Thursday, January 7, 2021

بلا عنوان

ڈیلیٹ کا لفظ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔۔یہ ہماری ورچوئیل زندگی میں بہت استعمال ہوتا ہے جسکا مطلب ہے حذف کرنا ۔۔۔خارج کرنایا نکالنا۔۔۔ہم بڑی آسانی سے اپنی ناپسندیدہ چیزوں کو" ڈیلیٹ" کاآپشن استعمال کرتے ہوئے اپنے کمپیوٹر،لیپ ٹاپ یا موبائل سے خارج کر دیتے ہیں۔۔۔ اسی طرح اپنی زندگی کو مثبت اور مفیدبنانے کے لئے، ناپسندیدہ افراد کو بھی اپنی زندگی سے خارج یا ڈیلیٹ کرتےجائیے۔ اسکا طریقہ بہت آسان ہے وہ ایسے کہ ایک شخص جوہمیشہ آپکے لئے پریشانی اور ذہنی تناوُ کاباعث بنتا ہو اسے اپنی زندگی سے ڈیلیٹ کیجئے۔۔ ایسے لوگوں کے ہر وقت کے منفی رویوں کو برداشت کرنے سے بہتر ہے اسکواپنی زندگی سے خارج کیجئے ۔۔۔ بظاہر یہ بہت مشکل امر ہے عملی طور پہ اتنا آسان نہیں۔۔۔ لیکن اسکاطریقہُ کار یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے منفی رویوں پر ردعمل دیناچھوڑ دیجئے۔۔۔انکی بات کو ہلکا لیجئے یعنی پروا نہ کیجئے۔۔ اپنے ذہن میں انکے نام پر کراس لگا دیجئے تو پھر انکی باتیں آپکو زیادہ پریشان نہیں کرینگی۔۔آپکی دل آزاری کاباعث نہیں بنیں گی۔۔ حقیقی زندگی میں کچھ ایسےقریبی رشتے ہوتے ہیں جنہیں چھوڑا نہیں جا سکتا نہ ہی زندگی سے نکالا جا سکتا ہے لہذا انہیں برداشت کرنے اور خاموش رہنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔۔لیکن انکے لئے بھی یہی کلیہ استعمال کیجئے کہ انکی بات کو دل پہ نہ لیں۔۔۔ اسکے لئے اپنی برداشت اور تحمل کو بڑھانا پڑتا ہےیا خاموشی کو اختیار کرنا ہڑتا ہے کہ اسکے بغیر گزارانہیں۔۔جاننے والوں یا ایسے دوستوں کو جو ذہنی تناوُ کا باعث ہوں اور انکا آپکی زندگی میں رہنا ناگزیرنہ ہو تو ان سے تعلق کم کرتے جائیں۔۔۔کیونکہ آپکا ذہنی سکون ہر چیز پر مقدم ہے۔۔۔ لیکن اپنی ورچوئیل زندگی میں جو لوگ یا دوست آپ کے لئے پریشانی کا باعث بن رہےہوں انہیں ڈیلیٹ نہ بھی کریں تو "ان فالو" اور "ان فرینڈ" کی آپشن تو موجودہی ہے۔۔خوامخوا بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے مول لینے کی بجائے ان آپشنزکا استعمال کریں یقین جانیں زندگی پرسکون ہو جائیگی۔۔۔ اب آپ سوچیں گے کہ ایک طرف تو میں نے تحمل اور برداشت کا درس دیا دوسری طرف میں نے بلکل متضاد بات کی تو عرض یہ ہے کہ عملی زندگی میں تورشتے ناطے ختم نہیں کئے جاسکتے انکے لئے وسعت پیدا کرنے کے طریقے اختیار کئے جا سکتےہیں جبکہ ورچوئیل یا سوشل میڈیا کی زندگی میں آپکے لئے قوانین مختلف ہیں کیونکہ یہ عارضی تعلق ہیں۔۔۔ بعض اوقات مخلص بھی نہیں ہوتے ۔۔۔ آپکی پوسٹ پہ خوامخواکے تلخ کمنٹ کرکے آپ کے لئے بھی ذہنی پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات دیگر لوگوں کے لئے بھی۔۔۔ یہ چند ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکو بقراطیت جھاڑنےکابڑا شوق ہوتا ہے۔۔بھلے گھر میں انکی کوئی سنتا نہ ہو لیکن سوشل میڈیا کے وہ عالم فاضل ہوتے ہیں ۔۔۔ایسےلوگوں کا بہترین علاج یہ ہے کہ انکے کمنٹس پہ ردعمل نہ دیں۔۔پھر بھی وہ باز نہ آئیں تو انکا کہا ڈیلیٹ کر دیں۔۔۔ اسکے باوجود افاقہ نہ ہو تو ان فرینڈ کی آپشن تو موجود ہے ہی۔۔۔ یہاں پہ مجھے بسوں اورویگنوں پہ لکھا جملہ یاد آ رہا ہے "پاس کریا برداشت کر " تو ایسے لوگوں کو پاس کرناہی بہتر ہے۔۔۔ یعنی ان سے گزر جانا۔۔۔ اور یقین جانئے آپ جب اس قسم کے لوگوں کو اپنی زندگی سے اپنی فرینڈ لسٹ سے اورکونٹیکٹ لسٹ سے نکالتے ہیں ایک سکون کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ ساتھ ہی یہ سوچ کہ کاش یہ بہت پہلے ہی کر دیا ہوتا ۔۔۔ آپ چاہے کسی جماعت ، کسی گروہ ، مسلک یا نظرئیے کے ماننے والے ہیں تو اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے سے گریز کیجئے۔۔۔ مثال کے طورپہ آپ کسی مخصوص جماعت سےہیں اور کوئی ایسی پوسٹ لگاتے ہیں کہ جسپر بہت زیادہ تنقید ہوتی ہے مثبت تنقید تو قابل برداشت ہوتی ہے لیکن جب لوگ طعنے تشنیع اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ ایک بہت ہی غلط تاثر جاتاہے۔۔ اسی طرح دوسروں کی پوسٹ پہ جا کر اپنا نظریہ تھوپنایا بے مقصدبحث کرنا مناسب نہیں اگر تو بات ٹھوس دلیل سے کی جائے پھر تو ٹھیک ہے لیکن بے دلیل بات اور بے مقصد بحث سے گریز بہت سی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔۔۔آپ ہر ایک سے نہ متفق ہو سکتے ہیں اور نہ ہیں اختلاف کر سکتے ہیں۔۔تعریف نہیں کرسکتے تو تنقید بھی نہ کیجئے۔۔۔ خاموشی بہتر ہے۔۔خوامخوااپنی توانائی ضاِئع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔بہتر ہے کہ یہ مثبت سرگرمی میں استعمال ہو۔۔۔لہذا اول تو ایسی پوسٹس سے ہی گریز کرنا چاہئیے اور اگر ممکن نہیں تو بتایاگیا طریقہ استعمال کیجئے۔۔۔ اکثر گروپس میں جو ادب کے نام پر بنائے گئے ہوتےہیں۔۔عجیب و غریب قسم کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے۔۔۔ اور نوبت گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ تو اس قسم کی بحث سے بھی بچ نکلنا ہی اصل حکمت ہے۔۔۔ایک دو تلخ تجربات کے بعد بندہ خود ہی سمجھدار ہو جاتا ہے۔۔۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے حقیقی لوگوں سے کٹ کر ان عارضی لوگوں سے مخاطب ہیں اور اگر وہاں بھی ہم ایکدوسرے کو احترام نہیں دے سکتے ۔۔ایکدوسرے کی بات برداشت نہیں کر سکتے تو بہتر ہے عزت سے وہاں سے نکل جائیں یا انکو اپنی زندگی سے خارج کر دیں۔۔۔۔ اج کی اس مصروف ترین اور ٹف لائف میں انسان اگر ریلیکس کرنا چاہتا ہے تو اسے ان تمام چیزوں کا خیال خود بھی رکھنا ہوگا اور دوسروں کو بھی اسپر قائل کرنا ہوگا۔۔سوشل میڈیا زندگی کا حصہ ضروربن گیا ہے لیکن ضرورت نہیں ۔۔۔ذہنی سکون کے لئے ضروری ہے کہ منفی قسم کے لوگوں ، گروپس اور پیجز سے گریز کیا جائے۔۔ عزت کیجئے اور عزت کروائیے کے تحت اپنی زندگی گزارئیے جو عزت نہیں دے سکتا اسے اپنی لسٹ سے ڈیلیٹ کردینا ہی بہتر ہے۔۔۔۔ اس تحریرمیں بہت سے لوگوں کے تجربے کا نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔امید ہے مثبت ردعمل آئیگا ۔۔۔مثبت رہئیے اور ارگرد بھی پازیٹیویٹی پھیلائیے۔۔۔ خوش رہئیے اور خوشیاں پھیلائیے یہی اصل زندگی کا مقصدہے اور ہونا بھی چاہئیے۔۔ #تحریرآمنہ_سردار Amna Sardar

