Saturday, October 27, 2018

#واک_کی_واک_اورشہرکےمسائل_سےآگاہی During Walk noted the issues of city



آجکل شہر کے مختلف حصوں کی واک کرنے کا اتفاق ہوا۔ واک کے لئے میں کچھ مخصوص جگہوں پر جاتی تھی۔لیکن شہر کے حالات سےبہتر طور پر واقفیت حاصل کرنے کے لئے میں نے سوچا کہ مجھے شہر کے مختلف حصوں میں جانا چاہئیے تاکہ وہاں کے مسائل و ایشوز سے بخوبی آگاہ رہوں۔ اس مقصد کے لئیے لنک روڈ، کالج روڈ، آرام باغ، چنار روڈ ،مری روڈ، جھانیاں روڈ(نواں شہر) پی ایم اے۔کاکول روڈ ، بائی پاس اور کامرس کالج روڈ پر واک کی۔اور ان تمام جگہوں کے مسائل سے آگاہی ہوئی ۔
لنک روڈ  سے بات شروع کرونگی لنک روڈ بہت زیادہ رش والی سڑک بن گئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سوزوکیاں اور ڈبے تو بہت زیادہ ہیں پرائیویٹ گاڑیاں بھی بے تحاشہ نظر آتی ہیں ۔ اس روڈ کا سب سے بڑا مسئلہ ریڑھیاں ہیں۔ دسیوں بار آپریشن ہوئے ، کئی باران ریڑھیوں کو یہاں سے ہٹا کر دیگر مختص مقامات پر منتقل کیا گیا لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔۔ دوبارہ اس پہ ریڑھیاں براجمان  نظر آتی ہیں۔ میں مانتی ہوں کہ یہ غریب لوگ ہیں انکی روزی پہ بھی لات نہیں مارنی چاہئیے لیکن یہ بھی تو تھوڑا تعاون کریں۔ نالوں پہ قبضہ کر کے  انہوں نے اپنی دکانیں سجالی ہیں۔ اور جب بارش ہوتی ہے تو نالوں کے بند ہونے کی وجہ سے سارا گندا پانی لنک روڈ کی دکانوں اور مکانوں میں چلا جاتا ہے۔اور لوگوں کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انتظامیہ کو بھی چاہئیے کہ ان ریڑھی بانوں کو ایسی جگہ الاٹ کی جائے جہاں پر انکو بھی روزگار کے بھر پور مواقع ملیں اور عوام الناس کو بھی تکلیف نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ اس روڈ پر پارکنگ کا ہے۔ لوگ روڈ پر گاڑی پارک کر دیتے ہیں جسکی وجہ سے ٹریفک میں بہت زیادہ تعطل پیدا ہوتا ہے۔ اسوقت یہ شہر کی مصروف ترین سڑک ہے لہذا میری تجویز ہے کہ اسکے دونوں چوکوں ( سربن چوک، توت والا چوک)میں ٹریفک پولیس والے تعینات ہونے چاہئیں۔تاکہ ٹریفک کا نظام درست طریقےسے چلتا رہے۔ ایک اور مسئلہ ہے یہاں پر دوکانوں کے آگے تک لوگوں نے بورڈ اور چیزیں رکھی ہوتی ہیں۔ یعنی چھوٹی چھوٹی تجاوزات کی ہوئی ہیں جس سےراہگیروں کو چلن میں بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
کالج روڈ کیطرف آئیں تو یہاں بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے۔ کینٹ بورڈ نے سڑک بھی بنائی اور فٹ پاتھس بھی نئے بنے۔اسمیں ایک تکلیف دہ بات یہ ہے کہ موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں والے بچے یہاں اکثر ون ویلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ اس روڈ کے شروع میں بننے والے ورکشاپس  اور روڈ کے اوپربنے  سروس سٹیشنز موجود ہیں۔جسکی وجہ سے انتہائی گند بنا ہوتا ہے کیچڑ والا۔ اس روڈ پر  گاڑیوں کو سڑک کے کنارے کھولا ہوا ہوتا ہے جو کہ ٹریفک میں تعطل کاباعث بنتا ہے۔ یہاں موجودنالے  کو کور کر کے سڑک کو وسعت دی گئی ہے لیکن افسوس ہماری جاہلیت پر کہ اسکو پارکنگ بنا دیا جاتا ہے۔ ایک اور وجہ یہاں پر پھلوں کی ایک شاپ ہے جس سے زیادہ تر امیر لوگ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے چیزیں آرڈر کرتے ہیں اور اتنی دیر تک روڈ بلاک رہتا ہے۔ ایک اور مسئلہ کہ یہاں پوسٹ گریجویٹ کالج کے باہر جگہ پر اکثر یاتو پارکنگ کی گئی ہوتی ہے یا ریت ، بجری ، اینٹیں پھینکیں گئی ہوتی ہیں ۔ایک اور مسئلہ کہ یہاں پر بھی رہاشی کوڑا کوڑے دان میں نہیں پھینکتے بلکہ اردگرد بکھیر دیتے ہیں۔

آرام باغ کی طرف رُخ کیجئے توایکدم تنگ سڑک شروع ہو جاتی ہے۔ پرانے بورڈ آفس اور اسکی جگہ بننے والے نئے وکیشنل سنٹر کی نئی دیوار تیار ہو بھی گئی ہے لیکن پچھلی یعنی پرانی دیوار ابھی تک نہیں توڑی گئی جو کہ راستے کی تنگی میں مزید اضافہ کر رہی ہے متعلقہ اداروں کو فواری طور پر پرانی دیوار کو ہٹانا چاہئیے تاکہ چار سے پانچ فٹ جگہ سڑک کو مذید مل جائے ۔ اور یہ واحد سڑک ہے شہر کی جسپرتانگے چلتے نظر آتے ہیں۔ جو ٹریفک کے تعطل کاباعث بنتے ہیں کیونکہ اس روڈ پر اوور ٹیکنگ کی بلکل گنجائش نہیں ہوتی۔تو ٹریفک بلکل سست چلتی ہے۔ مجھے تانگے سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس روڈ پر تانگے سے کافی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ اس علاقے کے فٹ پاتھ پر لوگ ٹولیاں بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں جس سے پیدل چلنے والےراہگیروں کو انتہائی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ یہاں روڈ پر اینٹیں اور بجری، ریت پھینکی جاتی ہے جو ٹریفک کے تعطل کی ایک اور اہم وجہ ہے۔ جبکہ دفعہ 144 نافذ ہے تو اس پر ضرور ایکشن ہونا چاہئیے۔ایک اور بات کہ فٹ پاتھ پر داہنے ہاتھ پر ایک گہرا نالہ ہے اسکے آگے کوئی رکاوٹ نہیں خدانخواستہ کسی کے اس نالے میں گرنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ لہذا اسکے آگے fence یعنی جنگلہ ہونا چاہئیے۔ یہ کافی رش والا علاقہ ہے اور بہت بچے یہاں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔انکی حفاظت ضروری ہے۔
چنار روڈ کی بات اگر کروں تو اس پر فٹ پاتھ بننے سے بہت فرق پڑا ہے ۔ کم ازکم اس خوبصورت روڈ پر  چلنے کے لئے ایک باقاعدہ ٹریک تو  بن گیا ہے لیکن افسوس لوگ پھر بھی فٹ پاتھ پر چلنےکی بجائے سڑک پر چل رہے ہوتے ہیں جو کہ بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ اس روڈ پر ٹریفک بہت تیز چلتی ہے اور حادثات کے خدشات بڑھ جاتے ہیں ۔
نڑیاں روڈ کو وسعت کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی فٹ پاتھ کی کیونکہ اس روڈ پر آپکو بہت زیادہ لوگ چلتے ہوئے نظر آئینگے۔ اور یہ بہت ہی گنجان آباد علاقہ بن گیا ہے۔

مری روڈ کا اول حصہ چونکہ آرمی کے تسلط میں ہے لہذا راوی وہاں چین ہی چین لکھتا ہے۔ لیکن اسکے مین روڈ کے چوک میں خوفناک رش ہوتا ہے ۔ میری تجویز کے مطابق وہاں ٹریفک وارڈن کے ساتھ ملٹری پولیس کا سپاہی بھی کھڑا ہو تو خاطر خوا فرق پڑسکتا ہے۔مری روڈ کو اگر جھگیاں والے علاقے سےآخر تک دیکھیں تو کافی رش نظر آتا ہے لیکن U ٹرنزمیں زیادہ فاصلہ  کرنے کی وجہ سے خاطر خوافرق پڑا ہے ۔ یہاں ایک بات جو تکلیف دہ نظر آئی وہ یہ تھی کہ نہ تو لوگ فٹ پاتھ پہ راستہ دیتے ہیں اور  نہ یہاں کے فٹ پاتھ زیادہ صاف ہیں۔ ایک اور hurdle بورڈز ہیں جو لوگوں نے دوکانوں سے باہر کرکے رکھے ہوتے ہیں۔ یا لوگ ان روڈز پر کرسیاں رکھکر بیٹھ جاتے ہیں جو پیدل چلنے والوں کے لئے کافی تکلیف دہ ہے۔اسی طرح اس روڈ پر کوڑا کرکٹ بھی نسبتاً زیادہ نظر آیا۔ اسکے لئے الزام میں محکموں کو نہیں بلکہ عوام الناس کو دونگی کہ انہیں خود یہ احساس ہونا چاہئیے کہ کوڑے کو کوڑا دان کے اندر پھینکا جائے نہ کہ باہر پھیلا دیا جائے۔
جھانیاں روڈ نواں شہر کی بات کروں تو اول تو یہ کہ وہاں فٹ پاتھس نہیں ہیں جو کہ ہونے چاہئیں کیونکہ زیادہ تر لوگ اس سڑک پر چلتے نظر آتے ہیں۔ دوسرا ٹریفک وہاں بہت تیزی سے گزرتی ہے ۔ ڈرائیونگ میں احتیاط کرنی چاہئیے جبکہ یہ کافی گنجان آباد علاقہ بن گیا ہے۔ اس روڈ پر ایک اور تکلیف دہ چیز ہے ٹیوب ویلز سے فاضل پانی کا اخراج ہے  جو کہ خومخواہ ضائع ہوتا ہے۔ اسکا کوئی سد باب ہونا چاہئیے ۔ واسا کے چیف ایگزیکٹو سے بھی اس سلسلے میں بات ہوئی تھی لیکن تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اور کچھ نہیں تو وہاں واٹر ٹینکس ہی رکھ دیئے جائیں تاکہ پانی بے جا ضائع ہونے سے بچ جائے۔

پی ایم اے کاکول روڈ کی طرف بڑھتے ہیں ۔ یہ نسبتاً مذکورہ تمام علاقوں سے صاف ہے۔ لیکن یہاں پانی کا مسئلہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے برسات کے موسم میں۔ خاص طور پر بلال ٹاوُن بہت متاثر ہوتا ہے بارش میں۔ بہتر سیوریج سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہو جاتا ہے جس سے بہت نقصان  ہوتاہے۔ اس روڈ پر باوجود رہائشی علاقہ ہونے کے گاڑیاں بہت تیز رفتاری سے گزرتی ہیں۔ جو کہ کئی بار  حادثات  کا باعث بنیں۔
بائی پاس ایک اچھی اور روشن بل کھاتی سڑک ہے لیکن وہاں فٹ پاتھ کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ واک اور جاگنگ کے لئے اچھا ٹریک ثابت ہو سکتا ہے۔اسکو اگر مذید کشادہ کیا جاسکتاہو تو بہتر ہے۔ جگہ تو آرمی کے پاس ہے اگر وہ تھوڑی سی مہربانی کر کے اسکو کشادہ کر دیں تو انکو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن عوام الناس کا فائدہ ہو جائیگا۔
کامرس کالج روڈ اور جناح آباد اور حبیب اللہ کالونی کے اندرونی روڈز انتہائی تنگ ہیں۔ اور اکثر جگہوں پر تو پانی کی وجہ سے کیچڑ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں شہر کی کریم رہتی ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں والےاصحاب جنکا تعلق زیادہ تر سرکاری نوکریوں سے ہے  وہاں سے دن میں کئی بار گزرتے ہیں لیکن انکو کھڈوں والی سڑکیں اور کوڑا کرکٹ کا ڈھیر نظر نہیں آتا۔ یہ نسبتاً پڑھے لکھے لوگوں کا پوش علاقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔
یہ تو تھا میری واک کے نتیجے میں نظر آنیوالے مسائل کامشاہداتی جائزہ۔ اگر میں ایک یا دو دنوں میں یہ سب observe کر سکتی ہوں تو وہاں پر رہنے والے اصحاب کو کن دشواریوں کا سامناہو گا ؟ یہ لمحہُ فکریہ ہے ہم سب کے لئیے ۔ ہمیں اپنے اپنے علاقوں اور انکے مسائل کے سدباب ک لئے گاہے گاہے اداروں کو اپنی متحدہ آواز سے جگانے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنا حق آگے بڑھ کر خود لینا ہو گا اور نہیں تو کم از کم اپنے مسائل کے حل کے لئے آواز تو اٹھانا ہوگی۔
مزید یہ سلسلہ جاری رہیگا ۔ اور جن علاقوں میں واک کے لئے گئی تو ضرور شئیر کرونگی۔ اور آپ سب سے بھی التماس ہے کہ آج جن علاقوں کا ذکر ہوا ان میں موجود دیگر مسائل بھی آپ کمنٹس میں share کریں تاکہ ان سب مسائل کے سد باب کے لئے کوئی مناسب  لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔

Tuesday, October 23, 2018

چند اشعار

   خیر مانگی تھی تجھ سے
  تو نے شر سے بچا لیا مجھکو

_________________________


 تم بن مانگے رہے کسی کی دعاوُں میں
  ہم چاہ کر بھی کسی کی دعا نہ بن سکے

_____________________________

دردکاغذ پہ بکھرا ہے
درد کا عنوان ہو تم

موت کا کھیل اور ہمارے بچے Game of death n our children



آجکل یہ موت کا کھیل بہت عام ہو گیا ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ میرا اشارہ کسطرف ہے۔ تو چلئے بتائے دیتی ہوں کہ میں موٹر سائیکل عرف عام موٹر بائیک کی بات کر رہی ہوں۔ گو کہ یہ ایک سواری ہے لیکن خطرناک ترین۔ اور جب سے موٹر سائیکلز سستی ہوئی ہیں یا قسطوں میں ملنے لگی ہیں تو اسکے بعد تو سڑکوں پر انکا اژدھام نظر آتا ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے یہ ایک باکفایت سواری ہے۔ اسپر ہمارے ہاں دو سے پانچ تک لوگ بآسانی بیٹھے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔یہ صرف پاکستان میں یا تیسری دنیا کے ممالک میں  ہی ممکن ہے ورنہ مہذب دنیا میں اسپر صرف دو ہی لوگ سوار ہو سکتے ہیں۔اس سواری  نے جہاں لوگوں کو آمدورفت میں آسانی اور سہولت دی ہے وہیں ٹریفک میں بہت مشکلات پیدا کر دہی ہیں۔آئے دن موٹر سائیکل سوار مختلف حادثوں کا شکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کبھی تیز رفتاری کے باعث ، کبھی غلط اوور ٹیکنگ کے باعث ، کبھی ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے ، کبھی دوسرے موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ریس لگانے کی وجہ سے ، اوور لوڈنگ کی وجہ سے اور اکثر و بیشتر ٹریفک کے قوانین توڑنے کی وجہ سے۔بہر حال چند سالوں میں سب سے زیادہ حوادث کا شکار یہ موٹر سائیکل سوار ہی ہوتے ہیں۔اور ان میں بھی زیادہ تر نوجوان لڑکے ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں  کے حادثات گاڑیوں کے حادثات سے زیادہ خوفناک نتائج کے حامل ہوتے ہیں ۔ گاڑیوں کے حادثات میں تو پھر کہیں زندگی بچ جاتی ہے لیکن موٹر سائیکلوں کے حادثات میں فوری اموات یاسیریس  انجریز زیادہ ملتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن 2014/15WHO کےشماریات کے تحت پاکستان دنیا بھر میں حادثات  میں  67ویں  نمبر پر ہے جسمیں سے 50% سے زائد اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں۔ایک اندازے  کے مطابق یہ تعداد 2030 تک بہت زیادہ  بڑھ جائیگی اور  ملک میں سب سے زیاہ اموات انہی حادثات کی وجہ سے ہونگی۔صرف کراچی میں تقریباً 150 سے زائد حادثات روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہوتے ہیں۔جنمیں سب سے زیادہ اموات  15 سے 30 سال تک کے عمر کے لوگوں کی ہوتی  ہیں۔۔جنمیں 40 سے 50% اموات ہیڈ انجری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔اور اسکی سب سے بڑی وجہ ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں 12056 روڈ ایکسیڈنٹس ہوئے جنمیں 528 اموات ہوئیں  11551لوگ کم زخمی ہوئے اور 2960 سیریس زخمی ہوئے ۔ انمیں 13% پندرہ سال سے کم عمر بچوں کی تھی اور 36% 16 سے 25 سال کے نوجوانوں کی ۔ یہ تقریباً پچھلے سالوں کے  ہیں ۔ حالیہ شماریات ان سے کہیں زیادہ ہیں۔چونکہ وہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکے اسلئیے انہی
 پر بات کرتے ہوئے  آگے بڑھتے ہیں۔ اگر یہ صرف ایک شہر کا ڈیٹا ہے تو آپ سوچئے کہ پورے ملک میں تو لاکھوں حادثات روزانہ کی بنیاد پر وقوع  پزیر ہوتے ہیں۔


ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ان حادثات کی وجوہات کیا ہیں۔ اور انکا کیا سد باب کیا جا سکتا ہے
زیادہ تر تیزرفتاری حادثے کا باعث بنتی ہے
 موٹر سائیکل سوار اچانک کسی  موڑ سے نکل آتے ہیں اور گاڑیوں کے سامنے آجاتے ہیں جس سے حادثہ رونما ہوتا ہے۔اسکا حل یہی ہے کہ موڑ پر سوار احتیاط برتیں ۔ اپنا بھی خیال رکھیں اور دوسرے لوگوں کا بھی۔ 
بلائنڈ کارنرز پر اچانک بریک لگانے کے باعث بھی حادثات رونما ہوتے ہیں۔۔ یہاں پر انکو ٹرائیل بریکنگ تکنیک جو کہ زندگی بچانے کے لئے ہوتی ہے اس کا سہارا لینا  چاہئیے۔   ٹرائیل بریکنگ تکنیک آجکل کے جدید موٹر سائیکلز میں متعارف کرائی گئی ہے ۔یہ فرنٹ ڈسک بریکس کا درست استعمال ہے جو  حادثوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔
لین چینج کرتے ہوئے بھی بہت سے حادثات ہوتے ہیں ۔اسمیں ایک خاص اینگل پر جب موٹر سائیکل سوار گرتا ہے تو اسکے گھٹنے کہنیاں وغیرہ چھلنی ہو جاتی ہیں۔بعض اوقات ہیڈ انجری بھی ہوتی ہے۔
موٹر سائیکل سوار اچانک کھڑی ہوئی گاڑیوں کے پاس سے گزرتے ہیں۔ گاڑی سے نکلنے والے مسافر کو پتہ بھی نہیں ہوتا وہ جیسے ہی  دروازہ کھولتا ہے تو فوری حادثہ ہو جاتا ہے اسلئے کھڑی ہوئی گاڑیوں کے پاس سے انکو احتیاط سے گزرنا چاہئیے کیونکہ کار سوار کو اچانک آنیوالا موٹر سائیکل سوار نظر نہیں آتا جو حادثے کا باعث بنتا ہے
۔نشہ آور دوائیوں کے زیر اثر موٹر سائیکل سواروں کو احتیاط کرنی چاہئیےکہ اس حالت میں سفر نہ کریں ۔
 کچھ لوگوں نے خوبصورتی یا شو کے لِے عام موٹر سائیکلوں کے ساتھ  بڑے بڑے ٹائر لگا رکھے ہوتے ہیں جو توازن کو خراب کرنے کا باعث بھی  بنتے  ہیں اور  بعض اوقات انکی مینٹینس درست نہ ہو تو بھی حادثے کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔
ون ویل ڈرائیونگ تو موت کا کھیل ہے جسمیں آج کل کے نوجوانوں اور پندرہ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہیں ۔ یہ خود کو موت کے شکنجے میں دینے والی بات ہے۔ ٹین ایجر (13 سے 19 سال تک کے بچے) خاص طور پر یہ حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔
اسکے علاوہ بہت کم عمری کے باعث بھی حادثات ہوتے ہیں۔  12 ، 13 سال کا بچہ جب موٹر سائیکل لے کر سڑک پر نکلتا ہے تو اکثر اس سے اتنی بڑی سواری سنبھالی  نہیں جاتی اور وہ حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قصور وار پہلے تو والدین ہیں کہ وہ بچے کو اس عمر میں موٹر سائیکل کیوں دیتے ہیں اور دوسری طرف ٹریفک وارڈنز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کو فوری طور پر روکیں۔ اور ایسے سخت قوانین بنائیں  والدین کے لئے بھی کہ اگلی بار وہ بچوں کو discourage کریں ۔اور اس سواری کے استعمال سے روکیں ۔
ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ہیلمٹس کا استعمال نہیں کرتے ۔جسکی وجہ سے ہیڈ انجری کا فوری شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہیلمٹ کے استعمال کو قانون کے ذریعے لازم کیا جائے۔ بلکہ دونوں سواریوں کے لئے لازمی ہو ۔
اوورلوڈنگ بھی حادثات کے رونما ہونے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک عام درجے کی  موٹر سائیکل پر پورا خاندان سوار نظر آتا ہے۔ چار پانچ بندے تو موٹر سائیکل پر بیٹھنا کوئی بات ہی نہیں اور کوئی چالان بھی نہیں ہوتا۔
حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ موٹر سائیکل کرائے پر بھی با آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ جن نوجوانوں یا بچوں کو ٹھیک سے چلانا نہیں بھی آتا تو وہ بھی انتہائی کم قیمت پر کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور ناتجربہ کاری یا کم عمری کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔
ایک سب سے عام وجہ حادثات کی یہ ہے کہ وہ تمام سڑک پر چلتے ہیں یعنی کہ ایک طرف سے نکلے کبھی درمیان میں چلے اور کبھی دائیں بائیں۔ اگر وہ ایک ہی سائیڈ پر چلیں جو قوانین کے مطابق انکو بتائی گئی ہےتو حادثات میں خاطر  خواہ کمی آسکتی ہے۔
مزید یہ کہ جب خواتین موٹر سائیکل پر بیٹھتی ہیں تو اکثر اپنے دوپٹے یاچادر سمیٹ کر نہیں بیٹھتیں جس سے وہ حادثے کا باعث بنتی ہیں اور  بعض اوقات اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ ایک اور بہت ہی اہم اور عام مسئلہ یہ ہے کہ جب نو عمر بچے یا بغیر لائسنس کے بچے نکلتے ہیں تو انکو اگر راستے میں روکا جائے تو وہ ڈر کے مارے بھاگ نکلتے ہیں یہ بہت ہی خطرناک بات ہے کیونکہ سیکیورٹی ادارے انکو دہشت گرد سمجھ کر ان پرفائر کھول سکتے ہیں ۔ لہذا اس سلسلے میں بھی بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
موت کا دکھ تو ہوتا ہی ہے لیکن جب میں کسی نوجوان بچے کے موٹر سائیکل حادثے کا سنتی ہوں تو دل تڑپ جاتا ہے کہ ایک بچہ یا جوان گھر سے کوئی چیز لینے نکلا اور واپسی پہ اسکی میت آئی۔ اس سے زیادہ دردناک بات ایک ماں یا والدین کے لئے کیا ہو سکتی ہے۔
میں تمام والدین سے گزارش کرونگی کہ آپ تھوڑا سا مشکل وقت گزار لیں لیکن اپنے نو عمر بچے کو یہ موت کی سواری نہ لے کر دیں۔
میری متعلقہ محکموں کے لوگوں سے بھی اس پسخت ترین ایکشن لینے کے حوالے سے بات ہوتی رہی ہے۔اس ضمن میں سخت سے سخت قوانین بنان کی ضرورت ہے تاکہ حادثات میں کمی آ سکے۔

