Tuesday, August 25, 2020

کراچی ہمارا بھی تو ہے

 

انسانی فطرت ہے کہ کبھی خوش ہوتا ہے اور کبھی اداس ،۔۔اسکی اداسی یا خوشی کے پیچھے کوئی نہ کوئی محرکات ضرور ہوتے ہیں۔۔۔کبھی ذاتی، کبھی اجتماعی اور کبھی انفرادی۔۔۔آج میرا دل بھی اداس ہے اسکے پیچھے وجہ ذاتی و انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔۔۔۔سوشل میڈیا پہ کراچی کی موجودہ صورتحال دیکھکر دل افسردہ اور آزردہ ہو گیا۔۔۔۔کراچی کی حالیہ بارشوں کے نتیجے  میں بہت زیادہ حالات خراب ہوئے ۔۔۔خاص کر ان علاقوں کے جہاں پہلے سے ہی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم طبقات رہائش پذیر ہیں۔۔۔کراچی کی پانی میں ڈوبی تصاویر اور وڈیوز دیکھکر دل خون کے آنسو رونے لگا ۔۔۔۔ لیکن تکلیف کی شدت میں اضافہ اسوقت ہوا جب کراچی والوں کی بےبسی اور کسمپرسی پر مزاحیہ وڈیوز بمع انڈین گانوں کے سوشل میڈیا پہ اپلوڈ ہوئیں۔۔۔۔یقین جانئے سمجھ نہیں پائی کہ یہ انسانوں کی کون سی قسم ہے جو اس حد تک بھی جا سکتی ہے۔۔۔۔ کیا ہم اتنے بےحس ۔۔اتنے بےضمیر اور اتنےاحساسات سے عاری ہو گئے ہیں کہ ہم لوگوں کا دکھ سمجھنے کی بجائے۔۔انکی مدد کرنے کی بجائے۔۔۔انکا حوصلہ بڑھانے کی بجائے انکی ہنسی  اڑا رہے ہیں۔۔انکو استہزا کا نشانہ بنارہے ہیں۔۔۔۔انپر مزاحیہ لطیفے اور وڈیوز بنا رہے ہیں۔۔۔۔ہم انسانیت کے کس درجے پہ ہیں؟؟؟؟؟۔

ارے ناسمجھو یہ وہی کراچی ہے جس نے ایک ماں کیطرح پوری قوم کو رنگ۔۔۔نسل۔۔۔زباں۔۔فرقے۔۔۔۔۔گروہ۔۔۔ثقافت۔۔مسلک۔۔ذات پات۔۔۔۔۔ہر چیز سے بالاتر ہوکر اپنی آغوش میں سمو رکھا ہے۔۔۔۔کیا کسی اورجگہ  آجتک ایسا دیکھنے کو ملا۔۔۔۔۔ چند ہزار لوگ کسی آفت کی وجہ سے ہجرت کرکے کسی دوسرے شہر جائیں تو واویلا مچا دیا جاتا ہے لیکن کراچی نے تو ہر جگہ کے۔۔۔ہر مذہب کے۔۔۔ہر دین کے۔۔۔۔ہر گروہ ۔۔۔۔ہر مسلک ۔۔۔۔ہر زبان۔۔۔ ہر رنگ کے شخص کو پناہ دے رکھی ہے۔۔۔۔۔کسی بھی قومیت یا ذات کا شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کراچی نے کہیں اسکے ساتھ بے انصافی برتی ہو۔۔۔۔۔ کراچی کا دامن تو اسکے وسیع سمندر کی مانند ہے۔۔۔۔۔کراچی نے تو ہمیشہ بے اماں کو اماں دی۔۔۔۔غیر کو اپنا بنایا۔۔۔۔حاجتمند کی حاجت روائی کی اور ہم کیا کرنے جا رہے ہیں اس پیارے شہر  اور اسکے باسیوں کیساتھ؟؟؟؟؟

خدارا اسوقت ان مجبور و بےبس لوگوں کیساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے جنکا گھر بار ۔۔سازو سامان ۔۔۔۔ ساری زندگی کی کمائی اس پانی کی نذر ہو گئی ۔۔۔وجہ کوئی بھی رہی ہونا یہ سیاست کا وقت ہے اور نہ ہی مذاق کابلکہ آگے بڑھ کے اپنے بےکس بہن بھائیوں کی مدد کرنے کا ہے۔۔۔۔اگر آپ مالی مدد نہیں کر سکتے تو اخلاقی مدد تو کیجئے ۔۔۔۔انکو تسلی کے بولوں کی ضرورت ہے۔۔۔انکے زخموں کو پھاہے کی ضرورت ہے اور ہم یہاں نمک ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں۔۔۔۔ میری التجا ہے ۔۔۔گزارش ہے ان تمام اصحاب سے جو اس سنجیدہ ترین مسئلے کو چٹکیوں میں اڑا رہے ہیں۔۔۔۔۔خدارا خوف کھائیے اس ذات سے۔۔ وہ کسی کو بھی کسی آفت یا
پریشانی میں مبتلا کر سکتا ہے۔۔۔۔

یاد کیجئے وہ وقت جب بالاکوٹ اور آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تھا تو کراچی ہی وہ پہلا شہر تھا جس نے سب سے آگے بڑھ کر مدد کی ۔۔۔۔ رضاکاروں کی ٹیمیں کراچی سے ان علاقوں میں آئیں۔۔۔۔ چاہے وہ تنظیموں کے رضاکار تھے ۔۔۔چینلز کے نمائندے تھے یا انفرادی حیثیت میں آئے تھے۔۔۔۔ وہی ہمارے ہمدرد و غمگسار بنے اور ہم کیا کر رہے ہیں انکے ساتھ۔۔۔۔. 

آج صبح جب ایک دوست کی پوسٹ پہ ایسا ہی ایک شکوہ پڑھا کہ ہمارے شہر  کے کسی ساتھی کی ایسی ہی مزاحیہ پوسٹ سے انکی دل آزاری ہوئی تو یقین جانئے سر ندامت سے جھک گیا۔۔فوراً اس پوسٹ پہ میں نے تاسف کا اظہار کیا اور معذرت طلب کی اور ابھی بھی کرتی ہوں۔۔۔

میں  اپنے کراچی کے ان مجبور بہن بھائیوں کے دکھ میں برابر کی شریک ہوں۔۔۔۔جنہوں نے اپنے گھر اور زندگی کی جمع پونجیاں گنوائیں۔۔۔بہت سی بستیاں بہہ گئیں۔۔۔کرنٹ لگنے اور تیز پانی کے ریلے میں بہنے سے ہلاکتیں ہوئیں۔۔۔۔۔گندے  نالوں کے زہریلے مواد سے لوگوں کی جانوں کو شدید ترین خطرہ ہے۔۔۔۔بہت سے وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔۔۔اللہ سے دعاگو ہوں کہ اپنا کرم کرے  ۔۔۔۔انکی جانوں میں برکت ڈالے اور مذید پریشانیوں سے محفوظ رکھے آمین۔۔۔۔آئیے یہی وقت ہے کراچی کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کا۔۔۔۔آگے بڑھئے اور اپنےبےیارومددگار بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیے ۔۔۔۔

