہ ابھی پڑھنے ہیں۔۔۔میری پسندیدہ مصنفہ ہیں۔۔سوچا جنہوں نے نہیں پڑھا انکو ، انکے لئے کچھ رہنمائی کر دوں۔۔۔۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے لکھے انکے ناول کو پڑھیں تو اسمیں بھی ایک جدت، فلسفہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔
انکی تصانیف درج ذیل ہیں
انہوں نے 4 ناولٹ بھی لکھے، جن کے نام ’دلربا‘، ’سیتاہرن‘، ’چائے کے باغ‘، ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘ ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعوں کی تعداد 8 ہے، جن میں ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘، ’پت جھڑ کی آواز‘، ’روشنی کی رفتار‘، ’جگنوؤں کی دنیا‘، ’پکچر گیلری‘، ’کف گل فروش‘ اور ’داستان عہد گل‘ شامل ہیں۔ 5 سفرنامے جبکہ 7 مغربی ادیبوں کی کتابوں کے تراجم بھی اُن کے قلمی اشتراک کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر معروف امریکی ادیب ’ہنری جیمز‘ کے ناول ’دی پورٹریٹ آف اے لیڈی‘ کا اُردو ترجمہ اُن کے چند بہترین تراجم میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اُن کی کئی تخلیقات پر ہندوستان میں فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں ۔

قرۃ العین حیدر نے کُل 8 ناول لکھے، جن میں ’میرے بھی صنم خانے‘، ’سفینہ غم دل‘، ’آگ کا دریا‘، ’آخر شب کے ہمسفر‘، ’کار جہاں دراز ہے‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’چاندنی بیگم‘، ’شاہراہِ حریر‘ شامل ہیں۔ اُن کا ناول ’کار جہاں دراز ہے‘ تین حصوں پر مشتمل اور سوانحی ناول ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے کئی ذاتی گوشوں پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔

کچرا بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے

ایک تحقیقی سروے کے مطابق ماحولیات کے ماہرین کو تشویش لاحق ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غریب عوام کی ایک بڑی آبادی  کوڑے کرکٹ کے پاس رہتی ہے۔ جن کی وجہ سے انمیں بے شمار مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے پاس رہنے سے انہیں جسمانی عوارض لاحق ہونے کیساتھ ساتھ ذہنی بیماریاں بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں ۔جنمیں ملیریا اور فضائی آلودگی سے متعلقہ مسائل شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسکی وجہ کوڑا کرکٹ کی جگہوں پر زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان ممالک میں نہ ختم ہونیوالی  بیماریوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2010 میں ان ممالک میں اسی لاکھ ساٹھ ہزار افراد کچرے کے قریب رہنے پر مجبور ہیں۔ اسی رپورٹ کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ سیسہ، فاسفیٹ اور لوہا اور دیگر کئی طرح کے کیمیکلز صحت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس علاقے میں سیسے کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے ۔ماہرین کی رائے کیمطابق اگر یہ زہریلا مادہ انسان کے خون میں جذب ہو جائے تو اس سے رحم مادر میں بچوں کو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔
ترقی یافتہ  ملکوں میں ماحول د وست اصول کے تحت اسکو ٹھکانے لگانے کے بہت اچھے اور سائنٹفیک  طریقےموجود  ہیں۔ اور  اس کچرےسے فائدہ اٹھانے کے لئےبھی انکے پاس بہت سی سہولتیں اورسائنسی طریقہُ کار موجود ہیں۔دنیا بھر میں آجکل ویسٹ مینجمنٹ کےانہی اصولوں  کے تحت کام ہو رہا ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

#کچرےکی_اقسام:
 ہمارے ملک میں ہر قسم کا ٹھوس کچرا پایا جاتا ہے۔یہ گھریلو ، صنعتی،زرعی یا محض قدرتی  بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے
1)گھریلو کچرا : باورچی خانے کا کچرا جسمیں ٹوٹی کانچ،پلاسٹک، برتن، گتے کے ڈبے، استعمال شدہ پرانے اخبارات اور چھلکے وغیرہ۔
2)فالتو کچرا: اینٹ، ریت ،فرنیچر اور بیکار اشیاء، کاٹھ کباڑ۔
3)حیاتاتی  و طبی کچرا: مردہ جانور۔ شاخ سے گرنے والے پتے، ڈالیاں، تنے، شاخیں ، گلے سڑے پھل ، چھلکے۔
4)زرعی کچرا: فصلوں سے بچنے والا کچرا ، کھیت کے جانوروں کے فضلات ، راکھ اور کیڑا کش ادویہ ۔
5) صنعتی کچرا: جیسے کیمیاوی مادہ، پینٹ وغیرہ
6) کوئلے کی کان کا کچرا۔
یہ کچرا زیادہ  تر شہروں میں ملتا ہے۔

#کچرےکی_نکاسی_کےلئےاقدامات:
 شہروں میں  اس کچرے کی نکاسی کے لئے حسب ذیل اقدامات کئے گئے ہیں۔
1) ٹھوس کچرے کا جمع کرنا ۔ شہر کے مختلف مقامات سے ٹرکوں اور ٹریلوں کے ذریعے کچرا جمع کیا جاتا ہے جو ٹرانسفر سٹیشنز پر بھیجا جاتا ہے۔۔ بلڈوزر ان کچروں کو انتقالی مستقروں سے نکال کر نکاسی کی جگہوں کو لے جاتے ہیں جو عمومًا کسی زمین پر یکجا کیا جاتا ہے ۔ نباتاتی، زرعی اور گھریلو کچرا تو زمین میں دفن کیا جا سکتا ہے لیکن پلاسٹک اور باقی کیمیاوی کچرے کو یا تو recycling کے عمل سے گزارا جاتا ہے یا تلف کر دیا جاتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو کنٹینر میں بھر کر تلف کر دیا جاتا ہےاور پھر گہری جگہوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

#کچرےاورکچرادانوں_کامناسب_انتظام

ِیہ بہتر ہو گا  کہ ہر گھر کے سامنے ایک بڑے سائز کا ’’ڈرم‘‘ کوڑا ڈالنے کے لیے رکھ دیا جائے جسے کچرا اٹھانے والا آ کر اپنی ہتھ گاڑی میں ڈال کر لے جائے۔ اس کچرے کو کچرے کے بڑے ڈھیر  میں ڈال دیا جائے جہاں سے گاڑیاں محفوظ طریقے سے وہ کچرا ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے لیے مخصوص جگہوں پر پہنچا دیں۔ متعلقہ لوگ اس کچرے کو ری سائیکل کر کے اسے کار آمد بنا کر پھر نئے سرے سے نئی اشیا بنانے میں لگاسکتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ  سڑکیں صاف کرنے والوں کے پاس سائیکلیں ہوں  جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈبے لگے ہوں،تاکہ سڑک کو صاف کر کے کوڑا ان میں جمع کیا جائے۔ اسی طرح  ترتیب وار مخصوص فاصلوں پر بڑے بڑے ٹرالر کچرا ڈالنے کے لیے رکھ دیے جائیں جہاں گھروں اور سڑکوں سے اکٹھا کیا ہوا کچرا جمع کیا جائے، جو ٹرکوں کے ذریعے مخصوص فیکٹریوں یا ان جگہوں تک لے جایا جائےجہاں انکو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزاراجائے۔ اس طرح کا کام کرنے کے لیے کے MC  یاTMA یا  متعلقہ ادارے اس کام کا ٹھیکہ کسی شہرت یافتہ  کمپنی کودیں، جو ہر شہر کو اپنے  طریقہُ کار  سے صاف رکھیں۔ان  ٹھیکوں  کی وجہ سے کوڑا ری سائیکل ہو کر کار آمد بھی ہو گا ،  جس کو آگے فیکٹریوں کو فروخت کر دیا جائے اور ٹھیکہ دینے سے بھی کروڑوں کا منافع ہو سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے اس کام کے لیےہمیں بہت زیادہ  پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی ہم  کچھ کر  سکتے ہیں  مگر اصل کام بڑے پیمانے کا ہے، جو ہر شہر کی بلدیاتی حکومت انجام دے سکتی ہے۔ اس میں ماہرین کی ضرورت ہو گی اور ایسے ایماندار افسران کی ضرورت ہے جو  دیانتداری اور جانفشانی سے اس کام کو انجام تک پہنچائیں۔

#ری_سائیکلنگ:
پوری دنیا میں Recycling کا رجحان ہے۔ لوگ پرانی اشیا کو پھر سے قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایسی بے شمار اشیا کو کسی حد تک کار آمد کرنے کے لیے کسی اور شکل میں ڈھالتے ہیں۔ مثال کے طور پر پلاسٹک کی بڑی بوتلوں کو کاٹ کر ان پر کلر کر کے ان میں پھول اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔انڈیامیں ایک سائنسدان نے 10%پلاسٹک کو بجری اور کولتار  کے ساتھ مکس کر کے اس سے سڑکیں بھی بنائی ہیں۔ کچھ ممالک میں بوتلیں ٹرین کے ٹکٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
 پرانے کاغذ کا گتہ بنتا ہے اور پلاسٹک بیگز پھر بیگز بنانے یا پلاسٹک کا سامان تیار کرنے کے کام آ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر استعمال شدہ چیز کا کوئی نہ کوئی مصرف ہوتا ہے۔

#کچرا_جمع_کرناایک_منافع_بخش_کام_ 

 چند سالوں سے لوگوں نے کچرے کا مصرف تلاش کر لیا ہے، گویا کچرا بھی ایک کار آمد بزنس بن گیا ہے۔۔ 
کتنے ہی بچے اور نوجوان لوگوں نے کچرے کے قریب اپنے مسکن بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ کاغذ، پلاسٹک کی اشیا، لوہے کا سامان وغیرہ علیحدہ کر کے تھیلے بھر کر مختلف فیکٹریوں میں بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح سے کچرا فروشی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ہزاروں ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر کچرے کے ڈھیروں سے چنا جاتا ہے اور ان کو علیحدہ کر کے فیکٹریوں تک لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بغیر قرض لیے اور سرمایہ لگائے ایک منافع بخش کاروبار بن  سکتا ہے۔ اگر یہی کام ٹھیکےدار  کو ٹھیکے پر دے دیا جائے تو اس سے کروڑوں روپے حکومت کو میسر آ سکتے ہیں اور شہروں کی صفائی کا نظام بھی  بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔ 

#کچراچننےوالوں_کوکیسےکارآمدبنایاجائے

سیکڑوں ٹن کچرے میں سے کارآمد اشیاء نکالنے والے اِن ہزاروں ہنرمندوں اور رضا کاروں کی ایک فوج بنا کر اس کچرے کو صاف کیا جاسکتا ہے اور اس خودکار رضا کار فورس کو جب آپ معقول اور مناسب معاوضہ دیں گے تو یہ آپ کیلئے بہت کارآمد ثابت ہوں گے اور آپ اس فورس کو   کوڑا صاف کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں، یہ لوگ خوشی خوشی اس کام پر تیار بھی ہو جائیں گے کیونکہ وہ سارا دِن یہی کام تو کررہے ہوتے ہیں اور ہم اس طرح کم پیسوں میں اس کوڑے کو صاف اور اِسے کام میں لاسکتے ہیں ۔انکو ہم ٹرین train کر سکتے ہیں کہ وہ پلاسٹک کی  ، لوہے کی  ، اور دیگر کار آمد اشیاء کو الگ الگ چنیں اور جمع کریں یوں آسانی سے ان پلاسٹک بوتلوں  کو recycling سے اور باقی چیزوں کو فروخت کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے ۔