Friday, January 1, 2021

کیا کھویا کیا پایا

بات شروع کرونگی 2020 کےاوائل سے جب دنیا بھرمیں لاک ڈاوُن شروع ہوا...۔۔۔ اس سے پہلے زندگی بہتے پانیوں کی طرح رواں دواں تھی۔۔۔نظام زندگی بہترین طریقے سے چل رہا تھا لیکن2019 میں چین سے شروع ہونیوالے کووڈ 19 کی وبا نے جیسے دنیا کی ہر چیز پر جمود طاری کر دیا۔۔۔ خداجانے یہ بائیو وار ہے یا اللہ کریم کی طرف سے آزمائش جو بھی ہے اس نے بڑے بڑے طرم خانوں کے کس بل نکال دئیے ۔۔شمالی و جنوبی امریکہ ۔۔یورپ ۔۔آسٹریلیا۔۔۔۔ایشیا۔۔افریقہ غرض دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ وبا نہ پہنچی ہو۔۔۔ اسکے متعلق افواہیں بھی بہت پھیلیں کہ یہ وبا خود پھیلائی گئی ہے تاکہ دنیا کی بڑھتی خوفناک آبادی پہ قابوپایا جاسکے۔چندسال پہلے بننے والی فلموں اور لکھی گئی کتابوں کے حوالے دئیے گئےکہ یہ خودساختہ وبا ہے۔۔۔جو بھی ہے اسنے دنیا کے اقتصادی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کو بہت بری طرح متاثر کیا۔۔۔اسکے بہت بد اثرات پڑے لیکن ایک مثنت نتیجہ بھی سامنے آیا کہ اخلاقی کردار اور انسانیت کھل کر سامنے آئی ۔۔۔ اس وبا سے متاثر ہونیوالے بڑی تعداد میں اس دنیا سے رخصت ہوئے جسمیں زیادہ تعداد بزرگوں کی رہی ..ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق آٹھ کروڑ سے زائد کرونا کے کیسز سامنے آئے۔۔۔اموات کی صحیح شرح اسلئے نہیں بتائی جا سکتی کہ بہت سےممالک میں کیسز رجسٹر نہیں ہوئے اور بہت سے کیسز کرونا کے علاوہ بھی گنتی میں شامل رہے۔۔۔بہرحال یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے ۔۔۔ اسمیں انسانیت یوں سامنے آئی کہ پوری دنیا بند ہو گئی لیکن ڈاکٹر مسیحاوُں کے روپ میں ڈٹ کر کھڑے رہے ۔۔نرسز۔۔پیرامیڈیک سٹاف اور ہسپتالوں کے دیگر عملے نے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر انسانیت کی بہترین مثال قائم کر دی۔۔۔۔ یہ سب لوگ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔۔۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔۔انکے خاندان متاثر ہوئے لیکن پھر بھی انکا جذبہ متاثر نہیں ہوا۔۔۔ میں سمجھتی ہوں 2020 کے سال کو ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا سال قرار دیاجانا چاہئیے۔۔۔ جہاں اس وبا نے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا وہیں اسنے بہت سے لوگوں کو بیروزگار کر دیا ۔۔۔ غربت کی شرح ایکدم سے بہت نیچے چلی گئی۔۔۔ایسے میں درد دل رکھنے والے لوگ سامنے آئے اور اپنے محروم طبقات کے بہن بھائیوں کی مدد کو آگے بڑھے۔۔۔رضاکاروں کی ٹیمیں آگے بڑھیں جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اس مشکل وقت میں ساتھ دیا۔۔۔فوج ہو یا پولیس ۔۔۔انتظامیہ ہو یا تاجر ۔۔۔ڈاکٹر و صحت کا عملہ ہو یااساتذہ، صحافی ہوں یا آرٹسٹ سب نے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کیا۔۔۔۔شروع شروع میں تو سب ایک اچنبھے کی کیفیت میں تھے ۔۔صدمےکی حالت میں تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔لیکن وقت کیساتھ ساتھ سب ماحول کے مطابق ڈھلتے گئے۔۔۔ جہاں بہت نقصان ہوا وہاں کچھ اچھی چیزیں بھی ہوئیں ۔۔لوگوں میں خلوص ۔۔ہمدردی محبت کے جذبات نظر آئے۔۔ایثار و قربانی کا جذبہ ابھرا۔۔۔ اپنے پراٙئے کی پروا کئے بغیر اس مشکل وقت میں سب ایک ساتھ کھڑے ہوئے۔۔۔ لوگ گھروں میں محصور ہوئے لیکن ایکدوسرے کی خبر گیری کرنے لگے۔۔۔وہ لوگ جوزمانوں سے غم روزگارو معاش میں الجھے تھے انکو جب فرصت میسر آئی تو انہوں نے گھر اور اہل و عیال میں دلچسپی لینی شروع کی۔۔۔مائیں جو بچوں کو موبائل اور ٹیب پکڑا کر اپنی جان چھڑاتی تھیں اب بچوں کیساتھ بیٹھ کر آن لائن کلاسز لیتی نظر آئیں۔۔۔ بچوں کو اپنے باپوں کی توجہ بھی حاصل ہوئی ۔۔روایتی کھیل دوبارہ سامنے آئے جو کہ بلکل ختم ہو چکے تھے۔۔۔ٹیکنالوجی نے ترقی کی ۔۔۔ہر شخص ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتا نظر آیا۔۔۔بہت سے آن لائن کام شروع ہوگئے۔۔ بہت سے لوگوں کو فرصت نے اپنے پرانے مشغلوں کی طرف راغب کیا۔۔۔ کوئی کتب بینی کیطرف مائل نظر آیا اور کوئی باغبانی کی طرف ۔۔کسی نے اپنی کوکنگ کے جوہر آزمائے اور کسی نے اپنے زنگ آلود ہنر کو چمکایا ۔۔۔ یوں معلوم ہونے لگا جیسے تیس پینتیس سال پہلے کا زمانہ لوٹ آیا ہو جب لوگ زیادہ تر اپنے گھروں میں رہتے اور گھر بار،اہل وعیال و خاندان کیساتھ بیشتر وقت بتاتے تھے۔۔ ایکدوسرے کی فکر کرتے تھے جب نفسا نفسی کا عالم نہیں تھا۔۔جب بے غرضی تھی اخلاص تھا۔۔۔ اپناپن تھا۔۔۔ 2020 میں یقیناً بہت کچھ کھویا ۔۔لوگوں نے اپنے پیارے رشتے کھوئے۔۔اپنے کاروبار ۔۔اپنا ذریعہ معاش کھویا لیکن بہت کچھ پایا بھی۔۔۔اخلاص۔۔۔اپنائیت ۔۔۔ہمدردی ۔۔۔ایثار اور محبت۔۔۔ سب کچھ جیسے فطرت کی طرف لوٹ آیا۔۔۔۔روایات زندہ ہو گئیں ۔۔اقدار واپس آگئیں ۔۔۔ماحول صاف ہوگیا۔۔۔ چرند پرند فضاوُں میں آزادی سے چہکنے لگے۔۔۔ آسمان شفاف نظر آنے لگا۔۔۔ بہتا پانی ۔۔۔بہتے جھرنے ۔۔۔فضا سب آلودگی سے پاک ہوگئے۔۔۔ انسانوں میں صفائی کی عادت کو فروغ ملا۔۔۔ بہت سی اچھی اقدار دوبارہ سماج کا حصہ بنیں۔۔۔ بحیثیت مجموعی انسانوں کی عادات و اطوار میں بہتری آئی ۔۔۔ لب لباب تحریر کا یہ ہے کہ کچھ کھویا تو کچھ پایا بھی ۔۔۔۔ رب تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ امسال یہی سب اقدار و اطوار ہم انسانوں میں موجود رہیں لیکن اس وبا و دیگر ایسی ہی موذی بیماریوں سے اللہ پاک محفوظ و مامون رکھے آمین۔۔۔۔ #تحریرآمنہ_سردار

Friday, December 25, 2020

ہمارا اپنا قائد

آج جی چاہا کہ اپنے قائد کو اپنی تحریر کے ذریعے خراج تحسین پیش کروں۔۔۔۔قائد اعظم محمد علی جناح سے ناصرف اس قوم کا بچہ بچہ بلکہ پوری دنیا واقف ہے۔۔۔۔ہر کوئی انکے کردار کی مثالیں دیتا ہے۔۔۔انکی پوری زندگی کے سفر کےبارے میں سب جانتے ہیں ۔۔میں آج اس تحریرمیں صرف انکی شخصیت کے مختلف پہلووُں پر روشنی ڈالوں گی۔۔۔انکا اخلاص ، دردمندی، تدبر، ارادے کی پختگی، امانتداری، عزم صمیم ، بلندحوصلگی ، استقامت ،وعدے کی پابندی، سچائی کی عادت ،پر دلیل گفتگو، انتھک محنت ، بااصول شخصیت۔۔۔۔یہ سب وہ خصوصیات ہیں جو انکی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہمیں حاصل ہوئیں۔۔۔۔وہ ایک کامیاب اور اسوقت کے مہنگے ترین وکیل تھے لیکن مسلمانوں کے لئے دردمندی اور اخلاص چونکہ انکے دل میں موجود تھا جسے حالات نے عیاں کیا اور وہ اپنی پر تعیش زندگی کے عیش و آرام تج کرکے جدوجہد آزادی کے لئے پورے عزم اور بلند حوصلگی کے ساتھ جُت گئے ۔ اس سفر کو اپنے ارادے کی پختگی اور استقامت کے ساتھ لیکر آگے بڑھے اور اسوقت تک چین سے نہیں بیٹھے جبتک کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لئے ایک الگ ریاست حاصل نہ کر لی۔۔۔۔ آج جو ہم اس ملک میں آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں یہ قائد ہی کی انتھک محنت، پرعزم ارادے اور بروقت قوت فیصلہ سے ممکن ہوئی اگر انکی دور اندیشی اور تدبر نہ ہوتا تو آج ہم ہندوستان میں غلامی کی چکی پیس رہے ہوتے۔۔۔۔ قائد کی پردلیل گفتگو، دور اندیشی اور تدبرکے بڑے بڑے عالم فاضل بھی قائل ہیں۔۔اپنے تو اپنے پرائے بھی انکے پختہ کردار کی تعریف کرتے ہیں۔۔۔انکا انداز بیاں انتہائی شستہ، نفیس سادہ اور پُر دلیل ہوتا تھا۔۔۔کم لیکن مدلل گفتگو کرتے ۔۔۔فالتو بات نہ خود کرتے تھے نہ پسند فرماتے تھے۔۔۔انکی شخصیت کا ایک اور پہلو کہ انکو اپنے جذبات و احساسات پر مکمل کنٹرول حاصل تھا ۔۔۔کبھی کسی نے انکو غصے میں یا بہت خوشی میں نہیں دیکھا ۔۔۔انکی شخصیت میں ایک خاص توازن تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان سے مرعوب رہتے تھے ۔۔۔قائد ایک سنجیدہ لیکن خوش اخلاقی کی حامل شخصیت تھے۔۔۔انہوں نے اپنی شدید بیماری کو لوگوں سے ، دنیا سے چھپا کے رکھا کہ اسکو انکی کمزوری نہ سمجھا جائے۔۔۔۔۔وہ بہت زیادہ محنتی انسان تھے ۔۔گو کہ انکا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا لیکن معاشرے میں بلند مقام و اعلیٰ رتبہ انہوں نے اپنی انتھک محنت سے حاصل کیا۔۔۔۔ انکے باقی بہن بھائی اتنے تعلیم یافتہ نہیں تھےجتنے کہ قائد۔۔۔انہوں نے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کو دریافت کیا اور ان کو بروئے کار لاتے ہوئے عظمت کی اس بلندی پر پہنچے کہ آج دوست تو دوست دشمن بھی انکی تعریف کرنے پر مجبور ہے ۔۔ انکی وفات کے بعد ہندوستان کی اسمبلی میں ڈاکٹر راجندر پرساد نے4 نومبر 1948میں انکے کردار پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی کہ "قابل صد احترام ممبران اسمبلی ۔۔میں آپ سے ملتمس ہوں کہ اپنی جگہوں پر کھڑے ہوجائیے اور قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کیجئےجنہوں نے اپنے عزم صمیم ، لازوال کوششوں اور انتہائی اخلاص نیت سے خطہُ پاکستان حاصل کیا اور اس گھڑی انکی وفات ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔" یہ ہے کردار جسکے دشمن بھی معترف تھے۔۔ آزادی کے بہت بڑے داعی نیلسن مینڈیلا نے 1955 میں قائد سے اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا "جناح ان تمام لوگوں کے لئےمستقل طور پر قابل تقلید ہیں جو کہ نسلی اور گروہی تفریق کے خلاف لڑ رہے ہیں" صٙرت چندرا بوس نے ان الفاظ میں قائد کی پیشہ وارانہ زندگی اور شخصیت پر روشنی ڈالی کہ "مسٹر جناح نا صرف ایک بڑےنامور وکیل تھے بلکہ ایک بہترین کانگرس مین ، مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما ، دنیاکےایک قدآورسیاستدان و سفیر اور سب سے بڑھ کر ایک بہت ہی باکردار انسان تھے " قائد کی یہ خصوصیات ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔۔۔۔ وہ ایک باعمل ، پر عزم ، دوراندیش راہنما۔۔۔ایک بہترین پیشہ ور وکیل۔۔ایک مدبر اور بااصول سیاستدان ، اور سب سے بڑھکر بہترین شخصیت کے حامل انسان تھے۔۔۔۔ آج یوم قائد ہے۔۔۔ہم انکی مغفرت کے لئے دعاگو ہیں۔۔۔۔اور امید کرتے ہیں کہ انکے اخلاص نیت انتھک کوششوں اور لازوال قربانیوں سے حاصل کیا گیا یہ ملک تا قیامت قائم رہے۔۔۔۔اس ملک کو ان جیسے باعمل اور بااصول رہنما کی ضرورت ہے۔۔۔ قائد اعظم ۔۔۔۔زندہ باد پاکستان ۔۔۔۔۔پائندہ باد تحریر امنہ سردار