Sunday, October 21, 2018

چادر کی حرمت

سوشل میڈیا پہ چلنے والی پوسٹس دیکھیں ۔جسمیں پنجاب میں شعبہ صحت کی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کی طرف سے دوپٹے لازم  کرنے کاکوئی ذکر نظر آیا ۔بعد میں اس کی تردید بھی کی گئی ہے۔ زیادہ تفصیلات نہ مل سکیں لیکن  اسمیں کیا قباحت ہے اگر دوپٹے کرنے کا کہا گیا ہے۔ شلوار قمیص اور دوپٹہ تو ہمارا قومی لباس ہے۔ اور اگر دینی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو پھر تو باقاعدہ پردہ بنتا ہےخواتین کااس ملک میں۔ چلئیے ابھی اس دینی بحث کو رہنے دیتے ہیں۔
مجھے حیرانی ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ دوپٹہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔   سمجھ نہیں آتی وہ کونسی ترقی ہے جسمیں دوپٹہ حائل ہوتا ہے.بہرحال جو لوگ نہیں کرنا چاہتے وہ یہ عذر گھڑ لیتے ہیں۔لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ دوپٹہ اور چادر تو عورت کے وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔نہ یہ کسی کی ترقی کی راہ میں حائل ہوا نہ رکاوٹ بنا۔ حتیٰ کہ اس ملک کی کچھ نامور خواتین نے تو برقع پہن کر بھی زندگی کے ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ اگر ماضی میں جھانکیں تو آپ کو یاد آئے گا کہ پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ شکریہ خانم ایک پردہ دار خاتون تھیں ۔ انکے لئے تو برقع رکاوٹ نہیں بنا۔ انکا نام تو تاریخ میں پہلی خاتون  پائلٹ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ اگر میں کھلاڑیوں کی مثال لوں تو بہت سی خواتین  کھلاڑی حجاب پہن کر کھیلتی ہیں انکے کھیل پر تو انکا حجاب اثر انداز نہیں ہوا۔ محترمہ فاطمہ جناح ، بیگم رعنا لیاقت علی خان ، بے نظیر بھٹو ، بیگم کلثوم نواز جیسی نامور خواتین نے ہمیشہ سروں پہ دوپٹے لئے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم رہیں لیکن انہوں نے قومی لباس کی عزت رکھتے ہوئے ہمیشہ سر پہ دوپٹہ لیا۔ اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین برقع، گاوُن ، حجاب، سکارف ،دوپٹہ اور چادر پہنتی ہیں جنمیں افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی ہیں، پولیس سے تعلق رکھنے والی بھی ، CSP آفیسرز بھی ہیں ججز بھی ہیں اور خواتین وکلاء بھی۔پروفیسرز بھی ہیں اور سانئسدان بھی۔ ڈاکٹرز بھی ہیں اور نرسز بھی۔  سیاستدان خواتین بھی ہیں اور عاصمہ شیرازی جیسی اینکرز بھی۔  لیکن انکی کارکردگی پر، انکے کام پر تو کوئی منفی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ خواتین مکمل خوداعتمادی سے اپنے متعلقہ فرائض بہ احسن طریقے سے انجام دیتی ہیں۔
اگر اپنی مثال پیش کروں تو اسمبلی میں پانچ سال گزارے اور الحمداللہ اپنی طرف سے بہترین وقت گزارا۔ اسمبلی بزنس میں ٹاپ 10 لوگوں میں نام رہا، اپنے علاقے کےاور جنرل مسائل پر آواز اٹھانے کے حوالے سے سرفہرست رہا چار ممالک کے دورے کئے۔ یورپ اور برطانیہ میں برقع کیساتھ گئے ۔ میرے ساتھ پانچ اور خواتین بھی برقع والی تھیں لیکن الحمداللہ ہاوُس آف کامنز اور ہاوُس آف لارڈز میں شرکت کی اور West Minister Abbey میں ہونیوالی تمام میٹنگز میں ویمن پارلیمنٹری کاکس کی وائس پریذیڈنٹ کی حیثیت سے پاکستان کی بھر پور نمائندگی بھی کی اور بہترین تاثر بھی چھوڑا۔جینوا کے UN ہیڈ کوارٹرز میں بھی یہی تمام خواتین  تھیں جنہوں نے تمام  میٹنگز میں شرکت کی اور برما میں ہونیوالے ظلم کیخلاف آواز بلند کی۔ ہم خواتین کو تو کوئ رکاوٹ نظر نہیں آئی۔ سیاست میں اسکے علاوہ اور بھی مثالیں موجود ہیں جیسے سمعیہ راحیل صاحبہ، عائشہ سید صاحبہ، نعیمہ کشور جیسی باکمال سیاستدان خواتین جنہوں نے اسمبلی فلور پر ہر مسئلے کو اجاگر کیا۔
اگر آپ دینی نقطہُ نظر سے اس کو نہیں دیکھتے تو کم از کم معاشرتی و ثقافتی انداز میں ہی لے لیں۔ کہ یہ ہمارے اس خطے کی ثقافت ہے۔ اسی ثقافت کے فروغ کے لئے ہی ہم دوپٹے یا چادر کا استعمال کریں۔ لباس ہر ملک اور کلچر کی پہچان ہوتا ہے۔ ہماری پہچان شلوار قمیص اور دوپٹہ یا چادر ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے کہ اگر آپ چادر اور دوپٹہ لیں گے تو دقیانوسی کہلائیں گے۔ ایسا نہیں ہے بہت سی پڑھی لکھی خواتین جو بظاہر پردہ کرتی ہیں وہ ذہنی طور پر بہت  سی بے پردہ خواتین سے زیادہ باشعور ہوتی ہیں ۔  وہ بچیوں کی تعلیم کے حق، انکی مرضی سے شادی کے حق، وراثت کے حق اور بزنس یا نوکری کرنے کے حق کی حامی ہوتی ہیں۔
ایک دور تھا جب پی ٹی وی کے خبرنامے اور اناوُنسرز سروں پہ دوپٹے لیتی تھیں تو بہت باوقار دکھائی دیتی تھیں۔ گو کہ دوپٹہ کرناہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ ایک قومی لباس کی حیثیت سے اسکو لباس کا حصہ ضرور بنایا جائے۔
دوپٹہ /چادر ایک مسلمان اور پاکستانی عورت کی پہچان یے ۔ اور اسکو اپنی اس پہچان کے تقدس کو بحال رکھنا چاہئیے ۔

ایک سوزوکی ڈرائیور کے ساتھ مکالمہ۔ A dialogue with Suzuki Drivet

ایک سوزوکی ڈرائیور کیساتھ مکالمہ

آج چنار روڈ پہ واک کی اور طویل واک کے بعد لوکل سواری سوزوکی میں اس غرض سے سفر کیا کہ موجودہ کرایوں اور سواریوں کی صورتحال سےاور ڈرائیوروں کے مسائل سے بھی مکمل آگاہی حاصل کر سکوں ۔
تمام راستہ ڈرائیور کا انٹرویو لیا۔ نوجوان لڑکا تھا۔ ایک بات اسکی اچھی لگی کہ میرے احترام میں اسنے میوزک آہستہ کر دیا حالانکہ مجھے سننے میں آتا ہے کہ ڈرائیور خاتون سواری کی موجودگی میں میوزک تیز کر دیتے ہیں۔ شاید میری عمر اور برقعے کا رعب ہو۔   اس سے موجودہ مسائل پوچھے۔ وہ غریب بھرا بیٹھا تھا اسنے جو مہنگائی کا رونا رویا تو راستہ ہی ختم ہو گیا۔ گیس کی مہنگائی کا شکوہ، سوزوکی کے پرزوں کی مہنگائی کا رونا، اڈوں کے کرایے دینا، سوزوکی مالکان کو انکا حصہ دینا، کنڈیکٹر کو دینا ، اور روز کیدیہاڑ  گھر لے کر جانا۔ غرض اسنے مہنگائی کو ہی تمام مسائل کی جڑ قرار دیا۔
میں نے اسکو پوچھا کہ کیا تمھیں پتہ ہے بزرگ سواریوں (( Senior Citizens) کے کیا حقوق ہیں اور طالبعلموں کے کیا ہیں ؟ تو اسنے لاعلمی کا اظہار کیا۔صرف یہ کہا کہ جو دے نہیں سکتے ان سے ہم مانگتے نہیں ہیں ۔ اسی طرح students  کا بتایا کہ زیادہ تر بچے نہیں دے سکتے تو ہم لیتے نہیں۔ میں نےاسکو بتایا کہ بزرگ شہری اور طالبعلموں کا کرایہ آدھا ہوتا ہے بلکہ بعض جگہوں پر تو لیا ہی نہیں جاتا ۔ تو وہ حیران ہوا۔ 
میں نے اسکو بتایا کہ میں اس ایشو پرکام کر رہی ہوں کہ سنئیر سٹیزنز بزرگ شہریوں کے لئے خیبر پختونخوا حکومت میں قانون تو موجود ہے لیکن کیا اسپر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔اور اگر ہو رہا ہے تو کس حد تک؟
اس قانون میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں کہ یہ بزرگ شہریوں کے لئے فائدہ مند ہو۔
اسکے علاوہ میں نے اس سے خواتین کے لئے علیحدہ سوزوکیاں  چلانے کی بات بھی کی جس پر اسنے کچھ خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ بلکہ کہا کہ الگ سوزوکیوں سے مسئلہ کیسے حل ہو گا جبکہ لوگوں کو  جانے کی جلدی ہوتی ہے اور وہ انتظار نہیں کر سکتے ۔ اسی طرح خواتین کو جو سواری میسر ہو گی وہ اسپر سفر کرینگی۔ میں نے اسکو کہا کہ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ جو خواتین مردوں والی سواری میں سفر کرنا نہیں چاہتیں وہ ضرور انتظار کرینگی اور اسطرح اوقات کار بھی سیٹ ہو جائینگے ۔بہت سی خواتین اور بچیاں راستے میں  ہراس منٹ کا شکار ہوتی ہیں جسکے لئے وہ خواتین کی گاڑی کو ترجیح دینگی۔ 
اسپر اسنے کچھ زیادہدلچسپی  نہیں لی۔
مجھے تمام روٹس کے کرایے بتائے جو کہ ظاہر ہے 2 روپے سے 10 روپے تک زیادہ بڑھ گئے  ہیں۔ اور یہ ایک عام آدمی کے لئے بہت زیادہ ہیں جس نے روزانہ سفر کرنا ہوتا ہےاسکے لئیے تو ڈبل ہوگئے جو ظاہر ہے اسکے اوپر اضافی بوجھ ہے۔ اسی طرح ڈرائیور بھی ایک عام آدمی ہے اور اسکے بھی اخراجات ہیں۔ بہر حال انتظامیہ کو کوئہ بیچ کی راہ نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو سہولت ملے نا کہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
یہ تھی آج کی روداد سوچا آپ لوگوں سے شئیر کروں۔ اس تحریر میں جن قوانین کا ذکر ہوا ہے یا مسائل کا۔ انکے حوالے سے اگر کوئی تجویز دینا چاہئیں تو ضرور دیجئے۔