#کچرےکابہتراستعمال
 اگر کچرے کو استعمال میں لایاجائے تو نہ صرف کثیرزرمبادلہ بچایاجاسکتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں کیونکہ
1)کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بجلی اورکھاد کی پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔
2)کچرے کا ایک حصہ پروٹین‘ فرٹیلائزر (کھاد) کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ انرجی کی پیداوار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
3)کچرے کا تیسرا حصہ جو قابل استعمال نہیں اسے خاکستر دانوں کے ذریعے تلف کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کیمیکلز اورجراثیم پر مشتمل یہ کچرا انتہائی خطرناک اور آلودگی کا باعث ہوتاہے۔
 دنیا بھر میں 100 میں سے 65فیصد کچرا کارآمد ہوتا ہے جبکہ 35فیصد ضائع کردیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو زیر استعمال لاکر اربوں روپے کی معیشت کا اضافہ ہورہا ہے جس سے بجلی اورکھاد کی پیداوار جاری ہے۔ سالڈ ویسٹ اکانومی آج دنیا بھرمیں اربوں ڈالر تک پھیل چکی ہے۔لیکن افسوس ہمارے ہاں اس قسم کے منصوبے اول تو شروع ہی  نہیں کئے جاتے اگر کر بھی دئیے جائیں تو وہ بد انتظامی، ناتجربہ کاری اور کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔اس مقصد کے لئے ہماری حکومت کو متعلقہ محکموں کے افسران کو جدید ٹریننگ دلوانی ہو گی۔
سالڈ ویسٹ ایک مضمون بن چکا ہے جس پر لوگ باقاعدہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرف حکومت توجہ دے اور کوالیفائیڈ لوگوں کو ان محکموں میں تعینات کرے۔ اسی طرح کچھ بہتری آنے کے امکان ہیں۔


Saturday, September 14, 2019

خاموش زہر قاتل



پلاسٹک جدید کیمیائی صنعت میں بہت ہی سستی اور عام شے ہےجو ہماری زندگی میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ پلاسٹک کو آج ہمارے یہاں اس قدر اہمیت حاصل ہوچکی ہے
کہ اس کے بغیر اب روزمرہ کی زندگی ہمیں  ادھوری دکھائی دیتی ہے۔ ہم روزانہ پلاسٹک
سے بنائی گئی کوئی نہ کوئی چیز ضرور
استعمال کرتے ہیں، جبکہ پلاسٹک کا سب سے زیادہ استعمال ہم پولیتھین لفافوں یا بیگز کی صورت میں کرتے ہیں۔ یہ بیگ یا لفافے وزن میں انتہائی ہلکے اور سستے ہوتے ہیں اور ہم انہیں کسی بھی طرح سے استعمال کرسکتے ہیں۔ ان
ہی فائدوں کو دیکھ کر ہم ان کا بکثرت استعمال کرتے ہیں،لیکن اس کے مضر اثرات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان پلاسٹک بیگز کو استعمال کےبعد پھینک دیا جاتا ہے، لیکن یہ اپنی کیمیاوی خصوصیات کے باعث مٹی، پانی یا ہوا میں گلنے سڑنے کے بجائے ہمارے ماحول کے لئے مضر اور ضرر رساں بن جاتے ہیں۔
#شاپنگ_بیگزکی_تاریخ:
پلاسٹک کے تھیلے یا شاپنگ بیگز یا عرف عام میں شاپر کہلانے والے اس ماحول کو برباد
کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ہماری
اس کائنات کے لئے خاموش زہر قاتل کا سا
کام انجام دے رہے ہیں۔ 20ویں صدی میں
ایجاد ہونیوالے پلاسٹک سے بعد میں کیا کیا تباہی ہوگی یہ اسوقت کے لوگوں نے یقینا"
نہیں سوچا تھا ۔ پلاسٹک اپنی ساخت اور
بناوٹ میں لچکدار، نرم اور مضبوط ہر شکل
و صورت میں تیار کیا جاسکتا ہے۔ اسلئیےاس سے ہرقسم کےاستعمال کی چیزیں بننی شروع ہوئیں۔ باورچی خانے کے برتن و اشیاء سے لیکر کھلونوں، جوتوں، کمپیوٹر ، ٹی وی، مختلف مشینری اور گاڑیوں تک میں اسکا استعمال ہوا۔ اسکے علاوہ طبی آلات کو دیکھیں تو انمیں انجکشنز اور ٹیوبز وغیرہ پلاسٹک سے ہی بنی ہوتی ہیں۔ پہلی بار شاپنگ بیگ یا تھیلے کا استعمال 1957 میں سینڈوچ بیگ سے ہوا۔ جسکے بعد ان تھیلوں کے استعمال کا یہ سلسلہ چل نکلا۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پلاسٹک میں بیکری کا سامان زیادہ دیر تک تازہ رہتا تھا۔ لہذا 1969 میں امریکہ میں ڈبل روٹی اور اشیائے خورد ونوش کو انہی تھیلوں میں فروخت کیا جانے لگا۔ 1977 تک انکا استعمال بڑھکر جنرل سٹورز اور سبزی فروشوں تک
آچکا تھا۔ 1996 تک ان تھیلوں کا استعمال
دنیا بھر میں 80% تک بڑھ چکا تھا۔ یہ
شاپنگ بیگز دکانداروں کو نسبتاً سستے پڑتے تھے ۔لہذا دکاندار بھی انکا بے دریغ استعمال
کرنے لگے اور گاہک بھی۔  ایک اندازے کیمطابق پوری دنیا میں پلاسٹک کے تقریباًایک ٹریلین شاپنگ بیگزیا اس سے کچھ زائد  استعمال
ہونے لگے۔ اس حساب سے ہر شخص  ایک
سال میں اوسطاً150 تھیلے استعمال کرتا ہے۔
اور ہر سال انکے استعمال میں تقریباً 15% اضافہ ہو رہا ہے۔صرف پاکستان میں پلاسٹک
بیگ بنانے والے کارخانوں کی تعداد آٹھ سے
دس ہزار کے درمیان ہے۔اور ان میں سے ایک کارخانہ اوسطاً 250 سے 500 کلوگرام
پلاسٹک بیگ بنا رہا ہے۔ ایک سرکاری جائزہ رپورٹ کیمطابق ملک میں استعمال ہونیوالے
ان تھیلوں کی تعداد 55 ارب تک پہنچ چکی
ہے۔ جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ 
#پلاسٹک_کےشاپنگ_بیگزکےنقصانات:
پلاسٹک کی مصنوعات کاسب سے بڑا نقصان
یہ ہے کہ وہ دھوپ اور پانی سے رفتہ رفتہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں  تو  تبدیل  ہو
جاتی ہیں لیکن کئی صدیوں تک ختم (dissolve) نہیں ہوتیں ۔ انکا بیشتر حصہ
ندی نالوں، دریاوُں کے ذریعے ہوتا ہوا سمندروں میں جاتا ہے جس میں سے 70 %سمندروں کی تہہ میں چلا جاتا ہے اور آبی آلودگی کا باعث
بنتا ہے اور30% سطح پہ تیرتا رہتا ہے۔ ایک تجزئےکیمطابق سمندروں سے نکالا جانیوالا 90%کچرا پلاسٹک اور ان بیگز پر مشتمل
ہوتا ہے۔ 2006 کی ایک ریسرچ کیمطابق
سمندر کے کئی حصوں میں ایک مربع
میل کے رقبے کے اندر پلاسٹک کے تقریبا" 46000 ٹکڑے موجود ہوتے ہیں جو سمندروں میں زہریلا مواد پھیلا رہے ہیں.اور آبی
جانداروں کی موت کا باعث بن رہے ہیں۔
شہروں میں پلاسٹک کے تھیلے کوڑے کے
ڈھیروں سے اڑ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ جو ٹریفک میں بھی تعطل پیدا کرتے ہیں۔اسکے
علاوہ گٹروں اور نالیوں میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔یہ پانی جب سڑکوں پر پھیلتا ہے تو انمیں شگاف اور دراڑیں پیدا کر دیتا ہے۔
جس سے سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔  نکاسی آب  کے نظام میں رکاوٹ کے نتائج
کسی بھی ملک یا شہر کے لئے انتہائی
خطرناک ثابت ہوتے ہیں.  اس سے اردگرد
کا ماحول بھی آلودہ ہو جاتا ہے۔ اور یہی گندا پانی پینے کے صاف پانی میں بھی شامل ہو کر گیسٹرو، ہیضہ جیسی خطرناک بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ یہی پانی جوہڑوں کی شکل اختیار
کر کے مچھروں کی آماجگاہ بن جاتا ہےجو ڈینگی، ملیریااور پیٹ کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ پلاسٹک کے ذرات اور زہریلے
عناصر زمین میں جذب ہو کر چشموں اور کنووُں کے پانی کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق 80 % بچوں  اور 93 % بڑوں کے
جسموں میں پلاسٹک سے ملے جلےاجزا پائے
جاتے ہیں۔جو ہارمونز بنانے والے غدودوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ مختلف قسم کے کینسرز بھی انہی شاپنگ بیگز اور پلاسٹک کی مصنوعات سے پھیل رہے ہیں۔خاص طور پر پلاسٹک کی بوتلیں اور ڈسپوزیبل کپس جن
میں چائے پی جاتی ہے ۔انتہائی نقصان دہ ہیں۔ سانس کی بیماریاں ، کالا یرقان اور موذی بیماریاں بھی اسی سے  لاحق ہوتی ہیں۔
پلاسٹک کی کوڑے میں موجودگی اس کو زمین میں جذب ہونے سے رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں کوڑے کی
بھی کیٹیگریز ہیں۔ پلاسٹک کو الگ، نباتاتی کوڑے کو الگ اور کاغذ کو الگ الگ حصوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ پلاسٹک کو ضائع کیا جائے یا ری سائکلنگ کی جائے اور باقی نباتاتی کوڑے
کو کھاد یا کسی اور مفید مقصد کے لئے
استعمال کیا جائے۔پلاسٹک اور پلاسٹک بیگز کا استعمال زمین کے نظام کے لئے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
اسکے استعمال کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں پلاسٹک پرپابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اور اسکے متبادل متعارف کرائے جارہے ہیں ۔  1997 میں وزیراعظم پاکستان  نےملک میں  تمام رنگ کے تھیلوں پر پابندی عائد کر
دی تھی۔2013 میں بھی حکومت نے انپر
پابندی لگائی اسی طرح  مختلف صوبائی حکومتوں نے بھی مختلف ادوار میں ان
تھیلوں کے استعمال پر پابندیاں  عائد کی تھیں لیکن افسوس کے انپر عملدرآمد نہیں کیا جاتا
رہا۔
پلاسٹک کے تھیلوں کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ جبتک ان کو مکمل طور پر ban نہیں کیا
جائیگا اسوقت تک ہمیں اس بھیانک حقیقت کا سامنا رہے گا کہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ پلاسٹک اور پولیتھین بیگز ہیں۔ ان بیگز کے متبادل کے طور پر ہم پٹ سن اور کاغذ کے بیگز کو فروغ دے سکتے ہیں۔پلاسٹک کے ان تھیلوں سے قبل پٹ سن کی بوریاں یا موٹے
کاغذ کے لفافے استعمال ہوا کرتے تھے ۔ ہمارے بچپن میں سبزی اور پھلوں کے لئے ٹوکرے یا پٙچھے استعمال ہوا کرتے تھے ۔ ہمیں چاہئیے کہ
ہم انہی چیزوں کا استعمال دوبارہ کریں کیونکہ یہ ماحول کے لئے کسی بھی قسم کے نقصان کا باعث نہیں بنتے جبکہ پلاسٹک کو نہ جلایا جا سکتا ہے ، نہ انکو dissolveکیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسکا کوئی اور مفید استعمال ہے۔ یہ ہر صورت میں ناقابل تلف ہے۔ ہمارے ماحول کے
لئے زہر قاتل کا کام دے رہا ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے اسکو ختم کرنے اور اسکے متبادل کے طور
پر کارآمد بیگز کو متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب  عام آدمی کو اسکے مضمر اثرات کے بارے میں علم ہوگا۔ ہم عوام کی آگاہی کے لئے مختلف سیمینارز ، کانفرنسز اور پروگرامز کا اہتمام گورنمنٹ کی سطح پر بھی اور سول سوسائٹیز اور NGOs کیساتھ ملکر کر سکتے ہیں۔ ان آگاہی پروگرامز کا انتظام لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں، یونیورسٹی، کالجز ،سکولوں کے طلبا،سوشل ورکرز، ماحولیات کے لئے کام کرنیوالے سارے اداروں کے لوگوں اور ماحولیات کے لئے کام کرنیوالی NGOs کے لئے ہونا چاہئیے ۔جہاں سے آگاہی عام آدمی تک پہنچے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ  سوشل میڈیا کا بھی مثبت استعمال لوگوں کو آگاہی دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسکے علاوہ انتظامیہ، لوکل گورنمنٹ ، TMA, WASCCAکے ادارےاسکی روک تھام اور اسکی تشہیر کے لئے اہم رول ادا کر سکتے ہیں جب لوگ آگاہ ہونگے۔
موجودہ
  تو اس زہر قاتل کے استعمال کو ترک کر دینگے۔ اور اسکےبہتر متبادل تلاش کرینگے۔ آیئے ہم سب اس مہلک شے سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلائیں ۔ اچھی بات کو پھیلانا بھی صدقہُ جاریہ ہے۔