Tuesday, November 17, 2020

میراسوہنڑادیس ہریپور

Haripur is one of the famous n big cities of Khyber Pakhtunkhaw... The city is surrounded by hundreds of small beautiful villages having lush green farms...Beautiful fruit n flower gardens .... The name of Haripur is derived from a Sikh ruler Hari Singh Nalwa who was Nazim of Hazara Region appointed by Ranjeet Singh ....It was founded by him in 1822۔۔۔۔This city is surrounded by Taxila, Abbottab and Swabi..The distance of Islamabad is about 40 km. The biggest dam of the world Tarbila Dam is situated in this district... Two lakes Khanpur n Tarbela lake are famous for their beauty... There are many Archeological sites in suburbs n surroundings of Haripur... The most famous are Julian, Sirkup..Boali.Badalpur۔۔Piplan site..Bhamala Stupa site.Pind Gahkhran Mound. Mirpur Mound، Bahera Mound Ternawa n others.. There are stupas of Buddha ... The people of Haripur are well educated.Its literacy rate is the highest one in KP. Most of the people are landowners /farmers...There are different tribes and casts live in Haripur including the Hindko Speaking Pashtun Tribes: Jadoon,Tareen, Utmanzai,Pani, Musa Khail, Dilazakand Some Other Castes Includes Douli Mughals, Abbassi, Awan,Gujjar, Tanoli, Mashwanis and Gakhars..The main language of Haripur is Hindko..Pashto is also speaking in this region.. Haripur is famous for its Horse n Cattle show..I can recall how we love to go to Committee Ground n enjoy this show in our childhood۔۔۔ بہت سے لوگ جانتےہیں کہ میرا تعلق ہزارہ سے ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ بنیادی طور پر میرا تعلق ہریپور سے ہے۔۔۔۔ تو آج میں آپکو اپنی جائے پیدائش سے روشناس کراتی ہوں۔۔۔۔گوکہ اس شہر کو چھوڑے قریباً تین دہائیاں گزرنے کو ہیں لیکن اس سے محبت اسی طرح قائم و دائم ہے ۔۔کوشش کرونگی کہ اس شہر سے محبت کا کچھ حق ادا کرسکوں ۔۔۔۔سرسبز کھیتوں۔۔۔شاداب باغوں۔۔۔۔ خوبصورت پھولوں اور چھوٹی چھوٹی ندیوں کی سرزمین ہری پور، ہزارہ کا ایک اہم اور بڑا شہر ہے۔۔۔ پہلے یہ ایبٹ آباد کی تحصیل تھی لیکن بعد ازاں اپنی آبادی کے بڑھنے کی وجہ سےنوے کی دہائی میں یہ ضلع کی شکل اختیار کر گیا ۔۔ہری پور کے اردگرد سینکڑوں چھوٹے بڑے دیہات آباد ہیں۔۔۔یہ ایک مصروف شہر ہے۔۔۔۔اسکا ایک بہت لمبا سا بازار ہے جسکا *ٹپوں اور *ماہیوں میں بڑا ذکر آتا ہے۔۔۔۔اسکی تازہ سبزیاں۔۔پھل اور اناج صوبے بھر میں مقبول ہے۔۔۔۔ یہاں کے لوگوں کا تعلق چونکہ اردگرد کے دیہاتوں سے ہے تو انکا پیشہ زیادہ تر زراعت ہے۔۔۔۔۔ لیکن تعلیم میں بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں۔۔صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا ضلع ہے۔۔۔۔ اس شہر کو ہری سنگھ نلوہ نے رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں 1822 میں بسایا ۔بعد میں اسکو انگریزوں نے1867میں میونسپلٹی کا درجہ دیا۔۔۔ہری پوراطراف سے صوابی، ٹیکسلا اور ایبٹ آبادسے گھرا ہے۔اسلام آباد سے اسکا فاصلہ قریباً 40 کلومیٹر ہے۔ ہری پور کے چند مشہور قصبوں میں سرائے صالح ۔کوٹ نجیب اللہ۔سریکوٹ ۔خانپور۔غازی ۔تربیلہ اور کھلابٹ شامل ہیں۔۔ ہری پور چونکہ سکھوں کے زمانے میں آباد ہو لہذا یہاں پر اس دور کی لاتعداد عمارات نظر آتی ہیں۔۔خاص طور پہ ہندو طرز تعمیر بہت عام ہے۔۔۔ان عمارات کو ماڑی کہا جاتا ہے ۔...مجھے یاد ہے میرا سکول جناح ہال کا آغاز ایک ماڑی سے ہوا۔۔۔ وہ بہت بڑی اور قدیم عمارت تھی ۔۔۔مجھے ہمیشہ بہت متاثر کرتی تھی۔۔۔۔بلکہ ابھی بھی بچپن کی یادوں میں سب سے نمایاں اسکی یادیں ہیں ۔۔۔لکڑی اور پتھر کی بہت خوبصورت کندہ کاری تھی۔۔۔بہت سارے کمرے ہوتے تھے اسوقت تو اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن اب جب یاد کرتی ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ ان میں کچھ حصے رہائشی تھے کچھ مہمان خانے اور کچھ گودام۔۔۔اگر آج بھی مجھ سے اسکا نقشہ پوچھا جائے تو میں آنکھیں بند کرکے بتا سکتی ہوں۔۔۔اس سکول اور اس عمارت سے بہت خوبصورت اور سنہری یادیں وابستہ ہیں۔۔۔یہ تین منزلہ ایک پرشکوہ عمارت تھی ۔۔۔۔۔ایسی متعدد قدیم ہندو طرز تعمیر کی عمارات شہر میں موجودہیں انہی میں ایک مشہور ترین شہر کے وسطی بازار میں تھی جسپر دو شیر بنے تھے اسی نسبت سے اسکا نام شیرانوالا گیٹ پڑ گیا۔۔ یہاں کا ہرکشن گڑھ کا قلعہ جو انتظامیہ کے تحت تھا ہندو طرز تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار تھا۔۔اسکو اب عجائب گھر میں ڈھالا جا رہا ہے تاکہ لوگوں میں دلچسپی پیدا ہو.... ہری پور کے اردگرد مضافاتی علاقوں میں بہت سی آثار قدیمہ کی سائٹس ہیں۔۔ یہ ہری پور سے ٹیکسلا جاتے ہوئے خانپور اور اسکےمضافات میں واقع ہیں۔۔ان میں جولیاں۔۔سرکپ ۔۔باوُلی۔۔بادل پور۔۔پپلاں۔۔بھیرہ وغیرہ کافی مشہور ہیں۔۔۔۔خانپور کی 140 سالہ مسجد راجگان بھی یہاں کی قدیم عمارات میں شمار ہوتی ہے ۔۔یہ مسجد راجہ سلطان جہانداد نے تعمیر کرائی تھی۔۔ تربیلہ جھیل اور خانپور جھیل سیاحت کے خوبصورت ترین مراکز ہیں۔ یہاں کےزیادہ تر علاقے میدانی ہیں لیکن کچھ علاقے ڈھلوان اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر مشتمل ہیں۔۔یہاں *کٹھے اور *دوڑیں بہت زیادہ بہتے ہیں۔۔یہاں تیتر اور مرغابیوں اور ایک رشین پرندے جسے مقامی زبان میں چمبی کہتے ہیں،کا شکار کافی مشہور ہے۔۔۔۔۔ ہری پور کا موسم شدید ہے گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے۔۔ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔۔۔ ہری پور کا خوبصورت ترین موسم بہار کا ہوتا ہے جسمیں رنگ برنگ پھول جابجا کھلے پڑے ہوتے ہیں ۔۔لوکاٹ ۔۔مالٹا۔۔امرود ۔۔آلوچہ۔۔چکوترہ۔۔بیر اور لیچی یہاں کے مشہور ترین اور رسیلے پھل ہیں۔۔سبزیوں میں ہر قسم کی موسمی سبزی اور اناج وافر مقدار میں اگایا جاتا ہے۔۔۔ جانوروں کیلئے شفتل اگائی جاتی ہے۔۔۔ تانگہ یہاں کی مشہور ترین سواری ہے لیکن اب اسکی جگہ رکشے لیتے جا رہے ہیں ۔۔۔۔ ہری پور کے لوگ محنتی۔۔جفاکش۔۔اور رف ٹف ہیں۔۔۔یعنی ہر جگہ ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔۔پڑھے لکھے ہونے اور نوکریوں کی وجہ سے بہت سے لوگ اس شہر سے ہجرت بھی کر گئے ہیں۔۔ دیہاتوں کے بہت سے جوان فوج اور پولیس میں بھرتی ہوتے ہیں۔۔۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد آکر اپنے کھیت آباد کرتےہیں۔۔۔ہری پور کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ میجرجنرل صدر ایوب مرحوم کا تعلق یہاں کے ایک گاوُں ریحانہ سے تھا۔۔اسی طرح مشہور شاعر قتیل شفائی بھی اسی شہر کے باسی ہیں۔۔ڈاکٹر شیربہادرجو ہزارہ کے پہلے میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور ائیر چیف مارشل انور شمیم بھی یہیں کے باسی تھے۔۔ کمیٹی گراوُنڈ میں میلہ مویشیاں دیکھنے کا بھی اپنا ہی مزا ہوتا تھا۔۔۔ وہیں پہ سرکس اور موت کا کنواں بھی ہوا کرتے تھے۔۔مویشیوں کو سجا بنا کے لایا جاتا اور گھوڑے کا رقص بھی ہوتا تھا۔۔اسکے علاوہ نیزہ بازی یہاں کا خاص کھیل ہے۔۔۔پتھر اٹھانے کا بھی ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ہزارہ کا لوک رقص جھومر بھی بہت مشہور ہے۔۔۔ جسے مقامی زبان میں گھمبر کہتے ہیں۔۔۔یہ رقص ڈھول اور *تُری کیساتھ کیا جاتا ہے۔۔انکے ہاتھ میں لکڑی کی چٹکیاں ہوتی تھیں اور بعض اوقات ڈنڈے ۔۔بہرحال یہ ایک خوبصورت رقص ہوتا ہے حطار بھی ضلع ہری پور کا ہی حصہ ہے۔ یہ ایک انڈسٹریل سٹیٹ ہے جہاں بہت سے چھوٹے بڑے صنعتی کارخانے موجود ہیں۔۔۔ملک کی بیشتر صنعتی پیداوار یہیں سے پوری ہوتی ہے۔۔حطار کے راستے اگر ہری پور آئیں تو راستے میں کھاد فیکٹیریوں کے آثار نظر آتے ہیں جو نوے کی دہائی میں پرائیویٹائزکر دی گئیں اور آہستہ آہستہ ختم ہو گئیں ۔اسکے بعد یہ علاقہ ویران نظر آتا ہے۔۔۔۔۔یہیں کچھ آگے ہری پور یونیورسٹی ہے۔۔۔ کچھ اور آگے آئیں تو ٹیلیفون انڈسٹریز واقع ہے۔۔۔یہ بہت بڑا سیٹ اپ تھا لیکن افسوس یہ مختلف حکومتوں کی نااہلیوں کی نذر ہو گیا ۔مجھے یاد ہے میرا پہلا سکول اسی کالونی میں تھا اورکیا چہل پہل ہوتی تھی لیکن اب وہ حالات نہیں۔۔اس سے آگے آئیں تو صوبے کا سب سے بڑا سنٹرل جیل بھی یہیں واقع ہے جہاں پر صوبہ بھر کے خطرناک ترین مجرم رکھے جاتے ہیں ۔کچھ اور آگے آئیں تو ریلوے سٹیشن ہے۔ بچپن میں یہاں سے گزرتے ہوئے سیٹی بجاتی ہوئی ریل گاڑی بہت fascinate کرتی تھی۔۔۔۔ کھلابٹ ٹاوُن شپ ہریپور کے ایک سرے پہ واقع ہے جہاں تربیلہ جھیل کے پار ٹوپی صوابی کی حدود شروع ہوتی ہیں۔۔ تربیلہ ڈیم کے بننے کے بعد جب دربند کا علاقہ زیر آب آیا تو یہ ٹاوُن شپ بسایا گیا۔۔یہانپر زیادہ تر دربند کے متاثرین رہتے ہیں۔۔۔ کیاہی بچپن کی حسین یادیں جو آج بھی ماضی کے دریچوں سے پکار پکار کراپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔۔۔پھلوں کے موسم میں درختوں پر چڑھ کر لوکاٹیں کھانے اور باغوں میں رکھوالے سے نظر بچا کر امرود کھانے کا جو مزا تھا وہ آج کے امرود کھا کےکبھی نہیں آیا۔۔ جب ماسیاں ساگ توڑنے کھیتوں میں جاتیں تو ہم بھی ساتھ ہو لیتے اور انکو ساگ کیساتھ گھاس پھونس توڑ کے دیتے جس سے انکی گھرکیاں کھاتے۔۔ہریپور میں چونکہ بیشتر دیہات ہیں تو ساگ وہاں کی بڑی پسندیدہ خوراک ہے جسکو بڑی لگن سے پکایاجاتا تھا ۔تنور پہ روٹی کی خوشبو تو آج بھی سانسوں میں مہک رہی ہے۔۔باڑے میں جاکر بھینسوں کا دودھ دوہتے دیکھنا بھی ایک دلچسپ مشغلہ ہوتا تھا۔۔ہریپور کی سرزمین بہت ہی زرخیز اور ہریالی والی ہے۔۔ہر قسم کی سبزی پھل کیساتھ پھولوں کی بھی فراوانی ہے۔۔پورے ہزارہ میں بہترین نرسریز آپکو ہری پور میں ہی ملیں گی۔۔ ہریپور آکے رہنے اور گردو نواح کی سیاحت کرنے کا بہترین موسم مارچ۔اپریل۔۔اکتوبر اور نومبر ہے ۔۔اسکے علاوہ باقی مہینوں میں گرمی اور سردی ہوجاتی ہے۔۔یہاں آپکو جھیلیں بھی ملیں گی۔۔سرسبز میدان۔بھی۔۔۔گھنے باغات بھی اور ڈھلوانی اور تھوڑے پہاڑی علاقے بھی۔۔سیر و تفریح کے تمام لوازمات یہاں موجود ہیں۔۔ہوٹلز کے بارے میں میری معلومات کم ہیں جبکہ گیسٹ ہاوُسز یا سرکٹ ہاوُسز دستیاب ہو سکتے ہیں۔۔۔اس دعا کیساتھ اللہ اس خوبصورت شہر کو یونہی آباد رکھے اختتام کیطرف بڑھوں گی۔۔۔ امید کرتی ہوں کہ آپکو یہ قسط وار سلسلہ پسند آیا ہوگا۔۔۔اپنی آرا سے ضرور آگاہ کیجئے ۔۔۔ *ٹپے اور *ماہئیے لوک گیتوں کی اصناف ہیں۔۔۔ *کٹھے: صاف پانی کے نالے ۔۔۔(( بدقسمتی سے اب گدلا گئے ہیں)) *دوڑ: نالوں سے بڑا اور جھیل سے چھوٹا بہتا پانی *تُری۔۔شہنائی #تحریرآمنہ_سردار

