Sunday, October 18, 2020

رنگ رنگ دنیا۔۔۔میرا پہلا سفر

  


رنگ_رنگ_دنیا


سفرنامہ 


میراپہلاسفر۔۔۔۔قسط1



میں نے زندگی میں بہت سے سفر کئے انگریزی کے بھی اور اردو کے بھی ۔۔بہرحال آج اپنے سب سے پہلے سفر کا احوال بیان کرونگی جو میں نے قریب سولہ سترہ برس کی عمر میں کیا۔۔۔یہ میرا پہلا بین الاقوامی سفر تھا ۔۔۔میرے والدین قطر میں تھے اور مجھے ان سے ملنے جانا تھا ۔۔۔تقریباً 90 کی دہائی کی بات ہے۔۔۔۔ میں فرسٹ ائیر کی سٹوڈنٹ تھی۔۔۔ پہلی فلائٹ میری پشاور سے تھی۔۔۔۔ والدین کے پاس جانے کا جذبہ اپنی جگہ لیکن تنہا بین الاقوامی سفر کرنے کا ایڈونچر اپنی جگہ موجود تھا۔۔۔ لیکن پشاور سے فلائٹ کا سنکر ارمانوں پر اوس پڑ گئی کیونکہ اسوقت پشاور ائیر پورٹ کوئی اتنا ڈویلپ بھی نہیں تھا اور ماحول بھی زرا سخت تھا ۔۔خیر قصہ مختصر میں پورے پروٹوکول کیساتھ ائیرپورٹ آئی کیونکہ میرے چچا جان ایس پی تھے اور بہت آسانی سے مجھے تمام مراحل سے گزارا گیا ۔۔دوسرے میرے کم عمر اور تنہا ہونے کی وجہ سے مجھے فرسٹ کلاس میں جگہ دی گئی۔۔۔لہذا میری زندگی کا پہلا سفر ہی بہت آسان اور آرام دہ رہا۔۔۔۔ اس زمانے میں کراچی میں قیام لازمی ہوتا تھا۔۔۔لہذا ہم کراچی میں رکے۔۔۔کراچی ائیر پورٹ کا ماحول پشاور سے یکسر مختلف تھا ۔۔۔


 میرے ساتھ ایک ینگ سی خاتون تھیں جو  ننھے سے بچے کیساتھ عازم سفر تھیں ان سے اچھی گپ شپ لگی ۔۔۔میرے چچا جان نے مجھے سخت تاکید کرکے بھیجا تھا کہ نہ کسی سے کوئی چیز لینی ہے ناہی کچھ دینا ہےحتیٰ  کہ کوئی چیز کسی کی تھامنی بھی نہیں ہے جیسے بیگ ۔۔پرس وغیرہ۔۔۔لہذا اس سلسلے میں میں نے بہت احتیاط برتی۔۔۔۔ اس زمانے میں سمگلنگ کے کافی کیسز ہوا کرتے تھے اور خاص طور پہ جس ائیرپورٹ سے میں جا رہی تھی ۔۔۔ 


دلچسپ بات اس سفر کی یہ تھی کہ رمضان کا مہینہ تھا اور میں روزے سے تھی۔۔۔۔اور آسمانوں میں محو پرواز روزہ کھولا جو ہمارے ٹائم سےخاصا لیٹ تھا۔۔۔بہر حال یہ بھی ایک انوکھا تجربہ تھا۔۔۔۔ سفر بخیر گزرا۔۔۔۔ جب قطر ائیرپورٹ پہ لینڈ کیا تو دنیا ہی اور نظر آئی کہاں پشاور ائیرپورٹ کہاں دوحہ ائیر پورٹ۔۔۔ روشنیوں سے آنکھیں خیرہ ہوئی جا رہی تھیں۔۔۔سونے پہ سہاگہ اماں ابا اور بہن سے ملنے کی خوشی سب سے سوا تھی۔۔۔۔ تقریباً رات کے دس بجے ہماری لینڈنگ ہوئی تھی ۔۔۔ سامان سے فارغ ہوکر والدین کیساتھ دخان کے سفر پہ روانہ ہوئے لیکن اس سے پہلے میرے والد صاحب سیدھا جیولری شاپ پر لیکر گئے اور ایک خوبصورت چین سیٹ میرے استقبالیہ کے طور پہ لیکر دیا۔۔۔وہ سیٹ آج اتنے برس گزرنے کے بعد بھی میرے پاس موجود ہے۔۔۔۔ والدین کے پیار کی بھی بھلا کوئی نشانی ہوتی ہےیہ سب تو دنیاوی چیزیں ہیں لیکن آج بھ وہ احساس یاد کرتی ہوں تو بہت ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔ انکی وہ خوشی وہ پیار کیسے بھلایاجا سکتا ہے۔۔۔اللہ کریم انکو سلامت رکھے آمین۔۔۔ 