#تحریر_آمنہ_سردار

Sunday, June 14, 2020

e موسمیاتی تغیرClimate Chang

موسمیاتی تبدیلی یا تغیر یہ لفظ پچھلی دو دہائیوں سے ہم سن رہے ہیں اور پچھلی دھائی سے تو ڈویلپمنٹ سیکٹرز میں کچھ زیادہ ہی۔۔۔۔ باوجود اسکا اتنا تذکرہ ہونے کے ہم میں سے بہت سے لوگوں کو ابھی تک یہی معلوم نہیں کہ یہ ہے کیا اور اسکے کیا اثرات بد دنیا پر مرتب ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہم پہلے آب و ہوا اور موسم کی تعریف بیان کرتے ہیں ۔۔
#آب_وہوا_کیا_ہے؟
آب و ہوا ( Climate) کے معنی ہیں موسمی کیفیت، کسی مقام پر پانی اور ہوا کی تاثیر یا طبعی اور جغرافیائی اثرات جو صحت، مرض اور پیداوار سے تعلق رکھتے ہیں۔

#موسم:
موسم (Weather) کسی فضا میں ایک معین وقت کے دوران ہونے والے مظاہر(Phenomena) کا مجموعہ ہے۔ سلیس الفاظ میں اِس کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ ‘‘کسی مقام کی سردی، گرمی، نمی وغیرہ اور اس سے پیدا ہونے والی فضائی کیفیت’’۔

#موسم_اور_آب_وہوا_میں_فرق:
موسم سے مُراد حالیہ قدرتی سرگرمیاں ہیں۔ جبکہ آب و ہوا لمبے عرصے کے دوران اوسط فضائی کیفیات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اب ان definations کو سمجھنے کے بعد ہمیں موسمیاتی تغیر اور تبدیلی کو سمجھنا آسان ہو جائیگا ۔۔۔
#موسمیاتی_تغیر:
موسمیاتی تغیر یا تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ جب کسی خطے کی موسمی کیفیت/درجہ حرارت بدلنے لگے یعنی پہلے اگر کوئی سرد علاقہ تھا تو اب اسکے درجہُ حرارت میں فرق پڑ گیا ہو یا کوئی گرم علاقہ تھا اور وہاں مستقل بارشیں ہو رہی ہوں۔۔یا سیلاب کا اندیشہ ہو۔ ۔۔۔یعنی موسمی کیفیت بدل گئی اور اسنے پورے خطے کی آب و ہوا کو متاثر کر دیا ہو۔تو اسکو موسمی تغیر یا موسمیاتی تبدیلی کہتے ہیں ۔۔۔ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ اور برطانیہ کے چیف سائینٹفک ایڈوائزر ڈیوڈ کنگ برائے ماحولیات، موسمی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔۔۔دنیا کو موسمی تبدیلیوں سے بہت سے خطرات لاحق ہیں ۔۔موسمی تبدیلیوں کے وہ خطرات کیا ہو سکتے ہیں۔۔۔ 
موسمی تبدیلیوں کے خطرات ان ممکنہ خطرات کو کہا جاتا ہے جو موسم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مختلف حالتوں، آفات اور صورتوں سے لاحق ہو سکتے ہیں۔۔۔مثلاً
 *بارشیں۔۔۔
*گلیشیُرز کا پگھلنا ۔۔
*سطح سمندر میں اضافہ
*سیلاب۔۔۔
*خشک سالی۔۔۔
*متضادموسم۔۔۔۔
 *فصلوں کی تباہی ۔۔۔۔۔
*زمین میں تبدیلی۔۔کٹاوُ وغیرہ
*جانوروں کی معدومیت 
موسمی تبدیلیوں کے ان بڑھتے خطرات کی وجوہات  جاننا بہت ضروری ہیں ۔۔کیونکہ جبتک ان سے واقفیت نہیں ہو گی اس مسئلے کا سدباب ممکن نہیں ہے ۔۔۔۔۔

#وجوہات
سانُسدان موسمیاتی تغیر کی بڑی وجہ انسانی ترقی کو قرار دیتے ہیں۔۔۔۔انکے مطابق عالمی حدت میں اضافے کی بڑی وجہ گرین ہاوُس گیسوں کا بڑی مقدار میں فضاءمیں خارج ہونا ہے جبکہ ایندھن ۔۔قدرتی گیس۔۔کوئلہ۔۔تیل وغیرہ کا بڑھتا استعمال ماحول پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے ۔۔۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار ماحول میں اس حیاتیاتی ایندھن کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔۔۔اسکے علاوہ انسان بھی اس ماحولیاتی و موسمی تغیر پر بہت برے طریقے سے اثر انداز ہو رہا ہے ۔۔۔۔مثلاً

*جنگلات کی بے دریغ کٹائی،
*جنگلات کے رقبہ میں آگ،
*بلند و بالا عمارتیں،
*بڑھتی ہوئی آبادی،
*گاڑیوں کی بہتات
*بڑھتی آبادی
*صنعتی دھواں
وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔ 
ماہرین کے مطابق 1920ء سے عالمی  درجہ 
حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔جو بری طرح سے پوری دنیا کی  ناصرف آب و ہوا کو بلکہ معیشت اور معاشرت کو بھی متاثر کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔

ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تحفظ اور موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے سیاسی عزم کا مظاہرہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جب تک سیاسی نمائندگان ماحول کے بگاڑ کو روکنے اور بڑھتے ہوئے موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کریں گے ماحولیاتی اور موسمیاتی چیلینجز میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ملک میں اس سلسلے میں پالیسیاں  تو موجود ہیں  لیکن تاحال  انپر مکمل طور پہ عملدرآمد نہیں ہوا۔ اسکے لئے قانون سازوں کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔۔۔موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے قومی موسمیاتی تبدیلی پالیسی اور اس کو عمل میں لانے کے لیے فریم ورک تیار ہو چکا ہے تاہم موسمی خطرات جیسے سیلاب، گرمی کی لہر، بے ترتیب اور بے موسم بارشوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اس پالیسی میں دی گئیں تجاویز کو عمل میں لانا ابھی باقی ہے۔ جبتک  اس  مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائیگا تب تک کوئی حل نہیں نکلے گا۔۔۔۔

تمام صوبوں کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے پائیدار اور ماحول دوست عالمی معاشی نظام کی اشد ضرورت ہے۔ ان تجاویز کی روشنی میں صوبوں کو اپنے اپنے سالانہ صوبائی ترقیاتی پروگراموں میں منصوبے بنانے ہوں گے تاکہ ان موسمی خطرات کے منفی اثرات پر قابو پاکر معیشت کو پائیدار بنایاجاسکے۔