Sunday, October 18, 2020

رنگ رنگ دنیا۔۔۔میرا پہلا سفر

  


رنگ_رنگ_دنیا


سفرنامہ 


میراپہلاسفر۔۔۔۔قسط1



میں نے زندگی میں بہت سے سفر کئے انگریزی کے بھی اور اردو کے بھی ۔۔بہرحال آج اپنے سب سے پہلے سفر کا احوال بیان کرونگی جو میں نے قریب سولہ سترہ برس کی عمر میں کیا۔۔۔یہ میرا پہلا بین الاقوامی سفر تھا ۔۔۔میرے والدین قطر میں تھے اور مجھے ان سے ملنے جانا تھا ۔۔۔تقریباً 90 کی دہائی کی بات ہے۔۔۔۔ میں فرسٹ ائیر کی سٹوڈنٹ تھی۔۔۔ پہلی فلائٹ میری پشاور سے تھی۔۔۔۔ والدین کے پاس جانے کا جذبہ اپنی جگہ لیکن تنہا بین الاقوامی سفر کرنے کا ایڈونچر اپنی جگہ موجود تھا۔۔۔ لیکن پشاور سے فلائٹ کا سنکر ارمانوں پر اوس پڑ گئی کیونکہ اسوقت پشاور ائیر پورٹ کوئی اتنا ڈویلپ بھی نہیں تھا اور ماحول بھی زرا سخت تھا ۔۔خیر قصہ مختصر میں پورے پروٹوکول کیساتھ ائیرپورٹ آئی کیونکہ میرے چچا جان ایس پی تھے اور بہت آسانی سے مجھے تمام مراحل سے گزارا گیا ۔۔دوسرے میرے کم عمر اور تنہا ہونے کی وجہ سے مجھے فرسٹ کلاس میں جگہ دی گئی۔۔۔لہذا میری زندگی کا پہلا سفر ہی بہت آسان اور آرام دہ رہا۔۔۔۔ اس زمانے میں کراچی میں قیام لازمی ہوتا تھا۔۔۔لہذا ہم کراچی میں رکے۔۔۔کراچی ائیر پورٹ کا ماحول پشاور سے یکسر مختلف تھا ۔۔۔


 میرے ساتھ ایک ینگ سی خاتون تھیں جو  ننھے سے بچے کیساتھ عازم سفر تھیں ان سے اچھی گپ شپ لگی ۔۔۔میرے چچا جان نے مجھے سخت تاکید کرکے بھیجا تھا کہ نہ کسی سے کوئی چیز لینی ہے ناہی کچھ دینا ہےحتیٰ  کہ کوئی چیز کسی کی تھامنی بھی نہیں ہے جیسے بیگ ۔۔پرس وغیرہ۔۔۔لہذا اس سلسلے میں میں نے بہت احتیاط برتی۔۔۔۔ اس زمانے میں سمگلنگ کے کافی کیسز ہوا کرتے تھے اور خاص طور پہ جس ائیرپورٹ سے میں جا رہی تھی ۔۔۔ 


دلچسپ بات اس سفر کی یہ تھی کہ رمضان کا مہینہ تھا اور میں روزے سے تھی۔۔۔۔اور آسمانوں میں محو پرواز روزہ کھولا جو ہمارے ٹائم سےخاصا لیٹ تھا۔۔۔بہر حال یہ بھی ایک انوکھا تجربہ تھا۔۔۔۔ سفر بخیر گزرا۔۔۔۔ جب قطر ائیرپورٹ پہ لینڈ کیا تو دنیا ہی اور نظر آئی کہاں پشاور ائیرپورٹ کہاں دوحہ ائیر پورٹ۔۔۔ روشنیوں سے آنکھیں خیرہ ہوئی جا رہی تھیں۔۔۔سونے پہ سہاگہ اماں ابا اور بہن سے ملنے کی خوشی سب سے سوا تھی۔۔۔۔ تقریباً رات کے دس بجے ہماری لینڈنگ ہوئی تھی ۔۔۔ سامان سے فارغ ہوکر والدین کیساتھ دخان کے سفر پہ روانہ ہوئے لیکن اس سے پہلے میرے والد صاحب سیدھا جیولری شاپ پر لیکر گئے اور ایک خوبصورت چین سیٹ میرے استقبالیہ کے طور پہ لیکر دیا۔۔۔وہ سیٹ آج اتنے برس گزرنے کے بعد بھی میرے پاس موجود ہے۔۔۔۔ والدین کے پیار کی بھی بھلا کوئی نشانی ہوتی ہےیہ سب تو دنیاوی چیزیں ہیں لیکن آج بھ وہ احساس یاد کرتی ہوں تو بہت ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔ انکی وہ خوشی وہ پیار کیسے بھلایاجا سکتا ہے۔۔۔اللہ کریم انکو سلامت رکھے آمین۔۔۔ 


کھانا چونکہ ہوائی جہاز میں کھا لیا تھا لہذا ہلکی پھلکی ریفریشمنٹ کے بعد دخان کی طرف عازم سفر ہوئے ۔۔۔

دخان جو ایک آئل فیلڈ تھی اور والد صاحب وہاں پہ انجینرنگ سروسز میں تھے ۔۔۔یہ ایک خوبصورت کینٹ ایریا تھا ۔۔۔جہاں پہ مختلف سیکٹرز تھے ۔۔۔بڑی فیملیز کے لئے بڑے گھر اور چھوٹی فیملیز کے لئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت یونٹس۔۔۔ انگریز افسران کے گھر بلکل ہٹ کر تھے ۔۔۔قریب ہی ساحل سمندر تھا۔۔۔۔ میں نے بہت بچپن میں کراچی کا ساحل دیکھا تھا ۔۔یہاں کا ساحل دیکھکر بہت ایکسائٹمنٹ ہوئی۔۔۔ دخان میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی لیکن شاپنگ کے لئے دوحہ جانا پڑتا تھا جو بڑا اور خوبصورت شہر تھا۔۔۔۔ 

آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے زندگی رہی تو پھر دوحہ اور دخان کے بارے میں اگلی قسط میں  تفصیل سے لکھونگی ۔۔۔۔ انشاءاللہ۔۔۔  

قسط2

دوحہ سے سفر کرکے دخان پہنچے۔۔۔دخان جیسا کہ میں پہلے بتا چکی ہوں ایک خوبصورت کالونی تھی جیسے ہمارے ہاں عموماً کینٹ ایریاز ہوتے ہیں۔۔۔ اسمیں مختلف بلاکس اور سیکٹرز تھے۔۔۔بڑی فیملیز کے لئے خوبصورت بنگلے اور چھوٹی فیملیز کے لئے چھوٹے چھوٹے سمارٹ یونٹس۔۔۔۔ دخان کا رہائشی علاقہ بہت بڑا نہیں تھا ۔۔۔ہم اکثر ایک گھنٹے کی واک میں پورا دخان گھوم آیا کرتےتھے۔۔۔دنیا کی ہر سہولت اس چھوٹی سی کالونی میں موجود تھی بلکہ میں تو کہوں گی دنیا کی ہر نعمت۔۔۔۔۔

 یہ بنیادی طور پہ ایک آئل فیلڈ تھی۔۔۔جو رہائشی علاقے سے فاصلے پر تھی۔۔۔یہ دنیا کی سب سے بڑی آئل فیلڈ مانی جاتی ہے ۔۔۔دخان الشہانیہ کی میوسپلٹی ہے جو دوحہ سے مغرب کی طرف 80کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے ۔۔یہاں کا موسم گرم خشک ہےاکثر دن کو شمال چلتا تھا یہ ایسی آندھی ہوا کرتی تھی جو ہر چیز کو  گردآلودکر دیتی تھی۔۔۔اور کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔بنیادی  طورپہ قطر ایک صحرائی علاقہ ہے اور ساحلی بھی۔۔دخان کے ساحل کی اپنی خوبصورتی تھی اور دوحہ کے ساحل کی اپنی۔۔۔۔دخان کا ساحل ریتلی زمین اور خشک کنکروں والا تھا جہاں سیپیاں چننے اور سورج کو غروب ہوتے دیکھنا ایک دلچسپ مشغلہ تھا۔۔۔ اکثر شام کو ہم وہاں جایا کرتے تھے۔۔اسوقت تو وہ ساحل اتنا ڈویلپ نہیں تھالیکن اب کافی خوبصورت بیچ بنا دی گئی ہے وہاں۔۔۔دخان میں قطر کی سب سے اونچی چوٹی بھی واقع ہے لیکن مجھے اسے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہو سکا۔۔۔ عرب ممالک میں قطر سب سے امیر ملک ہے۔۔۔.  یہاں دنیا کے تقریباً ہر ملک کے باشندے تھے ہندو ۔۔۔سکھ۔۔۔مسلم۔۔۔سری لنکن ۔۔نیپالی۔۔کورین۔۔گورے۔۔۔مصری۔۔شامی۔۔۔۔لبنانی۔۔عربی۔۔۔۔ایرانی۔۔پاکستانی۔۔افریقی۔۔۔  غرض  ہر رنگ ، نسل اور قوم کے لوگ یہاں روزگار کے حصول کے لئے جمع تھے ۔۔۔ بہت سے لوگوں سے والدین کی دوستی تھی۔۔۔۔رات کو واک پہ نکلتے تو مزید دوستیاں بنتیں۔۔ایک دوسرے کو انگریزی ۔۔عربی یا پھر اشاروں کی زبان میں سمجھاتے ۔۔۔غرض ایک وسیع دنیا آباد تھی اور روزانہ ہی کسی نہ کسی سے تعارف ہوتا تھا۔۔۔ایک اچھی بات یہ تھی کہ خواتین واک کرتے ایکدوسرے کو سلام ضرور کرتی تھیں اور کبھی کبھی حال احوال بھی پوچھ لیا جاتا۔۔۔


سیکیورٹی سسٹم اتنا بہترین کہ اگر رات گئے بھی واک کرو تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔۔۔عموماً تمام لوگ ایکدوسرے سے واقف ہی ہوتے تھے ۔۔۔ہماری تمام پاکستانی اور انڈین فیملیزسے بہت اچھے تعلقات تھے۔۔۔۔۔۔

میری والدہ بڑی پرخلوص اور دوستانہ مزاج کی حامل خاتون ھیں۔۔ ینگ لڑکیاں  سب انکی بیٹیاں اور بڑی خواتین بہنیں بنی ہوئی تھیں۔۔۔ وہاں پہ چونکہ ملنا جلنا بہت زیادہ تھا تو آئے دن دعوتیں چلتی رہتی تھیں۔۔۔ جب میں گئی تو کئی دن میری بھی دعوتیں چلیں۔۔۔۔مرد حضرات کے جاب پہ جانے کے بعد خواتین گھر کے بنیادی کاموں سے فارغ ہوکر ایکدوسرے کو11 بجے کی چائے پہ انوائٹ کر لیتی تھیں۔۔۔ چونکہ وہاں نوکروں کا تصور نہیں تھا تو زیادہ تر مل جل کر ہی کام کئیے جاتے۔۔ون ڈش پارٹی ہوتی جسمیں ہر کوئی مزیدار ڈش بنا کر لاتی۔۔۔ اور جاتے وقت برتن وغیرہ دھلا کر جاتیں۔۔۔۔میں نے برتن دھونے قطر میں سیکھے ۔۔جتنے برتن یہاں دھوئے پاکستان میں  زندگی بھر نہیں دھوئے ۔۔۔یہاں تو ہیلپرز موجود ہوتے ہیں۔۔وہاں پر بنگلہ دیشی ۔۔فلپائنی ملازمین ملتے تھے۔۔لیکن اسوقت ہمارے گھروں میں مرد ملازم رکھنے کا رواج نہیں تھا۔۔۔


