Wednesday, November 6, 2019

کیا جنگ مسائل کا حل ہے

۔۔۔۔۔
ہم بھی کیا سادہ لوح لوگ ہیں  جواپنے مسائل کے حل کے لئے دوسروں کی جانب نظر کرتے  ہیں ۔۔۔خود آگے بڑھکر اس مسئلے کو نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہی اسکو حل کرنے کی ۔۔۔۔ یہ ہماری کمزوری بھی ہے اور کوتاہی بھی ۔۔۔۔اس پر قابو پانا سب سے اہم ہے۔۔۔۔مسئلے ملک کے اندرونی معاملات کے ہوں یا بیرونی ہم نے عادت بنا لی ہے کہ اس کے حل کے لئے دنیا بھر کے لوگوں کو امید افزا نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں ۔۔۔ ملکی مسائل کے لئے ہماری نظر امداداور قرضوں پر لگی رہتی ہے جبکہ ملکی سالمیت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہم اقوام متحدہ کی طرف نظر کئے ہوتے ہیں۔۔۔۔اور وہاں سے طبل جنگ بج اٹھنے کا اعلان ہوتا ہےبجائےمصالحت کے۔۔
آجکل دنیا میں مسائل کی بھر مار ہے اور یہ مسائل بھی خود حضرت انسان کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔۔۔دنیا امن کا گہوارا توخیر کبھی نہیں رہی لیکن آج کی دنیا گزرے وقت کی دنیا سےقدرے بہتر تھی۔۔ہتھاروں اور اسلحےکی ایجادسےپہلے ۔۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی  سے  پہلے۔۔۔ایٹمی ہتھیاروں اور نیوکلیئیر بم کی دریافت و ایجاد سےپہلے دنیا بہت بہتر حالت میں تھی۔۔۔۔ لیکن پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے تواتر نے دنیا کو حالت جنگ میں ہی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ایک صدی گزرنے کے بعد بھی دنیا پہلی جنگ عظیم کے اثرات سےابھی تک مکمل طور پر  باہر نہیں آ پائی ۔۔۔۔ آئے دن کچھ نہ کچھ۔۔۔کہیں نہ کہیں   لڑائیاں چِھڑی ہوتی ہیں۔۔۔۔یہ ان پچھلے اثرات کی بدولت ہی ہیں ۔۔۔حالات کو گفت و شنید سے درست کرنے کی بجائے ہتھیار اٹھا لئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔مصالحت کی بجائے جنگ کے لئے رستہ ہمور کیاجاتا ہے  ۔۔لڑائیاں  مذاکرات کی راہ بند کر دیتی ہیں۔۔۔۔ بجائے اس کے مسئلے پر بات بیٹھ کر ہو اسے جنگ کے الاوُ میں جھونک دیا جاتا ہے ۔۔۔جس سے مسائل کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے جاتے ہیں اوریوں یہ  جنگ دنیا بھرکو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جاتی ہے۔۔۔۔ 
سوال یہ اٹھتا ہے کیا جنگ مسائل کا حل دے گی۔۔۔۔تو ایسا نہیں ہے ۔۔۔جنگ مسائل کا حل نہیں  بلکہ مزید مسائل کا پیش خیمہ ہے ۔۔۔۔۔ جنگ  پہلے سے بڑھکر بڑے مسائل  کو جنم دیتی ہے ۔۔۔دنیا بھر میں ہونیوالی جنگوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ دنیا میں کتنی تباہی اور بربادی ان جنگوں نے پھیلائی ہے ۔۔۔۔ جس مسئلے کو نقطہ بنا کر جنگ شروع کی گئی وہ برسوں گزرنے کے بعد بھی جوں کا توں وہیں موجود ہے۔۔۔۔اس سے نا صرف وہ خطہ متاثر ہوتا ہے بلکہ اسکے اثرات پوری دنیاپر پڑتے ہیں۔۔۔معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔۔۔۔ لوگ اپنی جانوں سے تو ہاتھ دھوتے ہی ہیں۔۔۔انکے خاندان ایک تباہ حال زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ خوشحالی بدحالی میں۔۔۔ترقی تنزلی میں۔۔۔۔ عروج زوال میں بدل جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جنگیں چلتی رہتی ہیں اور ساتھ تباہی کے در وابھی کئے رکھتی ہیں۔۔۔۔ کشمیر۔۔۔فلسطین۔۔۔۔بوسنیا۔۔۔افغانستان ۔۔۔۔۔انکو جنگ نے کیا دیا الٹا ان ممالک کو غربت اور تنزلی کی چکی میں پسنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔ یہ ممالک چاہ کر بھی واپس اپنی جگہ پر نہیں آسکتے۔۔۔اسکے لئے انکو بہت وقت درکار ہے۔۔۔۔۔ بڑی طاقتیں جو انکے استحصال کے لئے ہمہ وقت پنجے تیز کئے بیٹھے ہوتی ہیں۔۔۔۔ جو ان غریب پسماندہ ممالک کی قسمتوں کے فیصلے کرتی ہیں۔۔۔ جو انکے حقوق سلب کرتی ہیں ایسے خاموشی سے کہ انکو خبر تک نہیں ہوتی۔۔۔۔ اب ہتھیاروں کی جنگ سے نکل کر عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔۔۔۔اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہو گی۔۔۔۔اپنے نامساعد حالات۔۔۔۔ بدتر معیشت ۔۔۔ اور غربت و تنزلی سے نکل کر اپنی آواز کوایسے فورمز پر اٹھانا ہوگا جہاں انکی شنوائی ہو۔۔۔۔ اپنی پست آواز میں جان خود پیدا کرنی ہو گی۔۔۔اور یہ سب اسی وقت ممکن ہو گا جب حالت جنگ سے نکل کر اپنے حالات کا جائزہ لیاجائے  اور ان سے نمٹنے کے اسباب کئے جا سکیں۔۔اسکےلئےمحنت ۔۔۔اخلاص ۔۔اتحاد ۔۔عزم اور استقامت کی ضرورت ہے۔۔۔۔ہمارے سامنے نیلسن مینڈیلا جیسے عظیم شخص کی مثال موجود ہے جو ہمت۔۔۔۔ جہدِ مسلسل اوراستقامت کا پیکر نکلا۔۔۔جسنے اپنی عوام کو غربت ۔۔۔بے چارگی اور غلامی سے نکال کر ایک باحوصلہ قوم بنایا۔۔۔۔
ضروری نہیں ہے کہ ہتھیاروں کی جنگ سے دوسرےکو شکست دی جائے۔۔۔دلائل۔۔۔مذاکرات۔۔مباحث ۔۔مناظرے ۔۔۔ان سب کے دروازے کھلے ہیں۔۔انکے ذریعے بھی اپنے ملک۔۔قوم۔۔نسل۔۔کے لئے لڑا جا سکتا ہے ۔۔۔انکے حقوق کے لئے آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔۔۔انکے مفادات کا تحفظ ممکن ہے ۔۔۔۔لیکن المیہ یہ ہے کہ چھوٹے اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے۔۔۔ان کی فریاد رسی کی بجائے انپر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے چاہے وہ ہتھیاروں کی جنگ ہو۔۔۔۔معیشت کی جنگ ہو۔۔۔۔ثقافت کی جنگ ہو ۔۔ میڈیا کی جنگ ہو یا آجکل ففتھ جنریشن  وار کی جنگ ہو۔۔۔۔ جنگ تو جنگ ہوتی ہے چاہے وہ کسی طور بھی لڑی جائے ۔۔۔ غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کو ملکر کوئی ایسا فورم تلاش کرنا ہو گا  جہاں انکی بات کو وزن دیا جائے۔۔۔۔انکے مسائل کو دیکھا جائے سنا جئے ۔۔۔۔ ۔انکے حل کا سد باب کیا جائے ۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے یہ طاقتور کہلانے والے ۔۔۔۔ترقی یافتہ ممالک خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔یہ چھوٹے ممالک کو آپس میں لڑا کر خود کو اور محفوظ و مضبوط سمجھتے ہیں۔۔۔۔ ففتھ جنریشن وار ان ہی کا نیا حربہ ہے کہ اب ہتھیاروں کی بجائے انکو جدید طریقوں سے ہراساں کیا جائے ۔۔۔اب انکو نفسیاتی مار ماری جائے۔۔۔معاشی طور پہ کھوکھلا کیا جائے۔۔۔ثقافتی طور پہ انکی اقدار کا جنازہ نکالا جائے ۔۔۔یہ ہے طاقتور دنیا کی نئی بساط ۔۔۔۔ ففتھ جنریشن وار۔۔۔۔ اس قسم کی جنگ سے اس دنیا کے ٹھیکیداروں کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ کم خرچ بالا نشینی والی حکمت عملی کے تحت ہے کہ جس میں نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے کے مصداق صرف پراپیگنڈےکے ذریعے۔۔۔میڈیا وار کے ذریعے اقوام کو خوف وہراس میں مبتلا کر کے نفسیاتی طور پہ کمزور اور دنیا سے الگ تھلگ کرنا ہے۔۔۔اس میں ہمارے پاس دو مختلف امثال موجود ہیں۔ایک ایران کی جو امریکہ کے پراپیگنڈے کی نذر ہوا اور عراق کی جسے ففتھ جنرہشن وار کے ذریعےنشانہ  بنایا گیا۔۔۔۔
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو ۔۔۔۔ کسی بھی خطے میں ہو۔۔۔۔ جنگ طاقت کے حصول کے لئے  اور دوسرے کو کمزور کرنے کے لئے لڑی جاتی رہی ہے اور لڑی جاتی رہے گی۔۔۔۔۔ ہمیں اس اصل فتنے یعنی طاقت کے حصول اور قوت کے نشے کی سرشاری کے زعم کو ختم کرنا ہوگا۔۔۔۔یہ دنیا اسوقت تک امن و امان کا گہوارا نہیں بن سکتی جبتک کہ ان خدائی فوجداروں کے دلوں سے طاقت حاصل کرنے کی ہوس نکل نہ جائے.  ۔۔۔۔بھلے کتنے ہی فورم بنا لئے جائیں ۔۔۔کتنی ہی تنظیمیں سرگرم عمل ہوں جبتک دنیا کے ان ٹھیکیداروں کی نیتیں صاف نہءں ہونگی۔۔انکے نزدیک ہرچیز کا حل جنگ میں ہی ہوگا۔۔۔جبکہ حقیقت کا اسمیں کوئی دخل نہیں یہ پراکسی وارز ہیں جو زبردستی ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک پر نافذ کی جاتی ہیں کہ وہ کبھی سر اٹھاہی نہ سکیں۔۔۔لیکن ہمارے سامنے بہت سی غیرتمند اقوام ہیں جنہوں نے تمام مشکل حالات کے باجود سر تسلیم خم نہیں کیا اور غیرت و جرات کے ساتھ ڈٹی رہیں۔۔۔جرمنی۔۔۔ایران۔۔ بنگلہ دیش ۔۔۔۔ ایسی ہی مثالیں ہیں۔۔۔جنہوں نے جنگوں کے بد اثرات کو خود پر سے ہٹایا اور اپنی معیشت کو مضبوط کر کے آج اپنے پیروں پہ کھڑی ہیں۔۔۔۔۔ ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment