Monday, September 30, 2019

"کتب بینی ناپیدہوتی جا رہی ہے"


کتاب کی اہمیت ہماری زندگیوں میں بہت زیادہ ہے۔ یہ کتاب ہی ہے جو ہمیں بھلے برے میں تفریق کرنا سکھاتی ہے۔اسی نے ہمیں شعور بخشا۔ آگہی دی۔ یہ تو بات ہوئی اس کتاب کی جو ہم نصاب میں پڑھتے ہیں۔ جو ہمیں ہمارے مضمون کے مطابق آگہی اور علم دیتی ہے۔ لیکن میرا آج کا موضوع نصابی کتب نہیں ہیں.  بلکہ میں بات کرونگی غیر نصابی کتاب کی جسکا ہماری تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی وہ کتابیں جو ہم نصاب سے ہٹ کر پڑھتے ہیں۔
کتاب پڑھنے سے انسان کو علم و آگہی تو ملتی ہی ہے بلکہ ایک سکون اور طمانیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے کتاب پڑھکر جو سکون ملتا ہے وہ الفاظ میں بیان کرنے لائق نہیں۔ کتاب انسانی زندگی پر مختلف اور مثبت اثرات ڈالتی ہے۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف سوچتا ہے اور اسکی نفسیات  بھی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کتاب کا اثر بھی ہر شخص پر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اگر کسی ایک کتاب کو پڑھکر ایک تاثر لیتے ہیں تو کچھ لوگ بلکل اسکے متضاد سوچتے ہیں.  ۔ لیکن کتاب کا کام دراصل ہر شخص کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ جیسے ہم کسی بڑے فلسفی کی کتاب پڑھکر تھوڑا مختلف انداز میں سوچنے لگتے ہیں۔زندگی کو ایک دوسرے رخ سے دیکھتے ہیں ۔اسی سطرح دین و مذہب کی کتاب سے ہم نصیحت لیتے ہیں۔اپنی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔  شاعری کی کتب سے ہم محظوظ ہوتے ہیں۔بعض اوقات یوں محسوس کرتے ہیں کہ شاعر نے ہمارے دل کی بات کہہ دی۔  تاریخ کی کتاب ہمیں ماضی کی سیر کراتی ہے ، اس سے ہمیں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کا علم ہوتا ہے۔ ادب کی کتاب سے ہم ادبی فن پاروں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔انمیں زندکی کے تمام موضوعات پر لکھا جا چکا ہے۔ کسی ملک کا ادب اس ملک کی صحیح نمائندگی کرتا ہے۔ مختلف ممالک کا ادب پڑھنے سے ہم انکی تہذیب و تمدن سے واقف ہوتے ہیں۔  سانئس اور ٹیکنالوجی کی کتابوں سے ہم نئے دور کے بارے میں صحیح طور پر سمجھنے اور جاننے کے قابل ہوتے ہیں۔سائنسی ایجادات کے مثبت اور منفی عوامل کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔   فکشن پڑھنے سے ہمیں لوگوں کے ذہنی و فکری نکتہ نظر سے واقفیت ملتی ہے۔ وہ کیا اور کیسی سوچ رکھتے ہیں اور  اس سے ہمیں زمانے کیساتھ چلنے کی تحریک ملتی ہے۔ کیونکہ فکشن حقائق کی ہی ایک ترمیم شدہ تصویر ہوتی ہے۔ نفسیات پہ لکھی گئی کتاب پڑھنے سے ہمیں اپنی اور دوسروں کی نفسیات کو بہتر طور پر جاننے کاموقع ملتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اگلے   شخص کی عادت و خصلت کے مطابق اس سے رویہ روا رکھیں آپ بیتیاں ، سفر نامے، سوانح عمریاں یہ ہمارے علم میں اضافے کیساتھ ساتھ دلچسپی کا باعث بھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔  جغرافیہ، جنگی کتب ، مختلف مہارتوں پر لکھی گئی کتب ،سیاست پر،  کھیلوں پر ، پودوں پر سبزیوں پھلوں ، فصلوں کی نشو نما پر ، طب پر ، فنون لطیفہ پر غرض ہر طرح کی کتب موجود ہیں.  جنکو پڑھکر ان سے فیض اٹھایا جا سکتا ہے ۔ ان سے متعلقہ مہارتوں یا متعلقہ مضامین کے بارے میں مفصل آگاہی ملتی ہے۔
کتاب سے ہم صرف آگہی ہی نہیں حاصل کرتے بلکہ اچھی کتب پڑھنے سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ تسکین قلب حاصل ہوتا ہے۔ کتاب پڑھنے کے عادی لوگ جبتک مطالعہ نہ کریں انکو چین نہیں ملتا۔ انکو کتاب پڑھنے سے سرور حاصل ہوتا ہے۔ وہ اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال و عادات میں بھی بہتری لاتے ہیں ۔ ایک اچھی کتاب انسان میں مذید اچھے اوصاف پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اسکی عادات و اطوار میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔اسکی سوچوں اور خیالات کو وسعت ملتی ہے۔  اسکا انداز ایک عام آدمی سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اچھی کتاب ایک انسان کی کردارسازی میں اہم ترین رول ادا کرتی ہے۔

بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں اس عادت کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے۔کتب بینی بلکل ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ میں نے جو کتابوں کے پڑھنے پر اتنی تفصیل سے بات کی ہے اسکا مقصد ہی یہ تھا کہ یہ بتایا جائے کہ کتاب سے ہمیں کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یا ہم نےکیا فوائد حاصل کئے۔ اگر میں اپنے دور کی بات کروں تو ہمارے زمانے میں غیر نصابی کتاب پڑھنے کا بڑا رواج تھا۔ بچپن میں ہم تعلیم و تربیت، نونہال، ہمدردجیسے ماہنامے اور عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں پڑھتے تھے۔ پھر اصلاحی کہانیوں کا دور آیا۔ تھوڑے اور بڑے ہوئے تو جاسوسی کہانیاں پڑھنے کا دور تھا۔ عمران سیریز، انسپکٹر جمشید سیریز بڑے مشہور جاسوسی کردار تھے۔ ابن صفی اور اشتیاق احمد کا بڑا کردار رہا۔ اسکے بعد کی عمر میں رضیہ بٹ کے رومانی ناول پڑھنے کا دور آتاہے۔ ۔ لیکن ادبی گھرانہ ہونے کی وجہ سے بہت چھوٹی عمر سے ہی قراةالعین حیدر، عصمت چغتائی ، منٹو ، صدیق سالک، شفیق الرحمان ، انتظار حسین، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ جیسے بڑے ادباء کو  پڑھنے کا موقع ملا۔  اس دور کے  بیشر لوگ مطالعے کے عادی تھے۔ اتنے بڑے ادباء کو ہر کسی نے تو نہیں پڑھا ہوتا لیکن بہر حال ایک مطالعے کی عادت لوگوں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔اسوقت مختلف ادبی، اصلاحی و سیاسی  ڈائجسٹس بھی ہوتے تھے جنمیں اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ خاص اہمیت کے حامل تھے۔ ہفت روزہ اخبار جہاں  بھی ایک اچھا اضافہ تھا۔ خواتین کے کچھ ڈائجسٹس بہت مقبول تھے۔ ہم سے کچھ پہلے "بتول" اور "نقوش" جیسےاصلاحی ماہنامے بہت مشہور تھے۔جو خواتین اور بچیوں کی اخلاقی  تربیت و نشونما کے لئے بڑی بہترین تحاریر کا انتخاب کرتے تھے۔ یہ کتب ، ڈائجسٹس معاشرے میں لوگوں کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ میں یہ تو نہیں کہونگی کہ یہ ختم ہو گئے لیکن نایاب ضرور ہوگئے ہیں۔
افسوس مجھے آج کے دور کے لوگوں پر ہوتا ہے کہ کتاب کا استعمال انتہائ کم ہو کر رہ گیا ہے ۔ کتاب کی جگہ نئی ٹیکنالوجی نے، نئی gadgets  نے لے لی ہے ۔ آج کے بچے کے ہاتھ میں جدید ٹیکنالوجی ہے جسکی وجہ سے وہ کتاب اور کتب بینی سے دور ہو گیا ہے۔ بہت سے لوگ کتاب کو کمپیوٹر پہ، ٹیب پہ، موبائل پہ ڈاوُن لوڈ کر لیتے ہیں یاآجکل کتاب(ebook) کو سننے کا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ لیکن جو مزا کتاب کو ہاتھ میں لیکر پڑھنے میں آتا ہے وہ اس ٹیکنالوجی میں کہاں۔ میں نے کوشش کی تھی کہ میں انٹر نیٹ سے کتاب پڑھ سکوں لیکن مجھے ناکامی ہوئی کیونکہ کتاب سے محبت کرنیوالا کسی اور طریقے یا ذریعے سے اس سے حِظ نہیں اٹھا سکتا۔،،لیکن بہرحال کسی بھی طریقے سے پڑھیں کتاب لیکن پڑھیں ضرور۔۔