Wednesday, September 11, 2019

ہمارا اپنا قائد



آج جی چاہا کہ اپنے قائد کو اپنی تحریر کے ذریعے خراج تحسین پیش کروں۔۔۔۔قائد اعظم محمد علی جناح سے ناصرف اس قوم کا بچہ بچہ  بلکہ پوری دنیا واقف ہے۔۔۔۔ہر کوئی انکے کردار کی مثالیں دیتا ہے۔۔۔انکی پوری زندگی کے سفر کےبارے میں سب جانتے ہیں ۔۔میں آج اس تحریرمیں صرف انکی شخصیت کے مختلف پہلووُں پر روشنی ڈالوں گی۔۔۔انکا اخلاص ، دردمندی،  تدبر، ارادے کی پختگی،  امانتداری، عزم صمیم ، بلندحوصلگی ، استقامت ،وعدے کی پابندی، سچائی کی عادت ،پر دلیل گفتگو، انتھک محنت ، بااصول شخصیت۔۔۔۔یہ سب وہ خصوصیات ہیں جو انکی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہمیں حاصل ہوئیں۔۔۔۔وہ ایک کامیاب اور اسوقت کے مہنگے ترین وکیل تھے لیکن مسلمانوں کے لئے دردمندی اور اخلاص چونکہ انکے دل میں موجود تھا جسے حالات نے عیاں کیا اور وہ اپنی پر تعیش زندگی کے عیش و آرام تج کرکے جدوجہد آزادی کے لئے پورے عزم اور بلند حوصلگی کے ساتھ جُت گئے ۔ اس سفر کو اپنے ارادے کی پختگی اور استقامت کے ساتھ لیکر آگے بڑھے اور اسوقت تک چین سے نہیں بیٹھے جبتک کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لئے ایک الگ ریاست حاصل نہ کر لی۔۔۔۔ آج جو ہم اس ملک میں آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں یہ قائد ہی کی انتھک محنت، پرعزم ارادے اور بروقت قوت فیصلہ سے ممکن ہوئی اگر انکی دور اندیشی اور تدبر نہ ہوتا تو آج ہم ہندوستان میں غلامی کی چکی پیس رہے ہوتے۔۔۔۔ قائد کی پردلیل گفتگو، دور اندیشی اور تدبرکے بڑے بڑے عالم فاضل بھی قائل ہیں۔۔اپنے تو اپنے پرائے بھی انکے پختہ کردار کی تعریف کرتے ہیں۔۔۔انکا انداز بیاں انتہائی شستہ، نفیس  سادہ اور پُر دلیل ہوتا تھا۔۔۔کم لیکن مدلل گفتگو کرتے ۔۔۔فالتو بات نہ خود کرتے تھے نہ پسند فرماتے تھے۔۔۔انکی شخصیت کا ایک اور پہلو کہ انکو اپنے جذبات و احساسات پر مکمل کنٹرول حاصل تھا ۔۔۔کبھی کسی نے انکو غصے میں یا بہت خوشی میں نہیں دیکھا ۔۔۔انکی شخصیت میں ایک خاص توازن تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان سے مرعوب رہتے تھے ۔۔۔قائد ایک سنجیدہ لیکن خوش اخلاقی کی حامل شخصیت تھے۔۔۔انہوں نے اپنی  شدید بیماری کو لوگوں سے ، دنیا سے چھپا کے رکھا کہ اسکو انکی کمزوری نہ سمجھا جائے۔۔۔۔۔وہ بہت زیادہ محنتی انسان تھے ۔۔گو کہ انکا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا لیکن معاشرے میں بلند مقام و اعلیٰ رتبہ  انہوں نے اپنی انتھک محنت سے حاصل کیا۔۔۔۔ انکے باقی بہن بھائی اتنے تعلیم یافتہ نہیں تھےجتنے کہ قائد۔۔۔انہوں نے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کو دریافت کیا اور ان کو بروئے کار لاتے ہوئے عظمت کی اس بلندی پر پہنچے کہ آج دوست تو دوست دشمن بھی انکی تعریف کرنے پر مجبور ہے ۔۔
انکی وفات کے بعد ہندوستان کی اسمبلی میں ڈاکٹر راجندر پرساد نے4 نومبر 1948میں انکے کردار پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی  کہ
"قابل صد احترام ممبران اسمبلی ۔۔میں آپ سے ملتمس  ہوں کہ اپنی جگہوں پر کھڑے ہوجائیے اور  قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کیجئےجنہوں نے اپنے عزم صمیم ، لازوال کوششوں اور انتہائی اخلاص نیت سے خطہُ پاکستان حاصل کیا اور اس گھڑی انکی وفات  ایک ناقابل تلافی  نقصان ہے۔"
یہ ہے کردار جسکے دشمن بھی معترف تھے۔۔
آزادی کے بہت بڑے داعی نیلسن مینڈیلا نے 1955 میں قائد سے اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا
"جناح ان تمام لوگوں کے لئےمستقل طور پر قابل تقلید ہیں جو کہ نسلی اور گروہی تفریق کے خلاف لڑ رہے ہیں"
صٙرت چندرا بوس نے ان الفاظ میں قائد کی پیشہ وارانہ  زندگی اور شخصیت پر روشنی ڈالی کہ
"مسٹر جناح نا صرف ایک بڑےنامور وکیل تھے بلکہ ایک بہترین کانگرس مین ، مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما ، دنیاکےایک قدآورسیاستدان و سفیر اور سب سے بڑھ کر ایک  بہت ہی باکردار انسان تھے "
قائد کی یہ خصوصیات ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔۔۔۔ وہ ایک باعمل ، پر عزم ، دوراندیش راہنما۔۔۔ایک  بہترین پیشہ ور وکیل۔۔ایک مدبر اور بااصول سیاستدان ، اور  سب سے بڑھکر بہترین شخصیت کے حامل انسان تھے۔۔۔۔
آج انکی وفات کا دن ہے ۔۔۔ہم انکی مغفرت کے لئے دعاگو ہیں۔۔۔۔اور امید کرتے ہیں کہ اخلاص نیت  انتھک کوششوں اور لازوال قربانیوں سے حاصل کیا گیا یہ ملک تا قیامت قائم رہے۔۔۔۔اس ملک کو ان جیسے باعمل اور بااصول رہنما کی ضرورت ہے۔۔۔
قائد اعظم ۔۔۔۔زندہ باد
پاکستان ۔۔۔۔۔پائندہ باد

تحریر
امنہ سردار

Tuesday, September 10, 2019

محترمہ کلثوم نوازکی یادمیں



وقت کیسے گزرتا جاتا ہے نہ کسی کا انتظار کرتا ہے نہ کسی کو مہلت دیتا ہے۔بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑے چلا جاتا ہے۔کبھی یہ ہمیں خوشیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور کبھی ہمارے دامن میں گہری اداسیاں چھوڑے جاتا ہے ۔اسکی قدرو قیمت اسکے گزرنے کے بعد ہی معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔وقت کی ستم ظریفیاں سہتے بہت سے جواں ہشاش بشاش لوگ کیسے ضعف و اجل کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔۔
 آج میں ذکر کرونگی محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کو جنہوں نے آج ہی کے دن اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کر دی۔۔۔ایک طویل بیماری سے جنگ لڑتے ہوئے آخر وہ ہار گئیں اور اجل جیت گئی۔۔۔۔بیماری کی شدت  اور اپنے پیاروں  سے دوری کے غم نے انکی عمر  کو مذید مختصر کر دیا۔۔۔۔ اپنے عزیز از جان شوہر جنکے ساتھ ہر دم ہر پل وہ  موجود رہتی تھیں ۔۔ان سے دوری کے دکھ نے انکی بیماری کی شدت کو بڑھا دیا اور آخرکئی دن  زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔۔۔۔

انکی بیماری کے دوران بہت سے معزز لوگوں کی زبان سے انکی بیماری کو ڈرامہ اور ڈھونگ کہے جانے نے مجھے نہ صرف افسردہ کیا بلکہ بہت حیران کیا کہ کیا لوگ اتنے شقی القلب بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔اتنے ظالم ۔۔اتنے کٹھور اور اتنے سنگدل کہ ایک عورت جو موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے اسکو آپ ان الفاظ سے نواز رہے ہیں۔۔۔۔سچ بتاوُں تو میرا ان سوکالڈ مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔۔۔۔ بات پارٹی بازی یا اختلاف کی نہیں ہوتی کبھی کبھی اخلاقیات کی بھی ہوتی ہے ۔۔کیا یہی ہماری اخلاقیات رہ گئی  ہیں کہ ہم بے بس لوگوں کا اس طریقے سے استہزا کریں ۔۔۔۔ مذاق اڑائیں۔
مرنا سب نے ہی ہے تو کیوں بندہ ایسی باتیں کر کے اپنی اصلیت دوسروں پر عیاں کرے۔۔۔۔بہرحال ضمناً ایک بات یاد آگئی تو تذکرہ کر دیا  ۔۔۔
تھوڑی سی بات کرونگی محترمہ کی شخصیت کے حوالے سے۔۔۔مرحومہ ایک نیک خاتون تھیں۔اپنےپرائے ،دوست دشمن ، حریف حلیف سب انکے اخلاق کے گن گاتے تھے ۔۔۔ وہ سراپا شفیق تھیں۔۔۔ہنستا مسکراتا شاداب چہرہ ۔۔۔۔جیسے انکا باطن انکے ظاہر سے جھلکتا تھا۔۔۔ان سے اک مامتا کی مہک آتی تھی۔۔۔۔جب وہ پہلی بار میاں صاب کی گرفتاری کے زمانے میں نکلیں تو بڑی شفقت اور اخلاص سے پارٹی کے لوگوں سے ملیں۔۔۔۔اور جب وہی لوگ ان سے بعد میں بھی ملتے تو  ان سے اسی خلوص اور محبت سے پیش آتیں۔۔۔۔بہت سے پارٹی ورکرز مرد و خواتین انکے اخلاق کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔۔۔یہ انکا اخلاق ہی تھا کہ انکی وفات پہ انکےحریفوں نے بھی ازحد افسوس کا اظہار کیا۔۔۔۔محترمہ تو اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن ان کا نام ہمیشہ اچھے الفاظ میں لیا جاتا رہے گا ۔۔ میری یہ تحریر میری طرف سے مرحومہ کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔۔۔۔۔اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائیں آمین۔۔۔