ناصرف اس مسئلے کے حل کے لئے حکومتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے لئے اور ان  ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے عوامی سطح پر ان کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جبتک عوام شعور حاصل نہیں کرینگے اور اپنے حصے کا فرض ادا نہیں کرینگےتو ظاہر ہے وہ ان مسائل کے حل میں کبھی مددگار ثابت نہیں ہو سکتے۔۔

 جرمن واچ نامی عالمی تھنک ٹینک کی جانب سے جاری کردہ عالمی ماحولیاتی اشاریے میں پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ملکوں میں کیا گیا ہے جو سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں
جرمن واچ نامی عالمی تھنک ٹینک کی گلوبل کلائیمیٹ انڈیکس رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 1998 سے 2017 تک آٹھویں نمبر پر تھا، وہ اب 1999 سے 2018 تک رونما ہونے والے موسمیاتی واقعات کے باعث دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر سے پانچویں نمبر پر آ گیا ہے۔۔۔۔۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اس عرصے کے دوران پاکستان میں موسمیاتی واقعات کے باعث 10 ہزار اموات ہوئیں اور ملک کو تقریباً چار ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔‘یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے ۔۔۔
موسمی تبدیلی پر کام کرنے والے سماجی کارکنان کا خیال ہے کہ کرہ ارض موسمی تبدیلی کے اثرات زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتی۔ اس حوالے سے عالمی رہنماؤں کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔اب ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی  سے لینا ہو گا۔۔۔۔ موسمیاتی تغیر و تبدل کی وجوہات کا خاتمہ کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی۔۔۔۔ اس وقت دنیا کا سب سے اہم ترین مسئلہ یہی ہے۔

تحریر 
آمنہ سردار۔۔۔

Saturday, May 16, 2020

ہم قیدی تو نہیں



آجکل کے حالات کے بارے میں اپنے خیالات کو قلمبند کرنے کا سوچا۔۔۔
کووِڈ 19... کرونا وائرس جیسی عالمگیر وبا کے تحت لوگ ڈھائی ماہ تک لاک ڈاّون میں رہے۔۔۔ بہت سے لوگ نفسیاتی دباوُ کا شکار رہے۔۔۔ بہت سے لوگ پریشان حال اور بہت سے لوگ فرصت کے مزے لوٹتے رہے۔۔۔ وہ لوگ جو کام کرنے کے عادی ہیں انکے لئے زیادہ مشکل پیش آئی ۔۔۔میں تھوڑا تھوڑا ذکر سب کا کرونگی۔۔۔۔ 
اس اچانک وبا سے ایکدم لاک ڈاوُن ہو جانا اور آناً فاناً ہر چیز کا رک جانا نفسیاتی دباوُ کا باعث بنا۔۔۔وہ لوگ جنکے بزنس تھے۔۔۔جنکے کاروباری معاملات تھے۔۔۔۔۔عدالتوں میں کیسز تھے ۔۔۔پرائیویٹ ادارے۔۔۔ سول سوسائٹی کے تحت تنظیمیں جو مختلف پراجیکٹس میں مصروف تھِیں۔۔۔۔تعلیمی ادارے ۔۔۔۔جن میں بچوں کے بورڈ کے امتحانات ہونے والے تھے ۔۔سارے یکدم اس لاک ڈاوُن سے پریشانی کی کیفیت میں چلے گئے ۔۔۔ذہنی دباوُ کا شکار ہوئے ۔۔دیہاڑی دار مزدور یا ہفتہ وار کام کرنے والے بہت متاثر ہوئے۔۔وہ پریشانی کے ساتھ مستقبل کے خوف میں بھی مبتلا ہو گئے کہ انکےتو رزق کا سلسلہ ہی رک گیا۔۔۔۔ اب کیا کریں گے؟؟؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان انکے سامنےرہا۔۔۔۔ سوچوں کے ان ناگوں نے انکو ڈسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ کھانے کی فکر ۔۔روزگار کی فکر ۔۔۔۔تناوُ اور ذہنی دباوُ کا شکار ہو کے رہ گئے ہیں لوگ۔۔۔۔ اس تناوُ اور سٹریس کا حل انکی نظر میں یہی تھا کہ لاک ڈاوُن ختم ہو اور وہ دوبارہ اپنے اپنے روزگار پہ جائیں۔۔۔۔ لاک ڈاوُن کی صورتحال یہ تھی کہ پوری دنیا جیسے بند پڑی ہے لہذا وقت کے گزرنے کیساتھ کچھ لوگوں کے تناوُ میں کمی آئی اور کچھ کا ذہنی دباوُ بڑھ گیا۔۔۔۔اسی طرح جو کام کرنے کے عادی لوگ ہیں وہ فارغ نہیں رہ سکتے وہ اسلئے دباوُ کا شکار ہیں۔۔۔اس تناوُ میں کمی لانے کے لئے کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ ہم لہرائیں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔۔اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہی ہے کہ  ہوتاوہی ہے جو اللہ چاہتا ہے اسکے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔۔۔۔ تویہ ایک آزمائش ہے ایک امتحان ہے۔۔۔۔ ایک کڑا وقت ہے پوری دنیا کے لئے ۔۔۔۔ ہمیں اللہ کی ذات پہ کامل یقین کرکے اسی کی ذات پرتوکل کرنا ہے کہ وہی اس سبکو درست کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہی یہ سب پہلے جیسا کریگا۔۔۔۔ہمارے کڑھنے ۔۔جلنے۔۔کلسنے سے کچھ ٹھیک نہیں ہوگا بلکہ الٹا ہماری صحت ہی گرے گی تو سب سے پہلی تجویز یہی ہے کہ توکل اللہ۔۔۔۔اور اپنے آپکو پرسکون رکھنے کی کوشش۔۔۔ 