 ان دعوتوں سے یہ ہوا کہ پاکستان میں جو کام کبھی نہیں کئے تھے وہاں کرنے پڑے۔۔۔بہت کچھ سیکھا اور مذید سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔۔۔۔نئی نئی ڈشز بنانے کا مقابلہ ہوتا تھا جو کہ بڑا ہی خوش آئند تھا ۔۔۔ 


ہم زیادہ تر واک کرکے ہی ایکدوسرے کے گھر جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔اکثر شام کو ساحل سمندر پہ جاتے۔۔۔میری بہن  آرٹسٹک مائنڈڈ تھی اور اسے آرٹس اینڈ کرافٹس کا بڑا شوق تھا وہ ساحل سے چنی سیپیوں سے کچھ نہ کچھ بناتی رہتی تھی۔۔۔ فراغت کی وجہ سے میں نے بھی بہت سی نئی نئی سکلز سیکھیں ۔۔۔میری بہن دوحہ کے پاکستانی ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ  میں پڑھتی تھی جبکہ میں پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔۔۔اور صرف چھٹیوں میں ہی جایا کرتی تھی۔۔۔مجھے اسوقت بھی پڑھانے کا بہت شوق تھا ۔۔اکثر والد صاحب کے دوستوں کے بچے پڑھنے آیا کرتے تھے۔۔۔اسوقت کی خوبصورت یادیں  آج بھی ساتھ ہیں۔۔۔اور شاید ساری زندگی ساتھ رہیں۔۔۔اماں باوا کے گھر کی زندگی تو ویسے بھی الہڑ پن اور بےفکری میں گزرتی ہے۔۔۔۔ ابھی یاد کرتی ہوں تو لطف آتا ہے کہ واقعی کیا بےفکری کاحسیں دور گزارا۔۔۔۔ 

اگلی قسط میں دوحہ کا تذکرہ  کرونگی انشاءاللہ۔۔

میراپہلاسفرقسط3

گزشتہ سے پیوستہ


یہ 90کی دہائی کا قصہ ہے جب میں اپنے والدین کے پاس قطر گئی ۔۔۔میرے والد صاحب دخان آئل فیلڈ انجینرنگ سروسز میں تھے ۔۔زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے وہاں تنہا گزارا بیس سال میں سے چند سال فیملی نے وہاں گزارے۔۔۔میں وزٹ ویزا پہ آتی جاتی تھی کیونکہ میرا تعلیمی سلسلہ پاکستان میں تھا ۔۔۔۔ہر چھ ماہ بعد میں دو تین ماہ کے لئے جاتی تھی۔۔۔

 پچھلی دو اقساط میں، میں نے اپنے سفر کی روئیداد اور دخان کے بارے میں لکھا ۔۔آج تھوڑا وہاں قیام کے بارے میں بتانا چاہوں گی۔۔۔۔ قطر میں قیام زندگی کا ایک بلکل مختلف تجربہ تھا۔۔۔ ہم یہاں پاکستان میں اپنے لوگوں اور اپنے رشتہ داروں کے درمیاں رہتے تھے۔۔یہاں اردگرد رشتے تھے ۔۔۔محبتیں تھیں۔۔دوستیاں تھیں۔۔۔۔وہاں سب کچھ نیا تھا۔۔۔ ماحول، رہائش، تعلق، دوست، احباب، معاشرت، رسوم و رواج ۔۔۔لیکن انسان ایک سماجی جانور ہے تو ظاہر ہے وہ جس ماحول میں بھی جائے اس کو اپنا لیتا ہے یا اسمیں ڈھل جاتا ہے۔۔۔۔ تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔۔ گو کہ میرے والدین میرے ساتھ وہیں پہ تھے لیکن میں پھر بھی اپنے بھائی ، نانی، دادی ۔۔دوستوں اور دیگر پیارے رشتوں کو مس کرتی تھی۔۔۔۔ کبھی کبھی اپنے گھر کی گلی تک یاد آتی اور نکڑ پہ بیٹھا کتا بھی یادوں میں در آتا ۔۔۔۔۔ہم لوگ اول تو کہیں باہر جانے کے لئے بڑے پرجوش ہوتے ہیں لیکن جب چلے جاتے ہیں تو وطن کی چھوٹی چھوٹی سی بات بھی یاد آتی ہے۔۔۔۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔۔۔لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ انسان نئے ماحول میں رچ بس جاتا ہے۔۔۔۔


وہاں پہ مختلف صوبوں اور علاقوں کے پاکستانی فیملیز سے بھی رابطے رہے  انکے رسوم و رواج دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ۔۔۔پاکستانی فیملیز میں پنجابی بھی تھے اور سندھی بھی ۔۔۔اہل زباں بھی تھے اور پشتون بھی۔۔۔سرائیکی بھی تھے اور ہوٹھوہاری بھی۔۔۔۔کشمیری بھی تھے اور بلوچی بھی۔۔۔۔غرض اپنی پاکستانی معاشرت اور رسوم و رواج سے بھی آشنائی ہوئی اور دیگر اقوام کے لوگوں سے بھی۔۔۔انڈینز میں انڈین مسلم سے زیادہ قربت رہی۔۔۔سکھ اور ہندو فیملیز بھی دوستوں میں شامل رہیں۔۔۔ہمارے قریبی پڑوسی راجستھانی مسلم اور نیکسٹ ڈور نیبر کوکنی مسلم تھے ۔۔۔انکی زبان ۔۔معاشرت۔۔رسوم و رواج کو بہت قریب سے دیکھا بھی اور بہت خوبصورت پایا بھی۔۔۔انکے رسوم و رواج اور تہوار بہت دلچسپ ہوتے تھے۔۔۔زبان بھی مختلف لیکن محبت کی چاشنی لئیے۔۔۔۔ ہندواور سکھ خاندانوں سے بھی دوستیاں تھیں۔۔۔وہ ہماری دعوتوں میں آتے اور ہم بھی اکثر انکی دعوتیں اٹینڈ کرتے۔۔۔ 

اسی طرح ایرانی۔۔۔فلسطینی۔۔مصری۔۔بیروتی۔۔۔سوڈانی۔۔۔شامی اور گورے بھی شامل تھے۔۔۔ فلسطینوں کی خوبصورتی تو ضرب المثل ہے۔۔۔میں نے اپنی زندگی میں فلسطینیوں سے خوبصورت لوگ نہیں دیکھے۔۔۔ایسے دلکش اور تیکھے نقوش کہ واللہ۔۔۔ اسی طرح مصریوں کی محنت ۔۔ سوڈانیوں کی جانفشانی اور ایمانداری کمال رہی۔۔۔۔عرب پڑھے لکھے اور ترقی پسند پائے ۔۔۔۔ ان سب سے زندگی میں بہت کچھ سیکھنے کا بھی موقع ملا۔۔۔۔ پردیس میں یہی لوگ رشتے دار بھی ہوتے ہیں اور دوست بھی۔۔۔


 پاکستانی فیملیز سےبہت قربت رہی ۔۔جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ والدین بہت پرخلوص ہیں تو بیشتر تو انکے بیٹے بیٹیاں بنے ہوئے تھے۔۔۔ جتنا عرصہ والدین ہم بچوں کے بغیر رہے ان ہی بیٹے بیٹیوں کی محبتوں اور خدمتوں سے فیضیاب ہوتے رہے۔۔ بہت خوبصورت اور پرخلوص دور تھا۔۔۔لوگ ایکدوسرے سے بے ریا اور بے غرضی سے ملتے ۔۔۔۔ ایکدوسرے کے کام آتے ۔۔۔ ایکدوسرے کا سہارا بنتے کیونکہ کیونکہ پردیس میں اپنے دیسی بہن بھائی ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔۔۔۔ ایک خاص انس ہوتا ہے ان سے۔۔۔۔ ابھی بھی اتنے برس گزر جانے کے بعد جب اس دور کے لوگ ملتے ہیں تو ایک قلبی خوشی ملتی ہے۔۔۔ہمارے والدین سے ابھی بھی بہت سے اُسوقت کے لوگ رابطے میں ہیں۔۔۔ اسوقت جو بچے تھے وہ آج کے بڑے ہیں جو جوان تھے ادھیڑ عمر ہیں اور جو ادھیڑ عمر تھے آج بزرگ ہیں۔۔۔۔ یہی زندگی ہے۔۔یہی سلسہ ابد تا ازل چلتا رہتا ہے۔۔۔۔ لیکن پیارے لوگ اور پیاری یادیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔۔۔ان لوگوں کیساتھ انکے تہواروں۔۔انکی خوشیوں اور مسرتوں میں شریک ہونا اور انکے دکھ بانٹنا ایک بہت اپنائیت بھرا عمل رہا۔۔۔ خوبصورت وقت کی خوبصورت یادوں کیساتھ اجازت چاہوں گی۔۔۔۔

بقیہ تفصیل  اگلی اقساط میں ۔۔۔

#میراپہلاسفرقسط4


پچھلی اقساط میں بات ہوئی قطر جانے کی۔۔۔راستے کے سفر کی روئیداد۔۔۔ دخان کے متعلق معلومات۔۔۔اورپھر وہاں کے طرز معاشرت کا ذکر۔۔۔

آج کچھ ذکر کروں گی دوحہ جو کہ قطر کا دارالحکومت اور بڑا شہر ہے ۔۔۔۔ویسے تو ہماری رہائش دخان میں تھی لیکن ویک اینڈ پہ جمعرات جمعے کو دوحہ چکر لازمی لگتا۔۔۔((جمعرات جمعہ چھٹی ہوتی ہے عرب میں ))شاپنگ مالز بھی وہیں پہ تھے اور رسٹورانٹس بھی۔۔۔۔لہذا شاپنگ بھی ہوتی اور دنیا جہاں کے مختلف ذائقےبھی آزمائے جاتے لیکن قرعہ فال زیادہ پاکستانی اور انڈین ریسٹورانٹس کے حق میں ہی نکلتا۔۔۔


اب دوحہ کی تھوڑی سی تفصیل بیان کرتی ہوں 


دوحہ مملکت قطر کا دارالحکومت ہے جو خلیج فارس کے ساحلوں پر واقع ہے۔  سات سے 12  لاکھ آبادی کیساتھ یہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور ملک کی 80 فیصد آبادی اسی شہر اور اس کے گرد و نواح میں رہائش پزیر ہے۔ یہ مملکت کا اقتصادی مرکز ہے۔


یہ شہر 1850 میں البدا کے نام سے قائم کیا گیا۔ 1883 میں شیخ قاسم نے مقامی قطریوں پرمشتمل ایک فوج کے ذریعے عثمانیوں کے خلاف فتح حاصل کی۔ 1916 میں اسے برطانیہ کے زیر سرپرستی قطر کا دار الحکومت قرار دیا گیا اور جب 191 میں ملک نے آزادی حاصل کی تب اسے قومی دار الحکومت برقرار رکھا گیا۔ 1917 میں شیخ عبداللہ قاسم ثانی  نے شہر کے مرکز میں قلعہ القوت تعمیر کرایا۔ 1949 میں قطر میں تیل کی تلاش کا آغاز ہوا۔ آج یہ ملک کل 8 لاکھ بیرل روزانہ تیل پیدا کرتا ہے۔ 1969 میں گورنمنٹ ہاؤس کا قیام عمل میں آیا جسے آج قطر کی سب سے اہم عمارت سمجھا جاتا ہے۔ 1973 میں جامعہ قطر اور 1975 میں قطر قومی عجائب گھر قائم کیا گیا، جو دراصل 1913 میں حاکم کا محل تھا۔ معروف عربی خبری ٹیلی وژن چینل الجزیرہ نے 1996 میں اپنی نشریات کا آغاز کیا، اس کے صدر دفاتر اور نشریاتی مراکز دوحہ ہی میں واقع ہیں۔


دوحہ کی آبادی کی خصوصیات تبدیل ہوتی رہتی ہیں کیونکہ شہر کی اکثریت غیر ملکی تارکین وطن پر مشتمل ہے اور قطری باشندے اقلیت میں ہیں۔ قطر کی آبادی کا بیشتر حصہ جنوب ایشیائی باشندوں پر مشتمل ہے، جبکہ بیشتر عرب ممالک اور مشرقی ایشیا سے رہنے والے بھی بڑی تعداد میں یہاں رہتے ہیں۔ دوحہ میں امریکا، جنوبی افریقا، برطانیہ، ناروے اور دیگر مغربی ممالک کے باشندے بھی رہائش پزیر ہیں۔ ماضی میں تارکین وطن قطر میں ملکیت رکھنے کی اجازت نہیں رکھتے تھے لیکن اب غیر قطری باشندے دوحہ کے متعدد علاقوں میں جائداد خرید سکتے ہیں۔