تحریر
آمنہ سردار

Wednesday, August 14, 2019

مشترکہ خاندانی نظام کی ناکامی کے نفسیاتی پہلو

#پس منظر

بر صغیر پاک وہند کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھیں گےکہ یہاں مشترکہ خاندانی نظام صدیوں سے چلا آرہا ہےاور بہت کامیاب طریقے سے ۔پورے پورے خاندان ایک ہی گھر میں ایک ہی چولہے پر شیر وشکر ہو کر رہتے تھے۔گلے شکوے تو ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اس میں زیادہ دخل بزرگوں کی فراست  اورسمجھ بوجھ کا ہوتا تھا کہ وہ بچوں کے بہت سے تنازعوں کو بہ احس و خوبی سر انجام دیتے تھے۔وہ اپنے حلم اور بردباری سے اپنے تمام بچوں کو ایک چھت تلے یکجا اور متحد رکھتے تھے۔دلوں میں محبتیں بھی تھیں اور پیار بھی ۔اقدار کا پاس رکھا جاتا تھا .اسوقت لوگ بامروت تھے۔ایکدوسرے کا دل رکھنا جانتے تھے۔ان میں دوسروں کی بات کو تحمل سے سننے کا حوصلہ ہوتا تھا۔

#مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد*

اس نظام کے بہت سے فوائد تھے۔ ایکدوسرے کے دکھ درد میں سب شریک ہوتے تھے۔مل بانٹ کر کھانے کی عادت ہوتی تھی۔سادہ زمانے تھے یہ نہیں کہ مقابلے کی دوڑ میں لگ جاتے بلکہ ایکدوسرے کو ساتھ لیکر چلتے تھے۔۔۔میں بہت پیچھے نہیں جاوُنگی بلکہ اگر اپنے بچپن کی بات کروں تو یہی کہوں گی کیا بھلا زمانہ تھا جب باورچی خانے میں ایک ہی چولہے کے گرد بیٹھ کر سب دادی جان کے مزیدار کھانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ہر کوئی بڑے صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتا تھامجال ہے کوئی خلاف ورزی کرتا۔مشترکہ نظام نے نا صرف تحمل، بردباری ، مروت پیدا کی بلکہ ایثار و قربانی کا جذبہ بھی عطا کیا۔ سیلف ڈسپلن کا پابند کیا۔محدود وسائل ہوتے تھے اور افراد کی فراوانی لیکن کبھی ہلچل ، بے چینی، افراتفری کاماحول نہیں ہوتا تھا بلکہ سہولیات کے نہ ہونے کے باوجود گھر کی خواتین بہت ہی منظم طریقے سے تمام کام سر انجام دیتی تھیں۔۔آج کی طرح بھگڈر نہیں مچی ہوتی تھی۔ کسی کوکسی سے شکایت نہیں ہوتی تھی۔اگر والدہ فارغ نہ ہوتی تو چچی ، پھپھی ، خالہ، ممانی یا جو بھی دستیاب ہوتی وہ فوری طور پر آموجود ہوتی۔آج کی طرح نفسا نفسی کا دور نہیں تھا۔ایکدوسرے کی خوشی میں خوش اور دکھ میں لوگ دکھی ہوتے تھے۔ماں جی کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ بھائی صاب امتحانات میں اول آئے اور چچا زاد بھائی فیل ہوگئے تو ماں جی نے رونا شروع کر دیا ۔یہ تھی محبت ، مروت، احساس جو آج بلکل مفقود ہوگیا ہے ۔۔گھر کے بڑےبزرگ اگرکسی بات پر بچوں کی گو شمالی کرتے تو والدین کی مجال نہیں ہوتی تھی انکے سامنے آواز اٹھانے کی۔بلکہ بچے کو ہی سمجھایا جاتا تھا ۔یہی تربیت کا انداز تھا۔ایک بچے کی تربیت میں پورے خاندان کا ہاتھ
ہوتا تھا۔ نتیجتاً بچے بھی مودب اور فرمانبردار  ہوتے تھے ۔*مشترکہ خاندانی نظام کی ناکامی کے اسباب

یہ نہیں کہ موجودہ نظام اب مکمل طور پہ ختم ہو گیا ہے ایسا نہیں۔بہت سے علاقوں میں، بہت سے گھروں میں یہ روایات ابھی بھی زندہ ہیں ۔ایکدوسرے کا احساس، خیال ابھی بھی رکھا جاتا ہے لیکن زیادہ تر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اب وہ پہلے جیسےحالات نہیں رہے۔۔اسکی سب سے بڑی وجہ ہے صبر، برداشت اور تحمل کی کمی۔اب لوگوں کے خون سفید ہوگئے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے لیکن باشعور اور بامروت ضرور ہوتے تھے۔اب جیسے جیسے تعلیم عام ہو رہی ہے ڈگریاں تو بڑھتی جا رہی ہیں لیکن شعور میں کمی آتی جا رہی ہے ۔احساس بے حسی میں تبدیل ہو رہا ہے ۔لالچ ، کینہ، بغض بڑھتا جا رہا ہے۔میں یہ نہیں کہونگی کہ یہ احساسات و جذبات پہلے نہیں تھے ایسا نہیں ہونگے لیکن اسوقت معاشرے میں مروت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ کھلم کھلا لڑائی جھگڑے نہیں کرتے تھے۔لیکن افسوس کہ اب اچھے بھلے پڑھے لکھے خواتین و حضرات چھوٹی 
چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنا کر اس پہ لڑائی شروع کر دیتے ہیں۔بچوں کی معمولی لڑائیوں پہ باقاعدہ دنگل ہوتے ہیں۔بھائ بھائ کا دشمن ہوا جاتا ہے ، چچا بھتیجے کے خون کا پیاسا ہوا جاتا ہے۔پھپھیاں بھتیجیوں میں عیب ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔دادی پوتے پوتیوں سے نالاں اور وہ دادی سے بیزار۔ساسیں ہر وقت بہوُں کے خلاف برسر پیکار اور بہویں ساسوں کے خلاف کمر بستہ۔دیورانی جیٹھانی ، نند بھاوج کی سازشیں اپنی جگہ۔ اس سب سے تو بہتر ہے کہ پھر چولہے الگ کر دیئے جائیں جہاں ایک روٹی زیادہ کھانے اور بوٹی چھپا کے رکھنے پر معرکے ہوتے ہوں ۔سب سے بھلا یہی کہ اگر خرچ برداشت کرنے کے متحمل ہوں تو چولہے نہیں تو گھر ہی علیحدہ کر دیں ۔

#مشترکہ خاندانی نظام کو ترک کرنے کے
نقصانات*:

دور حاضر میں بہت سے  لوگوں نے اس روایتی طریقے کو چھوڑا ۔اسکے اسباب اور وجوہات بیان کی جا چکی ہیں۔اسکے نقصانات کیا ہوئے انپر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔جدیدیت کے نام پر لوگ الگ تو ہو گے خاندانوں سے لیکن اب انکو پہلے سے بھی زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔جیسے کہ پہلے مشترکہ نظام میں کوئی بھی بچے کا خیال رکھ سکتا تھا اسکی ضروریات پوری کر سکتا تھا جبکہ اب یہ نہیں رہا۔جو کچھ کرنا ہے ماں اور باپ نے ہی کرنا ہے۔بچوں کو  گھر میں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا ۔انکی تربیت میں پہلے پورا خاندان شریک ہوتا تھا اب صرف یہ زمہ داری اماں ابا پر عائد ہوتی ہے۔گھر سے باہر جاتے ہوئے پہلے گھر کی یا اشیاء کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔اب اکیلے گھر سے نکلنا محال ہے ۔چوری کے خدشے کے باعث خالی گھر کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔پہلے کام بانٹ کے کئے جاتے تھے اب تمام کام ایک ہی شخص کے سر پہ آ پڑے۔خاتون خانہ ہوں یا صاحب خانہ دونوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں ۔چھوٹے نو مولود بچوں کو پہلے گھر کی بزرگ خواتین دیکھ لیتی تھیں ، انکا خیال رکھتیں انکی بیماریوں میں دیسی ٹوٹکوں سے علاج کرتی تھیں لیکن اب یہ سب اکیلے ایک ماں کی ذمہ داری ہو گئی ہے ۔اسی طرح پہلے بچت ہو جاتی تھی کیونکہ خرچ سب پہ تقسیم ہو جاتا تھا لیکن اب الگ گھر کے سو جھنجٹ سو خرچے ۔بلکہ بچت تو دور کی بات الٹا ادھار کی نوبت آ جاتی ہے۔ مشترکہ نظام میں دکھ بیماری کی صورت میں گھر والے ایکدوسرے کا خیال رکھتے تھے لیکن الگ سیٹ اپ میں یہ سب ممکن نہیں بلکہ ہر حال میں خود ہی کام کرنا پڑتا ہے۔
الغرض مشترکہ نظام کے اگر مسائل ہیں تو علیحدہ رہنے کے بھی بہت مسئلے ہیں۔ تحمل، برداشت، رواداری ،ایثار اور مروت جیسی خصوصیات کو اپنا کر  ہم مشترکہ خاندانی نظام کو فروغ دے سکتے ہیں ۔اگر ایک ساتھ ایک چولہے پہ رہنا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک ہی گھر کےمختلف پورشنز میں یا ایک ہی محلے میں قریب قریب رہائش لیکر، یا ایک ہی بلڈنگ میں الگ الگ اپارٹمنٹس لئے جا سکتے ہیں۔ اسطرح  دلوں میں دوریاں بھی نہیں رہیں گی اور بزرگوں کو تنہائی کا احساس بھی نہیں ہو گا ۔

آمنہ سردار


گفتگو ایک فن

گفتگو ایک فن ہے۔۔۔۔
انسان حیوان ناطق ہے۔۔۔۔جوبولتا تو ہے  لیکن کس وقت کیا بولنا ہے، کیسے بولنا ہے اور کس انداز میں بولنا ہے ۔۔۔۔یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تمام لوگوں کو بیک وقت بولنے کا شوق ہوتا ہے جو پھر گفتگو کم اور مباحثہ زیادہ لگ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔

*بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی
زندگی بے لطف ہے نا پختہ ہیں افکار ابھی*

 گفتگو ہر وقت اور ہر موضوع پردو یا دو  سے زائدفریقوں کے مابین ہو ہی رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔جسمیں باہمی دلچسپی کے امور، سیاست،حالات حاضرہ،  موسم، ذاتی زندگی سے متعلق باتیں ہوتی ہیں۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ جو گفتگوکی جا رہی ہے اس کو مفید اور پر اثر کیسے بنایا جائے۔۔۔۔  گفتگو کےکچھ آداب ہوتے ہیں۔جنپر عمل کرنے سے ہم اپنی عام سی بات چیت کو بھی پر اثر بنا سکتے ہیں

سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ جب ہم گفتگو کر رہے ہوں تو دوسرے فریق کی بات دھیان اور توجہ  سے سنیں اور اسکے مطابق جواب دیں۔۔۔اپنی گفتگو میں بر محل  تشبیہات ، استعارات اور ضرب الامثال کا استعمال کرنے سے ہم اسے مذید خوبصورت بنا سکتے ہیں۔۔۔۔ گفتگو کے دوران دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی شروع کر دینا انتہائی ناپسندیدہ امر ہے۔۔۔۔۔ہمارے ہاں ایک اور چلن بہت عام ہو گیا ہے کہ دوران گفتگو ہم منفی پہلو تلاش کرکے اسپر بات کرنے لگتے ہیں جس سے تلخیاں جنم لیتی ہیں۔۔۔۔۔ ایک قول ہے کہ " انسان کا اخلاق اسکی زبان کی نوک پر ہے  پر ہے۔۔۔لہذا گفتگو جتنی شائستہ اور مہذب ہو گی اتنا ہی دوسرے شخص پر آپکے اخلاق کا اثر بھی گہرا ہوگا۔۔۔۔۔
بعض اوقات ہمارا لہجہ پوری گفتگو کا مزاج ہی بدل دیتا ہے۔۔۔۔بات اگر کسی عام سے موضوع پر بھی ہو رہی ہو تو سخت یا تلخ لہجہ گفتگو کا مفہوم ہی بدل ڈالتا ہے ۔اسی لئے تو ہمارے بزرگ کہتے ہیں

