Tuesday, May 12, 2020

زراعت میں عورت کا کردار

#زراعت_میں_عورت_کا_کردار

ہمارے ہاں عورتوں کو صرف چار دیواری تک محدود سمجھا جا تا رہا ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنا ہنر، اپنی تعلیم اور اپنا فن سکھاتی نظر آتی ہیں۔ تدریس کا شعبہ ہو یا طب کا ، نرسنگ ہو یا ہوسٹنگ،ٹی وی  سکرین ہویا براڈ کاسٹنگ،  پولیس ہو یا آرمی ، بنک ہو یا عدالت ، صحافت ہو یا میزبانی،  سرکاری دفاتر ہوں یا غیر سرکاری ادارے، قانون سازی ہو یا بیوروکریسی ہر جگہ خواتین اپنی ذہانت، فطانت اور فکر و تدبر کیساتھ کام کرتی نظر آتی ہیں۔
ان شعبوں کے علاوہ بھی بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں خواتین کام تو کر رہی ہیں لیکن انہیں وہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہروں میں کام کرنے والی خواتین تو کافی حد تک خودکفیل ہوتی ہیں لیکن دیہاتوں میں کھیتوں میں کام کرنیوالی خواتین مکمل طور پر اپنے مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔

 پاکستان ایک زرعی ملک ہےجسکا 70 فیصد انحصار زراعت پر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں مردوں کیساتھ ساتھ دیہات میں عورتیں بھی زراعت و گلہ بانی اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے کا کا م کرتی ہیں ۔ یہ عورتیں نا صرف اپنے مردوں کا زراعت میں  ہاتھ بٹاتی ہیں بلکہ جنگل سے لکڑی کاٹنے،ایندھن لانےاور  دور دراز سے پانی لانے کا کام بھی یہی عورتیں کرتی ہیں۔ کام میں ہاتھ  تو وہ پورا بٹاتی ہیں لیکن انکو نہ اجرت مردوں کے مقابلےمیں  ملتی ہے اور نہ ہی باقی سہولتیں و آسانیاں ۔ہمارے ہاں تومزارعے کو چاہے وہ مرد ہی کیوں نہ ہو کوئی خاص اجرت اور سہولت نہیں ملتی تو عورتوں کو تو بہت ہی مشکل ہے۔
 ہمارے ملک میں پدرسری معاشرہ رائج ہے جو عورتوں کو اتنی آسانی سے سہولتیں فراہم نہیں کرتا۔ بہت ہی کم عورتیں ایسی ہونگی جنکی اپنی زمین ہو اور وہ اس پر کھیتی باڑی یا زمینداری کرتی ہوں۔ سو میں سے کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملے گی۔ ہمارے ملک میں پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں خواتین کھیتوں میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خواتین زیادہ تر گھر میں مویشیوں کی دیکھ بھال تو کرتی ہیں لیکن کھیتوں میں یا زمینداری میں انکا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔جو خواتین کھیتوں میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں  تو انکو سہولیات بھی ویسی ہی ملنی چاہئیں۔

ان خواتین کو معاشی استحکام فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ انکو اپنے اخراجات کے لئے دوسروں کے ہاتھوں کیطرف نہ دیکھنا پڑے۔
کچھ  خواتین کی ذاتی زمین ہوتی ہے جو انکو وراثت میں ملتی ہے۔ لیکن وراثتی زمین انکے  شوہروں ، بھائیوں   یا بیٹوں  کے حصے میں چلی جاتی ہے۔ جبکہ اگر وہ کام کر رہی ہیں تو انکو انکاحصہ ملنا چاہئیے نا کہ وہ کسی کی محتاج بن کے رہیں۔ یا اگر وہ زمین خریدنے کا قصد کرتی بھی ہیں تو اس مقصد کے لئےبھی  انکو اپنے ساتھ کسی مرد کو رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ انکو زمین کی ملکیت ملنی ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور بنا دی جاتی ہے۔جبتک خواتین کو زراعت میں آسانیاں نہیں دی جائینگی تب تک انکامعاشی استحصال جاری رہیگا۔۔۔۔ کچھ سفارشات ایسی ہیں جنکو قابل عمل بنا کر خواتین کو فعال بنایا جا سکتا ہے۔۔۔کام تو وہ ویسے بھی کر رہی ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ وہ اس سے معاشی فائدہ بھی حاصل کریں۔۔۔۔ سفارشات درج ذیل ہیں۔۔۔

* ایسی خواتین کےلئے زمین خریدنے کا حصول آسان بنایا جائے۔ 

*خواتین زمینداروں کو آسان اقساط پر  قرضے ملنے چاہئیں۔

*ایسی خواتین جو فصلوں، بیجوں اور کھتی باڑی کی سمجھ رکھتی ہیں لیکن وسائل اور آمدن کی کمی کی وجہ سے اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتیں ۔ حکومت کو چاہئیے کہ وہ انہیں چھوٹے قرضے فراہم کرے۔ انہیں اچھے بیج اور کھاد مہیا کرے۔

*زمینداریا کسان خواتین  کو حکومت کی طرف سے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہئیے۔ انہیں اچھی نسل کے بیج ، اسکی درست  بوائی کے طریقے اور اچھی فصل کی کاشت سے روشناس کرایا جائے۔

