Sunday, October 21, 2018

کلثوم نواز ایک عہد ساز شخصیت . Kalsoom Nawaz a legendary character


کلثوم نام سنتے ہی ذہن میں ایک حسین و بردبار ہنستا مسکراتا چہرہ آ جاتا ہے۔وہ  ایک کشمیری گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ خوبصورت، شوخ اور اچھی عادات کی حامل کلثوم اپنے خاندان اور دوستوں سب میں مقبول و پسندیدہ تھی۔ انکے والدڈاکٹر عبدلحفیظ بٹ کا تعلق گوجرانوالہ کے علاقے مصری شاہ کے ایک معزز اور پڑھے لکھے خاندان سے تھا۔ننھیال کی طرف سے انکا تعلق  پہلوانوں کے خاندان سے ہے۔ رستمِ  زماں گاما پہلوان انکے نانا اور بھولو پہلوان انکے ماموں ہیں۔  کلثوم کی دو بہنیں  اور ایک بھائی ہیں ۔ انہیں پڑھنے لکھنے کا شروع ہی سے شوق تھا ۔انہوں نے اسلامیہ کالج سے انٹر کیا۔ ایف سی کالج سے گریجویشن کیا۔ 1971 میں انکی شادی لاہور کے ایک کاروباری خاندان  کے میاں شریف کے بیٹے نواز شریف سے ہوئی جنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دہائی کے آخری دور میں کیا۔ کلثوم نے شادی کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ انکے پاس فلسفے میں PhD کی ڈگری بھی تھی۔ کلثوم ایک نہایت منکسر المزاج خاتون تھیں ۔ ملنساری، ہمدردی اور خوش اخلاقی انکے خاص اوصاف تھے ۔ انہوں نے اپنے سسرال والوں کے ساتھ بہت محبت اور اپنائیت کا وقت گزارا۔ اپنی ساس و سسر کو والدین کا درجہ دیا۔ انکے گھرانے کی ایک بات بہت ہی اچھی تھی کہ والدین کا انتہائی ادب واحترام کیا جاتا تھا۔ میاں شریف جب  تک زندہ رہے انکے بیٹے بڑے عہدوں ((وزیر اعلی' اور وزیر اعظم))   ہونے کے باوجود اپنے والد  کے انتہائی فرمانبردار تھے۔ یہی حال گھر کی خواتین کا بھی تھا۔ کلثوم کو اللہ تعالیٰ نے چار بچوں سے نوازا جن می۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ مریم، عصمہ، حسن اور حسین۔ ۔۔۔۔  کلثوم کو  پہلی مرتبہ 1990 میں خاتون اول بننے کا شرف حاصل ہوا۔ جو 1993 تک رہا۔ دوسری مرتبہ وہ 1997 سے 1999 تک خاتون اول رہیں۔ اپنے ہر دم مسکراہٹ بکھیرتے دلکش چہرے کیساتھ وہ کافی پسندیدہ خاتون اول رہیں۔ اکتوبر 1999 میں مشرف کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہی جب میاں نواز شریف  کو قید کر لیا گیا تو وہی خاتون جو زیادہ توجہ اپنے گھر اور بچوں کو دیتی تھی ایکدم میدان سیاست میں کود پڑی ۔ نواز شریف کو پارٹی کی صدارت چھوڑنی پڑی۔ اور کلثوم نواز کو صدارت کا تاج پہنایا گیا۔ انتہائی دگر گوں حالات میں اس گھریلو  عورت نے ایک آمر کے سامنے کلمہُ حق بلند کر کے بہادری کی ایک مثال قائم کر دی۔ اس نے لاہور سے پشاور تک مارچ کیا۔ پارٹی کے بہت سے سر کردہ لوگ گرفتارہو گئے  لیکن بہت سے لوگ  منظر سے غائب بھی ہو گئے جن میں آج کے کچھ بڑے سیاستدان بھی موجود ہیں ۔ پارٹی کے نظریاتی ورکرز و کارکنان نے انکا ساتھ دیا۔ انکے ساتھ چلے۔ ہزارہ میں سردار اورنگ زیب نلوٹھا اور دیگر مقامی رہنماوں نے انکا بھر پور ساتھ دیا۔ اور انکے ساتھ جمہوریت کے نفاذ کے لئے ڈٹ گئے۔ محترمہ کی بہادری سے آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کی وجہ سے انکو مادر جمہوریت کا خطاب دیا گیا۔ 2002 تک وہ پارٹی کی صدر رہیں۔ لیکن جیسے ہی میاں صاحب واپس آئے تو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ باوجود اسکے کہ انہوں نے یہ چار سال کس ہمت ، جوانمردی اور سیاسی بصیرت  سے گزارے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور کسی بھی عہدے کی خواہش نہ کی۔ 2013 میں انکو تیسری مرتبہ خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور وہ اپنی روایتی ملنساری اور خوش اخلاقی کیساتھ ایک بار پھر اس منصب پر فائز ہوئیں۔ 2017 میں میاں صاحب کی زبردستی کی نااہلی کے سبب وہ اس منصب سے ہٹ گئیں۔ میاں صاحب کی نا اہلی کی وجہ سے انکے حلقے کی سیٹ خالی ہوئی۔ جسپر محترمہ نے ضمنی الیکشن لڑا اور 59413ووٹ لیکر پی ٹی آئی کی یاسمین راشد سے بہت اچھی lead سے جیت گئیں۔ اسی دوران طبیعت کی خرابی کے پیش نظر انکو لندن طبی معائنے کے لئے جانا پڑا۔ جہاں پر یہ افسوسناک انکشاف ہوا کہ وہ گلے کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ شریف خاندان کے لئے یہ ایک اور آزمائش کی گھڑی تھی۔ مخالف پارٹیوں کے لوگوں نے انکی بیماری کی خبر کو ڈرامہ، فراڈ اور نہ جانے کیا کیا کہا۔ بیماری کی شدت کی وجہ سے وہ حلف لینے بھی نہ آ سکیں۔ انہیں  کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی جیسے علاج کے سخت مراحل سے گزرنا پڑا لیکن وہ صبر و استقامت کا پیکر بنی اپنے محبوب شوہر اور پیاری بیٹی کی منتظر رہیں۔ انکے بارے میں بار بار استفسار کرتی رہیں۔ لیکن بیٹی اور شوہر تو جمہوریت کی بالادستی کے لئے سرگرم عمل تھے۔ باوجود چاہت کے وہ انکی عیادت کے لئے نہ جا سکے۔ لیکن جب انکی طبیعت کے زیادہ بگڑنے کی خبر ملی تو وہ دونوں فوری طور پر رخصت ہوئے لیکن بدقسمتی سے اسی دن انکو کارڈیک اریسٹ ہوا اور وہ کومے میں چلی گئیں۔ انکو ventilator پہ ڈالدیا گیا۔ مریم اور میاں صاحب روزانہ انکی عیادت کو جانے لگے لیکن یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب وہ جیسے ان سے ناراض ہو گئی ہیں اور انکے پکارنے پر بھی انکو جواب نہ دیتی تھیں۔ شوہر اور بچے بے بسی کی تصویر بنے تھے کہ خدائی کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ ہر طرح کا علاج معالجہ ہو رہا تھا لیکن کوئی بہتری کے امکان  و آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ بہر حال باپ بیٹی کو عدالتی فیصلے کی لاج رکھتے ہوئے اور اپنے اصولوں پہ قائم  رہنے کی وجہ سے بحالت مجبوری  محترمہ کو اسی کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ کر واپس آنا پڑا ۔ مخالفین نے انکی بیماری پہ پورے پورے پروگرام کئے اور اسے جھوٹ قرار دیا۔ لوگوں نے انکی بیماری پہ طنزیہ tweets کیں کہ کہاں ہیں کلثوم نواز اور کس حال میں ہیں ۔ جبکہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھیں۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ انکو ہوش آیا اور سب سے پہلے انہوں نے محبوب شوہر اور بیٹی کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے انکا پوچھا ۔ انکو کبھی کسطرح بہلایا جاتا اور کبھی کیسے عذر تراشے جاتے لیکن ایک فرمانبردار بیوی آخر دم تک اپنے شوہر اور پیاری بیٹی کے بارے میں سوال کرتی رہیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ شوہر اور بیٹی قیدو بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ اگر یہ معلوم ہوتا تو نہ جانے انکا مذید کیا حال ہوتا۔ آخر تھک ہار کر مایوس ہو کر انہوں نے اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کر دی۔ 11ستمبر کا یادگار دن جب ہم اپنے عظیم لیڈر قائد اعظم کی برسی مناتے ہیں وہی دن کلثوم نواز کی وفات کا دن بن گیا۔ اتفاو زمانہ  دیکھئے کہ شوہر کی سالگرہ قائد کی سالگرہ کے دن ہوتی ہے اور بیگم کی وفات قائد کی برسی کے دن ۔ یہ بھی قائد سے محبت کا ایک انداز ہے انکے رب کیطرف سے۔ کلثوم نواز کی زندگی کا وہ باب جو 12 مارچ 1950 کا شروع ہوا آخر 11 ستمبر 2018 کو اپنے اختتام کو پہنچا۔ 13 ستمبر کو انکی نماز جنازہ لندن کی سنٹرل مسجد میں مقامی وقت کے مطابق دن 12 بجے پڑھائی گئی۔ پاکستان میں انکی تجہیز و تکفین کا دن 14 ستمبر بمقام جاتی امرا شام 5:30 ہے۔ بیگم کلثوم نے اپنے پیچھے سوگواران میں صرف اپنے خاندان کے لوگ نہیں چھوڑے بلکہ روتے بلکتے اپنے لاکھوں چاہنے والے ، کروڑوں مسلم لیگی چھوڑے ہیں انکا سلوک تمام پارٹی ورکرز سے مشفقانہ اور محبت آمیز ہوتا تھا۔ بہت کم لوگ ایسے اخلاق کے حامل ہوتے ہیں ۔ کلثوم نواز کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جنکی تعریف انکے دشمن بھی کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک معزز اور غیر متنازعہ خاتون رہیں ۔وہ ہمیشہ  باہمت، صابر ،اور ہر حال میں شاکر رہیں ۔  ساٹھ اور ستر کی دہائی کی خوبصورت، الہڑ دوشیزہ   زندگی کے اتنے اتار چڑھاوُ دیکھنے کے بعد آخراپنی ابدی منزل کو پہنچ گئ۔ اللہ کریم انکی مغفرت فرمائےاور انکے درجات بلند فرمائےاور انکو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔دعاگو آمنہ سردار

No comments:

Post a Comment