*اب اپنے تکلم کا سلیقہ ہی بدل لے
الفاظ پرانے ہیں تو لہجہ ہی بدل لے*

اسی طرح عام فہم گفتگو میں انداز بیاں سادہ اور سلیس ہونا چاہئیے تاکہ دوسرے شخص کو بات سمجھنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔بعض اوقات لوگ بہت مشکل اور پرتکلف جملے بولتے ہیں جس سے سننے والا کوفت کا شکار ہوتا ہے۔۔۔۔بےجا محاورے اور تشبیہات بھی گفتگو کیا بلکہ شخصیت کا ہی اثر زائل کر دیتے ہیں۔گفتگوپر دلیل ہو تو پر اثر بھی ہوتی ہےاپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے حقائق پر مبنی دلائل کا سہارا لیا جانا چاہئیے تاکہ سامع یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ

*گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا*

گفتگو کرتے ہوئے اگر اختلافی نظریات آجائیں تو بجائے اسکے کہ بلند آواز سے اپنےآپ  کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جائے ۔شاستگی سے معذرت کر کے بھی گفتگو سے کنارا کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ یہ ضروری نہیں کہ اپنے نظریات دوسرے پر ٹھونسے جائیں۔۔۔۔مسلط کئے جائیں۔
گفتگو کرتے ہوئے الفاظ کے علاوہ کچھ اور چیزوں کا بھی خیال رکھنا چاہئیے جیسے کہ
آواز کی پچ اورٹون .... آواز کو غیر ضروری طور پر بلند کرنے سے سامع پر بہت برا تاثر پڑتا ہے۔۔۔۔کچھ لوگوں کی آواز کی پچ قدرتی طور پر اونچی ہوتی ہے۔۔۔انہیں اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ انکی بلند  آواز سے گفتگو پر اثر نہ پڑے۔سامع کو اونچی آواز ناگوار گزر سکتی ہے۔۔۔گو کہ ناطق جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتابلکہ قدرتی طور پر آواز کی پچ بلند ہونے سے اسکی گفتگو پر خاطر خوا اثر پڑ سکتا ہے۔
اسی طرح ٹون کا بھی خیال رکھنا چاہئیے ۔ہمارے ہاں اکثر لوگ اس بات کا دھیان نہیں رکھتے۔۔۔دوران گفتگو وہ طنزیہ یا تمسخرانہ اندازمیں بات کرتے ہیں جو کہ بہت معیوب لگتا ہے۔اس سے  شخصیت کا مثبت اثر زائل ہو جاتا ہے۔۔۔۔
گفتگو کے دوران ہاتھوں کی ضرورت سے زیادہ  حرکت بھی پسندیدہ نہیں۔۔۔۔جہاں ہاتھ کے اشارے سے بات سمجھانی ہو وہ تو ٹھیک ہے لیکن غیر ضروری حرکات مناسب نہیں۔۔۔
 چہرے کے تاثرات یا فیشیل ایکسپریشنز  کا بھی ہماری گفتگو میں بہت اہم کردار ہے۔۔۔۔گفتگو کے مطابق تو انکا استعمال درست ہے لیکن بے جا استعمال نہیں۔آنکھوں ، بھنووں کا استعمال، ناک چڑھانا، ماتھے پہ تیوری ڈالنا، آنکھ دبا کے بات کرنا یہ سب فیشیل ایکسپریشن کا حصہ ہیں۔۔۔۔  کچھ لوگوں کو بات کرتے ہوئے بہت زیادہ آنکھوں یا بھنووں کا استعمال کرنے کی عادت ہوتی ہے۔۔۔۔ اس سے گفتگو پہ منفی اثر پڑتا ہے۔۔

*مقصد ہے ناز و غمزہ و لے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر*

دوران گفتگو ایک اور اہم چیز کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے وہ ہے انداز نشست ۔۔۔۔ کیسے بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں۔۔۔۔انداز ایسا نہ ہو جس میں عدم دلچسپی جھلک رہی ہو۔۔۔۔ بلکہ ایسا ہو جو سامع کو بھی پرسکون رکھے ۔۔۔۔ ہاتھوں پیروں کو خوامخوا ہلانا، سر کھجانا، بار بار گھڑی دیکھنا،موبائل کیطرف متوجہ ہونا، بات کرتے ہوئے اردگرد دیکھتے رہنا، یہ گفتگو میں عدم دلچسپی ظاہر کرتا ہے جو کہ سامع کو  ناگوار گزر سکتا ہے لہذا توجہ سے دوسرے کی بات سننا اور اسکے مطابق چہرے کے تاثرات سے ردعمل دینا کامیاب گفتگو کا ایک بہت ہی کارگر طریقہ ہے۔
گفتگو انسان کی پوری شخصیت کی آئینہ دار ہے۔۔۔ آپ تھوڑی دیر کسی سے بات کرتے ہیں لیکن اچھی گفتگو کا تاثر تا دیر لوگوں کے ذہنوں پر رہتا ہے۔۔۔۔۔ شائستہ ، مہذب ، شستہ  اور رواں گفتگو ہی انسان کی پوری شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔

Thursday, May 2, 2019

پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوُ گے . فبای آلاء ربکما تکذبٰن


آج بہت اداس ہوں۔۔۔ اپنی تخلیق پہ غور کر رہی ہوں کہ خدا نے مجھے کتنا مکمل بنایا۔کسی چیز کی کمی نہیں دی۔ کتنا شکر ادا کرتی ہوں میں؟؟؟؟۔۔۔۔۔جتنا بھی کروں کم ہے۔یہ خیال اس وقت آیا جب میں سپیشل ایجوکیشن سکول میں سپیشل بچوں سےملنے گئی۔ وہاں بچوں کا چھوٹا سا فنکشن تھا ، celebration بھی تھی۔۔۔۔۔مختلف بچے تھے جوdownsyndrome,  deafness  
,  low blindness , handicap
کا شکار تھے۔وہ بچے گپ شپ بھی کر رہے تھے
 ، ہنس بول بھی رہے تھے،  انجوائے بھی کر رہے تھے۔۔ جتنی دیر میں وہاں رہی ان بچوں کے ساتھ  involve رہی ۔ لیکن گھر آکر طبیعت پر ایک بوجھ سا تھا  کہ ہم کتنے نا شکرے ہیں۔وہ بچے اپنی کمیوں کے ساتھ بھی مطمئن ہیں اور ہمارے پاس دنیا کی تمام نعمتیں ہیں، مکمل اعضاء ہیں ، صحت ہے، تندرستی ہے لیکن پھر بھی ہم لوگ مطمئن نہیں۔ جوہمارے پاس نہیں ہے، جو ہمیں پسند نہیں ہے،اس پہ ہمارا رونا جاری رہتا ہے اور جو ہے اس پر شکر گزاری نہیں ،احسان مندی نہیں۔سورہ رحمٰن پورے ترجمے کیساتھ میری آنکھوں کے آگے آ گئی اور کانوں میں گونجنے لگی 
فباُٙئ آُ لاء ربکما تکذبٰن 
یہ آواز آتے ہی آنکھوں سے سجدے ٹپک پڑے ۔ اس شکرانے کے جو عموماً ہم ادا نہیں کرتے ، جو ہم اپنا حق سمجھتے ہیں،جو ہم خدا سے چھیننے سے بھی نہیں چوکتے ۔ 
اگر ہم اپنے رب کے احسانات گننے لگ جائیں تو وقت ختم ہو جائےساری دنیا کے سمندر سیاہی اور سارے درخت قلم بن جائیں تو بھی  اسکے احسانات کی فہرست ختم نہیں ہو گی۔ سورہ رحمٰن میں صرف33 بار اللہ نے پوچھا کہ " پس تم اپنے رب کی  کون کو سی نعمت کو جھٹلاوُ گئے " اگر اس ایک آیت کو ہی ہم روزانہ سوچ اور سمجھ کر پڑھ لیں تو ہمارے آدھے دلدر دور ہو جائیں ۔ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہ رہے کوئی حاجت ہی نہ رہے۔۔۔
 اللہ کریم ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پراستقامت دے دیں لیکن ہم ناشکرے لوگ ایسا سوچتے کب ہیں۔۔قرآن کریم میں ہی اللہ سبحانہْ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ " بے شک انسان عجلت پسند ناشکرا ہے۔" جب میرے رب نے ہی اپنے بندے کی وضاحت کر دی تو ہم کیا کہنے کے اہل  ہیں بھلا۔ ہماری کیا اوقات اس ہستی کے سامنے۔۔۔ پیغام فقط یہ ہے کہ 

*جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے*

اگر یہ بات سمجھ آجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی عاقبت اس دنیا میں رہتے ہوئے سنوارنہ  پائیں۔۔کچھ دوسروں کے لئے کرجائیں۔۔ کچھ اپنے ہاتھ خالی نہ لےکر  جائیں اسکے حضور۔ وہاں آخرت میں اس سے منہ چھپاتے نہ پھریں۔۔۔دوسروں کے وسیلے نہ تلاش کرتے  پھریں۔اس میدان میں رسوائی سےبچنے کے لئے ، اسکے حضور سیاہ رو لئے نگاہیں نہ چرا رہے ہوں بلکہ روشن چہروں کیساتھ ، شادمانی لئے اسکے حضور حاضر ہوں۔۔ فتح اور کامرانی  ہمارے انگ انگ سے پھوٹی پڑ رہی ہو۔۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اللہ کے بنائے ہوئے ان بندوں کی خدمت کے لئے کوشاں ہوں ، جدو جہد کریں۔انکے حقوق پورے کریں۔ ان تمام لوگوں کے جنکا ہم پر حق ہے۔ معاشرے کے کمزور لوگوں معذور، یتیم ، بے سہارا، کی طاقت بنیں۔ جن لوگوں کا میں نے ذکر کیا یہ ہمارے لئے عطیہُ خداوندی ہیں۔ اللہ کریم انکے ذریعے ہماری آزمائش کرتا ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس آزمائش میں پورے اتریں۔۔۔
معاشرے کے محروم طبقات جیسے معذور افراد، نابیناافراد ،یتیم بچے، ضعیف لوگ ان سب کو سہولتیں فراہم کرنے، انکی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنےکے لئے جُت جائیں ۔ ہماری نمازیں،ہماری عبادات ،ہمارے عمرے، ہمارے حج ہماری قربانیاں ہمارے لئے ہیں لیکن ہماری زکوٰة ، ہمارے  صدقات اور تمام charitiesاللہ کے لئے اور  انہی لوگوں کے لئے ہیں۔ہمارا وقت، ہماری محبت، ہمارا اخلاص ، ہماری صلاحیتں سب اللہ کے لئے اور اللہ کے ان بندوں کی امانت ہے۔ دعا ہے کہ ہم سب یہ امانت احسن طریقے سے انکے مستحقین تک پہنچائیں۔انکی ضروریات ذندگی کو اپنی لایعنی ضروریات پہ ترجیح دیں۔ خود اس احسن عمل کو کرنے میں سبقت کریں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ بنکر انکو بھی اس راہ  کی ترغیب دیں
 
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں 
بٙنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے 
میں اسکا بندہ بنوں گا جسکو 
خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

جب ہم خدا کی راہ میں آگے بڑھیں گے تو بہت سے لوگ ہماری طرف بڑھیں گے۔خدا کا بندہ مخلوق کا بھی پسندیدہ ہو جاتا ہے۔۔ اور مخلوق کا پسندیدہ بننے کے لئے ہم دنیا میں کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔
رمضان کی برکتوں سے فیض یاب ہوتے ہوئے ہم اللہ کی  رحمتوں کے امیدوار بن سکتے ہیں۔فقط تھوڑا سا اپنی خواہشات پر قابو پانے کی بات ہے۔اور اللہ کی راہ میں لگانے کی بات ہے۔۔۔اور کیا چاہئیے۔

اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو
اور ہمیں نیکیوں میں سبقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ثم آمین

