Saturday, September 14, 2019

خاموش زہر قاتل



پلاسٹک جدید کیمیائی صنعت میں بہت ہی سستی اور عام شے ہےجو ہماری زندگی میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ پلاسٹک کو آج ہمارے یہاں اس قدر اہمیت حاصل ہوچکی ہے
کہ اس کے بغیر اب روزمرہ کی زندگی ہمیں  ادھوری دکھائی دیتی ہے۔ ہم روزانہ پلاسٹک
سے بنائی گئی کوئی نہ کوئی چیز ضرور
استعمال کرتے ہیں، جبکہ پلاسٹک کا سب سے زیادہ استعمال ہم پولیتھین لفافوں یا بیگز کی صورت میں کرتے ہیں۔ یہ بیگ یا لفافے وزن میں انتہائی ہلکے اور سستے ہوتے ہیں اور ہم انہیں کسی بھی طرح سے استعمال کرسکتے ہیں۔ ان
ہی فائدوں کو دیکھ کر ہم ان کا بکثرت استعمال کرتے ہیں،لیکن اس کے مضر اثرات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان پلاسٹک بیگز کو استعمال کےبعد پھینک دیا جاتا ہے، لیکن یہ اپنی کیمیاوی خصوصیات کے باعث مٹی، پانی یا ہوا میں گلنے سڑنے کے بجائے ہمارے ماحول کے لئے مضر اور ضرر رساں بن جاتے ہیں۔
#شاپنگ_بیگزکی_تاریخ:
پلاسٹک کے تھیلے یا شاپنگ بیگز یا عرف عام میں شاپر کہلانے والے اس ماحول کو برباد
کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ہماری
اس کائنات کے لئے خاموش زہر قاتل کا سا
کام انجام دے رہے ہیں۔ 20ویں صدی میں
ایجاد ہونیوالے پلاسٹک سے بعد میں کیا کیا تباہی ہوگی یہ اسوقت کے لوگوں نے یقینا"
نہیں سوچا تھا ۔ پلاسٹک اپنی ساخت اور
بناوٹ میں لچکدار، نرم اور مضبوط ہر شکل
و صورت میں تیار کیا جاسکتا ہے۔ اسلئیےاس سے ہرقسم کےاستعمال کی چیزیں بننی شروع ہوئیں۔ باورچی خانے کے برتن و اشیاء سے لیکر کھلونوں، جوتوں، کمپیوٹر ، ٹی وی، مختلف مشینری اور گاڑیوں تک میں اسکا استعمال ہوا۔ اسکے علاوہ طبی آلات کو دیکھیں تو انمیں انجکشنز اور ٹیوبز وغیرہ پلاسٹک سے ہی بنی ہوتی ہیں۔ پہلی بار شاپنگ بیگ یا تھیلے کا استعمال 1957 میں سینڈوچ بیگ سے ہوا۔ جسکے بعد ان تھیلوں کے استعمال کا یہ سلسلہ چل نکلا۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پلاسٹک میں بیکری کا سامان زیادہ دیر تک تازہ رہتا تھا۔ لہذا 1969 میں امریکہ میں ڈبل روٹی اور اشیائے خورد ونوش کو انہی تھیلوں میں فروخت کیا جانے لگا۔ 1977 تک انکا استعمال بڑھکر جنرل سٹورز اور سبزی فروشوں تک
آچکا تھا۔ 1996 تک ان تھیلوں کا استعمال
دنیا بھر میں 80% تک بڑھ چکا تھا۔ یہ
شاپنگ بیگز دکانداروں کو نسبتاً سستے پڑتے تھے ۔لہذا دکاندار بھی انکا بے دریغ استعمال
کرنے لگے اور گاہک بھی۔  ایک اندازے کیمطابق پوری دنیا میں پلاسٹک کے تقریباًایک ٹریلین شاپنگ بیگزیا اس سے کچھ زائد  استعمال
ہونے لگے۔ اس حساب سے ہر شخص  ایک
سال میں اوسطاً150 تھیلے استعمال کرتا ہے۔
اور ہر سال انکے استعمال میں تقریباً 15% اضافہ ہو رہا ہے۔صرف پاکستان میں پلاسٹک
بیگ بنانے والے کارخانوں کی تعداد آٹھ سے
دس ہزار کے درمیان ہے۔اور ان میں سے ایک کارخانہ اوسطاً 250 سے 500 کلوگرام
پلاسٹک بیگ بنا رہا ہے۔ ایک سرکاری جائزہ رپورٹ کیمطابق ملک میں استعمال ہونیوالے
ان تھیلوں کی تعداد 55 ارب تک پہنچ چکی
ہے۔ جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ 
#پلاسٹک_کےشاپنگ_بیگزکےنقصانات:
پلاسٹک کی مصنوعات کاسب سے بڑا نقصان
یہ ہے کہ وہ دھوپ اور پانی سے رفتہ رفتہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں  تو  تبدیل  ہو
جاتی ہیں لیکن کئی صدیوں تک ختم (dissolve) نہیں ہوتیں ۔ انکا بیشتر حصہ
ندی نالوں، دریاوُں کے ذریعے ہوتا ہوا سمندروں میں جاتا ہے جس میں سے 70 %سمندروں کی تہہ میں چلا جاتا ہے اور آبی آلودگی کا باعث
بنتا ہے اور30% سطح پہ تیرتا رہتا ہے۔ ایک تجزئےکیمطابق سمندروں سے نکالا جانیوالا 90%کچرا پلاسٹک اور ان بیگز پر مشتمل
ہوتا ہے۔ 2006 کی ایک ریسرچ کیمطابق
سمندر کے کئی حصوں میں ایک مربع
میل کے رقبے کے اندر پلاسٹک کے تقریبا" 46000 ٹکڑے موجود ہوتے ہیں جو سمندروں میں زہریلا مواد پھیلا رہے ہیں.اور آبی
جانداروں کی موت کا باعث بن رہے ہیں۔
شہروں میں پلاسٹک کے تھیلے کوڑے کے
ڈھیروں سے اڑ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ جو ٹریفک میں بھی تعطل پیدا کرتے ہیں۔اسکے
علاوہ گٹروں اور نالیوں میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔یہ پانی جب سڑکوں پر پھیلتا ہے تو انمیں شگاف اور دراڑیں پیدا کر دیتا ہے۔
جس سے سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔  نکاسی آب  کے نظام میں رکاوٹ کے نتائج
کسی بھی ملک یا شہر کے لئے انتہائی
خطرناک ثابت ہوتے ہیں.  اس سے اردگرد
کا ماحول بھی آلودہ ہو جاتا ہے۔ اور یہی گندا پانی پینے کے صاف پانی میں بھی شامل ہو کر گیسٹرو، ہیضہ جیسی خطرناک بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ یہی پانی جوہڑوں کی شکل اختیار
کر کے مچھروں کی آماجگاہ بن جاتا ہےجو ڈینگی، ملیریااور پیٹ کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ پلاسٹک کے ذرات اور زہریلے
عناصر زمین میں جذب ہو کر چشموں اور کنووُں کے پانی کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق 80 % بچوں  اور 93 % بڑوں کے
جسموں میں پلاسٹک سے ملے جلےاجزا پائے
جاتے ہیں۔جو ہارمونز بنانے والے غدودوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ مختلف قسم کے کینسرز بھی انہی شاپنگ بیگز اور پلاسٹک کی مصنوعات سے پھیل رہے ہیں۔خاص طور پر پلاسٹک کی بوتلیں اور ڈسپوزیبل کپس جن
میں چائے پی جاتی ہے ۔انتہائی نقصان دہ ہیں۔ سانس کی بیماریاں ، کالا یرقان اور موذی بیماریاں بھی اسی سے  لاحق ہوتی ہیں۔
پلاسٹک کی کوڑے میں موجودگی اس کو زمین میں جذب ہونے سے رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں کوڑے کی
بھی کیٹیگریز ہیں۔ پلاسٹک کو الگ، نباتاتی کوڑے کو الگ اور کاغذ کو الگ الگ حصوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ پلاسٹک کو ضائع کیا جائے یا ری سائکلنگ کی جائے اور باقی نباتاتی کوڑے
کو کھاد یا کسی اور مفید مقصد کے لئے