کھانا چونکہ ہوائی جہاز میں کھا لیا تھا لہذا ہلکی پھلکی ریفریشمنٹ کے بعد دخان کی طرف عازم سفر ہوئے ۔۔۔

دخان جو ایک آئل فیلڈ تھی اور والد صاحب وہاں پہ انجینرنگ سروسز میں تھے ۔۔۔یہ ایک خوبصورت کینٹ ایریا تھا ۔۔۔جہاں پہ مختلف سیکٹرز تھے ۔۔۔بڑی فیملیز کے لئے بڑے گھر اور چھوٹی فیملیز کے لئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت یونٹس۔۔۔ انگریز افسران کے گھر بلکل ہٹ کر تھے ۔۔۔قریب ہی ساحل سمندر تھا۔۔۔۔ میں نے بہت بچپن میں کراچی کا ساحل دیکھا تھا ۔۔یہاں کا ساحل دیکھکر بہت ایکسائٹمنٹ ہوئی۔۔۔ دخان میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی لیکن شاپنگ کے لئے دوحہ جانا پڑتا تھا جو بڑا اور خوبصورت شہر تھا۔۔۔۔ 

آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے زندگی رہی تو پھر دوحہ اور دخان کے بارے میں اگلی قسط میں  تفصیل سے لکھونگی ۔۔۔۔ انشاءاللہ۔۔۔  

قسط2

دوحہ سے سفر کرکے دخان پہنچے۔۔۔دخان جیسا کہ میں پہلے بتا چکی ہوں ایک خوبصورت کالونی تھی جیسے ہمارے ہاں عموماً کینٹ ایریاز ہوتے ہیں۔۔۔ اسمیں مختلف بلاکس اور سیکٹرز تھے۔۔۔بڑی فیملیز کے لئے خوبصورت بنگلے اور چھوٹی فیملیز کے لئے چھوٹے چھوٹے سمارٹ یونٹس۔۔۔۔ دخان کا رہائشی علاقہ بہت بڑا نہیں تھا ۔۔۔ہم اکثر ایک گھنٹے کی واک میں پورا دخان گھوم آیا کرتےتھے۔۔۔دنیا کی ہر سہولت اس چھوٹی سی کالونی میں موجود تھی بلکہ میں تو کہوں گی دنیا کی ہر نعمت۔۔۔۔۔