Tuesday, April 30, 2019

عورت کی ذہانت بمقابلہ مرد کی ذہانت

مرد عورت کی ذہانت سے متاثر ہوتا ہے،اسکی تحسین کرتا ہے، توصیف کرتا ہے، اسے سراہتا ہے،  اسکی طرف بڑھتا ہے اور پھر،پتہ نہیں کیوں  ایک وقت میں خائف ہو کر رک جاتا ہے، پیچھے پلٹ جاتا ہے۔۔۔۔۔ شاید احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ یا کوئی اور وجہ۔۔۔۔۔۔۔
دراصل مرد اپنے کو ہر لحاظ سے عورت سے برتر سمجھتا ہے .. وہ کسی صورت برداشت نہیں کر پاتا کہ عورت اس سے آگے نکل جائے یا اس پر چھا جائے ، حاوی ہو جائے۔۔۔ اسمیں اس مرد کا بھی کوئی قصور نہیں کیونکہ اسکی تربیت ہی پدرسری معاشرے میں ہوئی ہے۔  لہذا وہ اس سوچ سے باہر آ ہی نہیں سکتا۔ اگر بالفرض محال کوئی مرد کسی عورت کی ذہانت سے متاثر ہوتا ہے اسکو ایڈمائر کرتا ہے تو کسی نہ کسی سٹیج پہ وہ بھی پیچھے ضرور ہٹے گا۔۔۔کیونکہ یہ خلاف فطرت ہے اسکے لئے ۔۔۔۔
مرد کا یہ احساس برتری کبھی کبھی احساس کمتری کا روپ دھار لیتا ہے۔۔۔۔ جسے وہ اپنی بڑھائی سمجھ رہا ہوتا ہے دراصل وہ اسکی کمزوری ہوتی ہے جو کمتری کے احساس کو ہوا دیتی ہے۔ اور یوں برتری کا احساس کمتری میں حلول کر جاتا ہے۔
مرد کو ذہانت سے زیادہ ایک پجارن کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر وقت اسکے نام کی مالا جپتی رہے۔ وہ  ذہین عورت پر  کم عقل عورت کو ترجیح دیتا ہے۔ کیونکہ وہ کم عقل عورت اسکی شیدائی ہوگی ، جو وہ کہے گا مانے گی، جیسا اسکو بنائے گا بنے گی۔۔۔ جبکہ ذہین عورت دلیل سے بات کرتی ہے، ہر بات میں توجیہات  پیش کرتی ہے۔۔۔۔۔ عقل کا سہارا لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے انداز سے رہنا پسند کرتی ہے۔۔۔ لیکن مرد کو دلیل کی نہیں تابعداری کی خواہش ہوتی ہے۔۔۔۔۔ یہ مرد کی ذہانت پر مصر ہے کہ وہ اس ذہین عورت کو کیسے قابو کرتا ہے۔۔۔۔یا اس عورت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ذہانت ، دلیل اور فراست کو پس پشت ڈالے اور مرد کو اپنی تابعداری سے زیر کر لے۔۔۔۔۔ دراصل عقلمند عورت وہی ہوتی ہے جو اپنے کو عقل کل نہ سمجھے بلکہ اپنے مرد کے دل کو اپنی مٹھی میں رکھے۔۔۔۔۔اور عقلمند مرد بھی وہی ہے جو ذہین عورت کو اپنے فہم و تدبر سے زیر کرے۔۔۔۔ یہی ہے انکی فراست و فہم۔۔۔۔

اقتباس عورت کی محبت

عورت ذہین ہو یا سادہ مزاج اسے اگر محبت ہوجائے  تو وہ اپنی ہستی اس شخص کے لِئے  مٹا دیتی ہے جسکو وہ چاہتی ہے۔ ۔خود کو راکھ اور خاک کر دیتی ہے اسکے عشق میں لیکن اسے   پا نے کی خواہش پوری نہیں ہوتی۔  مرد کی انا کواسکے اس جذبے سے تسکین  ملتی ہے  اور وہ اس تسکین کو لئے اسے دھتکارےمحبت کی  اگلی دریافت کی طرف بڑھتا ہے۔ اسکے لئے عورت کی نسوانیت کے غرور کو روندھنا ،اسے توڑنا  ہی سب کچھ ہوتا ہے۔وہ خرمست ہاتھی کی مانند جھومتاجھامتا آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ فتح اورغرور  کے نشے میں سر شار ۔۔۔۔۔لیکن کبھی کبھی وہ ایسی جگہ سے دھتکارا جاتا ہے جہاں سے اسنے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہیں سے پھر وہ عورت کو مکار ، دھوکے باز، مفادپرست قرار دیتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ جو سلوک اس سے اب ہوا وہ تو کئیوں کیساتھ یہ سلوک برت کے آیا ہے۔ یہ احساس ہی تو اسکو نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو کوئی حوا کی بیٹی کسی مرد کی لچھے دار باتوں میں آکر اپنی زندگی کی بربادی کا سامان نہ کرے۔ کبھی کبھی یہ بات قائل کرتی ہے کہ اچھی اچھی عقلمند و ذہین عورتیں بھی  کیسے باتوں کے جال میں الجھ کر ایک بے وقوف عورت کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔۔۔۔ پھر ساری زندگی اُسی ایک نام کی دہائی دیتے زندگی گزار دیتی ہیں۔۔۔۔یہ فرق ہے مرد اور عورت میں۔۔۔۔

Sunday, April 21, 2019

اقبال کا اقبال بلند ہو ۔۔۔۔۔Iqbal ka Iqbal Buland ho

اقبال کے لئے ہدیہُ عقیدت

اقبال نا صرف ایک عظیم شاعرومفکر تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ وہ شاعر قرآن تھے جنہوں نے نہایت عمدگی سے قرآن کریم کے پیغام کو اپنی شاعری میں ڈھالا اور اس پیغام کو گھر گھر پہنچا دیا۔ اقبال کی شاعری سے کون واقف نہیں۔ جیسے ہی ہم لکھنے پڑھنے لائق ہوتے ہیں تو پہلا شعر ہمیں انہی کا یاد کرایا جاتا ہے۔

*کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں *

اسکے بعد جوں جوں ہم اپنی عمر کی منازل طے کرتے جاتے ہیں اقبال کی شاعری بھی ہمیں ساتھ لئے چلتی ہے۔ لڑکپن میں پہنچتے ہیں تو یہ درس ملتا ہے
*ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں*

اور جوانی کی منازل طے کرتے ہوئے ہمیں اس شاعری سے گرمایا جاتا ہے

*نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر*

خودی کی بات کریں تو اقبال یہ سبق خاص طور پر جوانوں کو دیتے نظرآتے ہیں۔

*خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے*

مرد مجاہد کے بارے میں فرماتے ہیں
*پلٹ کے جھپٹنا کے ، جھپٹ کے پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہےایک بہانہ *

ایک مومن کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

*ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان ، نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان *

عشق کی وادی میں گر قدم رکھو تو کیا خوبصورت الفاظ میں محبوب ،کی دلربائی کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں
*سو سو امیدیں بندھتی ہیں اک اک نگاہ پر
مجھکو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی*

عملی زندگی میں قدم رکھو تو بے اختیار کہتے ہیں
*عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری *

اور جب روزگار کی تلاش میں نکلو تو کیا خوبصورت درس دیتے ہیں رزق حلال و حرام کے فرق کو واضح کرتے ہوئے
*جس رزق سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس رزق کے ہر خوشہُ گندم کو جلا دو*

ناداں شخص کے اوپر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں
*پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر*

مسلم نوجواں کو یقیں محکم کا سبق کیا خوب دیتے ہیں
*نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں*

من حیث القوم مسلمانوں سے انکے اسلاف کا ذکر کرتے ہوئے شکوہ کناں ہیں کہ
*وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر *

ملک وملت کے ہر شخص کو ایک اہم فرد گنواتے ہوئے فرماتے ہیں
*افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ*

عورت کو کیا خوبصورت انداز میں خراج تحسین  پیش کرتے ہیں ۔
*وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے زندگی کا سوز دروں *
استاد کو کیا بہترین انداز میں ہدیہُ عقیدت سے نوازتے ہیں کہ
*کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو *

طالبعلم کو نصیحت کرتے ہوئے   کہتے ہیں

*خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں*

آخرت کا تزکرہ اس انداز میں کرتے ہیں
*کھو نہ جااس سحر وشام میں اے صاحب دوش
اک جہاں اور بھی ہے جسمیں نہ فردا ہےنہ دوش*

اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن ہمارے دلوں میں موجود ہیں۔ اپنے اشعار کی صورت ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔ ہمیں چاہئیے کہ انکے اشعار ہم اپنی گفتگو میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال میں بھی ڈھالیں۔
اللہ تعالیٰ  انکے درجات بلند فرمائے آمین ۔

آمنہ سردار

Wednesday, April 10, 2019

کیا ہم درندوں کی بستی میں بستے ہیں ؟ Are we living in the world of barbarians?