دوسرے یہ کہ اس وقت کو گھر میں فارغ بیٹھ کر بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔۔۔۔مثلاً بہت سے لوگوں نے سکول کالج کے زمانے میں شوقیہ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھا ہوتا ہے تو اس ہنر کو کام میں لائیے ۔۔۔۔اپنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کیجئے۔۔۔ 
سوشل میڈیا ہر ایک کے دائرہُ اختیار میں ہے۔۔۔۔ اس پہ مثبت قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لیجئے۔۔۔ 
یو ٹیوب چینلز پر بہت اچھی چیزیں سکھائی جاتی ہیں ۔۔ان سے استفادہ کیجئے۔۔۔آن لائن کورسز کیجئے۔۔۔
آن لائن بزنس کیجئے ۔۔۔ 
اپنی پسند کی hobby کو اپنائیے ۔۔۔
گارڈننگ ایک بہت اچھا پاس ٹائم ہے ۔۔۔آپ مصروف بھی رہینگے۔۔۔۔ وقت بھی بھلا گزرے گا۔۔۔۔ آپکےہاتھ سے لگائے ہوئے ہودے جب اگیں گے تو ایک الگ ہی سرور ملے گا ۔۔۔اور گھر کی آرائش میں بھی اضافہ ہو گا۔۔۔ 
بہت سے آن لائن پروگرام متعارف کرائے جا رہے ہیں۔۔۔ان میں حصہ لیجئے ۔۔۔۔ ان میں اپنی دلچسپی کی چیز سیکھئے اور اس میں مہارت پیدا کیجئے۔۔ٹیکنالوجیکل تعلیم کبھی رائیگاں نہہں جاتی ۔۔
کتابیں پڑھئے ۔۔۔اگر گھر میں نہیں تو آن لائن  پڑھئیے ۔۔۔ کسی سے ادھار لیجئے۔۔۔۔ 
کوکنگ کیجئے ۔۔مرد حضرات گھر کی خواتین کا ہاتھ بٹائیے ویسے بھی انکا کام سب کے گھر میں بیٹھنے کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔۔۔۔
جن خواتین کو سلائی کڑھائی آتی ہے وہ اپنے اس ہنر کو آزمائیں۔۔۔
گھر کی آرائش کریں۔۔۔۔گھر میں ہی موجود چیزوں کو آپس میں ردوبدل کےدوبارہ استعمال یعنی reuse  کریں۔۔۔  recycle کریں۔۔
جن لوگوں کو زمانہ طالبعلمی میں   ڈرائنگ سے دلچسپی تھی وہ کچھ نہ کچھ بنانے کی کوشش کریں۔۔۔
ہماری مصروفیت کہ وجہ سے ہمارے گھر کے بہت سے کام پینڈنگ پڑے ہوتے ہیں۔۔۔۔انپر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔
مصروفیت کی وجہ سے ہماری فیملیز ہم سے نظر انداز ہوئی ہوتی ہیں۔۔۔۔ ہمیں بچوں کیساتھ۔۔بزرگوں۔کیساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہئیے۔۔۔۔
فون کی سہولت ہر ایک کے پاس موجود ہے اپنے پیاروں سے ۔۔دوستوں اور عزیز واقارب سے رابطے بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔یہ بہترین وقت ہے ایکدوسرے کے دلی طور پہ قریب آنے کا۔۔۔۔ 
پرانے پاکستانی ڈرامے دیکھئے ۔۔۔ یو ٹیوب پر انٹر نیٹ پر ہر چیز دستیاب ہے۔۔۔وہ پروگرامز یا movies دیکھئے جو آپ دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔ 
 بہت سے بچے آن لائن کلاسز لے رہے ہیں لیکن جو نہہں لے رہےوہ سٹوڈنٹس اپنی پڑھائی کا سلسلہ بحال رکھیں۔۔کتابوں سے نصاب سے قطع تعلق نہ ہوجائیں۔۔۔۔ 
کچھ لوگ سو سو کر بھی دن گزارتے ہیں۔۔۔انکو بھی اپنا شیڈول صحیح رکھنا چاہئیے کہ زیادہ نیند بھی دماغ کو غبی( کندذہن ) بنا دیتی ہے۔۔.
ورزش ضرور کرنی چاہئیے ۔۔۔واک کریں۔۔۔کوئی کھیل کھیلیں یا یوگا کریں۔۔۔۔لیکن اپنے آپکو چست رکھیں۔۔۔  
بہت سے لوگ ہر وقت سوشل میڈیا پہ مصروف رہتے ہیں انکوچاہئیے کہ اپنے ذہنی آرام کابھی خیل رکھیں۔۔۔کچھ دن سوشل میڈیا سے دوری اختیار کر کے اپنے کو پرسکو ن بنائیں۔۔۔۔
رمضان کریم کی برکتوں سے فیضیاب ہوتے ہوئے تسبیح تہلیل میں مشغول رہیں۔۔۔قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر تفصیل سے پڑھیں۔۔۔گھر بیٹھ کر بھی حدیث کا علم حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔بہت سے سکالرز آن لائن کلاسز بھی لیتے ہیں۔۔۔۔
اپنی ذاتی صفائی کیساتھ گھر کی صاف صفائی کا بھی خیال رکھیں۔۔۔۔۔ 
اپنی یادوں کو جو ڈائری میں قلمبند کی گئی ہیں انکو پڑھیں ان سے حظ اٹھائیں۔۔۔موجودہ وقت کے بارے میں اپنے خیالات کو قلمبند کریں ۔۔۔۔ 
جو بھی شوق تھا اس شوق کو دوبارہ سے آواز دیں اور اسکو اپنائیں۔۔۔۔ 
ان تمام کاموں میں مصروف ہو کر ہم بہت بہتر طریقے سے اپنا ذہنی دباوُ کم کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔
اپنی فرصت کےلمحات کو مفید بنائیے 
بقول اقبال بےکار مباش کچھ کیا کر
کپڑےہی ادھیڑ کر سیاک​ر

 تحریر 
امنہ سردار

Tuesday, May 12, 2020

زراعت میں عورت کا کردار

#زراعت_میں_عورت_کا_کردار

ہمارے ہاں عورتوں کو صرف چار دیواری تک محدود سمجھا جا تا رہا ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنا ہنر، اپنی تعلیم اور اپنا فن سکھاتی نظر آتی ہیں۔ تدریس کا شعبہ ہو یا طب کا ، نرسنگ ہو یا ہوسٹنگ،ٹی وی  سکرین ہویا براڈ کاسٹنگ،  پولیس ہو یا آرمی ، بنک ہو یا عدالت ، صحافت ہو یا میزبانی،  سرکاری دفاتر ہوں یا غیر سرکاری ادارے، قانون سازی ہو یا بیوروکریسی ہر جگہ خواتین اپنی ذہانت، فطانت اور فکر و تدبر کیساتھ کام کرتی نظر آتی ہیں۔
ان شعبوں کے علاوہ بھی بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں خواتین کام تو کر رہی ہیں لیکن انہیں وہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہروں میں کام کرنے والی خواتین تو کافی حد تک خودکفیل ہوتی ہیں لیکن دیہاتوں میں کھیتوں میں کام کرنیوالی خواتین مکمل طور پر اپنے مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔

 پاکستان ایک زرعی ملک ہےجسکا 70 فیصد انحصار زراعت پر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں مردوں کیساتھ ساتھ دیہات میں عورتیں بھی زراعت و گلہ بانی اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے کا کا م کرتی ہیں ۔ یہ عورتیں نا صرف اپنے مردوں کا زراعت میں  ہاتھ بٹاتی ہیں بلکہ جنگل سے لکڑی کاٹنے،ایندھن لانےاور  دور دراز سے پانی لانے کا کام بھی یہی عورتیں کرتی ہیں۔ کام میں ہاتھ  تو وہ پورا بٹاتی ہیں لیکن انکو نہ اجرت مردوں کے مقابلےمیں  ملتی ہے اور نہ ہی باقی سہولتیں و آسانیاں ۔ہمارے ہاں تومزارعے کو چاہے وہ مرد ہی کیوں نہ ہو کوئی خاص اجرت اور سہولت نہیں ملتی تو عورتوں کو تو بہت ہی مشکل ہے۔
 ہمارے ملک میں پدرسری معاشرہ رائج ہے جو عورتوں کو اتنی آسانی سے سہولتیں فراہم نہیں کرتا۔ بہت ہی کم عورتیں ایسی ہونگی جنکی اپنی زمین ہو اور وہ اس پر کھیتی باڑی یا زمینداری کرتی ہوں۔ سو میں سے کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملے گی۔ ہمارے ملک میں پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں خواتین کھیتوں میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خواتین زیادہ تر گھر میں مویشیوں کی دیکھ بھال تو کرتی ہیں لیکن کھیتوں میں یا زمینداری میں انکا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔جو خواتین کھیتوں میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں  تو انکو سہولیات بھی ویسی ہی ملنی چاہئیں۔