قطر کی بیشتر تیل و قدرتی گیس کی تنصیبات دوحہ میں واقع ہے۔ ملکی اقتصادی سرگرمیوں کے اس مرکز میں ملک کے بڑے تیل و گیس نکالنے والے اداروں کے صدر دفاتر ہیں جن میں قطر پٹرولیم، قطر گیس اور راس گیس شامل ہیں۔ دوحہ کی معیشت تیل و قدرتی گیس کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی بنیادوں پر کھڑی ہے اور قطری حکومت تیل پر اس انحصار کو کم کرنے کے لیے ملکی معیشت میں تیزی سے تنوع لا رہی ہے۔ نتیجتاً شہر بہت تیزی سے ترقی پا رہا ہے جو درا صل حاکم قطر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کے جدیدیت کے منصوبے کا حصہ ہے۔ متحدہ عرب امارات کے قریبی شہر دبئی کی طرح دوحہ کی معیشت بھی تیزی سے تیل و قدرتی گیس پر انحصار کم کرتی جا رہی ہے لیکن دبئی کی طرح اس کی بنیادی توجہ سیاحت پر مرکوز نہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کے باعث شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور 2004ء سے 2006ء کے درمیان شہر کی آبادی میں 60 ہزار افراد کا اضافہ ہوا؛ نتیجتاً جائداد و تعمیرات کے شعبے میں زبردست ترقی ہوئی اور جائداد کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ گئی ہیں۔ جنوری 2007ء میں برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق دوحہ جائداد کی قیمتوں کے حوالے سے دبئی سے بھی مہنگا شہر ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث دوحہ کے شمال میں ایک نیا شہر آباد کرنے کا منصوبہ ہے جہاں 2 لاکھ افراد رہائش پزیر ہوں گے۔ تجارتی و کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے باعث دوحہ میں جدید تعمیرات میں بھی اضافہ ہوا ہے او رشہر بلند و بالا عمارات کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔


دوحہ میں جامعہ قطر واقع ہے جو 1973ء میں قائم ہوئی جبکہ اس کے علاوہ دوحہ کے شہر تعلیم (ایجوکیشن سٹی) میں متعدد جامعات بھی واقع ہیں۔ شہر تعلیم میں دنیا کی کئی معروف جامعات کی شاخیں واقع ہیں جن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی، ویل میڈیکل کالج آف کارنیل یونیورسٹی، ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی، ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی اور کارنیگی میلون یونیورسٹی بھی شامل ہیں۔ دوحہ میں کئی بین الاقوامی مدارس (اسکول) بھی واقع ہیں جو تارکین وطن کے لیے ہیں۔



دوحہ ایک گرم صحرائی علاقہ ہے جہاں گرمیوں کا موسم سردیوں کی نسبت زیادہ لمبا ہوتا ہے۔ گرمیوں میں بعض اوقات درجہ حرارت 47 ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔


دوحہ میں متعدد کھیلوں کے میدان واقع ہیں جن میں سے بیشتر 15 ویں ایشیائی کھیلوں کے لیے تعمیر نو کی مراحل سے گزرے جو دسمبر 2006ء میں منعقد ہوئے۔ فٹبال قطریوں کا پسندیدہ ترین  کھیل ہے۔۔۔


سوق نابینا۔۔۔۔الفتح ۔۔۔۔  سٹی سنٹر اور السلام سنٹر اسکے اسوقت کے بڑے بڑے مال تھے۔۔۔اب جدید دوحہ میں مالزبہت زیادہ بن گئے ہیں۔۔۔جنمیں دارالسلام مال۔۔۔گلف مال ۔۔لگونہ مال۔۔سٹی سنٹر۔۔۔دوحہ فیسٹول سٹی اور مال آف قطر وغیرہ بہت مشہور ہیں۔۔۔ 

اگلی اقساط میں ذکر ہوگادوحہ کے شاپنگ مالز سے کی گئی شاپنگ کا اور وہاں کے مزیدار کھانوں کا۔۔۔۔ اور خوبصورت بیچ کارنش کا ۔۔۔۔


میراپہلاسفر_قسط5


گذشتہ سے پیوستہ


جیسا کہ میں نے پچھلی قسط میں بتایا کہ بڑے بڑے شاپنگ مالز دوحہ میں تھے جبکہ دخان میں صرف بنیادی ضروریات زندگی سٹورز پہ دستیاب تھیں۔۔۔۔ لہذا ہر ویک اینڈ پہ دخان سے سفر کر کے دوحہ جاتے ۔۔۔بعض اوقات والد صاحب کے کچھ دوستوں کی طرف سے دعوت ہوتی۔۔۔۔پکنک ہوتی یا پھر صرف شاپنگ۔۔۔

اکثر راستے میں مالاباری پراٹھے آملیٹ اور فریش جوس سے محظوظ ہوتے اور کبھی دوحہ میں پاکستانی یا انڈین ریسٹورنٹس سے مذیدار اور تیکھا کھانا کھاتے۔۔۔اسوقت لبنانی کھانے وغیرہ زیافہ عام نہیں تھے۔۔۔یا شاید ہمیں کبھی اتفاق نہیں ہوا۔۔۔

بات ہو رہی تھی شاپنگ کی ۔۔باقاعدہ پلان بنا کے جایا جاتا کہ کیا شاپنگ کرنی ہےاور کون کون سے مالزسے کرنی ہے۔۔۔بعض اوقات پاکستان سے فرمائشیں بھی ہوتیں اور بعض اوقات ہم پاکستان جانے کی تیاری کرتے ۔۔تو تحفے تحائف لیکر جاتے۔۔۔اسوقت تحفوں کا بہت رواج ہوتا تھا ۔۔۔اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔۔۔۔ یہ ایک خوبصورت رواج تھا جو اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔۔۔شاپنگ مختلف قسم کی ہوتی۔۔۔۔جسمیں کپڑے بھی شامل ہوتے ۔۔۔کاسمیٹکس بھی۔۔۔الیکڑک اپلائنسز بھی اور بعض اوقات کراکری وغیرہ بھی۔۔۔۔  اسوقت بہت سی چیزیں گھر کے لئے شوق سے خریدی جاتیں لیکن گھر جا کر  وہ چیزیں غائب ہو جاتیں۔۔۔۔بہت بعد میں پتہ چلا کہ وہ جہیز فنڈ کی نذر ہوجاتی تھیں۔۔۔۔آج بھی گھر میں استعمال ہونیوالی بیشتر اشیاءقطر سے خریدی گئی تھیں۔۔۔۔والدین کتنی قربانیاں دیتے ہیں اپنے بچوں کے لئے ۔۔۔اپنی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خواہش کو بچوں کی خواہشات پہ حاوی نہیں ہونے دیتے۔۔۔انکی ہر خوشی اپنے بچوں کی خوشی سے مشروط ہے۔۔۔۔ لیکن افسوس بچے یہ نہیں سمجھتے اور جب سمجھتے ہیں تو بہت سا وقت  پلوں کے نیچے سےبہتے پانی کی مانند گزر چکا ہوتا ہے ۔۔۔ والدین انکے اس بات کو سمجھنے تک یا تو دنیا سے کنارہ کر چکے ہوتے ہیں یا انکی خواہشات ہی دم توڑ چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔  والدین جیسی ہستی نہ کوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔ لہذا اپنے والدین کی قدر کیجئے اور جتنا انکا خیال کر سکتے ہیں۔۔۔ کیجئےکیونکہ بعد میں پچھتاوں کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آتا۔۔۔۔۔مجھے آج بھی اپنے والدین کے چہروں کی وہ خوشی اور شادمانی یاد ہے جب وہ ہماری خوشی میں خوش ہوتےاور ہماری کامیابی پہ خوشی سے پھولے نہ سماتے۔۔۔

 رب رحمٙھُماکٙما ربیٰنی صغیراً۔۔۔اے میرے رب ان دونوں پر ویسے ہی رحم فرما جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کرتے ہوئے کیا ۔۔۔آمین .... اللہ کریم ہم سب کےوالدین کا حامی و ناصر ہو اور جو حیات نہیں انکی مغفرت فرمائے آمین۔۔۔۔

اب زرا ذکر کرتی ہوں قطر کے کچھ پکنک پوائنٹس کی ۔۔۔ان میں کارنش بیچ ۔۔۔۔سوق واقف۔۔۔۔ام سعید ۔۔۔۔قطر میوزیم۔۔۔۔پرل آئرلینڈ۔۔۔۔ بیچز۔۔۔۔ایکوا پارک بہت مشہور ہیں ۔۔۔۔ان میں زیادہ پکنک پوائنٹس جدید دور کے اور جدت پر مبنی ہیں۔۔۔جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں جو ہیں تو پہلے کے لیکن ان میں دورحاضر کے مطابق جدت پیدا کی گئی ہے۔۔


کارنش بیچ قطر کے خوبصورت دارالحکومت دوحہ کا دل ہے۔۔۔۔شہرکے بیچوں بیچ حسیں و زمردیں سمندرموجود ہے جسکے کنارے کارنش بیچ کی شکل میں ایک حسین ساحل ہےبلکہ دیکھا جائے تو یہ ایک خلیج ہے جسکے گرد بڑی خوبصورتی سے یہ شہر بسایا گیا ہے ۔۔۔اسکی لمبائی تقریبا ً 5 سے 7 کلومیٹر ہے۔۔۔اسکا بے پناہ حسن سیاحوں اور رہائشیوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔۔۔۔ جمعے کی رات یہاں ایک عجب ہی سماں ہوتا ہے سیاحوں کے ساتھ ساتھ مقامی باشندے بھی ویک اینڈ انجوائےکرنے یہاں موجود ہوتے ہیں۔ دنیا بھر سے ہر قسم کے لوگ اور کلچر یہاں دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔کارنش بیچ پہ واکنگ ٹریکس بھی بنے ہیں اور گرین بیلٹس بھی جو اسکے حسن میں چار چاند لگاتے ہیں۔تمام مشہور عمارات اسکے اردگرد ہی واقع ہیں۔۔۔۔ سیاح یہاں فیری کی ride سے محظوظ ہوتے ہیں۔۔اسکے علاوہ یہاں جیٹ سکائی رائڈ سے بھی سیاح لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔۔۔سی فوڈ بھی دستیاب ہے۔۔۔۔اسکے ساتھ ہی جیٹی ہے جہاں پہ وافر مقدار میں تازہ سی فوڈ دستیاب ہوتا ہے۔۔۔۔طلوع آفتاب۔۔غروب آفتاب اور رات کی روشنیوں میں یہ بیچ ایک الگ ہی طلسماتی دنیا کا منظر پیش کرتی ہے۔۔۔۔۔


ہم اکثر شام میں سورج کو یہاں ڈوبتے دیکھتے تھے ساتھ چائے کافی اور دیگر لوازمات سے لطف اندوز ہوتے تھے۔۔۔۔ اسوقت یہ اتنا زیادہ ڈویلپ  نہیں تھا لیکن تب بھی اسکا شمار دنیا کی بہترین اور خوبصورت بیچز میں ہوتا تھا.۔۔۔میری یہ پسندیدہ جگہ تھی اب بھی کبھی موقع ملا تو میں کارنش بیچ تو ضرور ہی جانا چاہوں گی۔۔۔۔

آج کے لئے اتنا ہی ۔۔۔اگلی قسط میں دیگر پکنک پوائنٹس کا ذکر کرونگی۔۔۔


انشاءاللہ


   میرا پہلاسفر_قسط6

آج کچھ ایسے مقامات کا ذکر کرونگی جو خاصے مشہور ہیں اور سیاح بہت دلچسپی سے انکی سیر کرتے ہیں۔۔۔قطر میوزیم اور اس سے ملحقہ پارک ۔۔۔

نیشنل  میوزیم آف قطر۔


یہ میوزیم منسٹری آف کلچر کے تحت اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔۔۔۔ نوے کی دہائی میں یہ ایک سادہ سی عمارت پر مشتمل تھا لیکن 2019 میں اسکو بلکل نئی صورت عطا کی گئی اور پبلک کے لئے کھول دیا گیا۔۔۔ یہ میوزیم ایک مشہور بین الاقوامی شہرت یافتہ آرکٹیکٹ کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔۔ اسکا ڈیزائن ایک صحرائی پھول کی طرزپر بنایا گیا ہے۔۔۔پرانی عمارت ابھی بھی موجود ہے ۔۔۔ قدیم اور جدید عمارات کو ایک درمیانی پل کے ذریعے ملایا گیا ہے ۔۔۔یہ میوزیم دنیا بھرمیں اسلامک آرٹ  کا بہترین نمونہ ہے۔۔۔ اسمیں نا صرف قدیم تہذیب و ثقافت کو محفوظ کیا گیا ہے بلکہ یی جدید علوم و فنون کی بھی آماجگاہ ہے۔۔۔ یہیں پر قطر اولمپک اینڈ سپورٹس کمپلیکس بھی موجود ہے ۔۔۔اسکے علاوہ جدید آرٹ جیسے فن مصوری۔۔۔تصویر نگاری اور دیگر جدید فنون کے لئے بھی یہیں ایک الگ حصہ موجود ہے جہاں پر بین الاقوامی مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔۔۔


کیوایم اے گیلری 

یہ گیلری نمائشی مقاصد کے لئے  موجود ہے جو کہ قطارہ کے ثقافتی گاوُں کے نام سے مشہور ہے۔۔۔۔یہاں پر ناصرف ملکی مصوروں بلکہ بین الاقوامی مصوروں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔۔۔۔


ال وراق دوحہ ایگزیبیشن سپیس

 بھی موزیم آف اسلامک آرٹ کا حصہ ہے ۔۔۔جسکا افتتاح 2010میں کیا گیا تھا ۔۔۔یہ دنیا بھر کے آرٹسٹوں کو ثقافت کے فروغ کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے اسکے علاوہ دیگرآرکیالوجیکل اور آرکیٹیکچرل  پراجیکٹس بھی اس میوزیم کا حصہ ہیں ۔۔۔جوثقافتی پہلو لئے ہوئے پورے قطر میں پھیلے ہیں۔۔۔اسکے علاوہ یہاں جدید و قدیم کتب پر مبنی لائیبریری ۔۔۔کیفے اورروایتی  گفٹ شاپس پر مشتمل خوبصورت شاپس موجود ہیں۔۔۔میا پارک یہاں کا ایک خوبصورت اور منفرد پارک ہے۔۔۔جہاں آپ ناصرف چہل قدمی کر سکتے ہیں بلکہ خوبصورت ماحول سے محظوظ بھی ہوسکتے ہیں اسکے علاوہ یہاں کے مزیدارکھانوں سے  بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔۔۔۔


مطعف عرب میوزیم 


کل اور آج کے یعنی بیسویں اور اکیسویں صدی کےعرب کلچر کے قدیم و جدید آرٹ و فنون کا حسیں امتزاج ہے ۔۔۔یہ 2010 میں قائم ہوا ۔۔۔


ال زبرہ یونیسکو ورلڈ ہیرٹج سائٹ


 جو کہ دوحہ سے 100کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے جو کہ کلچر ۔۔آرٹ اور ثقافتی ورثے کی امین ہے۔۔۔ یہ دنیا کےچند بڑے کلچرل سائٹس میں شمار ہوتا ہے ۔۔۔یہاں ناصرف اسلامک آرکیالوجی پر ریسرچ ہو رہی ہے بلکہ تاریخ ، بشریات اور ماحولیات پر بھی ریسرچز   ہو رہی ہیں ۔۔۔۔


پبلک آرٹ قطر 


کے نام سے بھی ایک ًیپارٹمنٹ اسی میوزیم کے تحت ہے جو نوجوان آرٹسٹس کو سہولیات فراہم کرتا ہے ۔۔قطر میوزیم کا کام ایک عجائب گھر سے بہت بڑھ کر ہے وہاں نا صرف تاریخی و ثقافتی ورثے کو محفوظ کیا گیا ہے بلکہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور انکو ریاست کیطرف سے سہولیات فراہم کرنے کا کام بھی یہی میوزیم انجام دے رہا ہے۔۔۔۔ اسی نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے قطر میوزیم کے تحت بہت سے پراجیکٹس اور کلچرل ڈپلومیسی پروگرامز دیگر ممالک کیساتھ کئے گئے جنمیں جاپان۔۔۔یونائیٹڈ کنگ ڈم  اور برازیل شامل ہیں۔۔۔۔


قطر کے بارے میں یہ تمام معلومات فراہم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ چند برس پہلے جب میرا آنا جان ہوتا تھا تب قطر اتنا زیادہ developed نہیں تھا لیکن اب جب مجھے اپنے چند رشتہ داروں اور دوستوں سے پتہ چلتا ہے کہ آج قطر ترقی کی دوڑ میں بہت آگے ہے تو اچھا لگتا ہے کہ وسائل تو انکے پاس بہت پہلےسے موجود تھے لیکن جب انہوں نے اپنے نوجوانوں پر invest کیا تو آج نتیجہ ایک ترقی یافتہ ملک کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے۔۔۔۔ 


سوچنا یہ ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کیا دےرہے ہیں۔۔۔۔کیا ہم  انکو کوئی سہولیات دے رہے ہیں یا صرف جیالے۔۔۔ٹائیگرز اور شیروں کا خطاب دے رہے ہیں۔۔۔۔سوچئے گا ضرور ۔۔

میرا پہلا سفر _آخری قسط

گذشتہ سے پیوستہ 

ابھی تک آپ نے جانا کہ میرے اس سفر کا مقصد کیا تھا۔۔۔کس عمر میں کیا اورسفر کے کیا تجربات رہے ۔۔۔اب بات کرونگی اپنے قطر کے آخری سفر کی ۔۔۔۔ کسی شخص کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کونسا اسکا آخری سفر ہے اور کونسا نہیں۔۔۔ میں بھی  ء92 میں فروری یا مارچ کے مہینےمیں  جب گئی تویہ نہیں معلوم تھا کہ یہ میراآخری سفر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔۔خیر میں تو روٹین میں گئی والدین کیساتھ خوبصورت وقت گزرا۔۔۔اس مرتبہ پلاننگ کچھ یوں تھی کہ قطر سے بائی روڈ عمرے پہ جائینگے تو جاتے وقت میرا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔۔۔۔میں پاکستان سے جو کپڑے بھی لائی وہ بڑے بڑے دوپٹوں والے اورعمرے کی مناسبت سے تھے ۔۔۔اسوقت تک عبایا لازم نہیں ہوا تھا۔۔۔ میں پاکستان سےبھی سب سے مبارکبادیں وصول کرتی آئی کہ عمرے کی سعادت نصیب ہو گی لیکن انسان سوچتا کیاہے اور ہوتا کیا ہے۔۔۔۔ میں انتہائی جوش جذبے کے عالم میں گئی کیونکہ مجھے یہی معلوم تھا کہ بہت سے پاکستانی فیملیز ملکر سفر کرینگی تو ظاہر ہے بہت ہی خوشی کی بات تھی لیکن میرے ارمانوں پر اسوقت اوس پڑ گئی جب مجھے جا کر پتہ چلاکہ میری چھوٹی بہن کے فائنل ایگزام ایک ماہ بعد ہیں۔۔۔۔ مجھے بہت صدمہ ہوا۔۔۔ میں نے ہر ممکن گھر والوں کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن بےسود انکا جواب کہ چلو اگلے سال کر لیں گے۔۔۔۔ اسوقت محرم کی شرائط کا بھی زیادہ علم نہیں تھا تو میں نے کہا مجھے فلاں آنٹی انکل اور انکی فیملی کیساتھ بھیج دیں انکی بیٹیاں میری ہم عمر بھی تھیں۔۔۔۔لیکن جب محرم کی شرائط بتاِئی گئیں تو میں افسردہ ہو کر بیٹھ گئی اور ہر وقت بہن کو جلی کٹی سناتی کہ تمھاری وجہ سے میں عمرے کی سعادت سے محروم ہو گئی ۔۔۔۔ بہرحال وقت کا کام گزرنا ہے گزرتا گیا۔۔۔اس مرتبہ ہماری واپسی پرمیرے سب سے چھوٹے چچا جان کی شادی ہونی تھی تو اسکے لئے ہم شاپنگ میں مصروف ہو گئے ۔۔۔یوں وقتی طور پہ عمرے والا صدمہ تھوڑا کم ہوا ۔۔۔ بڑے بڑے مالز کی چمک دمک انسان کو دنیا کی طرف راغب کرتی ہے تو یہی ہوا۔۔۔۔ مجھے اور والدہ صاحبہ کو پہلے آنا تھا اور بہن اور والد صاحب کو کچھ عرصے بعد۔۔۔ جب میں واپس آ رہی تھی تو دوحہ ائیر پورٹ پہ بیٹھی لوگوں کو ابزرو کرتی رہی ۔۔۔وہاں کم وبیش دنیا کے ہر ملک کے لوگ موجود تھے ۔۔۔۔میری ایک ڈائری جو ہر وقت میرے ساتھ ہوتی تھی( اب بھی میرے پاس موجود ہے)اسے کھولا اور اپنے مشاہدات کو زبان دینے لگی۔۔۔ لکھنے کی عادت تب سے ہے بلکہ اسوقت سے شاید جب لکھنا سیکھا۔۔۔۔ لہذا اپنے تجربات کو قلم کیا ۔۔۔یہ میری ڈائری کے مطابق 27 مئی 92 کا ذکر ہے۔۔۔ڈائری کا وہ صفحہ تصاویر میں شئیر کرونگی۔۔۔ بڑے دلچسپ انداز میں لکھا تھا۔۔۔ 

بہرحال اسوقت بھی ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ یہ قطر کا آخری سفر ہے۔۔۔۔ سوچ بھی نہیں تھی ورنہ وہ چیزیں اس بار نہ چھوڑتی جو اگلی شاپنگ کے ارادےپہ چھوڑ کے آئی ۔۔۔ خیر پاکستان آمد ہوئی ۔۔۔ چچا جان کی شادی کے فنکشن خوب جوش و خروش سے اٹینڈکئے ۔۔۔تھرڈائیر میں ایڈمیشن بھی لینا تھا۔۔۔ ستمبر میں کلاسز شروع ہونی تھیں۔۔۔.  لیکن ایڈمیشن دھرے کا دھرا رہ گیا اور چٹ منگنی پٹ بیاہ والی صورتحال پیش آئی۔۔۔۔ تین ماہ کے اندر اندر رشتہ بھی ہوا ۔۔ منگنی بھی اور شادی بھی ۔۔۔۔یوں  قطر کا یہ آخری سفر ثابت ہوا۔۔۔۔ شادی کے بعد والدین نے بہت اصرار کیا لیکن نوکری کے مسائل کیوجہ سے صاحب کا جانا ممکن نہ ہوا تو میں بھی نہ جاسکی۔۔۔۔ بہرحال قطر سے محبت اور انسیت برقرار ہے۔۔۔۔ ابھی بھی وہاں پہ بہت سے عزیز اور دوست رہائش پذیر ہیں ۔۔میں اکثر اپنے والدین سے کہتی ہوں کہ ایک چکر قطر کا ضرور لگاتے ہیں لیکن ظاہر ہے انکی صحتیں اور عمر اب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ۔۔۔ 

2017 میں جب ہم انگلینڈ جا رہے تھے تو قطر ائیر پورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔۔۔۔ اب تو بہت خوبصورت بن گیا ہے۔۔۔۔ وقت کم تھا نہیں تو میری خالہ وہاں مقیم تھیں میں انکے پاس ضرور جاتی۔۔۔ بہرحال زندگی رہی تو کبھی نہ کبھی دوبارہ  جانے کا موقع مل جائیگا۔۔۔ 

قطر کا سفر میری چندخوبصورت یادوں میں سے ہے اور خوبصورت یادیں یقیناً سرمایہ ہوتی ہیں ۔۔۔امید ہے آپ لوگ بھی میری ان یادوں سے محظوظ ہوئے ہونگے۔

