Monday, December 16, 2019

تم زندہ ہوانسانیت مرگئی ہے

دسمبر سولہ  2014کا دن نہ ہماری یادداشتوں سے نکلے گا اور نہ اس ملک کی تاریخ کے سیاہ باب سے ۔۔۔۔ بہت سارے عام سے دنوں کیطرح وہ بھی ایک عام سا دن تھا ۔۔۔تمام کام روٹین کے مطابق ہو رہے تھے ۔۔صاحب حضرات اپنے دفتروں اور بچے اپنے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیز کو روانہ ہوچکےتھے۔۔۔۔ خواتین خانہ اپنے معمول کے گھریلو کاموں میں مصروف ہو چکی تھیں۔۔۔کچھ لوگ مارننگ شوز انجوائے کر رہے تھے اور کچھ خبریں سن رہے تھے ۔۔۔اچانک ایک خبر بریکنگ نیوز بن کر ٹی وی پر چلتی ہے کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول پہ حملہ۔۔۔۔ تو لوگ چونک جاتے ہیں، حیران ہوتے ہیں کہ سکول پہ حملہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔ لوگ مختلف ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کچھ واضح نہیں۔۔۔پھر  چند ہی گھنٹوں بعد ہر طرف دہشت، خوف، امیدو یاس کی کیفیت میں گھرے لوگ دوڑتےبھاگتے  نظر آتے ہیں۔۔۔ قیامت کا سماں لگ رہا ہے۔۔۔۔لوگ بے تابانہ کبھی ایکطرف جاتے ہیں ، کبھی دوسری طرف، سیکیورٹی اداروں نے سکول کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ۔۔۔۔۔اور امدادی کاروائیوں میں سرگرم ہیں۔۔۔۔۔نہ کوئی اندر جا سکتا نہ کوئی باہر آسکتا۔۔۔غرض اک افراتفری اور ہیجان برپا نظر آرہا ہے۔۔۔۔ بڑی مشکلوں سے والدین کو اندر جانے کی اجازت ملتی ہے تو اندر ایک اور حشر برپا ہے۔۔ایک اور قیامت انکی منتظر ہے ۔۔۔تاحد نگاہ خون ہی خون ہے۔۔۔۔والدین، اعزا، احباب روتے دھوتے اپنے بچوں کی تلاش میں گم ہیں۔۔۔۔ مائیں بے چین و مضطرب دعائیں مانگتی دوڑتی پھر رہی ہیں کہ ہمارا بچہ مرنے والوں میں شامل نہ ہو۔۔۔۔ ہر کوئی شہیدہونے والوں سے نظر چرا رہا ہے اور امید سے اپنے بچوں کو کھوج رہا ہے۔۔۔لیکن ہائے افسوس کچھ بچے وہیں شہید ہو جاتے ہیں اور کچھ ہسپتال میں دم توڑ دیتے ہیں۔ گھر والوں کے علاوہ رضاکاروں کی ایک بڑی ٹیم ہے جو وہاں موجود پریشان حال والدین کی دلجوئی بھی کر رہے ہیں اور انکی تلاش میں مدد بھی دے رہے ہیں۔۔۔۔ کوئی دعا کارگر نہ ہوئی ، ماوُں کی فریاد رسی نہ ہوئی اور وہ سینہ کوبی کرتے نامراد لوٹ گئیں کیونکہ انکے لخت جگر تو حوروں کے جلو میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے  اور سبز باغوں کی جنتوں میں جا سمائے۔ اونچے منبروں پر بیٹھے اپنے والدین کے منتظر ہیں۔۔لیکن انہیں والدین کی تڑپ ، انکا رونا ، کرلانا ، کچھ یاد نہیں۔۔۔۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔۔۔وہ تو حریر و ریشم کے جوڑے پہنے اتراتے پھر رہے ہیں۔۔۔۔انہیں کیا غم کہ ماں زندہ ہے یا زندہ جسم میں ایک چلتا پھرتا مردہ وجود ۔۔۔وہ کیا جانیں کہ باپ جو دنیا کے سامنے فخر تو کر رہا ہے لیکن اندر سے کس بری طرح ٹوٹ چکا ہے کہ کھڑا ہونا بھی محال ہے۔۔۔۔وہ تو ان معذوب دہشت گردوں کے ہاتھوں ابدی زندگی پا گِئے ۔۔۔ ان شیطانوں کے ہاتھوں انہیں فرشتگی حاصل ہو گئی ۔۔۔وہ معصوم فرشتوں کی صورت میں سبز باغوں میں چہلیں کرتے پھر رہے ہیں اس بات سے بے نیاز کہ  دنیا میں انکے  پیچھےانکے نام پر کیا کیا سیاستیں اور کیا کیا منافقتیں ہو رہی ہیں۔۔۔وہ تو مر کر امر ہو گئے اور انکے والدین جی کر بھی مر گئے ۔۔۔۔ہائے اے کاش کوئی تو انکو بتائے کہ مرے بچو تم تو امن کے علمبردار بن گئے ۔۔۔۔تمھارے  بعد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا۔۔۔  تمھارے بعد بہت سی طاغوتی قوتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ بہت سے فرعونوں کے غرور خاک میں مل گِئے ۔۔۔ اور تمھیں شہادت کے درجے پر فائز کرنے والے کتنی عبرتناک موت مرے۔۔۔کوئی تو انکو بتائے کہ مرے بچوں تمھارا خون رائیگاں نہیں گیا۔۔تمھاری معصوم جانوں کے بدلے کروڑوں لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئیں ۔۔میرے بچوں تم تو امن کے پیامبر بن گئے۔۔۔۔ تم تو جن درجات پر پہنچے انپر پہنچنے کی تمنا میں لوگ کیا کیا مشقت کرتے ہیں۔۔۔کتنی دعائیں مانگتے ہیں۔۔۔لیکن میرے بچوں ۔۔یہی تمھارا نصیب تھا جو تمھیں ملا لیکن انسانیت کو شرمندہ کرکے۔۔۔۔۔ تم زندہ ہو ۔۔۔انسانیت مر گئی ہے.
تحریر: آمنہ سردار
خیال آسٙ

No comments:

Post a Comment