ان خواتین کو معاشی استحکام فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ انکو اپنے اخراجات کے لئے دوسروں کے ہاتھوں کیطرف نہ دیکھنا پڑے۔
کچھ  خواتین کی ذاتی زمین ہوتی ہے جو انکو وراثت میں ملتی ہے۔ لیکن وراثتی زمین انکے  شوہروں ، بھائیوں   یا بیٹوں  کے حصے میں چلی جاتی ہے۔ جبکہ اگر وہ کام کر رہی ہیں تو انکو انکاحصہ ملنا چاہئیے نا کہ وہ کسی کی محتاج بن کے رہیں۔ یا اگر وہ زمین خریدنے کا قصد کرتی بھی ہیں تو اس مقصد کے لئےبھی  انکو اپنے ساتھ کسی مرد کو رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ انکو زمین کی ملکیت ملنی ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور بنا دی جاتی ہے۔جبتک خواتین کو زراعت میں آسانیاں نہیں دی جائینگی تب تک انکامعاشی استحصال جاری رہیگا۔۔۔۔ کچھ سفارشات ایسی ہیں جنکو قابل عمل بنا کر خواتین کو فعال بنایا جا سکتا ہے۔۔۔کام تو وہ ویسے بھی کر رہی ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ وہ اس سے معاشی فائدہ بھی حاصل کریں۔۔۔۔ سفارشات درج ذیل ہیں۔۔۔

* ایسی خواتین کےلئے زمین خریدنے کا حصول آسان بنایا جائے۔ 

*خواتین زمینداروں کو آسان اقساط پر  قرضے ملنے چاہئیں۔

*ایسی خواتین جو فصلوں، بیجوں اور کھتی باڑی کی سمجھ رکھتی ہیں لیکن وسائل اور آمدن کی کمی کی وجہ سے اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتیں ۔ حکومت کو چاہئیے کہ وہ انہیں چھوٹے قرضے فراہم کرے۔ انہیں اچھے بیج اور کھاد مہیا کرے۔

*زمینداریا کسان خواتین  کو حکومت کی طرف سے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہئیے۔ انہیں اچھی نسل کے بیج ، اسکی درست  بوائی کے طریقے اور اچھی فصل کی کاشت سے روشناس کرایا جائے۔

*اسی طرح وہ خواتین جنکا کوئی سہارایا ذریعہ آمدن نہیں ہوتا  ان کے لئے حکومت کو چاہئیے کہ کچن  گارڈننگ کے پروگرامز کو فروغ دیں۔ یعنی انکو گھر میں یا گھر سے ملحقہ چھوٹی چھوٹی جگہوں پر پھل، سبزیاں اور جڑی بوٹیاں لگانے کے طریقے سکھائیں تاکہ وہ اپنا روز گار کما سکیں ۔

*اسی طرح وہ علاقے جہاں پٙھلوں کے باغات زیادہ ہوتے ہیں حکومت محکمہ زراعت کے ذریعے  وہاں کی  خواتین  کو فاضل اور زیادہ پکا ہوا پھل محفوظ کرنے کے طریقے سکھائے۔ ان پھلوں کو سُکھانے، انکو محفوظ کرنے، ان کے مربے ، جیم، جیلی اور چٹنیاں بنانے کے طریقے سکھائے جائیں۔

*اسکے علاوہ  خواتین چونکہ ماحولیات سے، فطری طور پر زیادہ لگاوُ رکھتی ہیں تو انکو موسمی پُھول جو کہ آجکل مختلف مواقع پر  بڑی مانگ میں ہیں۔ حکومت انکے لگانے اور انکی حفاظت کرنے کے طریقے سکھائے۔اور کس طرح انہیں چند دنوں تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب  وہ گھر بیٹھے کرنے  سے اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔
*اسی طرح ان ڈور پلانٹس بھی بہت مانگ میں ہیں ۔انکو صرف اچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے وہ خواتین اپنی فطری صلاحیت سے کر سکتی ہیں اور ان پودوں سے ایک منافع بخش کاروبار کر سکتی ہیں۔
 
*اسکے علاوہ خواتین گلہ بانی اور مویشیوں کی افزائش میں بھی اپنے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔توحکومت کو چاہئیے کہ انکو مویشی آسان اقساط پر  فراہم کئے جائیں اور ساتھ ہی انکو  پولٹری  اور ڈیری فارمنگ سے متعلق معلومات بھی فراہم کی جائیں ۔

یہ ناصرف حکومت کی زمہ داری ہے بلکہ سول سوسائٹی کے لوگوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ خواتین کو مالی طور پر مستحکم کرنے میں ان تمام کاموں میں حصہ لیں۔
اس طرح انکو گھرسے دور بھی نہیں جانا پڑے گا اور گھر کے قریب اپنی زمینوں پر وہ ان پودوں اور فصلوں کو اگا کر اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔ویسے بھی آجکل بہت سے لوگ دوبارہ سے organic food (دیسی خوراک ) کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ وہ ان خواتین سے ڈائریکٹ آکر اپنی ضرورت کی چیزیں دیسی انڈے، دیسی مرغیاں اور خالص دودھ اور اس سے بنی مصنوعات  خرید سکتے ہیں۔یہ دیسی خوراک یا organic food کے فروغ  کیطرف بھی ایک مثبت قدم ہو گا۔
پانی اسوقت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جسکو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے بھی ان خواتین کی تربیت کی جانی چاہئیے ۔ خواتین فطری طور پر کفایت شعار ہوتی ہیں۔دور دراز سے پانی لانے کا کام بھی انہی کے ذمے ہوتا ہے۔ لہذا انکو آگاہی پروگراموں کے ذریعے پانی کی قدرو قیمت کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔

حکومت اگر ان تمام خطوط پر سنجیدگی سے عملی کام کرے اور ان خواتین کو صرف گھروں تک محدود نہ رہنے دے اور انکو یہ تمام سہولتیں فراہم کرے جنکا ذکر کیا گیا ہے تو وہ یقیناً ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرینگی۔ اپنے گھروں میں وہ یہ سارے  کام تو کرتی ہیں لیکن انکا صلہ انہیں کچھ نہیں ملتا۔ لہذا آج کی دیہاتی عورت کو بھی معاشی طور پر مستحکم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