کلثوم نواز ایک عہد ساز شخصیت . Kalsoom Nawaz a legendary character


کلثوم نام سنتے ہی ذہن میں ایک حسین و بردبار ہنستا مسکراتا چہرہ آ جاتا ہے۔وہ  ایک کشمیری گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ خوبصورت، شوخ اور اچھی عادات کی حامل کلثوم اپنے خاندان اور دوستوں سب میں مقبول و پسندیدہ تھی۔ انکے والدڈاکٹر عبدلحفیظ بٹ کا تعلق گوجرانوالہ کے علاقے مصری شاہ کے ایک معزز اور پڑھے لکھے خاندان سے تھا۔ننھیال کی طرف سے انکا تعلق  پہلوانوں کے خاندان سے ہے۔ رستمِ  زماں گاما پہلوان انکے نانا اور بھولو پہلوان انکے ماموں ہیں۔  کلثوم کی دو بہنیں  اور ایک بھائی ہیں ۔ انہیں پڑھنے لکھنے کا شروع ہی سے شوق تھا ۔انہوں نے اسلامیہ کالج سے انٹر کیا۔ ایف سی کالج سے گریجویشن کیا۔ 1971 میں انکی شادی لاہور کے ایک کاروباری خاندان  کے میاں شریف کے بیٹے نواز شریف سے ہوئی جنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دہائی کے آخری دور میں کیا۔ کلثوم نے شادی کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ انکے پاس فلسفے میں PhD کی ڈگری بھی تھی۔ کلثوم ایک نہایت منکسر المزاج خاتون تھیں ۔ ملنساری، ہمدردی اور خوش اخلاقی انکے خاص اوصاف تھے ۔ انہوں نے اپنے سسرال والوں کے ساتھ بہت محبت اور اپنائیت کا وقت گزارا۔ اپنی ساس و سسر کو والدین کا درجہ دیا۔ انکے گھرانے کی ایک بات بہت ہی اچھی تھی کہ والدین کا انتہائی ادب واحترام کیا جاتا تھا۔ میاں شریف جب  تک زندہ رہے انکے بیٹے بڑے عہدوں ((وزیر اعلی' اور وزیر اعظم))   ہونے کے باوجود اپنے والد  کے انتہائی فرمانبردار تھے۔ یہی حال گھر کی خواتین کا بھی تھا۔ کلثوم کو اللہ تعالیٰ نے چار بچوں سے نوازا جن می۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ مریم، عصمہ، حسن اور حسین۔ ۔۔۔۔  کلثوم کو  پہلی مرتبہ 1990 میں خاتون اول بننے کا شرف حاصل ہوا۔ جو 1993 تک رہا۔ دوسری مرتبہ وہ 1997 سے 1999 تک خاتون اول رہیں۔ اپنے ہر دم مسکراہٹ بکھیرتے دلکش چہرے کیساتھ وہ کافی پسندیدہ خاتون اول رہیں۔ اکتوبر 1999 میں مشرف کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہی جب میاں نواز شریف  کو قید کر لیا گیا تو وہی خاتون جو زیادہ توجہ اپنے گھر اور بچوں کو دیتی تھی ایکدم میدان سیاست میں کود پڑی ۔ نواز شریف کو پارٹی کی صدارت چھوڑنی پڑی۔ اور کلثوم نواز کو صدارت کا تاج پہنایا گیا۔ انتہائی دگر گوں حالات میں اس گھریلو  عورت نے ایک آمر کے سامنے کلمہُ حق بلند کر کے بہادری کی ایک مثال قائم کر دی۔ اس نے لاہور سے پشاور تک مارچ کیا۔ پارٹی کے بہت سے سر کردہ لوگ گرفتارہو گئے  لیکن بہت سے لوگ  منظر سے غائب بھی ہو گئے جن میں آج کے کچھ بڑے سیاستدان بھی موجود ہیں ۔ پارٹی کے نظریاتی ورکرز و کارکنان نے انکا ساتھ دیا۔ انکے ساتھ چلے۔ ہزارہ میں سردار اورنگ زیب نلوٹھا اور دیگر مقامی رہنماوں نے انکا بھر پور ساتھ دیا۔ اور انکے ساتھ جمہوریت کے نفاذ کے لئے ڈٹ گئے۔ محترمہ کی بہادری سے آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کی وجہ سے انکو مادر جمہوریت کا خطاب دیا گیا۔ 2002 تک وہ پارٹی کی صدر رہیں۔ لیکن جیسے ہی میاں صاحب واپس آئے تو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ باوجود اسکے کہ انہوں نے یہ چار سال کس ہمت ، جوانمردی اور سیاسی بصیرت  سے گزارے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور کسی بھی عہدے کی خواہش نہ کی۔ 2013 میں انکو تیسری مرتبہ خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور وہ اپنی روایتی ملنساری اور خوش اخلاقی کیساتھ ایک بار پھر اس منصب پر فائز ہوئیں۔ 2017 میں میاں صاحب کی زبردستی کی نااہلی کے سبب وہ اس منصب سے ہٹ گئیں۔ میاں صاحب کی نا اہلی کی وجہ سے انکے حلقے کی سیٹ خالی ہوئی۔ جسپر محترمہ نے ضمنی الیکشن لڑا اور 59413ووٹ لیکر پی ٹی آئی کی یاسمین راشد سے بہت اچھی lead سے جیت گئیں۔ اسی دوران طبیعت کی خرابی کے پیش نظر انکو لندن طبی معائنے کے لئے جانا پڑا۔ جہاں پر یہ افسوسناک انکشاف ہوا کہ وہ گلے کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ شریف خاندان کے لئے یہ ایک اور آزمائش کی گھڑی تھی۔ مخالف پارٹیوں کے لوگوں نے انکی بیماری کی خبر کو ڈرامہ، فراڈ اور نہ جانے کیا کیا کہا۔ بیماری کی شدت کی وجہ سے وہ حلف لینے بھی نہ آ سکیں۔ انہیں  کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی جیسے علاج کے سخت مراحل سے گزرنا پڑا لیکن وہ صبر و استقامت کا پیکر بنی اپنے محبوب شوہر اور پیاری بیٹی کی منتظر رہیں۔ انکے بارے میں بار بار استفسار کرتی رہیں۔ لیکن بیٹی اور شوہر تو جمہوریت کی بالادستی کے لئے سرگرم عمل تھے۔ باوجود چاہت کے وہ انکی عیادت کے لئے نہ جا سکے۔ لیکن جب انکی طبیعت کے زیادہ بگڑنے کی خبر ملی تو وہ دونوں فوری طور پر رخصت ہوئے لیکن بدقسمتی سے اسی دن انکو کارڈیک اریسٹ ہوا اور وہ کومے میں چلی گئیں۔ انکو ventilator پہ ڈالدیا گیا۔ مریم اور میاں صاحب روزانہ انکی عیادت کو جانے لگے لیکن یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب وہ جیسے ان سے ناراض ہو گئی ہیں اور انکے پکارنے پر بھی انکو جواب نہ دیتی تھیں۔ شوہر اور بچے بے بسی کی تصویر بنے تھے کہ خدائی کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ ہر طرح کا علاج معالجہ ہو رہا تھا لیکن کوئی بہتری کے امکان  و آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ بہر حال باپ بیٹی کو عدالتی فیصلے کی لاج رکھتے ہوئے اور اپنے اصولوں پہ قائم  رہنے کی وجہ سے بحالت مجبوری  محترمہ کو اسی کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ کر واپس آنا پڑا ۔ مخالفین نے انکی بیماری پہ پورے پورے پروگرام کئے اور اسے جھوٹ قرار دیا۔ لوگوں نے انکی بیماری پہ طنزیہ tweets کیں کہ کہاں ہیں کلثوم نواز اور کس حال میں ہیں ۔ جبکہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھیں۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ انکو ہوش آیا اور سب سے پہلے انہوں نے محبوب شوہر اور بیٹی کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے انکا پوچھا ۔ انکو کبھی کسطرح بہلایا جاتا اور کبھی کیسے عذر تراشے جاتے لیکن ایک فرمانبردار بیوی آخر دم تک اپنے شوہر اور پیاری بیٹی کے بارے میں سوال کرتی رہیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ شوہر اور بیٹی قیدو بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ اگر یہ معلوم ہوتا تو نہ جانے انکا مذید کیا حال ہوتا۔ آخر تھک ہار کر مایوس ہو کر انہوں نے اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کر دی۔ 11ستمبر کا یادگار دن جب ہم اپنے عظیم لیڈر قائد اعظم کی برسی مناتے ہیں وہی دن کلثوم نواز کی وفات کا دن بن گیا۔ اتفاو زمانہ  دیکھئے کہ شوہر کی سالگرہ قائد کی سالگرہ کے دن ہوتی ہے اور بیگم کی وفات قائد کی برسی کے دن ۔ یہ بھی قائد سے محبت کا ایک انداز ہے انکے رب کیطرف سے۔ کلثوم نواز کی زندگی کا وہ باب جو 12 مارچ 1950 کا شروع ہوا آخر 11 ستمبر 2018 کو اپنے اختتام کو پہنچا۔ 13 ستمبر کو انکی نماز جنازہ لندن کی سنٹرل مسجد میں مقامی وقت کے مطابق دن 12 بجے پڑھائی گئی۔ پاکستان میں انکی تجہیز و تکفین کا دن 14 ستمبر بمقام جاتی امرا شام 5:30 ہے۔ بیگم کلثوم نے اپنے پیچھے سوگواران میں صرف اپنے خاندان کے لوگ نہیں چھوڑے بلکہ روتے بلکتے اپنے لاکھوں چاہنے والے ، کروڑوں مسلم لیگی چھوڑے ہیں انکا سلوک تمام پارٹی ورکرز سے مشفقانہ اور محبت آمیز ہوتا تھا۔ بہت کم لوگ ایسے اخلاق کے حامل ہوتے ہیں ۔ کلثوم نواز کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جنکی تعریف انکے دشمن بھی کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک معزز اور غیر متنازعہ خاتون رہیں ۔وہ ہمیشہ  باہمت، صابر ،اور ہر حال میں شاکر رہیں ۔  ساٹھ اور ستر کی دہائی کی خوبصورت، الہڑ دوشیزہ   زندگی کے اتنے اتار چڑھاوُ دیکھنے کے بعد آخراپنی ابدی منزل کو پہنچ گئ۔ اللہ کریم انکی مغفرت فرمائےاور انکے درجات بلند فرمائےاور انکو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔دعاگو آمنہ سردار

پانی آب حیات ہے Water is life



وقت کا اہم ترین تقاضہ یہ ہے کہ پانی کو کیسے بچایا جائے۔ کیونکہ جدید ریسرچ کے مطابق پاکستان میں پانی یہاں پہ بسنے والی آبادی کے تناسب سے دن بدن گھٹ رہا ہے۔ پانی کو محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ ڈیمز کا بنانا ہے۔ ڈیم اسوقت ہماری بہت بڑی ضرورت ہے اسمیں کوئی شک نہیں۔لیکن ڈیم بننے میں وقت لگے گا راتوں رات نہیں بن جائیں گے۔لہذا ہمیں کچھ ایسا سوچنا ہو گا کہ ہم کیا اقدامات کریں جس سے ہم ڈیم کے بننے تک پانی کو بچا سکیں ۔ 

ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فیٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فیٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ 
پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔

ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔
 لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صورتحال میں کیا کیا جائے جبکہ  پانی کم ہورہا ہے ۔ اسکے لئے کچھ تجاویز ہیں ۔

 پانی کا استعمال کم سے کم کیا جائےجہاں آدھی بالٹی سے کام چل سکتا ہو وہاں  پوری بالٹی ضائع نہ کی جائے۔ گاڑیوں کو دھونے کے لئے کم سے کم پانی استعمال کیا جائے ۔  صفائی کی شوقین خواتین جو گھر کے فرشوں پر دھلائی میں بے دریغ پانی خرچ کرتی ہیں ان سے گزارش کے جہاں کپڑا مار کے یا mopping  کے ذریعے صفائی ہو سکتی ہے اسکو استعمال کریں ۔ واش رومز میں اکثر leakage ہوتا ہےاسکو فوری طور پر مرمت کرنا چاہئیے ۔خاص طور پر سرکاری اداروں میں ایک واشل کے نہ ڈالنےسے  پانی کا کتنا ضیاع ہو جاتا ہے۔ بہت سے محلوں، کالونیوں اور راستوں  میں پانی کے پائپس کی لیکیج کی وجہ سے پانی کا بہت ضیاع ہوتا ہے۔ 
 پانی کے وہ نالے یا چھوٹی ندیاں جن سے پینے کا مقصد تو پورا نہیں ہوتا لیکن اس پانی کوفرشوں اور گاڑیوں کی  دھلائی کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس پانی کو آلودہ نہ کریں۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ محلوں میں گٹروں کی جگہ ان نالوں میں گندے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ جو انتہائی نامناسب ہے اور متعلقہ محکموں کو فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے اسمیں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ بہتے پانی کو آلودہ کرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے ۔ 
شہروں کا 15 فیصد اور دیہاتوں کا 18 فیصد پانی پینے لائق رہ گیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان میں 60سال پہلے فی فرد 50 لاکھ لیٹر پانی دستیاب تھا۔ پانچ گنا کمی کے بعد آج کل یہ مقدار 10 لاکھ لیٹر رہ گئی ہے۔
8)کچھ جگہوں پر ٹیوب ویلز سے اضافی پانی کا اخراج ہوتاہے ۔ اسکو محفوظ کیا جا سکتا ہے لیکن کئی جگہوں پر وہ فالتو میں بہہ رہا ہوتا ہے ۔ 
ہمارے سائنسدان گندے پانی سے صاف پانی بنانے کے تجربات کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئیے وہ ان ریسرچرز کو بھی فنڈنگ کریں تاکہ ملکی ضرورت پوری ہو۔ ایک اندازے کے مطابق 29 بلین کیوبک پانی روزانہ waste ہوتا ہے۔ اسکو پودوں کے ذریعے صاف کرنے کے تجربات ہو رہے ہیں  جو کہ زراعت کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔  مون سون کا پانی بھی ذخیرہ کر کے روز مرہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ 
 جن علاقوں میں پانی دریا یا ندیوں کی صورت میں موجود ہے۔ لوگ اپنی مدد آپکے تحت بھی چھوٹے ڈیمز بنا سکتے ہیں۔ 

ہماری اسوقت کی اہم ترین ضرورت پانی کے ضیاع کو روکنا ہے۔پانی کو ضائع ہونے سے روکنا صدقہُ جاریہ ہے ۔
پانی کے ذخائر اور انفرا اسٹرکچر میں اضافہکر کے پانی کے مسائل کے بارے میں شعور پیدا کیا جائے  اور بارش کے پانی سے کاشتکاری کی جائے۔
طلب اور فراہمی کے سلسلے میں حکومت اور انفرادی سطح پر ہر شخص کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ گھریلو اور صنعتی صارفین کو یکساں طور پر پانی کفایت شعاری سے استعمال کرنا ہوگا۔زیادہ پانی کی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ 
ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشتکاری، گرے واٹر کی ری سائیکلنگ، واٹر پرائسنگ، پانی کے ذخائرمیں اضافے، پانی کی آلودگی میں کمی کے اقدامات کو فروغ ملے شہری آبادیوں میں متوازن اضافہ ہو۔ایس ڈی جی نے استعمال کے قابل پانی کی دستیابی اور مینجمنٹ پر زور دیا ہے۔اس کے تحت ہر شخص کو صاف پانی کی فراہمی اور صحت و صفائی کی سہولتیں فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ پانی کے بہتر اور کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کے لئے اسکولوں اور میڈیا پرمہم چلائی جائے ۔جو کہ شعور اجاگر کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ 
پانی کے کم ہونے کے بہت سے اسباب ہیں۔ آبادی میں اضافہ، شہروں کی طرف ہجرت، کھیتوں میں زیادہ پانی کی ضرورت والی کاشت کاری، صنعتوں کا پھیلاؤ، ناقص انفرااسٹرکچر، لیکج کی وجہ سے سپلائی میں کمی۔۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بھی بڑی تعداد میں پانی کا ضیاع ہوتا ہ
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کے کم یا زیادہ ہونے اور گلئیشرز کے پگھلنے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ جو ملک میں پانی کا 96 فیصد استعمال کرتا ہے متاثر ہوگا۔
ان تمام مسائل کے سد باب کے لئے ہمارے پاس ڈیم بنانے کی آپشن ہے۔ لیکن
پانی کے امور کے ماہر حسن عباس نے بھی بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق دنیا میں کہیں بھی اتنا بڑا منصوبہ چندے کی مدد سے تعمیر نہیں کیا گیا ہے اور ان منصوبوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیے جاتے ہیں۔

’دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کے لیے اگر آپ پاکستان کے تمام شہری، بشمول نوزائیدہ بچے، اگر اس فنڈ کے لیے 30000 روپے دیں تو شاید کچھ بات بنے۔ لیکن کیا ہمارے ملک میں اوسط تنخواہ اتنی ہے؟ اس فنڈ بنانے کا خیال ناقابلِ عمل لگتا ہے۔‘


ساتھ ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ بونڈ جاری کر دے تو مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر فنانشل منصوبہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کی مدد سے زیادہ رقم حاصل ہو سکتی ہے.
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر عرفان چوہدری کے خیال میں پاکستان میں بارش کا پیٹرن بہت مختلف ہے اور اب اس پیٹرن کے ساتھ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا، جس کی وجہ سے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں،’’مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں مختصر مدت کے لئے زیادہ بارش ہوتی ہے، جو صحیح طرح زیر زمین جذب نہیں ہوتی اور چونکہ ہمارے پانی جمع کرنے کے ذخائر بھی کم ہیں۔ اس لئے ہم اس پانی کا ذخیرہ بھی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں بڑے ڈیموں کو تعمیر کرنے کے لئے پہلے ہمیں بہت سے سیاسی مسائل سے لڑنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیں گوٹھ اور دیہات کی سطح پر چھوٹے اسٹوریج ٹینک بنانے چاہیں، جس سے نہ صرف پانی جمع ہوگا بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی، جو بلوچستان سمیت کئی علاقوں میں خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ ہمیں سیلابی نہریں بنانی چاہیں اور اگر مون سون کے دور میں بارش بہت زیادہ ہو اور سیلابی شکل اختیار کر لے تو ان سیلابی نہروں کے ذریعے ایک طرف ہم اپنی فصلوں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور دوسری طرف ان نہروں کی بدولت بھی زیرِ زمین پانی کی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے۔‘‘

دس برسوں میں پاکستان قحط کا شکار ہو سکتا ہے، رپورٹ
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انرجی کے ماہر فیصل بلوچ کے مطابق اس رین پیٹرن کو بہتر کرنے کے لئے شجر کاری بہت ضروری ہے،’’پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے کئی ممالک میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کے تجربے ہوئے ہیں لیکن اب کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ان بڑے ڈیموں کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوتا ہے۔ اسی لئے دنیا کے کئی ممالک میں ان ڈیموں کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ ڈیموں کے لئے ایک خطیر سرمایہ چاہیے ہوتا ہے جب کہ اس سے سیاسی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں مصنوعی جھیلیں بنا کر پانی کو ذخیرہ کرنا چاہیے، جس سے نیچرل اکوافر ریچارج ہوگا۔ اس کے علاوہ فیلڈ اریگیشن کو ختم کر کے ہمیں دوسرے طریقے اپنانے چاہیں۔ پانچ ملین ایکڑ فٹ (MAF)صرف ہم یہ طریقہ کاشت کو ختم کر کے بچا سکتے ہیں۔‘
چند مزید حقائق ملاحظہ فرمائیں بھاشا ڈیم کی پانی ذخیرہ  کرنے کی کل گنجائش 10،000،000،000 میٹر کیوبک ہے۔ ایک پاکستانی اوسطا"30 سے 350 لٹر پانی روزانہ استعمال کرتا ہے_اگر ہر پاکستانی 5 لٹر پانی کی بچت روزانہ  شروع کر دے تو ڈیم کے بننے تک ہم بحیثیت قوم ڈیم جتنا پانی بچا لیں گے اور ڈیم کے بننے کے بعد اتنا ہی پانی ہر دس سال بعد زراعت کے لئے مختص کر دیا کریں گے۔

درخت_زمین_کازیورہیں DARAKHT ZAMEEN KA ZAIWAR HAIN (TREES THE TREASURE OF EARTH)

#درخت_زمین_کازیورہیں 

شجر ہیں تو ہیں بستیاں آباد ہر سو
شجر ہی سے ہیں اس جہاں میں رنگ و بو
جسطرح زیور ایک عورت کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں اسی طرح درخت زمین کا زیور ہیں جو اسکے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔  آپکا اکثر ایسی جگہوں سے گزر ہوتا ہے جہاں درخت نہ ہوں تو وہ جگہ ویران سی لگتی ہےجیسے کیسی غریب کی بیوہ جو کسی بھی زیور کے بغیر ہوتی ہے۔ لیکن جب آپکا گزر درختوں کے جھنڈ سے یا کسی جنگل سے ہوتا ہے تو وہ جگہ  آپکو ایک نوبیاہتا دلہن کی مانند دکھائی دیتی ہےجو زیورات سے سجی سنوری ہوتی ہے۔ تو یہی مثال درختوں پہ بھی صادق آتی ہے۔ درخت عطیہُ خداوندی ہیں۔
#دین_میں_درختوں_کی_اہمیت_وافادیت: 
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے درختوں اور نباتات کے نظام کو اپنی رحمت قرار دیا ہے ۔ اسلام میں حالت جنگ میں بھی کھیتوں اور درختوں کو برباد کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں اسکے برعکس ہو رہا ہے ،  بدقسمتی سے ہم اس عطیے کو اپنے ہاتھوں ضائع کر رہے ہیں انکا بے دردی سے قتل عام کر رہے ہیں۔ ہم ناصرف درختوں کو بلاضرورت کاٹتے جارہے ہیں بلکہ انکی جگہ نئے درخت بھی نہیں لگا رہے۔ جبکہ یہ ہمارا دینی و قومی فریضہ ہے کہ ہم درخت زیادہ سے زیادہ لگائیں. نبی کریم ؐ سے ایک روایت مروی ہے کہ" اگر تمھارے ہاتھ میں ایک پودے کی قلم ہے  اور تم اسے لگا رہے ہو اور عین اسوقت قیامت کا اعلان ہو جائے تو بھی کوشش کرو کہ یہ پودا زمین میں لگاوُ"
اس سے بڑی بات ہمارے لئے کیا ہے کہ ہمارا دین بھی ہمیں شجر کاری کی تلقین کرتا ہے۔درختوں کی اہمیت و افادیت سے قطعی انکار نہیں ہے ۔
#زندگی_میں_درختوں_کی_اہمیت_وافادیت 
ہم بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں کہ ہمیں ان سے  کیا دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں اسی بات کومدنظر رکھتے ہوئے ہم اس پر اسکی تفصیل بیان کرتے ہیں۔   زندگی گزارنے کے لئے ہم درختوں کے محتاج ہیں۔ ہم ان سے لکڑی ، ایندھن ، پھل  اور مختلف دنیاوی  فوا ئدتو حاصل کرتے ہی ہیں لیکن انکا سب سے بڑا فائدہ ہے #آکسیجن_فراہم کرناجو انسانوں اورجانداروں کے لئے ازحد ضروری ہے ۔ اردگرد  کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے یہ #ماحول_کو #خوشگواراورآب_وہواکومعتدل  بناتے ہیں۔ جنگلی حیات کو رہائش فراہم کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی انکے حیران کن فوائد ہیں جس سے بیشتر لوگ ناواقف ہیں۔
#جنگلات_سیلاب_سےبچاوُ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں جن علاقوں میں درخت زیادہ ہوتے ہیں وہاں سیلاب  کے خدشات بھی کم ہوتے ہیں۔  درخت کی جڑیں ناصرف خود اضافی پانی کو جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔اسی وجہ سے پانی سطح پر جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ 
چونکہ درخت کی جڑیں زمین کی مٹی کو روک کے رکھتی ہیں جسکی وجہ سے #زمین_کٹاوُ کا شکار نہیں ہوتی #لینڈسلائیڈنگ سے بھی تحفظ  ملتا ہے۔ 
درخت مسلسل مٹی اور زمین کو پانی فراہم کرتے رہتے ہیں جس سے وہ بنجر نہیں ہوتی اور اسکی #زرخیزی_اور_ہریالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ 
جسطرح درخت سیلابوں سے روکتے ہیں اسی طرح #قحط_اورخشک_سالی سے بھی بچاتے ہیں ۔ 
درخت اپنی جڑوں میں جذب شدہ پانی کو  پتوں کے ذریعے ہوا میں خارج کرتے ہیں جس سے عمل تبخیر ہوتی ہے جو بادلوں کے بننے اور ان سے #بارش_برسنے کا باعث بنتے ہیں۔ 
درخت #صوتی_آلودگی_میں_کمی کا باعث بنتے ہیں ۔یہ کسی جگہ پر موجودپر شور آوازوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اربن پلاننگ میں اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے پرشور جگہوں جیسے فیکٹریوں ، کارخانوں اور سکولوں کے قریب کے مقامات پر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ یہ اس مقام سے شور کو جذب کر کے اسے پرسکون بنائیں۔ 
درختوں کا #انسانی_صحت پر بھی بہت مثبت اثر پڑتا ہے ۔ درخت #ذہنی_تناوُ، #ٹینشن_اورڈیپریشن جیسی بیماریوں میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق اس قسم کے مریضوں کو ایسی پرسکون جگہوں پر جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے جہاں درختوں کی بہتات ہو۔ درخت #انسان_کی_تخلیقی_صلاحیتوں #کونکھارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
درخت و جنگلات جنگلی حیات کی افزائش کا باعث ہیں ۔ 
یہ تو وہ تمام حیرت انگیز  فوائد ہیں جو ہمیں درختوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ 
اسکے علاوہ ہم درختوں سے روزمرہ استعمال کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ جسمیں خاص طور پر فرنیچر، کاغذ ،پھل ،  جڑی بوٹیاں اور ایندھن ملتا ہے ۔ہماری روزمرہ زندگی میں لکڑی کا استعمال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔  اور اسی مقصد کے لئے ہم تیزی سے درخت  کاٹ کر جنگلات کو ختم کر رہے ہیں۔ 
#درختوں_کی_کٹائی_کےنقصانات
درختوں کی اس کٹائی سے انسانی زندگیوں پر انتہائ  منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔اسی رفتار سے ہم درخت کاٹتے رہے تو اگلے دس سالوں میں ہمارا شمار ان ملکوں میں ہو گا جہاں انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جیسے قدرتی آفات، شدید گرمی، سیلاب اور بے وقت کی ہنگامہ خیز بارشیں۔ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان جلد ہی  ان بدقسمت ممالک میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ قدرت نے پاکستان کو پانچ ہزار گلیئیشیر عطا کئے ہیں۔ درخت کاٹنے کی وجہ سے ہمارے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے ۔ گلیُیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں. ماہرین کی رائے کے مطابق  2035تک برف کے تمام ذخائر پگھل جائیں گے جو ہمارے لئے لمحہُ فکریہ ہے۔ اسکے بعد دریاوُں میں پانی خشک ہو جائیگا ، کافی حد تک کم ہو بھی گیا ہے۔ زراعت متاثر ہو گی۔ فضا کے اوپر اوزون لئیر (ozone lyer) کمزور پڑ رہی ہے۔ سورج کی شعاعیں ڈائریکٹ انسان زندگی کو متاثر کر رہی ہیں۔ کینسرز میں اضافہ ہو رہا ہے۔اسکی اصل وجہ بھی درختوں کی کٹائی ہے۔درختوں کی کٹائی سے جنگلی حیات میں کمی آ رہی ہے۔پانی کی شدید کمی بھی درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے۔   
یہ سب  وہ بھیانک صورتحال ہے جو درختوں کی لگاتار کٹائی کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ لہذا ہمیں من حیث القوم اس اہم ترین مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور زیادہ سے زیادہ شجرکاری اور جنگلات کے پھیلاوُ پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ صرف انفرادی کوشش ہی  نہیں کرنی بلکہ اجتماعی طور پر ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔ جس کے لئے ہمیں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہی دینی  ہوگی۔ حکومتی سطح پر ہمیں اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہو گا۔ حکومت کی سر پرستی میں ہمیں شجرکاری کی مہم کو تیز تر کرنا ہو گا۔ لوگوں کو تحریر و تقریر کے ذریعے ، سیمینارز کے ذریعے آگاہی پروگرامز کا انعقاد کرنا ہو گا۔ بارانی علاقوں میں خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ان علاقوں میں درختوں کے کٹنے سے بارش کی شرح بہت کم ہوئی ہے۔ ہمارا تعلق چونکہ بارانی علاقے سے ہے لہذا ہمیں تو اور بھی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ اگلی تحریر میں اس خطے کے حوالے سے درختوں پر بات ہو گی انشاءاللہ ۔

خاموش زہر قاتلKHAMOSH ZEHER E QATIL (SILENT KILLER)










KHUD AIHTASABI K KHUGAR BANAY خوداحتسابی کے خوگر بنیں

"خود احتسابی کے خوگر بنیں"

میں کیا کر رہی ہوں یا کیا کر رہا ہوں ؟ 
میرا کیا کردار ہے ؟ 
کیا میں اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا کر پا رہا /رہی ہوں۔ 
یہ وہ سوالات ہیں جنکا ہم جواب آج تلاش کرتے ہیں ۔ 
تو چلئے شروع کرتے ہیں اپنے آپ سے کہ بحیثیت پاکستانی میں اپنے کردار کو نبھانے میں کامیاب ہوا ہوں یا ناکام۔ ایک افسر کی حیثیت سے میں دفتر میں بیٹھ کر گپ شپ ، چائے ، اخبار سے لطف اندوز ہوتا ہوں یا اپنے کام کو پوری توجہ و یکسوئی سے کرتا ہوں۔ 
ایک طالبعلم کی حیثیت سے کیا میں نے اپنا کام ایمانداری سے کیا یا نہیں ۔ نوٹس اپنی مدد آپ کے تحت بنائے یا نیٹ سے چھاپہ مارا۔
بحیثیت سیاستدان کے میں نے اپنے ووٹر سے کئے ہوئے وعدے پورے کئے یا صرف اپنے perks & priviliges کو انجوائے کیا۔ بیرون ملک دورے کئے ۔ 
بحیثیت ڈاکٹر کے میں نے اپنی بہترین  خدمات گورنمنٹ ہسپتال میں انجام دیں  یا مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینک پہ بلایا۔
بحیثیت استاد کے میں نے طلباء کو اپنا تمام علم دیا، انکی تربیت کی یا انکو شام اپنی اکیڈمی میں داخلہ لینے پر مجبور کیا۔ 
بحیثیت جج کے میں نے اپنے فرائض ادا کئے ، انصاف پر مبنی فیصلے کئے یا ناانصافی کی ۔ 
بحیثیت دوکاندار میں نے کتنی ملاوٹ کی، کتنی چور بازاری کی۔کہاں گاہک کو دھوکہ دیا اور کہاں جھوٹی قسم کھائی۔ 
بحیثیت خاتون خانہ کے میں نےگھر کے  ہر کام اور ہر بات میں اپنے شوہر کی رضا مندی کو ملحوظ خاطر رکھا یا جو دل میں آیا وہ کیا۔ اور اس سے گھر کے معاملات جو اسکے علم میں ہونے چاہیئے تھے چھپا لئے۔ 
یہ ساری وہ باتیں ہیں جنکا سوائے ہماری ذات کے اور کوئی جوابدہ نہیں ہے۔ لہذا ہم اگر ایسا ہی کر رہے ہیں تو کیوں اور اگر ایسا نہیں کر رہے تو کیا وجہ ہے؟ 
ان دونوں سوالوں کے جوابات ڈھونڈتے ہیں ۔اور ان جوابات کے مطابق اپنی ذات کے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں جسکا من حیث القوم ہم شکار ہیں۔  

خدا نے آجتک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 پہلی صورتحال میں اگر ہم یہ سب کرتے ہیں تو اسکی کئی توجیہات ہیں۔ جیسے  خدا خوفی نہ ہونا یا دین سے دوری۔ یعنی ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہی نہیں نہ آخرت کی جوابدہی کا کہ ہم اسکو کیا منہ دکھائیں گے۔ اپنے اعمال  کا کیا جواب دینگے۔سزاو جزا کا خوف نہیں ہے۔ 
یہ صرف دین سے دوری کی بات نہیں بلکہ  بہت سی باتیں ہمارے کلچر کا حصہ بن گئی ہیں۔ جھوٹ، بے ایمانی ، وعدہ خلافی یہ اب ہمارے لئے باعث شرم نہیں رہیں۔ ہم اخلاقی گراوٹ کاشکار ہو گئے ہیں۔ ہم من حیث القوم ان عِلتوں میں مبتلا ہیں۔ اسکی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ ہم ایکدوسرے سے بے نیاز ہو گئے ہیں، بے حس ہو گئے ہیں خودغرضی میں مبتلا ہیں ۔جب انسان کسی سے بے نیاز ہوتا ہے تو اسکی پروا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اسکے اچھے برے کی پروا نہیں کرتا۔ اسکے ساتھ ساتھ اسمیں خودغرضی بھی شامل ہو گئی۔ تو ہوا یوں کہ جب ہم نے پروا کرنی چھوڑی تو اسکے اچھے برے ، خوشی غمی سے ہمیں کوئی غرض نہیں رہتی ۔ اور اگر اسکے نقصان سے کہیں ہمارا بھلامنسلک ہو تو ہم اسکے لئے خفا ہونےکی بجائے اپنی خوشی پر خوش ہوتے ہیں۔ یوں اسکی خوشی پہ دل میں خفا ہوتے ہیں۔ دل میں حسد ، بغض پنپنے لگتا ہے۔ یہ نفسی برائیاں ہمیں گھیرنا شروع کردیتی ہیں۔ اور ہم انمیں ملوث ہوتے جاتے ہیں  لاشعوری طور پر،  ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی۔جب ہمیں پتہ چلتا ہے تو ہم ان برائیوں میں کافی آگے نکل گئے ہوتے ہیں۔ اسکی اور بھی کئی reasons ہو سکتی ہیں۔ ہمارے رشتوں میں دوریاں آگئی ہیں۔ پہلے جائنٹ فیملی سسٹم میں سب اکٹھے رہتے تھے۔ اچھی بری بات ہر جگہ ہو جاتی تھی لیکن ایک دوسرے کا لحاظ ، مروت ، احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا ۔ بڑے بزرگ چھوٹوں کو غلط بات پر ٹوک دیتے تھے حتیٰ کہ دور پار کے رشتہ دار یا پڑوسی۔ لیکن انکی بات کو کوئی مائنڈ نہیں کرتا تھا۔ اب اسکے برعکس ہے۔ نانی دادی یا نانا دادا یا کوئی اور بڑا بچے کو کچھ کہہ کے تو دیکھے والدین فوراً لڑائ جھگڑے پہ آجاتے ہیں۔ صبر ، تحمل ، برداشت جیسی صفات سے بھی ہم عاری ہو گئے ہیں۔ پہلے پہل لوگ ایکدوسرے کے ساتھ مروت و محبت کے رشتوں میں بندے ہوتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔اس سب کی وجہ صرف دین سے دوری نہیں ہے، ہم اب کردار کے غازی نہیں رہے۔ دین کردار سازی میں مدد کرتا ہے اسے تو ہم نے حقوق العباد کے معاملے میں پیچھے ہی چھوڑ دیا (البتہ حقوق اللہ بڑی شدو مد سے اختیار  کئے ہوئے ہیں ) لیکن اخلاقیات کو کیوں چھوڑ دیا۔ دنیا کی مہذب قومیں مسلمان نہیں ہیں لیکن وہ اخلاقیات Ethicsکی دولت سے مالا مال ہیں۔ انمیں سچ، امانتداری،ایفائےعہد، اور انصاف جیسے سب اوصاف موجود ہیں ۔ ہمیں ان اوصاف کو اپنے اندر تلاش کرنے کی اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان اوصاف کی عدم موجودگی کی وجہ انفرادی و اجتماعی بھی ہو سکتی ہے، تہذیبی اور تاریخی بھی ہو سکتی ہے نفسیاتی اور سیاسی بھی ہو سکتی ہے معاشی اور معاشرتی بھی ہو سکتی۔ ہمیں اپنے آپ میں یہ اوصاف پیدا کرنے ہونگے۔ کیونکہ کوئی قوم اسوقت تک مہذب نہیں ہو سکتی جبتک اسمیں اخلاقی اقدار زندہ نہ ہوں۔ ہماری اخلاقی اقدار ابھی مری نہیں ہیں بلکہ سو رہی ہیں جیسے ہی کسی کو کوئی تکلیف پہنچتک ہے ہمارے اندر سوئ ہوئ اچھائی بیدار ہو جاتی ہے۔  ملک پہ کوئی آنچ آتی ہے یا قوم کو کوئی ٹھیس پہنچتی ہے تو یہی سوئی ہوئی قوم فورا"جاگ جاتی ہے، متحد ہو کر مخالف کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔
جو لوگ دوسرے پہلو کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔یعنی سب اچھا کر رہے ہیں تو انمیں کچھ دیندار ہونگے ، کچھ اخلاقیات کا خیال رکھنے والے ہونگے اور کچھ انسانیت کے علمبردار ہو نگے۔ ہر شخص دوسرے سے مختلف شخصیت، عادات و اطوار رکھتا ہے۔ کوئی دوسرے جیسا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار نظر آتا ہے۔ لوگ ایک جیسے نہ ہو کر بھی ایک جیسے دکھتے ہیں.  ہمیں اپنے اس معاشرےکو بے حسی   سے نکال کر زندگی کی طرف پورے جوش و جذبے اور ایمانداری سے رواں رکھنا ۔
 موجودہ  حالات کی  جو وجوہات میں نے اوپر پیش کی ہیں انپر  ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ہم کس توجہیہ کا شکار بنے ہیں، کون سی ایسی وجہ ہے جو مجھ میں یہ کمی یا خامی پیدا کرنے کا باعث بنی۔  اب اسے دور کرنے کا وقت ہے۔ ہمیں خود اپنی اصلاح کا بیڑ ا اٹھانا ہے۔یہی انفرادیت سے اجتماعیت کا سفر ہے ۔ معاشرہ ایک شخص سے  نہیں پوری قوم سے بنتا ہے 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

KACHRA MUNAFA BAKHSH BHI HO SKTA HAI (TRASH CAN BE USEFUL)

ایک تحقیقی سروے کے مطابق ماحولیات کے ماہرین کو تشویش لاحق ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غریب عوام کی ایک بڑی آبادی  کوڑے کرکٹ کے پاس رہتی ہے۔ جن کی وجہ سے انمیں بے شمار مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے پاس رہنے سے انہیں جسمانی عوارض لاحق ہونے کیساتھ ساتھ ذہنی بیماریاں بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں ۔جنمیں ملیریا اور فضائی آلودگی سے متعلقہ مسائل شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسکی وجہ کوڑا کرکٹ کی جگہوں پر زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان ممالک میں نہ ختم ہونیوالی  بیماریوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2010 میں ان ممالک میں اسی لاکھ ساٹھ ہزار افراد کچرے کے قریب رہنے پر مجبور ہیں۔ اسی رپورٹ کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ سیسہ، فاسفیٹ اور لوہا اور دیگر کئی طرح کے کیمیکلز صحت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس علاقے میں سیسے کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے ۔ماہرین کی رائے کیمطابق اگر یہ زہریلا مادہ انسان کے خون میں جذب ہو جائے تو اس سے رحم مادر میں بچوں کو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ 
ترقی یافتہ  ملکوں میں ماحول د وست اصول کے تحت اسکو ٹھکانے لگانے کے بہت اچھے اور سائنٹفیک  طریقےموجود  ہیں۔ اور  اس کچرےسے فائدہ اٹھانے کے لئےبھی انکے پاس بہت سی سہولتیں اورسائنسی طریقہُ کار موجود ہیں۔دنیا بھر میں آجکل ویسٹ مینجمنٹ کےانہی اصولوں  کے تحت کام ہو رہا ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

#کچرےکی_اقسام: 
 ہمارے ملک میں ہر قسم کا ٹھوس کچرا پایا جاتا ہے۔یہ گھریلو ، صنعتی،زرعی یا محض قدرتی  بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے 
1)گھریلو کچرا : باورچی خانے کا کچرا جسمیں ٹوٹی کانچ،پلاسٹک، برتن، گتے کے ڈبے، استعمال شدہ پرانے اخبارات اور چھلکے وغیرہ۔
2)فالتو کچرا: اینٹ، ریت ،فرنیچر اور بیکار اشیاء، کاٹھ کباڑ۔
3)حیاتاتی  و طبی کچرا: مردہ جانور۔ شاخ سے گرنے والے پتے، ڈالیاں، تنے، شاخیں ، گلے سڑے پھل ، چھلکے۔ 
4)زرعی کچرا: فصلوں سے بچنے والا کچرا ، کھیت کے جانوروں کے فضلات ، راکھ اور کیڑا کش ادویہ ۔ 
5) صنعتی کچرا: جیسے کیمیاوی مادہ، پینٹ وغیرہ
6) کوئلے کی کان کا کچرا۔ 
یہ کچرا زیادہ  تر شہروں میں ملتا ہے۔

#کچرےکی_نکاسی_کےلئےاقدامات: 
 شہروں میں  اس کچرے کی نکاسی کے لئے حسب ذیل اقدامات کئے گئے ہیں۔
1) ٹھوس کچرے کا جمع کرنا ۔ شہر کے مختلف مقامات سے ٹرکوں اور ٹریلوں کے ذریعے کچرا جمع کیا جاتا ہے جو ٹرانسفر سٹیشنز پر بھیجا جاتا ہے۔۔ بلڈوزر ان کچروں کو انتقالی مستقروں سے نکال کر نکاسی کی جگہوں کو لے جاتے ہیں جو عمومًا کسی زمین پر یکجا کیا جاتا ہے ۔ نباتاتی، زرعی اور گھریلو کچرا تو زمین میں دفن کیا جا سکتا ہے لیکن پلاسٹک اور باقی کیمیاوی کچرے کو یا تو recycling کے عمل سے گزارا جاتا ہے یا تلف کر دیا جاتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو کنٹینر میں بھر کر تلف کر دیا جاتا ہےاور پھر گہری جگہوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ 

#کچرےاورکچرادانوں_کامناسب_انتظام 

ِیہ بہتر ہو گا  کہ ہر گھر کے سامنے ایک بڑے سائز کا ’’ڈرم‘‘ کوڑا ڈالنے کے لیے رکھ دیا جائے جسے کچرا اٹھانے والا آ کر اپنی ہتھ گاڑی میں ڈال کر لے جائے۔ اس کچرے کو کچرے کے بڑے ڈھیر  میں ڈال دیا جائے جہاں سے گاڑیاں محفوظ طریقے سے وہ کچرا ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے لیے مخصوص جگہوں پر پہنچا دیں۔ متعلقہ لوگ اس کچرے کو ری سائیکل کر کے اسے کار آمد بنا کر پھر نئے سرے سے نئی اشیا بنانے میں لگاسکتے ہیں ۔ 
دوسری بات یہ کہ  سڑکیں صاف کرنے والوں کے پاس سائیکلیں ہوں  جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈبے لگے ہوں،تاکہ سڑک کو صاف کر کے کوڑا ان میں جمع کیا جائے۔ اسی طرح  ترتیب وار مخصوص فاصلوں پر بڑے بڑے ٹرالر کچرا ڈالنے کے لیے رکھ دیے جائیں جہاں گھروں اور سڑکوں سے اکٹھا کیا ہوا کچرا جمع کیا جائے، جو ٹرکوں کے ذریعے مخصوص فیکٹریوں یا ان جگہوں تک لے جایا جائےجہاں انکو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزاراجائے۔ اس طرح کا کام کرنے کے لیے کے MC  یاTMA یا  متعلقہ ادارے اس کام کا ٹھیکہ کسی شہرت یافتہ  کمپنی کودیں، جو ہر شہر کو اپنے  طریقہُ کار  سے صاف رکھیں۔ان  ٹھیکوں  کی وجہ سے کوڑا ری سائیکل ہو کر کار آمد بھی ہو گا ،  جس کو آگے فیکٹریوں کو فروخت کر دیا جائے اور ٹھیکہ دینے سے بھی کروڑوں کا منافع ہو سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے اس کام کے لیےہمیں بہت زیادہ  پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی ہم  کچھ کر  سکتے ہیں  مگر اصل کام بڑے پیمانے کا ہے، جو ہر شہر کی بلدیاتی حکومت انجام دے سکتی ہے۔ اس میں ماہرین کی ضرورت ہو گی اور ایسے ایماندار افسران کی ضرورت ہے جو  دیانتداری اور جانفشانی سے اس کام کو انجام تک پہنچائیں۔