استعمال کیا جائے۔پلاسٹک اور پلاسٹک بیگز کا استعمال زمین کے نظام کے لئے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
اسکے استعمال کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں پلاسٹک پرپابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اور اسکے متبادل متعارف کرائے جارہے ہیں ۔  1997 میں وزیراعظم پاکستان  نےملک میں  تمام رنگ کے تھیلوں پر پابندی عائد کر
دی تھی۔2013 میں بھی حکومت نے انپر
پابندی لگائی اسی طرح  مختلف صوبائی حکومتوں نے بھی مختلف ادوار میں ان
تھیلوں کے استعمال پر پابندیاں  عائد کی تھیں لیکن افسوس کے انپر عملدرآمد نہیں کیا جاتا
رہا۔
پلاسٹک کے تھیلوں کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ جبتک ان کو مکمل طور پر ban نہیں کیا
جائیگا اسوقت تک ہمیں اس بھیانک حقیقت کا سامنا رہے گا کہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ پلاسٹک اور پولیتھین بیگز ہیں۔ ان بیگز کے متبادل کے طور پر ہم پٹ سن اور کاغذ کے بیگز کو فروغ دے سکتے ہیں۔پلاسٹک کے ان تھیلوں سے قبل پٹ سن کی بوریاں یا موٹے
کاغذ کے لفافے استعمال ہوا کرتے تھے ۔ ہمارے بچپن میں سبزی اور پھلوں کے لئے ٹوکرے یا پٙچھے استعمال ہوا کرتے تھے ۔ ہمیں چاہئیے کہ
ہم انہی چیزوں کا استعمال دوبارہ کریں کیونکہ یہ ماحول کے لئے کسی بھی قسم کے نقصان کا باعث نہیں بنتے جبکہ پلاسٹک کو نہ جلایا جا سکتا ہے ، نہ انکو dissolveکیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسکا کوئی اور مفید استعمال ہے۔ یہ ہر صورت میں ناقابل تلف ہے۔ ہمارے ماحول کے
لئے زہر قاتل کا کام دے رہا ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے اسکو ختم کرنے اور اسکے متبادل کے طور
پر کارآمد بیگز کو متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب  عام آدمی کو اسکے مضمر اثرات کے بارے میں علم ہوگا۔ ہم عوام کی آگاہی کے لئے مختلف سیمینارز ، کانفرنسز اور پروگرامز کا اہتمام گورنمنٹ کی سطح پر بھی اور سول سوسائٹیز اور NGOs کیساتھ ملکر کر سکتے ہیں۔ ان آگاہی پروگرامز کا انتظام لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں، یونیورسٹی، کالجز ،سکولوں کے طلبا،سوشل ورکرز، ماحولیات کے لئے کام کرنیوالے سارے اداروں کے لوگوں اور ماحولیات کے لئے کام کرنیوالی NGOs کے لئے ہونا چاہئیے ۔جہاں سے آگاہی عام آدمی تک پہنچے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ  سوشل میڈیا کا بھی مثبت استعمال لوگوں کو آگاہی دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسکے علاوہ انتظامیہ، لوکل گورنمنٹ ، TMA, WASCCAکے ادارےاسکی روک تھام اور اسکی تشہیر کے لئے اہم رول ادا کر سکتے ہیں جب لوگ آگاہ ہونگے۔
موجودہ
  تو اس زہر قاتل کے استعمال کو ترک کر دینگے۔ اور اسکےبہتر متبادل تلاش کرینگے۔ آیئے ہم سب اس مہلک شے سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلائیں ۔ اچھی بات کو پھیلانا بھی صدقہُ جاریہ ہے۔













No comments:

Post a Comment