خواتین سے بھی استدعا ہے کہ اپنے آپ کو فعال بنائیں ۔۔۔جہاں انہیں ٹریننگ کے مواقع ملتے ہیں وہاں ضرور حصہ لیں۔۔اسکے علاوہ آجکل یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پہ ان پر بہت ہی مفید وڈیوذ بنائی گئی ہیں۔۔۔۔۔  ان سے استفادہ کریں۔۔۔۔ گھر میں ۔۔۔لان میں۔۔۔صحن میں۔۔۔چھت پر ۔۔گھر سے متعلقہ پلاٹ میں یا جہاں بھی جگہ ملے سبزیاں کم از کم ضرور اگائیں۔۔۔ تھوڑی سی محنت سے آپ گھر کی سبزی اگا کر ایک تو مصنوعی کھاد سے پاک  صحتمند خوراک حاصل کر سکتے ہیں دوسرے بچت بھی ۔۔۔۔اورتیسرے پودے لگانے سے اردگرد کی فضا بھی شفاف ہوتی ہے۔۔۔۔

#تحریرآمنہ_سردار 

Amna Sardar 

Saturday, February 1, 2020

یاس کی آکاس بیل نے میرے امنگوں سے بھرے قلب  کو ایسا اپنے چنگل میں لپیٹا کہ اسے خزاں رسیدہ کر چھوڑا ۔۔۔۔نہ صرف یاس بلکہ اداسی اور  تنہائی نے بھی میرے وجود کو گھن کی طرح  کھانا شروع کر  دیا تھا۔۔۔۔میں ان تمام احساسات کے آگے جیسے ہار سی گئی ۔۔۔۔ پھر میں نے یاس کی آکاس بیل کو امید کی ننھی ننھی کونپلوں سے ہٹانا شروع کیا تو مانو جیسے یہ بیل تو ڈھے ہی گئی ۔۔۔ میرا بنجروجود  امید کی کرن پڑنے سے ہرا بھرا ہونے لگا ۔۔۔آس کی کلیوں نے اسکو مہکا دیا اور سرشاری و بے خودی  کی کیفیت نے اس بےحس من کو جیسے حیات نو عطاکر دی ہو۔۔۔
خیال آسٙ

Monday, December 16, 2019

تم زندہ ہوانسانیت مرگئی ہے

دسمبر سولہ  2014کا دن نہ ہماری یادداشتوں سے نکلے گا اور نہ اس ملک کی تاریخ کے سیاہ باب سے ۔۔۔۔ بہت سارے عام سے دنوں کیطرح وہ بھی ایک عام سا دن تھا ۔۔۔تمام کام روٹین کے مطابق ہو رہے تھے ۔۔صاحب حضرات اپنے دفتروں اور بچے اپنے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیز کو روانہ ہوچکےتھے۔۔۔۔ خواتین خانہ اپنے معمول کے گھریلو کاموں میں مصروف ہو چکی تھیں۔۔۔کچھ لوگ مارننگ شوز انجوائے کر رہے تھے اور کچھ خبریں سن رہے تھے ۔۔۔اچانک ایک خبر بریکنگ نیوز بن کر ٹی وی پر چلتی ہے کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول پہ حملہ۔۔۔۔ تو لوگ چونک جاتے ہیں، حیران ہوتے ہیں کہ سکول پہ حملہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔ لوگ مختلف ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کچھ واضح نہیں۔۔۔پھر  چند ہی گھنٹوں بعد ہر طرف دہشت، خوف، امیدو یاس کی کیفیت میں گھرے لوگ دوڑتےبھاگتے  نظر آتے ہیں۔۔۔ قیامت کا سماں لگ رہا ہے۔۔۔۔لوگ بے تابانہ کبھی ایکطرف جاتے ہیں ، کبھی دوسری طرف، سیکیورٹی اداروں نے سکول کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ۔۔۔۔۔اور امدادی کاروائیوں میں سرگرم ہیں۔۔۔۔۔نہ کوئی اندر جا سکتا نہ کوئی باہر آسکتا۔۔۔غرض اک افراتفری اور ہیجان برپا نظر آرہا ہے۔۔۔۔ بڑی مشکلوں سے والدین کو اندر جانے کی اجازت ملتی ہے تو اندر ایک اور حشر برپا ہے۔۔ایک اور قیامت انکی منتظر ہے ۔۔۔تاحد نگاہ خون ہی خون ہے۔۔۔۔والدین، اعزا، احباب روتے دھوتے اپنے بچوں کی تلاش میں گم ہیں۔۔۔۔ مائیں بے چین و مضطرب دعائیں مانگتی دوڑتی پھر رہی ہیں کہ ہمارا بچہ مرنے والوں میں شامل نہ ہو۔۔۔۔ ہر کوئی شہیدہونے والوں سے نظر چرا رہا ہے اور امید سے اپنے بچوں کو کھوج رہا ہے۔۔۔لیکن ہائے افسوس کچھ بچے وہیں شہید ہو جاتے ہیں اور کچھ ہسپتال میں دم توڑ دیتے ہیں۔ گھر والوں کے علاوہ رضاکاروں کی ایک بڑی ٹیم ہے جو وہاں موجود پریشان حال والدین کی دلجوئی بھی کر رہے ہیں اور انکی تلاش میں مدد بھی دے رہے ہیں۔۔۔۔ کوئی دعا کارگر نہ ہوئی ، ماوُں کی فریاد رسی نہ ہوئی اور وہ سینہ کوبی کرتے نامراد لوٹ گئیں کیونکہ انکے لخت جگر تو حوروں کے جلو میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے  اور سبز باغوں کی جنتوں میں جا سمائے۔ اونچے منبروں پر بیٹھے اپنے والدین کے منتظر ہیں۔۔لیکن انہیں والدین کی تڑپ ، انکا رونا ، کرلانا ، کچھ یاد نہیں۔۔۔۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔۔۔وہ تو حریر و ریشم کے جوڑے پہنے اتراتے پھر رہے ہیں۔۔۔۔انہیں کیا غم کہ ماں زندہ ہے یا زندہ جسم میں ایک چلتا پھرتا مردہ وجود ۔۔۔وہ کیا جانیں کہ باپ جو دنیا کے سامنے فخر تو کر رہا ہے لیکن اندر سے کس بری طرح ٹوٹ چکا ہے کہ کھڑا ہونا بھی محال ہے۔۔۔۔وہ تو ان معذوب دہشت گردوں کے ہاتھوں ابدی زندگی پا گِئے ۔۔۔ ان شیطانوں کے ہاتھوں انہیں فرشتگی حاصل ہو گئی ۔۔۔وہ معصوم فرشتوں کی صورت میں سبز باغوں میں چہلیں کرتے پھر رہے ہیں اس بات سے بے نیاز کہ  دنیا میں انکے  پیچھےانکے نام پر کیا کیا سیاستیں اور کیا کیا منافقتیں ہو رہی ہیں۔۔۔وہ تو مر کر امر ہو گئے اور انکے والدین جی کر بھی مر گئے ۔۔۔۔ہائے اے کاش کوئی تو انکو بتائے کہ مرے بچو تم تو امن کے علمبردار بن گئے ۔۔۔۔تمھارے  بعد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا۔۔۔  تمھارے بعد بہت سی طاغوتی قوتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ بہت سے فرعونوں کے غرور خاک میں مل گِئے ۔۔۔ اور تمھیں شہادت کے درجے پر فائز کرنے والے کتنی عبرتناک موت مرے۔۔۔کوئی تو انکو بتائے کہ مرے بچوں تمھارا خون رائیگاں نہیں گیا۔۔تمھاری معصوم جانوں کے بدلے کروڑوں لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئیں ۔۔میرے بچوں تم تو امن کے پیامبر بن گئے۔۔۔۔ تم تو جن درجات پر پہنچے انپر پہنچنے کی تمنا میں لوگ کیا کیا مشقت کرتے ہیں۔۔۔کتنی دعائیں مانگتے ہیں۔۔۔لیکن میرے بچوں ۔۔یہی تمھارا نصیب تھا جو تمھیں ملا لیکن انسانیت کو شرمندہ کرکے۔۔۔۔۔ تم زندہ ہو ۔۔۔انسانیت مر گئی ہے.
تحریر: آمنہ سردار
خیال آسٙ

Sunday, November 10, 2019

نبی کریم ﷺ کی خانگی زندگی۔۔۔

۔

میں کیا اور میری اوقات کیا کہ نبی ﷺ کی مدح سرائی کر سکوں لیکن ایک ادنیٰ سی کاوش ہے آپؐ کے حضور ہدیہُ عقیدت پیش کرنے کی ۔۔۔
آج ہم بات کرینگے آپ ﷺکی ازواج مطہرات اور انکے ساتھ آپکے تعلق کی۔۔۔۔ نبی کریم ﷺکو امت کے بالمقابل یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ آپ مختلف اغراض کے پیش نظرچار سے زائد شادیاں کر سکتے تھے ۔۔ چنانچہ جن عورتوں سے آپ نے عقد فرمایاانکی تعداد گیارہ تھی۔۔۔ جن میں سے نو ازواج مطہرات آپ  ﷺ کی وفات کے وقت حیات تھیں جبکہ دو خواتین آپکی زندگی میں ہی وفات پا چکی تھیں یعنی حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت زینب بنت خزیمہؓ  ۔۔۔ذیل میں ان ازواج مطہرات کے نام اورانکے مختصرحالات  پیش کئے جا رہے ہیں ۔۔۔ 
١)حضرت خدیجةالکبریٰ سے تو کون مسلمان ہے جو واقف نہیں ۔۔آپؐ کی پہلی زوجہ محترمہ۔شریک حیات، شریک غم، ہمدم و دمساز و غمگسار۔۔۔پہلی مسلمان خاتون۔۔۔آپؓ سے نبی کریمﷺ  کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ان ہی کے بطن سے تھیں ۔۔۔
٢) حضرت سودہؓ بنت زمعہ حضورؐ کے چچازاد بھائی سکران بن عمرو کی بیوہ تھیں اور آپؐ نے بی بی خدیجہ ؓ کی وفات سے چند دن بعد ان سے نکاح کیا۔۔۔
٣) حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابی بکرؓ سے آپؐ کا نکاح نبوت کے گیارہویں سال ہوا جبکہ رخصتی شوال سن ١ھ میں ہوئی ۔انکی عمر اسوقت ٩ برس تھی(مختلف جگہوں پر مختلف روایات ہیں )۔۔۔ حضرت عائشہ آپؐ کی واحد باکرہ زوجہ تھیں ۔۔۔ اور سب سے محبوب ترین بیوی بھی ۔۔مسلمان عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہہ اور صاحب علم تھیں ۔۔۔
۴) حضرت حفصہ بنت عمر ؓ خنیس بن حذافہ کی بیوہ تھیں ان سے آپؐ نے ٣ ھ میں نکاح کیا۔
۵) حضرت زینب بنت خزیمہؓ انکالقب ام المساکین تھا کیونکہ انتہا درجے کی رحمدل اور خداترس تھیں ۔عبداللہ بن جحش کی بیوہ تھیں جو جنگ احد میں شہید ہوئے تو ۴ھ میں آپؐ کے عقد میں آگئیں ۔۔۔لیکن صرف آٹھ ماہ بعد وفات پاگئیں ۔۔۔آپکا تعلق قبیلہ بنو ہلال سے تھا ۔۔
٦) ام سلمہ بنت ابی امیہ ؓ یہ ابوسلمہؓ کی بیوہ تھیں ۴ ھ میں آپؐ کے عقد میں آئیں ۔
٧)زینب بنت جحش ؓ یہ قبیلہ بنواسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں اور آپؐ کی پھوپھی زاد تھیں ۔انکا نکاح آپؐ کے منہ بولے بیٹے  زید بن حارث سے ہوا لیکن انکے ساتھ آپکا نباہ نہ ہو سکا تو انہوں نے طلاق دے دی۔۔خاتمہُ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی ۔۔"جب زید نے ان سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے انہیں آپکی زوجیت میں دے دیا "٣٧:٣٣۔۔۔۔۔۔حضرت زینب سے آپ ؐ کی شادی ۵ ھ میں ہوئی ۔۔۔
٨) جویریہ بنت حارثؓ یہ قبیلہ خزاعہ کے سردار کی بیٹی تھیں ۔۔یہ بنو مصطلق کے قیدیوں میں لائی گئ تھیں اور حضرت ثابت بن قیس کے حصے میں آئی تھیں انہوں نے ان سے مکاتبت کرلی یعنی مقررہ رقم پہ آزاد کرلیاآپؐ نےانکی طرف سے مقررہ رقم عطا فرمائی اور ان سے ۵/٦،ہجری میں  شادی کر لی ۔۔۔
٩) ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان ؓ ۔یہ عبیداللہ بن جحش کی بیوی تھیں انکے ساتھ حبشہ ہجرت کی لیکن انکے شوہر مرتد ہوگئے اور وہیں انتقال ہوا۔۔لیکن یہ اپنی ہجرت اور ایمان پہ قائم رہیں۔۔رسول ﷺ نے نجاشی کو عمرو بن امیہ کے ہاتھ ایک خط دیکر بھیجا اور اسمیں ام حبیبہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا۔۔۔ یہ ٧ ہجری کا واقعہ ہے۔۔۔
١٠) حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ یہ بنی اسرائیل سے تھیں اور خیبر میں قید کی گئی تھیں لیکن آپ ﷺنے انکو اپنے لئے منتخب کیااور آزاد کر کے شادی کر لی یہ فتح خیبر کے بعد ٧ ہجری کا واقعہ ہے ۔۔
١١) حضرت میمونہ بنت حارثؓ یہ حضرت ام لفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں ۔۔ان سے رسول ﷺ نے عمرہُ قضا سے فارغ ہونے کے بعد٧ہجری میں  احرام سے حلال ہونے کے بعد شادی کی ۔۔۔
یہ گیارہ بیویاں تھیں جو نبی کریم ؐ کے عقد میں رہیں اور آپؐ کی صحبت و رفاقت میں رہیں ۔۔ان میں سے دو بیویاں آپؐ کی حیات میں فوت ہوئیں اور نو بیویاں آپؐ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔۔۔۔
جہاں تک لونڈیوں کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے دو لونڈیوں کو اپنے پاس رکھا ایک ماریہ قبطیہ ؓ جنہیں فرمانروائےمصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا   اور انکے بطن سے آپکے بیٹے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے ۔
دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں انکا تعلق یہود کے قبیلہ بنی نظیر یا بنی قریظہ سے تھا ۔یہ بنو قریظہ کے قیدیوں میں تھیں ۔رسول ﷺ نے انکو اپنے لئےمنتخب فرمایااوروہ آپکی لونڈی تھیں۔۔۔

آپ ﷺ کی پہلی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی جو آپکے جوانی کے عمدہ ایام تھے۔۔۔ اسی دور میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اولاد کی نعمت سے بھی نوازا جو کہ ایک نارمل زندگی کی نشاندہی کرتی ہے ۔۔۔ آپؐ کی اتنی شادیوں کے پیچھے کچھ اغراض و مقاصد تھے ۔۔۔جنکے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مثالیں قائم کیں ۔۔۔ جو عام شادیوں سے بہت ہی زیادہ عظیم اور جلیل المرتبہ تھے۔۔۔ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ کی بیٹیوں سے عقد ان جلیل القدر اصحاب سے تعلقداری کا ذریعہ تھا اسی طرح آپﷺ نے اپنی بیٹیوں کے رشتے حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کو دیئے وجہ یہ تھی کہ یہ  چاروں  جلیل القدر اور بلند مرتبہ اصحاب پیچیدہ ترین دور میں اسلام کیلیئے فداکاری کا امتیازی وصف و جذبہ رکھتے تھے ۔۔۔
عرب کا دستور تھا کہ وہ رشتہُ مصاہرت کا بڑا احترام کرتے تھے انکے نزدیک دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے درمیان قربت کا ایک اہم سبب رھا اور داماد سے جنگ لڑنا اور محاذ آرائی کرنا بڑے شرم اور عار کی بات سمجھی جاتی تھی ۔۔اس دستور کو سامنے رکھکر آپﷺ کو چند شادیاں کرنی پڑیں   ۔۔اسکے علاوہ ان سب سے عظیم بات یہ ہے کہ رسولﷺ ایک غیر مہذب قوم کو تربیت دینے ، اسکا تزکیہُ نفس کرنے اور تہذیب و تمدن سکھانے پر معمور تھے ۔۔آپ ﷺ نے مختلف عمر اور لیاقت کی اتنی عورتوں کو منتخب فرمایا جو عورتوں کی تعلیم وتربیت میں معاون ثابت ہوں انکی تعلیم، تربیت، تزکیہ نفس کریں اور مسائل شریعت سکھا سکیں ۔۔۔۔
نبی کریم ﷺ کا ایک نکاح ایک ایسی جاہلی رسم توڑنے کے لئے بھی عمل میں آیا جو عرب معاشرہ  میں پشت ہا پشت سے چلی آ رہی تھی کہ متبنیٰ کو حقیقی بیٹے کے برابر جانا جاتا تھا۔۔۔ اسکی حرمت اور حقوق بھی حقیقی بیٹے کے برابر تھے۔۔جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب سے آپکا نکاح کروا کر ان سبکو باطل ثابت کر دیا ۔۔۔
امہات المومنین کیساتھ آپ ﷺکی زندگی انتہائی بلندپایہ، شریفانہ ، باعزت اور عمدہ انداز کی تھی ۔ازواج مطہرات بھی شرف ، قناعت ، صبر تواضع خدمت اور ازدواجی حقوق کی نگہداشت کا مرقع تھیں۔۔۔ آپؐ اپنی ازواج سے انتہائی شفیق رویہ رکھتے تھے۔۔۔ انکے اوپر خوامخوا کے کاموں کا بوجھ نہیں ڈالتے تھے بلکہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔۔۔ روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کیساتھ آپؐ نے  دوڑ کا مقابلہ بھی کیا  ۔ازواج سے لطیف انداز میں گفتگو بھی آپؐ کا وطیرہ تھی۔۔۔ ایکدفعہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ آپ ؐ سے گلے شکوے کر رہی تھیں اور آپؐ مسکرا کر انکا جواب دے رہے تھے۔۔۔۔ کبھی اپنی ازواج کیساتھ نہ سخت کلامی فرمائی نہ ترش روئی سے پیش آئے ۔۔آپ ﷺ سراپا رحمت تھے۔۔۔سراپاالفت تھے۔۔۔۔ آپ ؐ نے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بیویوں کی باریاں  مقرر کر رکھی تھیں  گو کہ آپﷺ  پر اپنی بیویوں کے بارے میں باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے محبت و الفت کو برقرا ر رکھنے کے لئے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر فر مایا تھا جس کی آپ ﷺ پابندی کرتے تھے اور کبھی کسی وجہ سے ایک کے پاس تشریف لے جاتے تو پھر ساری ازواج مطہرات کے پاس خبر گیری کے لئے تشریف لے جاتے ۔آپ ﷺ کے اسی بے مثال محبت کا نتیجہ تھا کہ ازواج مطہرات میں سے ہر ایک اپنے آپ کو آپ ﷺکے سب سے زیادہ قریب سمجھتی تھیں۔
جب آپ ﷺ سفر میں تشریف لے جاتے تو خاص اپنی مرضی سے کسی کو لے جا سکتے تھے مگر آپ ﷺ قرعہ اندازی فر ماتے اور جن کانام نکلتا ان کو لے جاتے ۔زندگی بھر آپ ﷺ انہیں اصولوں پر قائم رہے یہاں تک کہ زندگی کے آخر لمحات میں جب کہ آپ ﷺ کی طبیعت بڑی ناساز تھی اس وقت بھی اس کا مکمل خیا ل رکھا اورجب سب کے پاس جانے کی طاقت نہ رہی تو آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے حضرت عائشہ کے حجرے میں رہنے کی ’اجازت مانگی‘ جسے سارے ازواج نے بخوشی قبول فر مالیا۔

اور ان سب کے باوجود آپ ﷺ اپنے رب کریم سے دعا مانگتے کہ:اے میرے مولیٰ!جو برابری میرے بس میں تھی وہ میں نے کی لیکن جس بات پر میں قادر نہیں اس پر مجھے ملامت نہ فرما۔

حوالہ جات
(نسائی،کتاب عشرۃ النسائ
 رحیق المختوم
تحریر آمنہ سردار

یہ میر ی ایک کاوش ہے۔۔۔۔
اللہ کریم اسے قبول فرمائے آمین ۔۔۔اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو رب تعالیٰ سے معافی کی خواستگار ہوں ۔۔۔