#ری_سائیکلنگ:
پوری دنیا میں Recycling کا رجحان ہے۔ لوگ پرانی اشیا کو پھر سے قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایسی بے شمار اشیا کو کسی حد تک کار آمد کرنے کے لیے کسی اور شکل میں ڈھالتے ہیں۔ مثال کے طور پر پلاسٹک کی بڑی بوتلوں کو کاٹ کر ان پر کلر کر کے ان میں پھول اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔انڈیامیں ایک سائنسدان نے 10%پلاسٹک کو بجری اور کولتار  کے ساتھ مکس کر کے اس سے سڑکیں بھی بنائی ہیں۔ کچھ ممالک میں بوتلیں ٹرین کے ٹکٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
 پرانے کاغذ کا گتہ بنتا ہے اور پلاسٹک بیگز پھر بیگز بنانے یا پلاسٹک کا سامان تیار کرنے کے کام آ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر استعمال شدہ چیز کا کوئی نہ کوئی مصرف ہوتا ہے۔


#کچرا_جمع_کرناایک_منافع_بخش_کام_  

 چند سالوں سے لوگوں نے کچرے کا مصرف تلاش کر لیا ہے، گویا کچرا بھی ایک کار آمد بزنس بن گیا ہے۔۔  
کتنے ہی بچے اور نوجوان لوگوں نے کچرے کے قریب اپنے مسکن بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ کاغذ، پلاسٹک کی اشیا، لوہے کا سامان وغیرہ علیحدہ کر کے تھیلے بھر کر مختلف فیکٹریوں میں بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح سے کچرا فروشی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ہزاروں ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر کچرے کے ڈھیروں سے چنا جاتا ہے اور ان کو علیحدہ کر کے فیکٹریوں تک لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بغیر قرض لیے اور سرمایہ لگائے ایک منافع بخش کاروبار بن  سکتا ہے۔ اگر یہی کام ٹھیکےدار  کو ٹھیکے پر دے دیا جائے تو اس سے کروڑوں روپے حکومت کو میسر آ سکتے ہیں اور شہروں کی صفائی کا نظام بھی  بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔  

#کچراچننےوالوں_کوکیسےکارآمدبنایاجائے

سیکڑوں ٹن کچرے میں سے کارآمد اشیاء نکالنے والے اِن ہزاروں ہنرمندوں اور رضا کاروں کی ایک فوج بنا کر اس کچرے کو صاف کیا جاسکتا ہے اور اس خودکار رضا کار فورس کو جب آپ معقول اور مناسب معاوضہ دیں گے تو یہ آپ کیلئے بہت کارآمد ثابت ہوں گے اور آپ اس فورس کو   کوڑا صاف کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں، یہ لوگ خوشی خوشی اس کام پر تیار بھی ہو جائیں گے کیونکہ وہ سارا دِن یہی کام تو کررہے ہوتے ہیں اور ہم اس طرح کم پیسوں میں اس کوڑے کو صاف اور اِسے کام میں لاسکتے ہیں ۔انکو ہم ٹرین train کر سکتے ہیں کہ وہ پلاسٹک کی  ، لوہے کی  ، اور دیگر کار آمد اشیاء کو الگ الگ چنیں اور جمع کریں یوں آسانی سے ان پلاسٹک بوتلوں  کو recycling سے اور باقی چیزوں کو فروخت کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے ۔ 

#کچرےکابہتراستعمال 
 اگر کچرے کو استعمال میں لایاجائے تو نہ صرف کثیرزرمبادلہ بچایاجاسکتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں کیونکہ 
1)کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بجلی اورکھاد کی پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔ 
2)کچرے کا ایک حصہ پروٹین‘ فرٹیلائزر (کھاد) کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ انرجی کی پیداوار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ 
3)کچرے کا تیسرا حصہ جو قابل استعمال نہیں اسے خاکستر دانوں کے ذریعے تلف کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کیمیکلز اورجراثیم پر مشتمل یہ کچرا انتہائی خطرناک اور آلودگی کا باعث ہوتاہے۔
 دنیا بھر میں 100 میں سے 65فیصد کچرا کارآمد ہوتا ہے جبکہ 35فیصد ضائع کردیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو زیر استعمال لاکر اربوں روپے کی معیشت کا اضافہ ہورہا ہے جس سے بجلی اورکھاد کی پیداوار جاری ہے۔ سالڈ ویسٹ اکانومی آج دنیا بھرمیں اربوں ڈالر تک پھیل چکی ہے۔لیکن افسوس ہمارے ہاں اس قسم کے منصوبے اول تو شروع ہی  نہیں کئے جاتے اگر کر بھی دئیے جائیں تو وہ بد انتظامی، ناتجربہ کاری اور کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔اس مقصد کے لئے ہماری حکومت کو متعلقہ محکموں کے افسران کو جدید ٹریننگ دلوانی ہو گی۔
سالڈ ویسٹ ایک مضمون بن چکا ہے جس پر لوگ باقاعدہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرف حکومت توجہ دے اور کوالیفائیڈ لوگوں کو ان محکموں میں تعینات کرے۔ اسی طرح کچھ بہتری آنے کے امکان ہیں۔
مزید یہ کہ اس امر کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس سلسلے میں آگاہی دی جائے تاکہ وہ تلف کئے جانے والے کوڑے کو باآسانی تلف کر سکیں۔ اس مقصد کے لئیے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیمینارز ، ورکشاپس اورتعلیم اداروں میں  معلوماتی پروگرامز اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ 

ایک تحقیقی سروے کے مطابق ماحولیات کے ماہرین کو تشویش لاحق ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غریب عوام کی ایک بڑی آبادی  کوڑے کرکٹ کے پاس رہتی ہے۔ جن کی وجہ سے انمیں بے شمار مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے پاس رہنے سے انہیں جسمانی عوارض لاحق ہونے کیساتھ ساتھ ذہنی بیماریاں بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں ۔جنمیں ملیریا اور فضائی آلودگی سے متعلقہ مسائل شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسکی وجہ کوڑا کرکٹ کی جگہوں پر زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان ممالک میں نہ ختم ہونیوالی  بیماریوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2010 میں ان ممالک میں اسی لاکھ ساٹھ ہزار افراد کچرے کے قریب رہنے پر مجبور ہیں۔ اسی رپورٹ کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ سیسہ، فاسفیٹ اور لوہا اور دیگر کئی طرح کے کیمیکلز صحت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس علاقے میں سیسے کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے ۔ماہرین کی رائے کیمطابق اگر یہ زہریلا مادہ انسان کے خون میں جذب ہو جائے تو اس سے رحم مادر میں بچوں کو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ 
ترقی یافتہ  ملکوں میں ماحول د وست اصول کے تحت اسکو ٹھکانے لگانے کے بہت اچھے اور سائنٹفیک  طریقےموجود  ہیں۔ اور  اس کچرےسے فائدہ اٹھانے کے لئےبھی انکے پاس بہت سی سہولتیں اورسائنسی طریقہُ کار موجود ہیں۔دنیا بھر میں آجکل ویسٹ مینجمنٹ کےانہی اصولوں  کے تحت کام ہو رہا ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

#کچرےکی_اقسام: 
 ہمارے ملک میں ہر قسم کا ٹھوس کچرا پایا جاتا ہے۔یہ گھریلو ، صنعتی،زرعی یا محض قدرتی  بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے 
1)گھریلو کچرا : باورچی خانے کا کچرا جسمیں ٹوٹی کانچ،پلاسٹک، برتن، گتے کے ڈبے، استعمال شدہ پرانے اخبارات اور چھلکے وغیرہ۔
2)فالتو کچرا: اینٹ، ریت ،فرنیچر اور بیکار اشیاء، کاٹھ کباڑ۔
3)حیاتاتی  و طبی کچرا: مردہ جانور۔ شاخ سے گرنے والے پتے، ڈالیاں، تنے، شاخیں ، گلے سڑے پھل ، چھلکے۔ 
4)زرعی کچرا: فصلوں سے بچنے والا کچرا ، کھیت کے جانوروں کے فضلات ، راکھ اور کیڑا کش ادویہ ۔ 
5) صنعتی کچرا: جیسے کیمیاوی مادہ، پینٹ وغیرہ
6) کوئلے کی کان کا کچرا۔ 
یہ کچرا زیادہ  تر شہروں میں ملتا ہے۔

#کچرےکی_نکاسی_کےلئےاقدامات: 
 شہروں میں  اس کچرے کی نکاسی کے لئے حسب ذیل اقدامات کئے گئے ہیں۔
1) ٹھوس کچرے کا جمع کرنا ۔ شہر کے مختلف مقامات سے ٹرکوں اور ٹریلوں کے ذریعے کچرا جمع کیا جاتا ہے جو ٹرانسفر سٹیشنز پر بھیجا جاتا ہے۔۔ بلڈوزر ان کچروں کو انتقالی مستقروں سے نکال کر نکاسی کی جگہوں کو لے جاتے ہیں جو عمومًا کسی زمین پر یکجا کیا جاتا ہے ۔ نباتاتی، زرعی اور گھریلو کچرا تو زمین میں دفن کیا جا سکتا ہے لیکن پلاسٹک اور باقی کیمیاوی کچرے کو یا تو recycling کے عمل سے گزارا جاتا ہے یا تلف کر دیا جاتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو کنٹینر میں بھر کر تلف کر دیا جاتا ہےاور پھر گہری جگہوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ 

#کچرےاورکچرادانوں_کامناسب_انتظام 

ِیہ بہتر ہو گا  کہ ہر گھر کے سامنے ایک بڑے سائز کا ’’ڈرم‘‘ کوڑا ڈالنے کے لیے رکھ دیا جائے جسے کچرا اٹھانے والا آ کر اپنی ہتھ گاڑی میں ڈال کر لے جائے۔ اس کچرے کو کچرے کے بڑے ڈھیر  میں ڈال دیا جائے جہاں سے گاڑیاں محفوظ طریقے سے وہ کچرا ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے لیے مخصوص جگہوں پر پہنچا دیں۔ متعلقہ لوگ اس کچرے کو ری سائیکل کر کے اسے کار آمد بنا کر پھر نئے سرے سے نئی اشیا بنانے میں لگاسکتے ہیں ۔ 
دوسری بات یہ کہ  سڑکیں صاف کرنے والوں کے پاس سائیکلیں ہوں  جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈبے لگے ہوں،تاکہ سڑک کو صاف کر کے کوڑا ان میں جمع کیا جائے۔ اسی طرح  ترتیب وار مخصوص فاصلوں پر بڑے بڑے ٹرالر کچرا ڈالنے کے لیے رکھ دیے جائیں جہاں گھروں اور سڑکوں سے اکٹھا کیا ہوا کچرا جمع کیا جائے، جو ٹرکوں کے ذریعے مخصوص فیکٹریوں یا ان جگہوں تک لے جایا جائےجہاں انکو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزاراجائے۔ اس طرح کا کام کرنے کے لیے کے MC  یاTMA یا  متعلقہ ادارے اس کام کا ٹھیکہ کسی شہرت یافتہ  کمپنی کودیں، جو ہر شہر کو اپنے  طریقہُ کار  سے صاف رکھیں۔ان  ٹھیکوں  کی وجہ سے کوڑا ری سائیکل ہو کر کار آمد بھی ہو گا ،  جس کو آگے فیکٹریوں کو فروخت کر دیا جائے اور ٹھیکہ دینے سے بھی کروڑوں کا منافع ہو سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے اس کام کے لیےہمیں بہت زیادہ  پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی ہم  کچھ کر  سکتے ہیں  مگر اصل کام بڑے پیمانے کا ہے، جو ہر شہر کی بلدیاتی حکومت انجام دے سکتی ہے۔ اس میں ماہرین کی ضرورت ہو گی اور ایسے ایماندار افسران کی ضرورت ہے جو  دیانتداری اور جانفشانی سے اس کام کو انجام تک پہنچائیں۔

#ری_سائیکلنگ:
پوری دنیا میں Recycling کا رجحان ہے۔ لوگ پرانی اشیا کو پھر سے قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایسی بے شمار اشیا کو کسی حد تک کار آمد کرنے کے لیے کسی اور شکل میں ڈھالتے ہیں۔ مثال کے طور پر پلاسٹک کی بڑی بوتلوں کو کاٹ کر ان پر کلر کر کے ان میں پھول اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔انڈیامیں ایک سائنسدان نے 10%پلاسٹک کو بجری اور کولتار  کے ساتھ مکس کر کے اس سے سڑکیں بھی بنائی ہیں۔ کچھ ممالک میں بوتلیں ٹرین کے ٹکٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
 پرانے کاغذ کا گتہ بنتا ہے اور پلاسٹک بیگز پھر بیگز بنانے یا پلاسٹک کا سامان تیار کرنے کے کام آ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر استعمال شدہ چیز کا کوئی نہ کوئی مصرف ہوتا ہے۔