 یہ بنیادی طور پہ ایک آئل فیلڈ تھی۔۔۔جو رہائشی علاقے سے فاصلے پر تھی۔۔۔یہ دنیا کی سب سے بڑی آئل فیلڈ مانی جاتی ہے ۔۔۔دخان الشہانیہ کی میوسپلٹی ہے جو دوحہ سے مغرب کی طرف 80کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے ۔۔یہاں کا موسم گرم خشک ہےاکثر دن کو شمال چلتا تھا یہ ایسی آندھی ہوا کرتی تھی جو ہر چیز کو  گردآلودکر دیتی تھی۔۔۔اور کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔بنیادی  طورپہ قطر ایک صحرائی علاقہ ہے اور ساحلی بھی۔۔دخان کے ساحل کی اپنی خوبصورتی تھی اور دوحہ کے ساحل کی اپنی۔۔۔۔دخان کا ساحل ریتلی زمین اور خشک کنکروں والا تھا جہاں سیپیاں چننے اور سورج کو غروب ہوتے دیکھنا ایک دلچسپ مشغلہ تھا۔۔۔ اکثر شام کو ہم وہاں جایا کرتے تھے۔۔اسوقت تو وہ ساحل اتنا ڈویلپ نہیں تھالیکن اب کافی خوبصورت بیچ بنا دی گئی ہے وہاں۔۔۔دخان میں قطر کی سب سے اونچی چوٹی بھی واقع ہے لیکن مجھے اسے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہو سکا۔۔۔ عرب ممالک میں قطر سب سے امیر ملک ہے۔۔۔.  یہاں دنیا کے تقریباً ہر ملک کے باشندے تھے ہندو ۔۔۔سکھ۔۔۔مسلم۔۔۔سری لنکن ۔۔نیپالی۔۔کورین۔۔گورے۔۔۔مصری۔۔شامی۔۔۔۔لبنانی۔۔عربی۔۔۔۔ایرانی۔۔پاکستانی۔۔افریقی۔۔۔  غرض  ہر رنگ ، نسل اور قوم کے لوگ یہاں روزگار کے حصول کے لئے جمع تھے ۔۔۔ بہت سے لوگوں سے والدین کی دوستی تھی۔۔۔۔رات کو واک پہ نکلتے تو مزید دوستیاں بنتیں۔۔ایک دوسرے کو انگریزی ۔۔عربی یا پھر اشاروں کی زبان میں سمجھاتے ۔۔۔غرض ایک وسیع دنیا آباد تھی اور روزانہ ہی کسی نہ کسی سے تعارف ہوتا تھا۔۔۔ایک اچھی بات یہ تھی کہ خواتین واک کرتے ایکدوسرے کو سلام ضرور کرتی تھیں اور کبھی کبھی حال احوال بھی پوچھ لیا جاتا۔۔۔


سیکیورٹی سسٹم اتنا بہترین کہ اگر رات گئے بھی واک کرو تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔۔۔عموماً تمام لوگ ایکدوسرے سے واقف ہی ہوتے تھے ۔۔۔ہماری تمام پاکستانی اور انڈین فیملیزسے بہت اچھے تعلقات تھے۔۔۔۔۔۔

میری والدہ بڑی پرخلوص اور دوستانہ مزاج کی حامل خاتون ھیں۔۔ ینگ لڑکیاں  سب انکی بیٹیاں اور بڑی خواتین بہنیں بنی ہوئی تھیں۔۔۔ وہاں پہ چونکہ ملنا جلنا بہت زیادہ تھا تو آئے دن دعوتیں چلتی رہتی تھیں۔۔۔ جب میں گئی تو کئی دن میری بھی دعوتیں چلیں۔۔۔۔مرد حضرات کے جاب پہ جانے کے بعد خواتین گھر کے بنیادی کاموں سے فارغ ہوکر ایکدوسرے کو11 بجے کی چائے پہ انوائٹ کر لیتی تھیں۔۔۔ چونکہ وہاں نوکروں کا تصور نہیں تھا تو زیادہ تر مل جل کر ہی کام کئیے جاتے۔۔ون ڈش پارٹی ہوتی جسمیں ہر کوئی مزیدار ڈش بنا کر لاتی۔۔۔ اور جاتے وقت برتن وغیرہ دھلا کر جاتیں۔۔۔۔میں نے برتن دھونے قطر میں سیکھے ۔۔جتنے برتن یہاں دھوئے پاکستان میں  زندگی بھر نہیں دھوئے ۔۔۔یہاں تو ہیلپرز موجود ہوتے ہیں۔۔وہاں پر بنگلہ دیشی ۔۔فلپائنی ملازمین ملتے تھے۔۔لیکن اسوقت ہمارے گھروں میں مرد ملازم رکھنے کا رواج نہیں تھا۔۔۔


 ان دعوتوں سے یہ ہوا کہ پاکستان میں جو کام کبھی نہیں کئے تھے وہاں کرنے پڑے۔۔۔بہت کچھ سیکھا اور مذید سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔۔۔۔نئی نئی ڈشز بنانے کا مقابلہ ہوتا تھا جو کہ بڑا ہی خوش آئند تھا ۔۔۔ 


ہم زیادہ تر واک کرکے ہی ایکدوسرے کے گھر جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔اکثر شام کو ساحل سمندر پہ جاتے۔۔۔میری بہن  آرٹسٹک مائنڈڈ تھی اور اسے آرٹس اینڈ کرافٹس کا بڑا شوق تھا وہ ساحل سے چنی سیپیوں سے کچھ نہ کچھ بناتی رہتی تھی۔۔۔ فراغت کی وجہ سے میں نے بھی بہت سی نئی نئی سکلز سیکھیں ۔۔۔میری بہن دوحہ کے پاکستانی ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ  میں پڑھتی تھی جبکہ میں پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔۔۔اور صرف چھٹیوں میں ہی جایا کرتی تھی۔۔۔مجھے اسوقت بھی پڑھانے کا بہت شوق تھا ۔۔اکثر والد صاحب کے دوستوں کے بچے پڑھنے آیا کرتے تھے۔۔۔اسوقت کی خوبصورت یادیں  آج بھی ساتھ ہیں۔۔۔اور شاید ساری زندگی ساتھ رہیں۔۔۔اماں باوا کے گھر کی زندگی تو ویسے بھی الہڑ پن اور بےفکری میں گزرتی ہے۔۔۔۔ ابھی یاد کرتی ہوں تو لطف آتا ہے کہ واقعی کیا بےفکری کاحسیں دور گزارا۔۔۔۔ 

اگلی قسط میں دوحہ کا تذکرہ  کرونگی انشاءاللہ۔۔

میراپہلاسفرقسط3

گزشتہ سے پیوستہ


یہ 90کی دہائی کا قصہ ہے جب میں اپنے والدین کے پاس قطر گئی ۔۔۔میرے والد صاحب دخان آئل فیلڈ انجینرنگ سروسز میں تھے ۔۔زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے وہاں تنہا گزارا بیس سال میں سے چند سال فیملی نے وہاں گزارے۔۔۔میں وزٹ ویزا پہ آتی جاتی تھی کیونکہ میرا تعلیمی سلسلہ پاکستان میں تھا ۔۔۔۔ہر چھ ماہ بعد میں دو تین ماہ کے لئے جاتی تھی۔۔۔

 پچھلی دو اقساط میں، میں نے اپنے سفر کی روئیداد اور دخان کے بارے میں لکھا ۔۔آج تھوڑا وہاں قیام کے بارے میں بتانا چاہوں گی۔۔۔۔ قطر میں قیام زندگی کا ایک بلکل مختلف تجربہ تھا۔۔۔ ہم یہاں پاکستان میں اپنے لوگوں اور اپنے رشتہ داروں کے درمیاں رہتے تھے۔۔یہاں اردگرد رشتے تھے ۔۔۔محبتیں تھیں۔۔دوستیاں تھیں۔۔۔۔وہاں سب کچھ نیا تھا۔۔۔ ماحول، رہائش، تعلق، دوست، احباب، معاشرت، رسوم و رواج ۔۔۔لیکن انسان ایک سماجی جانور ہے تو ظاہر ہے وہ جس ماحول میں بھی جائے اس کو اپنا لیتا ہے یا اسمیں ڈھل جاتا ہے۔۔۔۔ تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔۔ گو کہ میرے والدین میرے ساتھ وہیں پہ تھے لیکن میں پھر بھی اپنے بھائی ، نانی، دادی ۔۔دوستوں اور دیگر پیارے رشتوں کو مس کرتی تھی۔۔۔۔ کبھی کبھی اپنے گھر کی گلی تک یاد آتی اور نکڑ پہ بیٹھا کتا بھی یادوں میں در آتا ۔۔۔۔۔ہم لوگ اول تو کہیں باہر جانے کے لئے بڑے پرجوش ہوتے ہیں لیکن جب چلے جاتے ہیں تو وطن کی چھوٹی چھوٹی سی بات بھی یاد آتی ہے۔۔۔۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔۔۔لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ انسان نئے ماحول میں رچ بس جاتا ہے۔۔۔۔