*اسی طرح وہ خواتین جنکا کوئی سہارایا ذریعہ آمدن نہیں ہوتا  ان کے لئے حکومت کو چاہئیے کہ کچن  گارڈننگ کے پروگرامز کو فروغ دیں۔ یعنی انکو گھر میں یا گھر سے ملحقہ چھوٹی چھوٹی جگہوں پر پھل، سبزیاں اور جڑی بوٹیاں لگانے کے طریقے سکھائیں تاکہ وہ اپنا روز گار کما سکیں ۔

*اسی طرح وہ علاقے جہاں پٙھلوں کے باغات زیادہ ہوتے ہیں حکومت محکمہ زراعت کے ذریعے  وہاں کی  خواتین  کو فاضل اور زیادہ پکا ہوا پھل محفوظ کرنے کے طریقے سکھائے۔ ان پھلوں کو سُکھانے، انکو محفوظ کرنے، ان کے مربے ، جیم، جیلی اور چٹنیاں بنانے کے طریقے سکھائے جائیں۔

*اسکے علاوہ  خواتین چونکہ ماحولیات سے، فطری طور پر زیادہ لگاوُ رکھتی ہیں تو انکو موسمی پُھول جو کہ آجکل مختلف مواقع پر  بڑی مانگ میں ہیں۔ حکومت انکے لگانے اور انکی حفاظت کرنے کے طریقے سکھائے۔اور کس طرح انہیں چند دنوں تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب  وہ گھر بیٹھے کرنے  سے اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔
*اسی طرح ان ڈور پلانٹس بھی بہت مانگ میں ہیں ۔انکو صرف اچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے وہ خواتین اپنی فطری صلاحیت سے کر سکتی ہیں اور ان پودوں سے ایک منافع بخش کاروبار کر سکتی ہیں۔
 
*اسکے علاوہ خواتین گلہ بانی اور مویشیوں کی افزائش میں بھی اپنے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔توحکومت کو چاہئیے کہ انکو مویشی آسان اقساط پر  فراہم کئے جائیں اور ساتھ ہی انکو  پولٹری  اور ڈیری فارمنگ سے متعلق معلومات بھی فراہم کی جائیں ۔

یہ ناصرف حکومت کی زمہ داری ہے بلکہ سول سوسائٹی کے لوگوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ خواتین کو مالی طور پر مستحکم کرنے میں ان تمام کاموں میں حصہ لیں۔
اس طرح انکو گھرسے دور بھی نہیں جانا پڑے گا اور گھر کے قریب اپنی زمینوں پر وہ ان پودوں اور فصلوں کو اگا کر اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔ویسے بھی آجکل بہت سے لوگ دوبارہ سے organic food (دیسی خوراک ) کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ وہ ان خواتین سے ڈائریکٹ آکر اپنی ضرورت کی چیزیں دیسی انڈے، دیسی مرغیاں اور خالص دودھ اور اس سے بنی مصنوعات  خرید سکتے ہیں۔یہ دیسی خوراک یا organic food کے فروغ  کیطرف بھی ایک مثبت قدم ہو گا۔
پانی اسوقت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جسکو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے بھی ان خواتین کی تربیت کی جانی چاہئیے ۔ خواتین فطری طور پر کفایت شعار ہوتی ہیں۔دور دراز سے پانی لانے کا کام بھی انہی کے ذمے ہوتا ہے۔ لہذا انکو آگاہی پروگراموں کے ذریعے پانی کی قدرو قیمت کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔

حکومت اگر ان تمام خطوط پر سنجیدگی سے عملی کام کرے اور ان خواتین کو صرف گھروں تک محدود نہ رہنے دے اور انکو یہ تمام سہولتیں فراہم کرے جنکا ذکر کیا گیا ہے تو وہ یقیناً ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرینگی۔ اپنے گھروں میں وہ یہ سارے  کام تو کرتی ہیں لیکن انکا صلہ انہیں کچھ نہیں ملتا۔ لہذا آج کی دیہاتی عورت کو بھی معاشی طور پر مستحکم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

خواتین سے بھی استدعا ہے کہ اپنے آپ کو فعال بنائیں ۔۔۔جہاں انہیں ٹریننگ کے مواقع ملتے ہیں وہاں ضرور حصہ لیں۔۔اسکے علاوہ آجکل یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پہ ان پر بہت ہی مفید وڈیوذ بنائی گئی ہیں۔۔۔۔۔  ان سے استفادہ کریں۔۔۔۔ گھر میں ۔۔۔لان میں۔۔۔صحن میں۔۔۔چھت پر ۔۔گھر سے متعلقہ پلاٹ میں یا جہاں بھی جگہ ملے سبزیاں کم از کم ضرور اگائیں۔۔۔ تھوڑی سی محنت سے آپ گھر کی سبزی اگا کر ایک تو مصنوعی کھاد سے پاک  صحتمند خوراک حاصل کر سکتے ہیں دوسرے بچت بھی ۔۔۔۔اورتیسرے پودے لگانے سے اردگرد کی فضا بھی شفاف ہوتی ہے۔۔۔۔

#تحریرآمنہ_سردار 

Amna Sardar 

2 comments: