Wednesday, August 14, 2019

مشترکہ خاندانی نظام کی ناکامی کے نفسیاتی پہلو

#پس منظر

بر صغیر پاک وہند کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھیں گےکہ یہاں مشترکہ خاندانی نظام صدیوں سے چلا آرہا ہےاور بہت کامیاب طریقے سے ۔پورے پورے خاندان ایک ہی گھر میں ایک ہی چولہے پر شیر وشکر ہو کر رہتے تھے۔گلے شکوے تو ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اس میں زیادہ دخل بزرگوں کی فراست  اورسمجھ بوجھ کا ہوتا تھا کہ وہ بچوں کے بہت سے تنازعوں کو بہ احس و خوبی سر انجام دیتے تھے۔وہ اپنے حلم اور بردباری سے اپنے تمام بچوں کو ایک چھت تلے یکجا اور متحد رکھتے تھے۔دلوں میں محبتیں بھی تھیں اور پیار بھی ۔اقدار کا پاس رکھا جاتا تھا .اسوقت لوگ بامروت تھے۔ایکدوسرے کا دل رکھنا جانتے تھے۔ان میں دوسروں کی بات کو تحمل سے سننے کا حوصلہ ہوتا تھا۔

#مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد*

اس نظام کے بہت سے فوائد تھے۔ ایکدوسرے کے دکھ درد میں سب شریک ہوتے تھے۔مل بانٹ کر کھانے کی عادت ہوتی تھی۔سادہ زمانے تھے یہ نہیں کہ مقابلے کی دوڑ میں لگ جاتے بلکہ ایکدوسرے کو ساتھ لیکر چلتے تھے۔۔۔میں بہت پیچھے نہیں جاوُنگی بلکہ اگر اپنے بچپن کی بات کروں تو یہی کہوں گی کیا بھلا زمانہ تھا جب باورچی خانے میں ایک ہی چولہے کے گرد بیٹھ کر سب دادی جان کے مزیدار کھانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ہر کوئی بڑے صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتا تھامجال ہے کوئی خلاف ورزی کرتا۔مشترکہ نظام نے نا صرف تحمل، بردباری ، مروت پیدا کی بلکہ ایثار و قربانی کا جذبہ بھی عطا کیا۔ سیلف ڈسپلن کا پابند کیا۔محدود وسائل ہوتے تھے اور افراد کی فراوانی لیکن کبھی ہلچل ، بے چینی، افراتفری کاماحول نہیں ہوتا تھا بلکہ سہولیات کے نہ ہونے کے باوجود گھر کی خواتین بہت ہی منظم طریقے سے تمام کام سر انجام دیتی تھیں۔۔آج کی طرح بھگڈر نہیں مچی ہوتی تھی۔ کسی کوکسی سے شکایت نہیں ہوتی تھی۔اگر والدہ فارغ نہ ہوتی تو چچی ، پھپھی ، خالہ، ممانی یا جو بھی دستیاب ہوتی وہ فوری طور پر آموجود ہوتی۔آج کی طرح نفسا نفسی کا دور نہیں تھا۔ایکدوسرے کی خوشی میں خوش اور دکھ میں لوگ دکھی ہوتے تھے۔ماں جی کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ بھائی صاب امتحانات میں اول آئے اور چچا زاد بھائی فیل ہوگئے تو ماں جی نے رونا شروع کر دیا ۔یہ تھی محبت ، مروت، احساس جو آج بلکل مفقود ہوگیا ہے ۔۔گھر کے بڑےبزرگ اگرکسی بات پر بچوں کی گو شمالی کرتے تو والدین کی مجال نہیں ہوتی تھی انکے سامنے آواز اٹھانے کی۔بلکہ بچے کو ہی سمجھایا جاتا تھا ۔یہی تربیت کا انداز تھا۔ایک بچے کی تربیت میں پورے خاندان کا ہاتھ
ہوتا تھا۔ نتیجتاً بچے بھی مودب اور فرمانبردار  ہوتے تھے ۔*مشترکہ خاندانی نظام کی ناکامی کے اسباب

یہ نہیں کہ موجودہ نظام اب مکمل طور پہ ختم ہو گیا ہے ایسا نہیں۔بہت سے علاقوں میں، بہت سے گھروں میں یہ روایات ابھی بھی زندہ ہیں ۔ایکدوسرے کا احساس، خیال ابھی بھی رکھا جاتا ہے لیکن زیادہ تر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اب وہ پہلے جیسےحالات نہیں رہے۔۔اسکی سب سے بڑی وجہ ہے صبر، برداشت اور تحمل کی کمی۔اب لوگوں کے خون سفید ہوگئے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے لیکن باشعور اور بامروت ضرور ہوتے تھے۔اب جیسے جیسے تعلیم عام ہو رہی ہے ڈگریاں تو بڑھتی جا رہی ہیں لیکن شعور میں کمی آتی جا رہی ہے ۔احساس بے حسی میں تبدیل ہو رہا ہے ۔لالچ ، کینہ، بغض بڑھتا جا رہا ہے۔میں یہ نہیں کہونگی کہ یہ احساسات و جذبات پہلے نہیں تھے ایسا نہیں ہونگے لیکن اسوقت معاشرے میں مروت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ کھلم کھلا لڑائی جھگڑے نہیں کرتے تھے۔لیکن افسوس کہ اب اچھے بھلے پڑھے لکھے خواتین و حضرات چھوٹی 
چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنا کر اس پہ لڑائی شروع کر دیتے ہیں۔بچوں کی معمولی لڑائیوں پہ باقاعدہ دنگل ہوتے ہیں۔بھائ بھائ کا دشمن ہوا جاتا ہے ، چچا بھتیجے کے خون کا پیاسا ہوا جاتا ہے۔پھپھیاں بھتیجیوں میں عیب ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔دادی پوتے پوتیوں سے نالاں اور وہ دادی سے بیزار۔ساسیں ہر وقت بہوُں کے خلاف برسر پیکار اور بہویں ساسوں کے خلاف کمر بستہ۔دیورانی جیٹھانی ، نند بھاوج کی سازشیں اپنی جگہ۔ اس سب سے تو بہتر ہے کہ پھر چولہے الگ کر دیئے جائیں جہاں ایک روٹی زیادہ کھانے اور بوٹی چھپا کے رکھنے پر معرکے ہوتے ہوں ۔سب سے بھلا یہی کہ اگر خرچ برداشت کرنے کے متحمل ہوں تو چولہے نہیں تو گھر ہی علیحدہ کر دیں ۔

#مشترکہ خاندانی نظام کو ترک کرنے کے
نقصانات*:

دور حاضر میں بہت سے  لوگوں نے اس روایتی طریقے کو چھوڑا ۔اسکے اسباب اور وجوہات بیان کی جا چکی ہیں۔اسکے نقصانات کیا ہوئے انپر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔جدیدیت کے نام پر لوگ الگ تو ہو گے خاندانوں سے لیکن اب انکو پہلے سے بھی زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔جیسے کہ پہلے مشترکہ نظام میں کوئی بھی بچے کا خیال رکھ سکتا تھا اسکی ضروریات پوری کر سکتا تھا جبکہ اب یہ نہیں رہا۔جو کچھ کرنا ہے ماں اور باپ نے ہی کرنا ہے۔بچوں کو  گھر میں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا ۔انکی تربیت میں پہلے پورا خاندان شریک ہوتا تھا اب صرف یہ زمہ داری اماں ابا پر عائد ہوتی ہے۔گھر سے باہر جاتے ہوئے پہلے گھر کی یا اشیاء کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔اب اکیلے گھر سے نکلنا محال ہے ۔چوری کے خدشے کے باعث خالی گھر کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔پہلے کام بانٹ کے کئے جاتے تھے اب تمام کام ایک ہی شخص کے سر پہ آ پڑے۔خاتون خانہ ہوں یا صاحب خانہ دونوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں ۔چھوٹے نو مولود بچوں کو پہلے گھر کی بزرگ خواتین دیکھ لیتی تھیں ، انکا خیال رکھتیں انکی بیماریوں میں دیسی ٹوٹکوں سے علاج کرتی تھیں لیکن اب یہ سب اکیلے ایک ماں کی ذمہ داری ہو گئی ہے ۔اسی طرح پہلے بچت ہو جاتی تھی کیونکہ خرچ سب پہ تقسیم ہو جاتا تھا لیکن اب الگ گھر کے سو جھنجٹ سو خرچے ۔بلکہ بچت تو دور کی بات الٹا ادھار کی نوبت آ جاتی ہے۔ مشترکہ نظام میں دکھ بیماری کی صورت میں گھر والے ایکدوسرے کا خیال رکھتے تھے لیکن الگ سیٹ اپ میں یہ سب ممکن نہیں بلکہ ہر حال میں خود ہی کام کرنا پڑتا ہے۔
الغرض مشترکہ نظام کے اگر مسائل ہیں تو علیحدہ رہنے کے بھی بہت مسئلے ہیں۔ تحمل، برداشت، رواداری ،ایثار اور مروت جیسی خصوصیات کو اپنا کر  ہم مشترکہ خاندانی نظام کو فروغ دے سکتے ہیں ۔اگر ایک ساتھ ایک چولہے پہ رہنا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک ہی گھر کےمختلف پورشنز میں یا ایک ہی محلے میں قریب قریب رہائش لیکر، یا ایک ہی بلڈنگ میں الگ الگ اپارٹمنٹس لئے جا سکتے ہیں۔ اسطرح  دلوں میں دوریاں بھی نہیں رہیں گی اور بزرگوں کو تنہائی کا احساس بھی نہیں ہو گا ۔

آمنہ سردار


گفتگو ایک فن

گفتگو ایک فن ہے۔۔۔۔
انسان حیوان ناطق ہے۔۔۔۔جوبولتا تو ہے  لیکن کس وقت کیا بولنا ہے، کیسے بولنا ہے اور کس انداز میں بولنا ہے ۔۔۔۔یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تمام لوگوں کو بیک وقت بولنے کا شوق ہوتا ہے جو پھر گفتگو کم اور مباحثہ زیادہ لگ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔

*بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی
زندگی بے لطف ہے نا پختہ ہیں افکار ابھی*

 گفتگو ہر وقت اور ہر موضوع پردو یا دو  سے زائدفریقوں کے مابین ہو ہی رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔جسمیں باہمی دلچسپی کے امور، سیاست،حالات حاضرہ،  موسم، ذاتی زندگی سے متعلق باتیں ہوتی ہیں۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ جو گفتگوکی جا رہی ہے اس کو مفید اور پر اثر کیسے بنایا جائے۔۔۔۔  گفتگو کےکچھ آداب ہوتے ہیں۔جنپر عمل کرنے سے ہم اپنی عام سی بات چیت کو بھی پر اثر بنا سکتے ہیں

سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ جب ہم گفتگو کر رہے ہوں تو دوسرے فریق کی بات دھیان اور توجہ  سے سنیں اور اسکے مطابق جواب دیں۔۔۔اپنی گفتگو میں بر محل  تشبیہات ، استعارات اور ضرب الامثال کا استعمال کرنے سے ہم اسے مذید خوبصورت بنا سکتے ہیں۔۔۔۔ گفتگو کے دوران دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی شروع کر دینا انتہائی ناپسندیدہ امر ہے۔۔۔۔۔ہمارے ہاں ایک اور چلن بہت عام ہو گیا ہے کہ دوران گفتگو ہم منفی پہلو تلاش کرکے اسپر بات کرنے لگتے ہیں جس سے تلخیاں جنم لیتی ہیں۔۔۔۔۔ ایک قول ہے کہ " انسان کا اخلاق اسکی زبان کی نوک پر ہے  پر ہے۔۔۔لہذا گفتگو جتنی شائستہ اور مہذب ہو گی اتنا ہی دوسرے شخص پر آپکے اخلاق کا اثر بھی گہرا ہوگا۔۔۔۔۔
بعض اوقات ہمارا لہجہ پوری گفتگو کا مزاج ہی بدل دیتا ہے۔۔۔۔بات اگر کسی عام سے موضوع پر بھی ہو رہی ہو تو سخت یا تلخ لہجہ گفتگو کا مفہوم ہی بدل ڈالتا ہے ۔اسی لئے تو ہمارے بزرگ کہتے ہیں

*اب اپنے تکلم کا سلیقہ ہی بدل لے
الفاظ پرانے ہیں تو لہجہ ہی بدل لے*

اسی طرح عام فہم گفتگو میں انداز بیاں سادہ اور سلیس ہونا چاہئیے تاکہ دوسرے شخص کو بات سمجھنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔بعض اوقات لوگ بہت مشکل اور پرتکلف جملے بولتے ہیں جس سے سننے والا کوفت کا شکار ہوتا ہے۔۔۔۔بےجا محاورے اور تشبیہات بھی گفتگو کیا بلکہ شخصیت کا ہی اثر زائل کر دیتے ہیں۔گفتگوپر دلیل ہو تو پر اثر بھی ہوتی ہےاپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے حقائق پر مبنی دلائل کا سہارا لیا جانا چاہئیے تاکہ سامع یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ

*گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا*

گفتگو کرتے ہوئے اگر اختلافی نظریات آجائیں تو بجائے اسکے کہ بلند آواز سے اپنےآپ  کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جائے ۔شاستگی سے معذرت کر کے بھی گفتگو سے کنارا کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ یہ ضروری نہیں کہ اپنے نظریات دوسرے پر ٹھونسے جائیں۔۔۔۔مسلط کئے جائیں۔
گفتگو کرتے ہوئے الفاظ کے علاوہ کچھ اور چیزوں کا بھی خیال رکھنا چاہئیے جیسے کہ
آواز کی پچ اورٹون .... آواز کو غیر ضروری طور پر بلند کرنے سے سامع پر بہت برا تاثر پڑتا ہے۔۔۔۔کچھ لوگوں کی آواز کی پچ قدرتی طور پر اونچی ہوتی ہے۔۔۔انہیں اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ انکی بلند  آواز سے گفتگو پر اثر نہ پڑے۔سامع کو اونچی آواز ناگوار گزر سکتی ہے۔۔۔گو کہ ناطق جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتابلکہ قدرتی طور پر آواز کی پچ بلند ہونے سے اسکی گفتگو پر خاطر خوا اثر پڑ سکتا ہے۔
اسی طرح ٹون کا بھی خیال رکھنا چاہئیے ۔ہمارے ہاں اکثر لوگ اس بات کا دھیان نہیں رکھتے۔۔۔دوران گفتگو وہ طنزیہ یا تمسخرانہ اندازمیں بات کرتے ہیں جو کہ بہت معیوب لگتا ہے۔اس سے  شخصیت کا مثبت اثر زائل ہو جاتا ہے۔۔۔۔
گفتگو کے دوران ہاتھوں کی ضرورت سے زیادہ  حرکت بھی پسندیدہ نہیں۔۔۔۔جہاں ہاتھ کے اشارے سے بات سمجھانی ہو وہ تو ٹھیک ہے لیکن غیر ضروری حرکات مناسب نہیں۔۔۔
 چہرے کے تاثرات یا فیشیل ایکسپریشنز  کا بھی ہماری گفتگو میں بہت اہم کردار ہے۔۔۔۔گفتگو کے مطابق تو انکا استعمال درست ہے لیکن بے جا استعمال نہیں۔آنکھوں ، بھنووں کا استعمال، ناک چڑھانا، ماتھے پہ تیوری ڈالنا، آنکھ دبا کے بات کرنا یہ سب فیشیل ایکسپریشن کا حصہ ہیں۔۔۔۔  کچھ لوگوں کو بات کرتے ہوئے بہت زیادہ آنکھوں یا بھنووں کا استعمال کرنے کی عادت ہوتی ہے۔۔۔۔ اس سے گفتگو پہ منفی اثر پڑتا ہے۔۔

*مقصد ہے ناز و غمزہ و لے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر*

دوران گفتگو ایک اور اہم چیز کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے وہ ہے انداز نشست ۔۔۔۔ کیسے بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں۔۔۔۔انداز ایسا نہ ہو جس میں عدم دلچسپی جھلک رہی ہو۔۔۔۔ بلکہ ایسا ہو جو سامع کو بھی پرسکون رکھے ۔۔۔۔ ہاتھوں پیروں کو خوامخوا ہلانا، سر کھجانا، بار بار گھڑی دیکھنا،موبائل کیطرف متوجہ ہونا، بات کرتے ہوئے اردگرد دیکھتے رہنا، یہ گفتگو میں عدم دلچسپی ظاہر کرتا ہے جو کہ سامع کو  ناگوار گزر سکتا ہے لہذا توجہ سے دوسرے کی بات سننا اور اسکے مطابق چہرے کے تاثرات سے ردعمل دینا کامیاب گفتگو کا ایک بہت ہی کارگر طریقہ ہے۔
گفتگو انسان کی پوری شخصیت کی آئینہ دار ہے۔۔۔ آپ تھوڑی دیر کسی سے بات کرتے ہیں لیکن اچھی گفتگو کا تاثر تا دیر لوگوں کے ذہنوں پر رہتا ہے۔۔۔۔۔ شائستہ ، مہذب ، شستہ  اور رواں گفتگو ہی انسان کی پوری شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