؟

بچے عطیہُ خداوندی ہوتے ہیں۔ ہماری ساری زندگی بچوں کے لئے ہی کمانے کی فکر میں گزرجاتی ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے بچوں کو وہ چیز مہیا کر رہے ہیں جو اسکی اس وقت انکی  اہم ترین ضرورت ہے۔ اور وہ ہے والدین کی مکمل  توجہ اور وقت۔
  آجکل کےوالدین بچوں کو توجہ نہیں دیتے۔ انکا خیال نہیں رکھتے انکی ضروریات زندگی تو پوری کرتےہیں ، انکو ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں، دنیا جہاں کی آسائشیں انکے قدموں میں ڈھیر کرتے ہیں،  لیکن اپنا وقت انکو نہیں دیتے۔آج کا بچہ آپکے وقت کا محتاج  ہے۔ پہلے زمانے میں  لوگ اپنے بچوں کوبظاہر  توجہ نہیں  دیتے تھےلیکن انکی بچوں کے ہر فعل پر گہری نظر ہوتی تھی۔ انہیں اپنے بچوں سےمتعلق تمام معاملات کے بارے میں علم ہوتا تھا۔ وہ کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں وغیرہ ۔ دوسرا اسوقت جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا تھا جسمیں اگر والدین کی توجہ بچے سے بٹتی بھی تھی تو دادا دادی، چچا تایا، پھپھو وغیرہ بچوں کا خیال رکھتے تھے۔ یوں بچے کو بھی یہ خوف رہتا تھا کہ اسکے اوپر اتنی نظریں گڑی ہیں۔ وہ محتاط زندگی گزارتا تھا ۔انکی اجازت کے بغیر کہیں آگح پیچھے نہءں ہوتا تھا ۔ کوئی ایسی بات جو گھر والوں کی ناراضگی کا باعث بنتی تھی، اس سے گریز کرتا تھا۔ لہذا اسوقت کے بچے میں ایک احساسِ ذمہ داری ہوتا تھا ۔جو آجکل کے بچوں میں عموماً مفقود ہے۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ آجکل آئے دن سننے میں آتا ہے کہ ننھے پھول زیادتی کے بعد قتل کر دئیے گئے۔ایسی خبر سنکر سنگدل سے سنگدل شخص بھی تڑپ جاتا ہے۔  یہ سب اب اتنے تواتر سے ہو رہا ہے کہ لگتا ہے شاید ہم درندوں کی بستی میں بستے ہیں.  ہمارے اندر انسانیت ختم ہو گئی ہے۔ ہم صرف جنسی درندے بنکر رہ گئے ہیں۔ نفسیاتی و ذہنی طور پر لوگ اتنے مفلوج ہو گئے ہیں کہ وہ اچھے برے کی تمیز ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ محرم نا محرم کا فرق ہی نہیں جان پا رہے۔ ذہنی پستی اپنی انتہاوُں کو چھو رہی ہے۔ اس سارے میں معصوم بچوں کا کیا قصور ۔ وہ کیسے ان درندوں سے محفوظ رہ  سکتے ہیں جبکہ قدم قدم پہ جنسی بھیڑیئے اپنے ناپاک ارادے لئے کھڑے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کس طریقے سے ان سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کریں اور کس طریقے سے ان معصوموں کو ان وحشیوں سے بچا کے رکھیں۔
پہلے تو میں بات کرونگی ان درندوں کی کہ کیسے وہ اس درندگی پر آمادہ ہوتے ہیں اور کیا محرکات ہیں اس سب کے پیچھے؟
یہ عام طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ناآسودہ خواہشات کا بدلہ یہ قبیح فعل کرکے ، لیتے ہیں۔کچھ ایڈونچر کے طور پر ایسی حرکت کرتے ہیں ۔ کچھ ذہنی پستی اور گراوٹ کی انتہا پر پہنچ کر اپنی چند لمحوں کی بھوک مٹانے کے لئے اس بہیمانہ فعل کو انجام دیتے ہیں۔ کچھ نفسیاتی طور پر ، کچھ انتقام کے طور پر۔ دراصل جتنے لوگوں کا اور جن محرکات کا میں نے ذکر کیا یہ دراصل غیر انسانی رویے ہیں۔ ان لوگوں میں جانوروں کی خصلت ہے لیکن جانور بھی اتنا غلیظ نہیں ہوتا جتنے کہ یہ لوگ۔ جبتک ان گرے ہوئے لوگوں کو عبرتناک اور شرعی سزا نہیں  ہو گی یہ گندا کھیل جاری رہے گا۔شرعی سزا کی جو تاویلات ہمیں حدیث و  فقہ میں ملتی ہیں ان پر ظاہر ہے عمل اتنا آسان نہیں ۔ایک سخت ترین مرحلہ ہے گواہوں کا لانا اور سچی گواہی دینا لیکن  میڈیکل سائنس نےاب  اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ ہر بات کا ثبوت پیش کر سکتی ہے۔
میں  حیران ہوتی ہوں کہ لوگ جانتے بوجھتے ایسے لوگوں سے کیسے تعلق کو نبھا سکتے ہیں۔ مجھے تو سنکر گھن آتی ہے اور انکو ان سے بات کرنے پر بھی کراہت نہیں آتی۔ ایسے لوگ سر عام پھانسی کے مستحق ہیں۔اور اب اسپر اسلامی نظریاتی کونسل اور قانون سازوں کو مل بیٹھکر کوئی سزا تجویز کرنی ہوگی۔
اب میں دوسری بات کی طرف آتی ہوں کہ ان واقعات میں تواتر کیوں آرہا ہے اور کس طبقے میں زیادہ ہے۔ زیادہ تر یہ واقعات لوئر مڈل کلاس میں ہوتے ہیں جہاں باپ فکر معاش میں مبتلا ہوتا ہے اور مائیں چولہا چوکی کی فکر میں سر گرداں ہوتی ہیں۔ بچوں کو وہ توجہ نہیں مل پاتی جو انکا حق ہے۔ اسطرح کے واقعات زیادہ گلی محلے میں کھیلنے والے بچوں کیساتھ پیش آتے ہیں جنہیں کوئ بھی بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ جانے پہ آمادہ کر سکتا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں زیادہ تر جاننے والے ہی ملوث ہوتے ہیں۔ بعض اوقات محرم رشتے بھی ہوتے ہیں جو ذہنی پستی کی انتہا ہے۔
اپر کلاس میں ایسے واقعات میں زیادہ تر نوکر،  ڈرائیور، خانساماں، مالی وغیرہ ملوث ہوتے ہیں کیونکہ وہاں بھی صاب لوگ پیسہ بنانے میں لگے ہوتے ہیں اور بیگمات سماجی رابطے بنانے میں ۔ لہذا انکے بچے نوکروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور وہی انکے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں۔ وہاں پہ عام طور پر قتل نہیں کیا جاتا لیکن بچوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ۔انہیں اور انکے والدین کومارنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
دونوں طبقوں میں دیکھیں تو بے توجہی اور لاپرواہی ہی سبب بنتی ہے۔لہذا والدین اور رشتہ داروں کو بہت زیادہ چوکس ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
والدین سے یہی گزارش کرونگی کہ.  خدارا اپنے بچے کوچاہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی  نوکروں کیساتھ ، رشتہ داروں کیساتھ ، حتیٰ کہ ٹیوٹرز اور قاری کیساتھ بھی تنہا نہ چھوڑیں۔اکیلے باہر نہ بھیجیں۔ آپکی تھوڑی دیر کی غفلت آپکے بچے کی جان لے سکتی ہے ۔

اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ وہ کسی سے کوئی چیز نہ لیں، لالچ میں نہ آئیں، ہر ایک کے ساتھ چل نہ پڑیں۔ ہر بات والدین سے یا بڑے بہن بھائیوں سے شیئر کریں۔ ڈریں نہیں جھجکیں نہیں ۔چار سال سے چھوٹی عمر کے بچے کو سمجھایا نہیں جا سکتا لیکن ان پہ نظر رکھی جاسکتی ہے۔ زیادہ واقعات اسی عمر کے بچوں کیساتھ ہوتے ہیں۔اور والدین کی لاپرواہی کیوجہ سے ہوتے ہیں جتنے بھی واقعات اٹھائیں جیسے زینب کا واقعہ۔ تو اسمیں والدین خود موجود ہی نہیں تھے ملک میں اور بچوں کو رشتے داروں کے آسرے پر چھوڑ کر گئے تھے۔ اسی طرح فریال کے واقعے میں بھی لاپرواہی سامنے آتی ہے کہ والدہ کو خبر ہی نہ ہوئی اور بچی دادا کے پیچھے باہر نکلی۔ نہ ماں کو پتہ لگا نہ دادا کو۔ اسی طرح اور بھی بہت سے واقعات ہورہے ہیں ۔ روزانہ ہی کچھ سننے کو ملتا ہے۔ ہری پور کا واقعہ، گلیات کا واقعہ، نوشہرہ کا واقعہ، مردان کا واقعہ۔ کس کس واقعے کا ذکر کروں دل خون کے آنسو روتاہے۔ ایسے لوگوں کے راضی نامے کرانے والے ان سے بھی بڑے گنہگار ہیں جو اس گناہ پر پردہ ڈالتے ہیں۔ وہ بھی انکے گناہ مءں برابر کے شریک ہوئے پھر تو۔شاید میں کچھ زیادہ تلخ ہو گئی ہوں۔ لیکن روزانہ کی بنیادوں پر جب ایسی خبریں سننے کو ملیں تو بندہ تلخ بھی ہو حاتا ہے اور زمیں میں گڑ جانے کو بھی جی چاہتا ہے کہ وہ کیونکر ان درندوں کو ، وحشیوں کو روک سکے۔ اگر ان لوگوں کو قانونی طور پر سزا نہءں ملتی تو الگ بات ہے لیکن اللہ ایسے لوگوں کو نیست و نابود کرے اور کرتا بھی ہے۔
اللہ کریم ہمارے سب بچوں کی حفاظت فرمائے اور ان
شیطانوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
 کب کوئی بلا صرف دعاوُں سے ٹلی ہے۔

Sunday, March 31, 2019

یوم حساب ۔۔ The Day of Judgement



آج31 مارچ ہے یہ دن ہماری سٹوڈنٹ لائف کا اہم ترین دن ہوتا تھا ۔اسدن  بڑے ملے جلے سے احساسات ہوتے تھے۔ کیونکہ رزلٹ اناوُنس ہوتا تھا۔ پاس ہونیوالوں کو عزت اور فیل ہونیوالوں کو شرمندگی کا سامنا ہوتا تھا۔ اسدن کیفیات بڑی مختلف سی ہوتی تھی۔ خوف و خوشی کے ملے جلے احساسات ہوتے تھے۔ رزلٹ کا خوف ،اگلی کلاس میں جانے کی شدید چاہ، نئے علوم و کتب کو جلد از جلد پڑھنے کی  کی جستجو، اپنے پچھلے اساتذہ سے بچھڑنے کی اداسی ، چند اک دوستوں سے بچھڑنے کا غم۔۔۔ والدین اور رشتے داروں کی طرف سے تحفے آور پیسے ملنے کی پیشگی خوشی۔ ۔۔۔۔۔ہمارے خاندان میں بچوں کو بہت encourage کیا جاتا رھا انکے اچھے رزلٹ پر۔ تمام قریبی رشتہ داروں سے قیمتی تحائف اور پیسے ملا کرتے تھے۔ غرض اک خوبصورت دن ہوتا تھا۔۔۔۔ سنہرے دن۔
میں اسدن کے احساسات کو آج بھی اسی شدت سے محسوس کر سکتی ہوں۔ الحمداللہ وہ ہمارے لِے ہمیشہ خوشی کا دن ہوتا تھا کیونکہ ہمیشہ پوزیشن لی اور عزت کمائی ۔
لیکن میں کبھی جب غور کرنے بیٹھوں تو ان لوگوں کا سوچ کر دکھ ہوتا ہے جنکو اسدن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ وہ اتنے مایوس و نامراد لوٹتے تھے کہ انکا دکھ دیکھکر اپنی خوشی پھیکی لگتی تھی۔ لیکن ظاہر ہے محنت آپکو ضرور کچھ دیتی ہے اور سستی یا لاپرواہی نقصان کا ہی باعث بنتی ہے۔
دکھ ان لوگوں کو دیکھکر زیادہ ہوتا تھا جو  محنت کرنے کے باوجود نمبر نہیں لے سکتے تھےاور غصہ ان لوگوں کو دیکھکر آتا تھا جو سارا سال نالائقی اور سستی کا مرقع ہوتے تھے اور آخر ی دن پڑھ کے نمبر لے لیتے تھے یا نقلیں مار کے ہم جیسے ایماندار سٹوڈنٹس کا حق مارتے تھے۔ ۔
بہرحال یہ ہماری زندگی کا ایک خوبصورت دن ہوتا تھا۔ میں ابھی بھی اگر اسدن کو سوچوں تو بڑی پیاری یادیں وابستہ ہیں۔ جیسے عید کے دن کی تیاری ہوتی ویسی ہی اسدن کی بھی۔ کیونکہ یونیفارم پہن کے نہیں جانا ہوتا تھا تو نئے کپڑے امی جان سے سلوائے جاتے تھے۔ میچنگ جوتے وغیرہ ساتھ ہوتے ۔ اک عجیب سماں ہوتا تھا۔آج کے بچوں کے شاید وہ جذبات نہ ہوں یا ہم ہی بہت سادہ مزاج کے بچے ہوتے تھے۔ تھوڑے میں خوش رہنے والے۔ قناعت پسند۔
اس دن کو اگر میں یوم حساب کے دن سے تعبیر کروں تو بےجا نہیں ہوگا۔ اسدن جنکا نامہ اعمال بھاری ہو گا ، جنہوں نے اللہ کی راہ کے لئے محنت کی ہوگی، اللہ کی بتائی ہوئی حدود و قیود کا خیال رکھا ہو گا ۔۔ اسکے رستے پہ چلے ہونگے۔۔۔اسدن وہ خوشحال ہونگے اور انکا نامہُ اعمال انکے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور وہ کلاس میں فرسٹ آنیوالے بچوں کیطرح بے اندازہ خوش ہونگے۔ جبکہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی سستی، کوتاہی اور کاہلی کی وجہ سے کم نمبر حاصل کئے ہونگے یا اپنی نااہلی کی وجہ سے فیل ہوئے ہونگے تو اسدن انکو نامہُ اعمال انکے بائیں ہاتھ میں ملے گا اور وہ افسوس کر رہے ہونگے۔ ہاتھ مل رہے ہونگے۔ لیکن اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔شرمندگی کے مارے وہ چہرے چھپا رہے ہونگے۔ لیکن کوئی حل نہیں اب۔ کوئی شرمندگی، کوئی معافی  کام نہیں  آئیگی۔
يَآ اَيُّـهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيْهِ (6)
اے انسان! تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک کام میں کوشش کر رہا ہے پھر اس سے جا ملے گا۔
فَاَمَّا مَنْ اُوْتِىَ كِتَابَهٝ بِيَمِيْنِهٖ (7)
پھر جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا۔
فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْـرًا (8)
تو اس سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا۔
وَيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (9)
اور وہ اپنے اہل و عیال میں خوش واپس آئے گا۔
وَاَمَّا مَنْ اُوْتِـىَ كِتَابَهٝ وَرَآءَ ظَهْـرِهٖ (10)
اور لیکن جس کو نامہٴ اعمال پیٹھ پیچھے سے دیا گیا۔
فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًا (11)
تو وہ موت کو پکارے گا۔
وَيَصْلٰى سَعِيْـرًا (12)
اور دوزخ میں داخل ہوگا۔
اِنَّهٝ كَانَ فِىْ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (13)
بے شک وہ اپنے اہل و عیال میں بڑا خوش و خرم تھا۔
اِنَّهٝ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ (14)
بے شک اس نے سمجھ لیا تھا کہ ہرگز نہ لوٹ کر جائے گا۔
بَلٰٓى ۚ اِنَّ رَبَّهٝ كَانَ بِهٖ بَصِيْـرًا (15)
کیوں نہیں، بے شک اس کا رب تو اس کو دیکھ رہا تھا۔
((سورہ انشقاق ۔۔پارہ 30))
 دنیا کے رزلٹ میں تو موقع ہوتا ہے پلٹنے کا رجوع کرنے کا لیکن اسدن کوئی موقع کوئی ندامت ، کوئی رجوع نہیں ہوگا۔ لہذا ہم سب کے لئے لمحہُ فکریہ ہے کہ آج اگر اللہ کریم نے ہمیں دنیا میں، دنیاوی معاملات میں سرخرو کیا ہے تو ہمیں آخرت کے دن بھی ایسی ہی کامیابی اور خوشی مرحمت فرمائے آمین۔
آپ لوگ سوچیں گے کہ ایک ہلکی پھلکی تحریر میں سنجیدگی کا عنصر شامل کر دیا تو عرض یہی ہے کہ دنیا کی زندگی تو عارضی ہے جسمیں ہم اسکے پیچھے بھاگتے چلے جاتے ہیں۔ ابدی ٹھکانے کا بھی کچھ سوچیں کہ کل کو ہمیں جہاں رہنا ہے اور وہی ابدیت ہوگی۔ اللہ کے پیاروں میں ہوئے تو اللہ اپنے پیاروں کی طرح خاطر داری کریگا خوبصورت باغ عطا کریگا ، جہاں نہریں بہہ رہی ہوں گی اور چشمے پھوٹ رہے ہونگے کوئی غم نہیں ، کوئی درد نہیں، کوئ فکر نہیں، کوئی حزن نہیں  ، کوئی ملال نہیں، بس اک سکون، اطمینان اور خوشی ہی ہر سو ہو گی۔ایسی زندگی کی تمنا کون نہیں کرتا۔
دنیا کے امتحان میں کامیاب ہونیوالے بعض اوقات بہت کامیابیاں حاصل نہیں کرپاتے لیکن اللہ کے رستے پر چلنے والوں سے انکے رب کا وعدہ ہے جو ضرور پورا ہوگا کیونکہ وہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ لہذا اس امر پر ضرور  سوچئے اور دنیا کے ساتھ آخرت کا امتحان پاس کرنے کی بھی کوشش کیجئے۔
اللہ ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے آمین۔