ہمیں کتب بینی کو فروغ دینے کے لیئے کچھ اقدامات کرنےکی ضرورت ہے۔
ایک تویہ  کہ والدین چھوٹی عمر سے بچے کو کتاب کا تحفہ دینے کی عادت ڈالیں۔
 اساتذہ بچوں کے دلوں میں کتاب کی محبت پیدا کریں ۔انکو کتاب سے پڑھ کر کہانی سنائیں۔
 حکومت کتابوں کو کم قیمت پر فروخت کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔ جیسے نیشنل فاوُنڈیشن کا اس میں بڑا اہم کردار ہے۔
 لائیبریریز کے قیام پر اور ریڈرز کوانکی طرف  متوجہ کرنے کے لئے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے سٹوڈنٹ لائیبریری کارڈز ہوں جو انکے لئے باآسانی دستیاب ہوں۔
 سکولوں اور کالجوں میں ایک پیریڈ لائیبریری کا ضرور رکھا جائے جہاں بچے عملی طور پر جا کے کتب کا مطالعہ کریں۔
 حکومت  قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ایسے پروگرامز منعقد کرےجس میں طالبعلموں کو ریڈنگ کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انکو رعایتی قیمتوں پر مفید کتابیں مہیا ہوں۔
 لکھاری ، ادیب، شاعر خود بھی ان پروگراموں کا حصہ بنیں۔ ایسے پروگرام ہمیں اسلام آباد کی یا چند بڑے شہروں کی حد تک تو نظر آتے ہیں لیکن چھوٹے شہروں میں ایسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کتاب کی محبت پیدا کرنے کے لئے لائیبریریز کے تحت ہر ضلع میں تعلیمی و تدریسی پروگرام منعقد ہوں۔
لائیبریریاں تو موجود ہیں لیکن پڑھنے والے بہت کم ہیں ۔ لہذا لائیبریریز کے تحت ایسے پروگرام منعقد ہوں جو سکولوں میں جا کر بچوں کو مطالعے کی عادت کیطرف راغب کریں ۔
چھوٹے بچوں کے لیئے کتاب میں دلچسپی کے عناصر ہوں تاکہ وہ شوق سے اسکو دیکھیں ، پڑھیں اور اس سے سیکھنے کی عادت ڈالیں۔
جن لوگوں کا ذکر پہلے کیا جیسےکہ والدین ، اساتذہ ، حکومت کے مختلف ادارے ، یہ سب اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اوراسی طریقے سے ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کیطرف واپس لا سکتے ہیں۔

2 comments:

  1. A very useful post. Ironically the reading culture in our society is fastly dwindling due to e-media. This is extremely detrimental specifically for our youths.
    Drastic corrective and remedial measures are required to restore this character building culture. The experts on the subject are the proper people to think and suggest, However as a layman I would propose that there must be a system on the Govt. level to recognize and award the book readers on National level.

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thank you very much for your suggestions sirrrr

      Delete