Sunday, October 21, 2018

پانی آب حیات ہے Water is life



وقت کا اہم ترین تقاضہ یہ ہے کہ پانی کو کیسے بچایا جائے۔ کیونکہ جدید ریسرچ کے مطابق پاکستان میں پانی یہاں پہ بسنے والی آبادی کے تناسب سے دن بدن گھٹ رہا ہے۔ پانی کو محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ ڈیمز کا بنانا ہے۔ ڈیم اسوقت ہماری بہت بڑی ضرورت ہے اسمیں کوئی شک نہیں۔لیکن ڈیم بننے میں وقت لگے گا راتوں رات نہیں بن جائیں گے۔لہذا ہمیں کچھ ایسا سوچنا ہو گا کہ ہم کیا اقدامات کریں جس سے ہم ڈیم کے بننے تک پانی کو بچا سکیں ۔ 

ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فیٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فیٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ 
پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔

ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔
 لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صورتحال میں کیا کیا جائے جبکہ  پانی کم ہورہا ہے ۔ اسکے لئے کچھ تجاویز ہیں ۔

 پانی کا استعمال کم سے کم کیا جائےجہاں آدھی بالٹی سے کام چل سکتا ہو وہاں  پوری بالٹی ضائع نہ کی جائے۔ گاڑیوں کو دھونے کے لئے کم سے کم پانی استعمال کیا جائے ۔  صفائی کی شوقین خواتین جو گھر کے فرشوں پر دھلائی میں بے دریغ پانی خرچ کرتی ہیں ان سے گزارش کے جہاں کپڑا مار کے یا mopping  کے ذریعے صفائی ہو سکتی ہے اسکو استعمال کریں ۔ واش رومز میں اکثر leakage ہوتا ہےاسکو فوری طور پر مرمت کرنا چاہئیے ۔خاص طور پر سرکاری اداروں میں ایک واشل کے نہ ڈالنےسے  پانی کا کتنا ضیاع ہو جاتا ہے۔ بہت سے محلوں، کالونیوں اور راستوں  میں پانی کے پائپس کی لیکیج کی وجہ سے پانی کا بہت ضیاع ہوتا ہے۔ 
 پانی کے وہ نالے یا چھوٹی ندیاں جن سے پینے کا مقصد تو پورا نہیں ہوتا لیکن اس پانی کوفرشوں اور گاڑیوں کی  دھلائی کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس پانی کو آلودہ نہ کریں۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ محلوں میں گٹروں کی جگہ ان نالوں میں گندے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ جو انتہائی نامناسب ہے اور متعلقہ محکموں کو فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے اسمیں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ بہتے پانی کو آلودہ کرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے ۔ 
شہروں کا 15 فیصد اور دیہاتوں کا 18 فیصد پانی پینے لائق رہ گیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان میں 60سال پہلے فی فرد 50 لاکھ لیٹر پانی دستیاب تھا۔ پانچ گنا کمی کے بعد آج کل یہ مقدار 10 لاکھ لیٹر رہ گئی ہے۔
8)کچھ جگہوں پر ٹیوب ویلز سے اضافی پانی کا اخراج ہوتاہے ۔ اسکو محفوظ کیا جا سکتا ہے لیکن کئی جگہوں پر وہ فالتو میں بہہ رہا ہوتا ہے ۔ 
ہمارے سائنسدان گندے پانی سے صاف پانی بنانے کے تجربات کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئیے وہ ان ریسرچرز کو بھی فنڈنگ کریں تاکہ ملکی ضرورت پوری ہو۔ ایک اندازے کے مطابق 29 بلین کیوبک پانی روزانہ waste ہوتا ہے۔ اسکو پودوں کے ذریعے صاف کرنے کے تجربات ہو رہے ہیں  جو کہ زراعت کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔  مون سون کا پانی بھی ذخیرہ کر کے روز مرہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ 
 جن علاقوں میں پانی دریا یا ندیوں کی صورت میں موجود ہے۔ لوگ اپنی مدد آپکے تحت بھی چھوٹے ڈیمز بنا سکتے ہیں۔ 

ہماری اسوقت کی اہم ترین ضرورت پانی کے ضیاع کو روکنا ہے۔پانی کو ضائع ہونے سے روکنا صدقہُ جاریہ ہے ۔
پانی کے ذخائر اور انفرا اسٹرکچر میں اضافہکر کے پانی کے مسائل کے بارے میں شعور پیدا کیا جائے  اور بارش کے پانی سے کاشتکاری کی جائے۔
طلب اور فراہمی کے سلسلے میں حکومت اور انفرادی سطح پر ہر شخص کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ گھریلو اور صنعتی صارفین کو یکساں طور پر پانی کفایت شعاری سے استعمال کرنا ہوگا۔زیادہ پانی کی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ 
ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشتکاری، گرے واٹر کی ری سائیکلنگ، واٹر پرائسنگ، پانی کے ذخائرمیں اضافے، پانی کی آلودگی میں کمی کے اقدامات کو فروغ ملے شہری آبادیوں میں متوازن اضافہ ہو۔ایس ڈی جی نے استعمال کے قابل پانی کی دستیابی اور مینجمنٹ پر زور دیا ہے۔اس کے تحت ہر شخص کو صاف پانی کی فراہمی اور صحت و صفائی کی سہولتیں فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ پانی کے بہتر اور کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کے لئے اسکولوں اور میڈیا پرمہم چلائی جائے ۔جو کہ شعور اجاگر کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ 
پانی کے کم ہونے کے بہت سے اسباب ہیں۔ آبادی میں اضافہ، شہروں کی طرف ہجرت، کھیتوں میں زیادہ پانی کی ضرورت والی کاشت کاری، صنعتوں کا پھیلاؤ، ناقص انفرااسٹرکچر، لیکج کی وجہ سے سپلائی میں کمی۔۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بھی بڑی تعداد میں پانی کا ضیاع ہوتا ہ
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کے کم یا زیادہ ہونے اور گلئیشرز کے پگھلنے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ جو ملک میں پانی کا 96 فیصد استعمال کرتا ہے متاثر ہوگا۔
ان تمام مسائل کے سد باب کے لئے ہمارے پاس ڈیم بنانے کی آپشن ہے۔ لیکن
پانی کے امور کے ماہر حسن عباس نے بھی بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق دنیا میں کہیں بھی اتنا بڑا منصوبہ چندے کی مدد سے تعمیر نہیں کیا گیا ہے اور ان منصوبوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیے جاتے ہیں۔

’دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کے لیے اگر آپ پاکستان کے تمام شہری، بشمول نوزائیدہ بچے، اگر اس فنڈ کے لیے 30000 روپے دیں تو شاید کچھ بات بنے۔ لیکن کیا ہمارے ملک میں اوسط تنخواہ اتنی ہے؟ اس فنڈ بنانے کا خیال ناقابلِ عمل لگتا ہے۔‘


ساتھ ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ بونڈ جاری کر دے تو مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر فنانشل منصوبہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کی مدد سے زیادہ رقم حاصل ہو سکتی ہے.
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر عرفان چوہدری کے خیال میں پاکستان میں بارش کا پیٹرن بہت مختلف ہے اور اب اس پیٹرن کے ساتھ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا، جس کی وجہ سے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں،’’مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں مختصر مدت کے لئے زیادہ بارش ہوتی ہے، جو صحیح طرح زیر زمین جذب نہیں ہوتی اور چونکہ ہمارے پانی جمع کرنے کے ذخائر بھی کم ہیں۔ اس لئے ہم اس پانی کا ذخیرہ بھی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں بڑے ڈیموں کو تعمیر کرنے کے لئے پہلے ہمیں بہت سے سیاسی مسائل سے لڑنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیں گوٹھ اور دیہات کی سطح پر چھوٹے اسٹوریج ٹینک بنانے چاہیں، جس سے نہ صرف پانی جمع ہوگا بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی، جو بلوچستان سمیت کئی علاقوں میں خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ ہمیں سیلابی نہریں بنانی چاہیں اور اگر مون سون کے دور میں بارش بہت زیادہ ہو اور سیلابی شکل اختیار کر لے تو ان سیلابی نہروں کے ذریعے ایک طرف ہم اپنی فصلوں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور دوسری طرف ان نہروں کی بدولت بھی زیرِ زمین پانی کی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے۔‘‘

دس برسوں میں پاکستان قحط کا شکار ہو سکتا ہے، رپورٹ
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انرجی کے ماہر فیصل بلوچ کے مطابق اس رین پیٹرن کو بہتر کرنے کے لئے شجر کاری بہت ضروری ہے،’’پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے کئی ممالک میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کے تجربے ہوئے ہیں لیکن اب کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ان بڑے ڈیموں کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوتا ہے۔ اسی لئے دنیا کے کئی ممالک میں ان ڈیموں کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ ڈیموں کے لئے ایک خطیر سرمایہ چاہیے ہوتا ہے جب کہ اس سے سیاسی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں مصنوعی جھیلیں بنا کر پانی کو ذخیرہ کرنا چاہیے، جس سے نیچرل اکوافر ریچارج ہوگا۔ اس کے علاوہ فیلڈ اریگیشن کو ختم کر کے ہمیں دوسرے طریقے اپنانے چاہیں۔ پانچ ملین ایکڑ فٹ (MAF)صرف ہم یہ طریقہ کاشت کو ختم کر کے بچا سکتے ہیں۔‘
چند مزید حقائق ملاحظہ فرمائیں بھاشا ڈیم کی پانی ذخیرہ  کرنے کی کل گنجائش 10،000،000،000 میٹر کیوبک ہے۔ ایک پاکستانی اوسطا"30 سے 350 لٹر پانی روزانہ استعمال کرتا ہے_اگر ہر پاکستانی 5 لٹر پانی کی بچت روزانہ  شروع کر دے تو ڈیم کے بننے تک ہم بحیثیت قوم ڈیم جتنا پانی بچا لیں گے اور ڈیم کے بننے کے بعد اتنا ہی پانی ہر دس سال بعد زراعت کے لئے مختص کر دیا کریں گے۔

No comments:

Post a Comment