Tuesday, February 19, 2019

Role of Women in Environment / Agriculture ماحولیات /زراعت میں عورت کا کردار




ہمارے ہاں عورتوں کو صرف چار دیواری تک محدود سمجھا جا تا رہا ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنا ہنر، اپنی تعلیم اور اپنا فن سکھاتی نظر آتی ہیں۔ تدریس کا شعبہ ہو یا طب کا ، نرسنگ ہو یا ہوسٹنگ،ٹی وی  سکرین ہویا براڈ کاسٹنگ،  پولیس ہو یا آرمی ، بنک ہو یا عدالت ، صحافت ہو یا میزبانی،  سرکاری دفاتر ہوں یا غیر سرکاری ادارے، قانون سازی ہو یا بیوروکریسی ہر جگہ خواتین اپنی ذہانت، فطانت اور فکر و تدبر کیساتھ کام کرتی نظر آتی ہیں۔
ان شعبوں کے علاوہ بھی بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں خواتین کام تو کر رہی ہیں لیکن انہیں وہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہروں میں کام کرنے والی خواتین تو کافی حد تک خودکفیل ہوتی ہیں لیکن دیہاتوں میں کھیتوں میں کام کرنیوالی خواتین مکمل طور پر اپنے مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔

 پاکستان ایک زرعی ملک ہےجسکا 70 فیصد انحصار زراعت پر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں مردوں کیساتھ ساتھ دیہات میں عورتیں بھی زراعت و گلہ بانی اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے کا کا م کرتی ہیں ۔ یہ عورتیں نا صرف اپنے مردوں کا زراعت میں  ہاتھ بٹاتی ہیں بلکہ جنگل سے لکڑی کاٹنے،ایندھن لانےاور  دور دراز سے پانی لانے کا کام بھی یہی عورتیں کرتی ہیں۔ کام میں ہاتھ  تو وہ پورا بٹاتی ہیں لیکن انکو نہ اجرت مردوں کے مقابلےمیں  ملتی ہے اور نہ ہی باقی سہولتیں و آسانیاں ۔ہمارے ہاں تومزارعے کو چاہے وہ مرد ہی کیوں نہ ہو کوئی خاص اجرت اور سہولت نہیں ملتی تو عورتوں کو تو بہت ہی مشکل ہے۔
 ہمارے ملک میں پدرسری معاشرہ رائج ہے جو عورتوں کو اتنی آسانی سے سہولتیں فراہم نہیں کرتا۔ بہت ہی کم عورتیں ایسی ہونگی جنکی اپنی زمین ہو اور وہ اس پر کھیتی باڑی یا زمینداری کرتی ہوں۔ سو میں سے کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملے گی۔ ہمارے ملک میں پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں خواتین کھیتوں میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خواتین زیادہ تر گھر میں مویشیوں کی دیکھ بھال تو کرتی ہیں لیکن کھیتوں میں یا زمینداری میں انکا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔
جو خواتین کھیتوں میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں  تو انکو سہولیات بھی ویسی ہی ملنی چاہئیں۔

ان خواتین کو معاشی استحکام فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ انکو اپنے اخراجات کے لئے دوسروں کے ہاتھوں کیطرف نہ دیکھنا پڑے۔
کچھ  خواتین کی ذاتی زمین ہوتی ہے جو انکو وراثت میں ملتی ہے۔ لیکن وراثتی زمین انکے  شوہروں ، بھائیوں   یا بیٹوں  کے حصے میں چلی جاتی ہے۔ جبکہ اگر وہ کام کر رہی ہیں تو انکو انکاحصہ ملنا چاہئیے نا کہ وہ کسی کی محتاج بن کے رہیں۔ یا اگر وہ زمین خریدنے کا قصد کرتی بھی ہیں تو اس مقصد کے لئےبھی  انکو اپنے ساتھ کسی مرد کو رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ انکو زمین کی ملکیت ملنی ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور بنا دی جاتی ہے۔ ایسی خواتین کےلئے زمین خریدنے کا حصول آسان بنایا جائے۔ 

خواتین زمینداروں کو آسان اقساط پر  قرضے ملنے چاہئیں۔

ایسی خواتین جو فصلوں، بیجوں اور کھتی باڑی کی سمجھ رکھتی ہیں لیکن وسائل اور آمدن کی کمی کی وجہ سے اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتیں ۔ حکومت کو چاہئیے کہ وہ انہیں چھوٹے قرضے فراہم کرے۔ انہیں اچھے بیج اور کھاد مہیا کرے۔

زمینداریا کسان خواتین  کو حکومت کی طرف سے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہئیے۔ انہیں اچھی نسل کے بیج ، اسکی درست  بوائی کے طریقے اور اچھی فصل کی کاشت سے روشناس کرایا جائے۔

اسی طرح وہ خواتین جنکا کوئی سہارایا ذریعہ آمدن نہیں ہوتا  نہیں ہوتا ان کے لئے حکومت کو چاہئیے کہ کچن  گارڈننگ کے پروگرامز کو فروغ دیں۔ یعنی انکو چھوٹی چھوٹی جگہوں پر پھل، سبزیاں اور جڑی بوٹیاں لگانے کے طریقے سکھائیں تاکہ وہ اپنا روز گار کما سکیں ۔

اسی طرح وہ علاقے جہاں پٙھلوں کے باغات زیادہ ہوتے ہیں حکومت محکمہ زراعت کے ذریعے  وہاں کی  خواتین  کو فاضل اور زیادہ پکا ہوا پھل محفوظ کرنے کے طریقے سکھائے۔ ان پھلوں کو سُکھانے، انکو محفوظ کرنے، ان کے مربے ، جیم، جیلی اور چٹنیاں بنانے کے طریقے سکھائے جائیں۔

اسکے علاوہ  خواتین چونکہ ماحولیات سے، فطری طور پر زیادہ لگاوُ رکھتی ہیں تو انکو موسمی پُھول جو کہ آجکل مختلف مواقع پر  بڑی مانگ میں ہیں۔ حکومت انکے لگانے اور انکی حفاظت کرنے کے طریقے سکھائے۔اور کس طرح انہیں چند دنوں تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب  وہ گھر بیٹھے کرنے  سے اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔
اسی طرح ان ڈور پلانٹس بھی بہت مانگ میں ہیں ۔انکو صرف اچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے وہ خواتین اپنی فطری صلاحیت سے کر سکتی ہیں اور ان پودوں سے ایک منافع بخش کاروبار کر سکتی ہیں۔
 
اسکے علاوہ خواتین گلہ بانی اور مویشیوں کی افزائش میں بھی اپنے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔توحکومت کو چاہئیے کہ انکو مویشی آسان اقساط پر  فراہم کئے جائیں اور ساتھ ہی انکو  پولٹری  اور ڈیری فارمنگ سے متعلق معلومات بھی فراہم کی جائیں ۔

یہ ناصرف حکومت کی زمہ داری ہے بلکہ سول سوسائٹی کے لوگوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ خواتین کو مالی طور پر مستحکم کرنے میں ان تمام کاموں میں حصہ لیں۔
اس طرح انکو گھرسے دور بھی نہیں جانا پڑے گا اور گھر کے قریب اپنی زمینوں پر وہ ان پودوں اور فصلوں کو اگا کر اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔ویسے بھی آجکل بہت سے لوگ دوبارہ سے organic food (دیسی خوراک ) کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ وہ ان خواتین سے ڈائریکٹ آکر اپنی ضرورت کی چیزیں دیسی انڈے، دیسی مرغیاں اور خالص دودھ اور اس سے بنی مصنوعات  خرید سکتے ہیں۔یہ دیسی خوراک یا organic food کے فروغ  کیطرف بھی ایک مثبت قدم ہو گا۔
پانی اسوقت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جسکو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے بھی ان خواتین کی تربیت کی جانی چاہئیے ۔ خواتین فطری طور پر کفایت شعار ہوتی ہیں۔دور دراز سے پانی لانے کا کام بھی انہی کے ذمے ہوتا ہے۔ لہذا انکو آگاہی پروگراموں کے ذریعے پانی کی قدرو قیمت کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔

حکومت اگر ان تمام خطوط پر سنجیدگی سے عملی کام کرے اور ان خواتین کو صرف گھروں تک محدود نہ رہنے دے اور انکو یہ تمام سہولتیں فراہم کرے جنکا ذکر کیا گیا ہے تو وہ یقیناً ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرینگی۔ اپنے گھروں میں وہ یہ سارے  کام تو کرتی ہیں لیکن انکا صلہ انہیں کچھ نہیں ملتا۔ لہذا آج کی دیہاتی عورت کو بھی معاشی طور پر مستحکم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