Sunday, November 10, 2019

نبی کریم ﷺ کی خانگی زندگی۔۔۔

۔

میں کیا اور میری اوقات کیا کہ نبی ﷺ کی مدح سرائی کر سکوں لیکن ایک ادنیٰ سی کاوش ہے آپؐ کے حضور ہدیہُ عقیدت پیش کرنے کی ۔۔۔
آج ہم بات کرینگے آپ ﷺکی ازواج مطہرات اور انکے ساتھ آپکے تعلق کی۔۔۔۔ نبی کریم ﷺکو امت کے بالمقابل یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ آپ مختلف اغراض کے پیش نظرچار سے زائد شادیاں کر سکتے تھے ۔۔ چنانچہ جن عورتوں سے آپ نے عقد فرمایاانکی تعداد گیارہ تھی۔۔۔ جن میں سے نو ازواج مطہرات آپ  ﷺ کی وفات کے وقت حیات تھیں جبکہ دو خواتین آپکی زندگی میں ہی وفات پا چکی تھیں یعنی حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت زینب بنت خزیمہؓ  ۔۔۔ذیل میں ان ازواج مطہرات کے نام اورانکے مختصرحالات  پیش کئے جا رہے ہیں ۔۔۔ 
١)حضرت خدیجةالکبریٰ سے تو کون مسلمان ہے جو واقف نہیں ۔۔آپؐ کی پہلی زوجہ محترمہ۔شریک حیات، شریک غم، ہمدم و دمساز و غمگسار۔۔۔پہلی مسلمان خاتون۔۔۔آپؓ سے نبی کریمﷺ  کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ان ہی کے بطن سے تھیں ۔۔۔
٢) حضرت سودہؓ بنت زمعہ حضورؐ کے چچازاد بھائی سکران بن عمرو کی بیوہ تھیں اور آپؐ نے بی بی خدیجہ ؓ کی وفات سے چند دن بعد ان سے نکاح کیا۔۔۔
٣) حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابی بکرؓ سے آپؐ کا نکاح نبوت کے گیارہویں سال ہوا جبکہ رخصتی شوال سن ١ھ میں ہوئی ۔انکی عمر اسوقت ٩ برس تھی(مختلف جگہوں پر مختلف روایات ہیں )۔۔۔ حضرت عائشہ آپؐ کی واحد باکرہ زوجہ تھیں ۔۔۔ اور سب سے محبوب ترین بیوی بھی ۔۔مسلمان عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہہ اور صاحب علم تھیں ۔۔۔
۴) حضرت حفصہ بنت عمر ؓ خنیس بن حذافہ کی بیوہ تھیں ان سے آپؐ نے ٣ ھ میں نکاح کیا۔
۵) حضرت زینب بنت خزیمہؓ انکالقب ام المساکین تھا کیونکہ انتہا درجے کی رحمدل اور خداترس تھیں ۔عبداللہ بن جحش کی بیوہ تھیں جو جنگ احد میں شہید ہوئے تو ۴ھ میں آپؐ کے عقد میں آگئیں ۔۔۔لیکن صرف آٹھ ماہ بعد وفات پاگئیں ۔۔۔آپکا تعلق قبیلہ بنو ہلال سے تھا ۔۔
٦) ام سلمہ بنت ابی امیہ ؓ یہ ابوسلمہؓ کی بیوہ تھیں ۴ ھ میں آپؐ کے عقد میں آئیں ۔
٧)زینب بنت جحش ؓ یہ قبیلہ بنواسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں اور آپؐ کی پھوپھی زاد تھیں ۔انکا نکاح آپؐ کے منہ بولے بیٹے  زید بن حارث سے ہوا لیکن انکے ساتھ آپکا نباہ نہ ہو سکا تو انہوں نے طلاق دے دی۔۔خاتمہُ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی ۔۔"جب زید نے ان سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے انہیں آپکی زوجیت میں دے دیا "٣٧:٣٣۔۔۔۔۔۔حضرت زینب سے آپ ؐ کی شادی ۵ ھ میں ہوئی ۔۔۔
٨) جویریہ بنت حارثؓ یہ قبیلہ خزاعہ کے سردار کی بیٹی تھیں ۔۔یہ بنو مصطلق کے قیدیوں میں لائی گئ تھیں اور حضرت ثابت بن قیس کے حصے میں آئی تھیں انہوں نے ان سے مکاتبت کرلی یعنی مقررہ رقم پہ آزاد کرلیاآپؐ نےانکی طرف سے مقررہ رقم عطا فرمائی اور ان سے ۵/٦،ہجری میں  شادی کر لی ۔۔۔
٩) ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان ؓ ۔یہ عبیداللہ بن جحش کی بیوی تھیں انکے ساتھ حبشہ ہجرت کی لیکن انکے شوہر مرتد ہوگئے اور وہیں انتقال ہوا۔۔لیکن یہ اپنی ہجرت اور ایمان پہ قائم رہیں۔۔رسول ﷺ نے نجاشی کو عمرو بن امیہ کے ہاتھ ایک خط دیکر بھیجا اور اسمیں ام حبیبہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا۔۔۔ یہ ٧ ہجری کا واقعہ ہے۔۔۔
١٠) حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ یہ بنی اسرائیل سے تھیں اور خیبر میں قید کی گئی تھیں لیکن آپ ﷺنے انکو اپنے لئے منتخب کیااور آزاد کر کے شادی کر لی یہ فتح خیبر کے بعد ٧ ہجری کا واقعہ ہے ۔۔
١١) حضرت میمونہ بنت حارثؓ یہ حضرت ام لفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں ۔۔ان سے رسول ﷺ نے عمرہُ قضا سے فارغ ہونے کے بعد٧ہجری میں  احرام سے حلال ہونے کے بعد شادی کی ۔۔۔
یہ گیارہ بیویاں تھیں جو نبی کریم ؐ کے عقد میں رہیں اور آپؐ کی صحبت و رفاقت میں رہیں ۔۔ان میں سے دو بیویاں آپؐ کی حیات میں فوت ہوئیں اور نو بیویاں آپؐ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔۔۔۔
جہاں تک لونڈیوں کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے دو لونڈیوں کو اپنے پاس رکھا ایک ماریہ قبطیہ ؓ جنہیں فرمانروائےمصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا   اور انکے بطن سے آپکے بیٹے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے ۔
دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں انکا تعلق یہود کے قبیلہ بنی نظیر یا بنی قریظہ سے تھا ۔یہ بنو قریظہ کے قیدیوں میں تھیں ۔رسول ﷺ نے انکو اپنے لئےمنتخب فرمایااوروہ آپکی لونڈی تھیں۔۔۔

آپ ﷺ کی پہلی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی جو آپکے جوانی کے عمدہ ایام تھے۔۔۔ اسی دور میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اولاد کی نعمت سے بھی نوازا جو کہ ایک نارمل زندگی کی نشاندہی کرتی ہے ۔۔۔ آپؐ کی اتنی شادیوں کے پیچھے کچھ اغراض و مقاصد تھے ۔۔۔جنکے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مثالیں قائم کیں ۔۔۔ جو عام شادیوں سے بہت ہی زیادہ عظیم اور جلیل المرتبہ تھے۔۔۔ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ کی بیٹیوں سے عقد ان جلیل القدر اصحاب سے تعلقداری کا ذریعہ تھا اسی طرح آپﷺ نے اپنی بیٹیوں کے رشتے حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کو دیئے وجہ یہ تھی کہ یہ  چاروں  جلیل القدر اور بلند مرتبہ اصحاب پیچیدہ ترین دور میں اسلام کیلیئے فداکاری کا امتیازی وصف و جذبہ رکھتے تھے ۔۔۔
عرب کا دستور تھا کہ وہ رشتہُ مصاہرت کا بڑا احترام کرتے تھے انکے نزدیک دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے درمیان قربت کا ایک اہم سبب رھا اور داماد سے جنگ لڑنا اور محاذ آرائی کرنا بڑے شرم اور عار کی بات سمجھی جاتی تھی ۔۔اس دستور کو سامنے رکھکر آپﷺ کو چند شادیاں کرنی پڑیں   ۔۔اسکے علاوہ ان سب سے عظیم بات یہ ہے کہ رسولﷺ ایک غیر مہذب قوم کو تربیت دینے ، اسکا تزکیہُ نفس کرنے اور تہذیب و تمدن سکھانے پر معمور تھے ۔۔آپ ﷺ نے مختلف عمر اور لیاقت کی اتنی عورتوں کو منتخب فرمایا جو عورتوں کی تعلیم وتربیت میں معاون ثابت ہوں انکی تعلیم، تربیت، تزکیہ نفس کریں اور مسائل شریعت سکھا سکیں ۔۔۔۔
نبی کریم ﷺ کا ایک نکاح ایک ایسی جاہلی رسم توڑنے کے لئے بھی عمل میں آیا جو عرب معاشرہ  میں پشت ہا پشت سے چلی آ رہی تھی کہ متبنیٰ کو حقیقی بیٹے کے برابر جانا جاتا تھا۔۔۔ اسکی حرمت اور حقوق بھی حقیقی بیٹے کے برابر تھے۔۔جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب سے آپکا نکاح کروا کر ان سبکو باطل ثابت کر دیا ۔۔۔
امہات المومنین کیساتھ آپ ﷺکی زندگی انتہائی بلندپایہ، شریفانہ ، باعزت اور عمدہ انداز کی تھی ۔ازواج مطہرات بھی شرف ، قناعت ، صبر تواضع خدمت اور ازدواجی حقوق کی نگہداشت کا مرقع تھیں۔۔۔ آپؐ اپنی ازواج سے انتہائی شفیق رویہ رکھتے تھے۔۔۔ انکے اوپر خوامخوا کے کاموں کا بوجھ نہیں ڈالتے تھے بلکہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔۔۔ روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کیساتھ آپؐ نے  دوڑ کا مقابلہ بھی کیا  ۔ازواج سے لطیف انداز میں گفتگو بھی آپؐ کا وطیرہ تھی۔۔۔ ایکدفعہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ آپ ؐ سے گلے شکوے کر رہی تھیں اور آپؐ مسکرا کر انکا جواب دے رہے تھے۔۔۔۔ کبھی اپنی ازواج کیساتھ نہ سخت کلامی فرمائی نہ ترش روئی سے پیش آئے ۔۔آپ ﷺ سراپا رحمت تھے۔۔۔سراپاالفت تھے۔۔۔۔ آپ ؐ نے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بیویوں کی باریاں  مقرر کر رکھی تھیں  گو کہ آپﷺ  پر اپنی بیویوں کے بارے میں باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے محبت و الفت کو برقرا ر رکھنے کے لئے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر فر مایا تھا جس کی آپ ﷺ پابندی کرتے تھے اور کبھی کسی وجہ سے ایک کے پاس تشریف لے جاتے تو پھر ساری ازواج مطہرات کے پاس خبر گیری کے لئے تشریف لے جاتے ۔آپ ﷺ کے اسی بے مثال محبت کا نتیجہ تھا کہ ازواج مطہرات میں سے ہر ایک اپنے آپ کو آپ ﷺکے سب سے زیادہ قریب سمجھتی تھیں۔
جب آپ ﷺ سفر میں تشریف لے جاتے تو خاص اپنی مرضی سے کسی کو لے جا سکتے تھے مگر آپ ﷺ قرعہ اندازی فر ماتے اور جن کانام نکلتا ان کو لے جاتے ۔زندگی بھر آپ ﷺ انہیں اصولوں پر قائم رہے یہاں تک کہ زندگی کے آخر لمحات میں جب کہ آپ ﷺ کی طبیعت بڑی ناساز تھی اس وقت بھی اس کا مکمل خیا ل رکھا اورجب سب کے پاس جانے کی طاقت نہ رہی تو آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے حضرت عائشہ کے حجرے میں رہنے کی ’اجازت مانگی‘ جسے سارے ازواج نے بخوشی قبول فر مالیا۔

اور ان سب کے باوجود آپ ﷺ اپنے رب کریم سے دعا مانگتے کہ:اے میرے مولیٰ!جو برابری میرے بس میں تھی وہ میں نے کی لیکن جس بات پر میں قادر نہیں اس پر مجھے ملامت نہ فرما۔

حوالہ جات
(نسائی،کتاب عشرۃ النسائ
 رحیق المختوم
تحریر آمنہ سردار

یہ میر ی ایک کاوش ہے۔۔۔۔
اللہ کریم اسے قبول فرمائے آمین ۔۔۔اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو رب تعالیٰ سے معافی کی خواستگار ہوں ۔۔۔

No comments:

Post a Comment