تحریر آمنہ سردار۔۔

Sunday, October 4, 2020

ہم کس سمت جا رہے ہیں؟



آج کا دورنفسا نفسی اور افراتفری کا دور ہے۔ ہر شخص اپنی دھن میں، اپنی ہی راہ پہ چلا جا رہا ہے یہ دیکھے بغیر کہ کیا وہ راہ اسکے لئے درست ہے بھی یا نہیں۔ سب خواہش نفسی کے پیروکار ہیں۔ ہر شخص نے اپنی خواہشات کو الہ بنا رکھا ہے اور اسی کی پوجا پاٹ میں لگا ہے۔ "ھل من  مذید" کی چاہ کبھی اسکا منہ نہیں بند کر سکتی۔ خودغرضی اور خواہش نفس کی پیروی اسکا وطیرہ بن گیا ہے۔ 'من حیث القوم 'ہم ایک دوسرے سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ کوئی غلط کام کرتا نظر آئے تو اسکو بجائے ٹوکنے کے، اسکی تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ اسکو اس کام کے نقصان یا مضمرات سے بچائیں بلکہ اسکی مذید تشہیر کرتے ہیں جو انتہائی نازیبا حرکت ہے۔

ہمارا دین ہمیں یعنی  ہر مسلمان کو "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر "کی تاکید کرتا ہے۔یعنی  کہ ہم بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں لیکن ہم کہاں ایسا کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی کو کسی کام کے کرنے سے روکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ آپ لوگوں کی تنقید برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں ۔گالی گلوچ، مارپیٹ، بات بات پہ چاقو اور گولیوں کا چل جانا ۔ یہ سب کیا ہے؟_یہ صبر و تحمل اور برداشت کی کمی ہے۔ ہم ان اوصاف سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ معاشرہ انتشار کا شکار ہے۔  

اگر آپ کسی کو بھلائی کا حکم دینے کا ارادہ کریں تو اگلا بندہ کہتا ہے' اپنی راہ پکڑو' وہ بلکل پروا نہیں کرتا کہ اسے بھلائی کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح آپ کسی کو کوئی برا کام کرنے سے منع کریں تو وہ دھمکیوں اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔

پہلے پہل معاشرہ اسی لئے آج سے بہتر تھا کہ اسوقت مروت، تحمل برداشت جیسے اوصاف لوگوں میں موجود ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کا ادب ، احترام کیا جاتا تھا ۔بڑوں کی نصیحتوں اورمثالوں سے راہنمائی لی جاتی تھی۔ لیکن آج کے دور میں  ہر کوئی اپنے آپ کو طُرم خان سمجھتا ہے۔اپنی عقل پہ بھروسہ کرتا ہے۔ کسی دوسرے کی نصیحت کو قابل اعتنا نہیں جانتا۔ 

راہ چلتے اگر آپ کسی کو کوڑا سڑک پر پھینکتے دیکھتے ہیں تو فرض اولین کے طور پر اسے روکنا چاہئیے۔نہ کہ لاپرواہی برت کر اپنی راہ پہ ہو جائیں۔ 

دراصل اس میں اہم کردار ہماری تربیت کا بھی ہوتا ہے۔ اگر میری تربیت اس نہج پر ہوئی ہے کہ میں معاشرے میں توازن کے لئے بھلائ کا پرچار کروں اور منکر یا غلط کاموں سے روکوں تو مجھےضرور روکنا چاہئے کیونکہ یہ میرے کردار کا حصہ ہے۔

تربیت والدین اور اساتذہ کرتے ہیں۔ آجکا استاد بھی صرف تعلیم تو دیتا ہے لیکن تربیت پر اسکا کوئی دھیان نہیں ہوتا۔ وہ طلباء کو دنیا کے علوم سکھاتا ہے ایک نہیں سکھاتا تو تہذیب۔ 

اوپر سے ہمارا سیاسی کلچر ایسا ہو گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی leg pulling میں ethics یعنی اخلاقیات کا خیال نہیں رکھتے۔ کسی  قسم   کی لغو زبان استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ سوچے بغیر کہ ہمارے پڑھنے والوں پر اسکا کیا اثر پڑے گا۔ ہم اپنی بڑائی منوانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ نفسی برائیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ جھوٹ، بہتان بازی، الزام تراشی اور غیبت جیسے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہم لطیف طنز اور ہلکے پھلکے مزاح میں بھی بات کو اڑا سکتے ہیں بجائے اسکے کہ دونوں طرف سے توپوں کا دہانہ کھول دیا جائے۔ 

برداشت کا مادہ ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے اندر پیدا کرنا ہو گا۔ ایک برداشت پیدا کرنے سے ہم بہت سی علتوں سے، غلط باتوں سے، بُرے رویوں سے بچ سکتے ہیں۔ یہی ہمارے دین کا بھی پیغام ہے اور ہمارے پیارے نبی ً کا بھی فرمان ہے۔غصہ پی جانامومن کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔۔لیکن غصہ اور عدم برداشت معاشرے میں فساد پیدا کرنے والی چیزیں ہیں۔ ان سے بچ  کر ہی رہنا  چاہئیے۔ 

ہر حال میں اپنے کو پرسکون رکھنا، دوسروں کی ہرتلخ بات کا جواب تلخی سے دینے سے گریز کرنا ، بڑوں سے عزت و احترام کا معاملہ کرنا، چھوٹوں سے محبت و شفقت کا سلوک کرنا۔ یہ سب وہ اوصاف وہ خصوصیات  ہیں جواخلاقیات کا درس دیتی ہیں۔ مہذب قومیں اسی لئے کامیاب ہیں کہ وہ زندگی گزارنے کے ان بہترین اصولوں پر عمل درآمد کرتی ہیں۔

سوچئیے گا ضرور

آمنہ سردار


Tuesday, August 25, 2020

کراچی ہمارا بھی تو ہے

 

انسانی فطرت ہے کہ کبھی خوش ہوتا ہے اور کبھی اداس ،۔۔اسکی اداسی یا خوشی کے پیچھے کوئی نہ کوئی محرکات ضرور ہوتے ہیں۔۔۔کبھی ذاتی، کبھی اجتماعی اور کبھی انفرادی۔۔۔آج میرا دل بھی اداس ہے اسکے پیچھے وجہ ذاتی و انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔۔۔۔سوشل میڈیا پہ کراچی کی موجودہ صورتحال دیکھکر دل افسردہ اور آزردہ ہو گیا۔۔۔۔کراچی کی حالیہ بارشوں کے نتیجے  میں بہت زیادہ حالات خراب ہوئے ۔۔۔خاص کر ان علاقوں کے جہاں پہلے سے ہی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم طبقات رہائش پذیر ہیں۔۔۔کراچی کی پانی میں ڈوبی تصاویر اور وڈیوز دیکھکر دل خون کے آنسو رونے لگا ۔۔۔۔ لیکن تکلیف کی شدت میں اضافہ اسوقت ہوا جب کراچی والوں کی بےبسی اور کسمپرسی پر مزاحیہ وڈیوز بمع انڈین گانوں کے سوشل میڈیا پہ اپلوڈ ہوئیں۔۔۔۔یقین جانئے سمجھ نہیں پائی کہ یہ انسانوں کی کون سی قسم ہے جو اس حد تک بھی جا سکتی ہے۔۔۔۔ کیا ہم اتنے بےحس ۔۔اتنے بےضمیر اور اتنےاحساسات سے عاری ہو گئے ہیں کہ ہم لوگوں کا دکھ سمجھنے کی بجائے۔۔انکی مدد کرنے کی بجائے۔۔۔انکا حوصلہ بڑھانے کی بجائے انکی ہنسی  اڑا رہے ہیں۔۔انکو استہزا کا نشانہ بنارہے ہیں۔۔۔۔انپر مزاحیہ لطیفے اور وڈیوز بنا رہے ہیں۔۔۔۔ہم انسانیت کے کس درجے پہ ہیں؟؟؟؟؟۔

ارے ناسمجھو یہ وہی کراچی ہے جس نے ایک ماں کیطرح پوری قوم کو رنگ۔۔۔نسل۔۔۔زباں۔۔فرقے۔۔۔۔۔گروہ۔۔۔ثقافت۔۔مسلک۔۔ذات پات۔۔۔۔۔ہر چیز سے بالاتر ہوکر اپنی آغوش میں سمو رکھا ہے۔۔۔۔کیا کسی اورجگہ  آجتک ایسا دیکھنے کو ملا۔۔۔۔۔ چند ہزار لوگ کسی آفت کی وجہ سے ہجرت کرکے کسی دوسرے شہر جائیں تو واویلا مچا دیا جاتا ہے لیکن کراچی نے تو ہر جگہ کے۔۔۔ہر مذہب کے۔۔۔ہر دین کے۔۔۔۔ہر گروہ ۔۔۔۔ہر مسلک ۔۔۔۔ہر زبان۔۔۔ ہر رنگ کے شخص کو پناہ دے رکھی ہے۔۔۔۔۔کسی بھی قومیت یا ذات کا شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کراچی نے کہیں اسکے ساتھ بے انصافی برتی ہو۔۔۔۔۔ کراچی کا دامن تو اسکے وسیع سمندر کی مانند ہے۔۔۔۔۔کراچی نے تو ہمیشہ بے اماں کو اماں دی۔۔۔۔غیر کو اپنا بنایا۔۔۔۔حاجتمند کی حاجت روائی کی اور ہم کیا کرنے جا رہے ہیں اس پیارے شہر  اور اسکے باسیوں کیساتھ؟؟؟؟؟

خدارا اسوقت ان مجبور و بےبس لوگوں کیساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے جنکا گھر بار ۔۔سازو سامان ۔۔۔۔ ساری زندگی کی کمائی اس پانی کی نذر ہو گئی ۔۔۔وجہ کوئی بھی رہی ہونا یہ سیاست کا وقت ہے اور نہ ہی مذاق کابلکہ آگے بڑھ کے اپنے بےکس بہن بھائیوں کی مدد کرنے کا ہے۔۔۔۔اگر آپ مالی مدد نہیں کر سکتے تو اخلاقی مدد تو کیجئے ۔۔۔۔انکو تسلی کے بولوں کی ضرورت ہے۔۔۔انکے زخموں کو پھاہے کی ضرورت ہے اور ہم یہاں نمک ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں۔۔۔۔ میری التجا ہے ۔۔۔گزارش ہے ان تمام اصحاب سے جو اس سنجیدہ ترین مسئلے کو چٹکیوں میں اڑا رہے ہیں۔۔۔۔۔خدارا خوف کھائیے اس ذات سے۔۔ وہ کسی کو بھی کسی آفت یا
پریشانی میں مبتلا کر سکتا ہے۔۔۔۔

یاد کیجئے وہ وقت جب بالاکوٹ اور آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تھا تو کراچی ہی وہ پہلا شہر تھا جس نے سب سے آگے بڑھ کر مدد کی ۔۔۔۔ رضاکاروں کی ٹیمیں کراچی سے ان علاقوں میں آئیں۔۔۔۔ چاہے وہ تنظیموں کے رضاکار تھے ۔۔۔چینلز کے نمائندے تھے یا انفرادی حیثیت میں آئے تھے۔۔۔۔ وہی ہمارے ہمدرد و غمگسار بنے اور ہم کیا کر رہے ہیں انکے ساتھ۔۔۔۔. 

آج صبح جب ایک دوست کی پوسٹ پہ ایسا ہی ایک شکوہ پڑھا کہ ہمارے شہر  کے کسی ساتھی کی ایسی ہی مزاحیہ پوسٹ سے انکی دل آزاری ہوئی تو یقین جانئے سر ندامت سے جھک گیا۔۔فوراً اس پوسٹ پہ میں نے تاسف کا اظہار کیا اور معذرت طلب کی اور ابھی بھی کرتی ہوں۔۔۔

میں  اپنے کراچی کے ان مجبور بہن بھائیوں کے دکھ میں برابر کی شریک ہوں۔۔۔۔جنہوں نے اپنے گھر اور زندگی کی جمع پونجیاں گنوائیں۔۔۔بہت سی بستیاں بہہ گئیں۔۔۔کرنٹ لگنے اور تیز پانی کے ریلے میں بہنے سے ہلاکتیں ہوئیں۔۔۔۔۔گندے  نالوں کے زہریلے مواد سے لوگوں کی جانوں کو شدید ترین خطرہ ہے۔۔۔۔بہت سے وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔۔۔اللہ سے دعاگو ہوں کہ اپنا کرم کرے  ۔۔۔۔انکی جانوں میں برکت ڈالے اور مذید پریشانیوں سے محفوظ رکھے آمین۔۔۔۔آئیے یہی وقت ہے کراچی کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کا۔۔۔۔آگے بڑھئے اور اپنےبےیارومددگار بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیے ۔۔۔۔

#تحریر_آمنہ_سردار