#کچرا_جمع_کرناایک_منافع_بخش_کام_  

 چند سالوں سے لوگوں نے کچرے کا مصرف تلاش کر لیا ہے، گویا کچرا بھی ایک کار آمد بزنس بن گیا ہے۔۔  
کتنے ہی بچے اور نوجوان لوگوں نے کچرے کے قریب اپنے مسکن بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ کاغذ، پلاسٹک کی اشیا، لوہے کا سامان وغیرہ علیحدہ کر کے تھیلے بھر کر مختلف فیکٹریوں میں بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح سے کچرا فروشی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ہزاروں ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر کچرے کے ڈھیروں سے چنا جاتا ہے اور ان کو علیحدہ کر کے فیکٹریوں تک لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بغیر قرض لیے اور سرمایہ لگائے ایک منافع بخش کاروبار بن  سکتا ہے۔ اگر یہی کام ٹھیکےدار  کو ٹھیکے پر دے دیا جائے تو اس سے کروڑوں روپے حکومت کو میسر آ سکتے ہیں اور شہروں کی صفائی کا نظام بھی  بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔  

#کچراچننےوالوں_کوکیسےکارآمدبنایاجائے

سیکڑوں ٹن کچرے میں سے کارآمد اشیاء نکالنے والے اِن ہزاروں ہنرمندوں اور رضا کاروں کی ایک فوج بنا کر اس کچرے کو صاف کیا جاسکتا ہے اور اس خودکار رضا کار فورس کو جب آپ معقول اور مناسب معاوضہ دیں گے تو یہ آپ کیلئے بہت کارآمد ثابت ہوں گے اور آپ اس فورس کو   کوڑا صاف کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں، یہ لوگ خوشی خوشی اس کام پر تیار بھی ہو جائیں گے کیونکہ وہ سارا دِن یہی کام تو کررہے ہوتے ہیں اور ہم اس طرح کم پیسوں میں اس کوڑے کو صاف اور اِسے کام میں لاسکتے ہیں ۔انکو ہم ٹرین train کر سکتے ہیں کہ وہ پلاسٹک کی  ، لوہے کی  ، اور دیگر کار آمد اشیاء کو الگ الگ چنیں اور جمع کریں یوں آسانی سے ان پلاسٹک بوتلوں  کو recycling سے اور باقی چیزوں کو فروخت کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے ۔ 

#کچرےکابہتراستعمال 
 اگر کچرے کو استعمال میں لایاجائے تو نہ صرف کثیرزرمبادلہ بچایاجاسکتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں کیونکہ 
1)کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بجلی اورکھاد کی پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔ 
2)کچرے کا ایک حصہ پروٹین‘ فرٹیلائزر (کھاد) کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ انرجی کی پیداوار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ 
3)کچرے کا تیسرا حصہ جو قابل استعمال نہیں اسے خاکستر دانوں کے ذریعے تلف کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کیمیکلز اورجراثیم پر مشتمل یہ کچرا انتہائی خطرناک اور آلودگی کا باعث ہوتاہے۔
 دنیا بھر میں 100 میں سے 65فیصد کچرا کارآمد ہوتا ہے جبکہ 35فیصد ضائع کردیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو زیر استعمال لاکر اربوں روپے کی معیشت کا اضافہ ہورہا ہے جس سے بجلی اورکھاد کی پیداوار جاری ہے۔ سالڈ ویسٹ اکانومی آج دنیا بھرمیں اربوں ڈالر تک پھیل چکی ہے۔لیکن افسوس ہمارے ہاں اس قسم کے منصوبے اول تو شروع ہی  نہیں کئے جاتے اگر کر بھی دئیے جائیں تو وہ بد انتظامی، ناتجربہ کاری اور کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔اس مقصد کے لئے ہماری حکومت کو متعلقہ محکموں کے افسران کو جدید ٹریننگ دلوانی ہو گی۔
سالڈ ویسٹ ایک مضمون بن چکا ہے جس پر لوگ باقاعدہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرف حکومت توجہ دے اور کوالیفائیڈ لوگوں کو ان محکموں میں تعینات کرے۔ اسی طرح کچھ بہتری آنے کے امکان ہیں۔
مزید یہ کہ اس امر کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس سلسلے میں آگاہی دی جائے تاکہ وہ تلف کئے جانے والے کوڑے کو باآسانی تلف کر سکیں۔ اس مقصد کے لئیے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیمینارز ، ورکشاپس اورتعلیم اداروں میں  معلوماتی پروگرامز اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں

USTAD AIK MUSLEH (TEACHER A REFORMER)

علم یا استادفقط ایک پیشہ نہیں ہے  بلکہ ایک مصلح، ایک ناصح، ایک رضاکار ، ایک مکمل درسگاہ اور تربیت گاہ کا نام ہے۔ یہ پیغمبری پیشہ ہے۔ یہ رسالت کے منصب جیسا ہے۔ یہ ایک عام انسان کو خاص بنانے کے ہنر سے آشنا شخص کا نام ہے۔بڑے بڑے جاہل ، معلم /استاد کی مہربانی سے انسانیت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوئے ۔ ایک عام انسان کو اندھیرے سے روشنی تک کا سفر استاد /معلم ہی کراتا ہے۔اچھے برے کی تمیز، صحیح غلط میں تفریق ، بڑے چھوٹے کا فرق ، سچ جھوٹ میں امتیاز ، یہ سب اسی کے فرائض منصبی ہیں۔ وہ ناصرف علم کی روشنی سے منور کرتا ہے بلکہ اخلاقیات کےدرس سے مستفید بھی کرتا ہے۔ ہمارے دین میں اسکو  روحانی باپ سے تشبہیہ دی گئی ہے۔ اسکے لئے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں۔ دنیا میں بڑے عظیم استاد گزرے ہیں جنکے شاگرد عظمت میں ان سے بھی بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔یہ ان ہی کی تربیت کا فیضان تھا۔سقراط جیسے استاد کے ہاں افلاطون جیسا شاگرد، ارسطو کا سکندر اعظم جیسا شاگرد ، شعبہ بن حجاج کاہارون الرشید جیسا شاگرد، مولانا شبلی نعمانی کے سید سلیمان ندوی جیسے شاگرد ، میر حسن کے علامہ اقبال جیسے شاگرد۔ ان اساتذہ کے کیاکہنے اور ان شاگردوں کے کیا کہنے،  ایسے اساتذہ ہوں تو شاگرد بھی انکے جیسے یا ان سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں۔ایسی اور بھی بے تحاشہ مثالیں موجود ہیں لیکن تمام کا ذکر یہاں ممکن نہیں ۔ 
ان تمام نامور شخصیات  کے پیچھے انکے اساتذہ کا اور انکی تربیت کا خاص ہاتھ رہا۔ تعلیم تو کوئی بھی دے سکتا ہے۔ اصل بات ہے تربیت۔ 
ہمارا المیہ اب یہ ہو گیا ہے کہ ہمارے پاس بہت زیادہ کوالیفائیڈ ، پڑھے لکھے ، ڈگری یافتہ اساتذہ تو بے تحاشہ ہیں جو تعلیم تو دیتےہیں  لیکن تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں آپ کو بڑے بڑے نام ملیں گے ، طالبعلم فر فر انگریزی بولتے نظر آئینگے ، دنیا جہاں کا علم انکے پاس ہو گا لیکن تربیت ان میں مفقود ہوتی ہے۔من حیث القوم یہ ہمارا المیہ بھی ہے اور بہت بڑا مسئلہ بھی۔ ہم اپنے والدین اور دیگر بزرگوں سے سنتے آئے ہیں جنہوں نے ٹاٹ سکولوں اور عام  درس گاہوں میں تعلیم حاصل  کی ،  لیکن انکی تربیت کا معیار آج کے بچے کی تربیت سے بہت آگے کا تھا۔ اس وقت کے والدین عموماً  پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے لیکن اسوقت کے اساتذہ حکمت کا خزانہ تھےگو کہ بہت تعلیم یافتہ وہ بھی نہیں ہوتے تھے ۔
یہ معیار کا فرق اور تضاد ہے۔ آج کے بچے کو انگریزی تعلیم ، ٹیکنالوجی، سائنسی تعلیم ، نئے سے نئے علوم و فنون تو سکھائے جا رہے ہیں لیکن اب انکی تربیت پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اب سرسید ، حالی اور اقبال جیسےجید استاد نہیں جو اپنے علم سے تو اپنے شاگردوں کو روشنی دیتے ہی تھے اپنی تربیت سے بھی انکی زندگیاں منور کرتے تھے۔دراصل آج کے والدین کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں ۔ پہلے زمانے میں بغداد و قاہرہ ، قسطنطنیہ واستنبول  ، ثمر قند و بخارا تک استادکا چرچا ہوتا تھا۔ بادشاہ و امراء اپنے بچوں کی تربیت کے لئے ان اساتذہ  کو دور درازعلاقوں سے عزت و احترام کیساتھ اپنے محلوں اور قصور میں بلاتے تھے تاکہ وہ انکے بچوں کی بہترین تربیت کر سکیں لیکن افسوس آج کے والدین کی اولین ترجیح انگریزی میڈیم سکول تو ہے لیکن بچے کی تربیت نہیں۔گرومنگ کے نام پر اسے ایسے اداروں میں داخل کیا جاتا ہے جسمیں اسے کانٹے چھری کیساتھ کھانا کھانا ، انگریزی زبان کا عام استعمال، اور مغربی سوسائٹی میں move کرنے کے اصول تو سکھائے جاتے ہیں لیکن اخلاقیات نامی کوئی چیز اسکی تربیت کا حصہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ اسکا استاد ان باتوں کو قابل اعتناء نہیں جانتا۔ اگر بالفرض محال کوئی استاد بچوں کو کوئی نصیحت کرے تو گھروں سے شکایت آ جاتی ہے۔ جبکہ اگر ہم پچھلے ادوار کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ شاگرد کو مکمل طور پر اساتذہ کے حوالے کر دیا جاتا تھا چاہے وہ ان سے کیسا ہی سلوک کیوں نہ کرتے۔ بادشاہوں کے بچوں سے جوتے سیدھے کرائے جاتے تھے کہ انکی تربیت کے لئے یہ ضروری تھا۔۔ وقت کے بہت بڑے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے مامون الرشید اور امین الرشید تھے دونوں ایک بار استاد امام نسائی کی مجلس سے اٹھے تو دنوں استاد کو جوتے پکڑانے کیلئے لپکے ۔دونوں میں اس بات پر تکرار بھی ہو گئی ۔استاد کی عزت کرنے والے لائق بچوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں ایک ایک جوتا اپنے استاد کو پکڑائیں گے۔ جب خلیفہ وقت کو معلوم ہوا تو اس نے امام نسائی کو بلایا اور نہایت عزت و احترام سے پوچھا کہ آپ بتائیے اس مملکت میں زیادہ عزت والا کون ہے ۔امام کسائی نے فرمایا کہ بے شک زیادہ عزت کے حقدار خلیفہ وقت ہیں ۔جواب میں ہارون الرشید نے کہا سب سے زیادہ عزت والا تو وہ ہے جس کے جوتے اٹھانے کیلئے خلیفہ کے بیٹوں میں جھگڑا ہونے لگے ۔خلیفہ ہارون ارلشید نے کہا امام صاحب بے شک آپ ہی زیادہ عزت کے حق دار ہیں ۔ اور اگر آپ نے میرے بیٹوں کو اس کام سے روکا تو میں آپ سے ناراض ہو جاوں گا ۔استاد کی عزت کرنے سے میرے بچوں کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے ۔ یہ ہے تربیت کا ایک انداز ۔ 

آج کے ماں باپ کو ایسی کوئی بات پتہ چل جائے تو وہ فوراً اعتراض کرنے نکل پڑتے ہیں۔ کہ استاد ہمارے بچے کو گمراہ کر رہا ہے۔ اسمیں قصور اساتذہ کا بھی نہیں ہے بلکہ اس نظام کا ہے جو اخلاقیات سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ اس معاشرے میں تربیت کو ثانوی حیثیت دی جارہی ہے ۔ والدین کی اول ترجیح مغربی تعلیم ہے۔نہ وہ خود بچوں کو وقت دیتے ہیں اور نہ ہی اسکا کوئی اہتمام کرتے ہیں کہ انکے بچوں کو بہتر تربیت گاہ میسر ہو۔ اس ضمن میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔ 
اب ایک دوسرے تناظر میں بات کرونگی کہ استاد کو ہمارے معاشرے میں وہ عزت نہیں دی جاتی جو دوسری سوسائٹیز میں ہے۔ ہم جو مغرب کی تقلید میں اندھے بہرے ہو کر بھاگے چلے جارہے ہیں اس بات میں انکی پیروی نہیں کرینگے کہ انکے ہاں استاد کی کتنی عزت ہے، کتنا احترام ہے۔ انکو انکی خدمات کا بہترین اعزازیہ دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں کینیڈا میں ڈاکٹروں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ انکی تنخواہیں اساتذہ کی نسبت کیوں بڑھائی گئی ہیں یہ ہے مہذب معاشرے کی سوچ، جبکہ ہمارے ہاں صرف شک کی بنیاد پر استادوں کو ، پروفیسروں اوربزرگ  وائس چانسلرز کو ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں۔ یہ ہے رویوں میں کھلم کھلا تضاد ۔ ہم اسوقت تک مہذب قوم نہیں بن سکتے جبتک ہماری اخلاقی  تربیت نہیں ہو گی، ہمارے ہاں استاد کی عزت نہیں ہو گی۔ اسے بلند مقام نہیں دیا جائیگا۔  ہمیں ان تمام باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