Sunday, April 21, 2019

اقبال کا اقبال بلند ہو ۔۔۔۔۔Iqbal ka Iqbal Buland ho

اقبال کے لئے ہدیہُ عقیدت

اقبال نا صرف ایک عظیم شاعرومفکر تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ وہ شاعر قرآن تھے جنہوں نے نہایت عمدگی سے قرآن کریم کے پیغام کو اپنی شاعری میں ڈھالا اور اس پیغام کو گھر گھر پہنچا دیا۔ اقبال کی شاعری سے کون واقف نہیں۔ جیسے ہی ہم لکھنے پڑھنے لائق ہوتے ہیں تو پہلا شعر ہمیں انہی کا یاد کرایا جاتا ہے۔

*کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں *

اسکے بعد جوں جوں ہم اپنی عمر کی منازل طے کرتے جاتے ہیں اقبال کی شاعری بھی ہمیں ساتھ لئے چلتی ہے۔ لڑکپن میں پہنچتے ہیں تو یہ درس ملتا ہے
*ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں*

اور جوانی کی منازل طے کرتے ہوئے ہمیں اس شاعری سے گرمایا جاتا ہے

*نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر*

خودی کی بات کریں تو اقبال یہ سبق خاص طور پر جوانوں کو دیتے نظرآتے ہیں۔

*خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے*

مرد مجاہد کے بارے میں فرماتے ہیں
*پلٹ کے جھپٹنا کے ، جھپٹ کے پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہےایک بہانہ *

ایک مومن کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

*ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان ، نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان *

عشق کی وادی میں گر قدم رکھو تو کیا خوبصورت الفاظ میں محبوب ،کی دلربائی کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں
*سو سو امیدیں بندھتی ہیں اک اک نگاہ پر
مجھکو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی*

عملی زندگی میں قدم رکھو تو بے اختیار کہتے ہیں
*عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری *

اور جب روزگار کی تلاش میں نکلو تو کیا خوبصورت درس دیتے ہیں رزق حلال و حرام کے فرق کو واضح کرتے ہوئے
*جس رزق سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس رزق کے ہر خوشہُ گندم کو جلا دو*

ناداں شخص کے اوپر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں
*پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر*

مسلم نوجواں کو یقیں محکم کا سبق کیا خوب دیتے ہیں
*نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں*

من حیث القوم مسلمانوں سے انکے اسلاف کا ذکر کرتے ہوئے شکوہ کناں ہیں کہ
*وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر *

ملک وملت کے ہر شخص کو ایک اہم فرد گنواتے ہوئے فرماتے ہیں
*افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ*

عورت کو کیا خوبصورت انداز میں خراج تحسین  پیش کرتے ہیں ۔
*وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے زندگی کا سوز دروں *
استاد کو کیا بہترین انداز میں ہدیہُ عقیدت سے نوازتے ہیں کہ
*کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو *

طالبعلم کو نصیحت کرتے ہوئے   کہتے ہیں

*خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں*

آخرت کا تزکرہ اس انداز میں کرتے ہیں
*کھو نہ جااس سحر وشام میں اے صاحب دوش
اک جہاں اور بھی ہے جسمیں نہ فردا ہےنہ دوش*

اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن ہمارے دلوں میں موجود ہیں۔ اپنے اشعار کی صورت ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔ ہمیں چاہئیے کہ انکے اشعار ہم اپنی گفتگو میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال میں بھی ڈھالیں۔
اللہ تعالیٰ  انکے درجات بلند فرمائے آمین ۔

آمنہ سردار

No comments:

Post a Comment