وہاں پہ مختلف صوبوں اور علاقوں کے پاکستانی فیملیز سے بھی رابطے رہے  انکے رسوم و رواج دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ۔۔۔پاکستانی فیملیز میں پنجابی بھی تھے اور سندھی بھی ۔۔۔اہل زباں بھی تھے اور پشتون بھی۔۔۔سرائیکی بھی تھے اور ہوٹھوہاری بھی۔۔۔۔کشمیری بھی تھے اور بلوچی بھی۔۔۔۔غرض اپنی پاکستانی معاشرت اور رسوم و رواج سے بھی آشنائی ہوئی اور دیگر اقوام کے لوگوں سے بھی۔۔۔انڈینز میں انڈین مسلم سے زیادہ قربت رہی۔۔۔سکھ اور ہندو فیملیز بھی دوستوں میں شامل رہیں۔۔۔ہمارے قریبی پڑوسی راجستھانی مسلم اور نیکسٹ ڈور نیبر کوکنی مسلم تھے ۔۔۔انکی زبان ۔۔معاشرت۔۔رسوم و رواج کو بہت قریب سے دیکھا بھی اور بہت خوبصورت پایا بھی۔۔۔انکے رسوم و رواج اور تہوار بہت دلچسپ ہوتے تھے۔۔۔زبان بھی مختلف لیکن محبت کی چاشنی لئیے۔۔۔۔ ہندواور سکھ خاندانوں سے بھی دوستیاں تھیں۔۔۔وہ ہماری دعوتوں میں آتے اور ہم بھی اکثر انکی دعوتیں اٹینڈ کرتے۔۔۔ 

اسی طرح ایرانی۔۔۔فلسطینی۔۔مصری۔۔بیروتی۔۔۔سوڈانی۔۔۔شامی اور گورے بھی شامل تھے۔۔۔ فلسطینوں کی خوبصورتی تو ضرب المثل ہے۔۔۔میں نے اپنی زندگی میں فلسطینیوں سے خوبصورت لوگ نہیں دیکھے۔۔۔ایسے دلکش اور تیکھے نقوش کہ واللہ۔۔۔ اسی طرح مصریوں کی محنت ۔۔ سوڈانیوں کی جانفشانی اور ایمانداری کمال رہی۔۔۔۔عرب پڑھے لکھے اور ترقی پسند پائے ۔۔۔۔ ان سب سے زندگی میں بہت کچھ سیکھنے کا بھی موقع ملا۔۔۔۔ پردیس میں یہی لوگ رشتے دار بھی ہوتے ہیں اور دوست بھی۔۔۔


 پاکستانی فیملیز سےبہت قربت رہی ۔۔جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ والدین بہت پرخلوص ہیں تو بیشتر تو انکے بیٹے بیٹیاں بنے ہوئے تھے۔۔۔ جتنا عرصہ والدین ہم بچوں کے بغیر رہے ان ہی بیٹے بیٹیوں کی محبتوں اور خدمتوں سے فیضیاب ہوتے رہے۔۔ بہت خوبصورت اور پرخلوص دور تھا۔۔۔لوگ ایکدوسرے سے بے ریا اور بے غرضی سے ملتے ۔۔۔۔ ایکدوسرے کے کام آتے ۔۔۔ ایکدوسرے کا سہارا بنتے کیونکہ کیونکہ پردیس میں اپنے دیسی بہن بھائی ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔۔۔۔ ایک خاص انس ہوتا ہے ان سے۔۔۔۔ ابھی بھی اتنے برس گزر جانے کے بعد جب اس دور کے لوگ ملتے ہیں تو ایک قلبی خوشی ملتی ہے۔۔۔ہمارے والدین سے ابھی بھی بہت سے اُسوقت کے لوگ رابطے میں ہیں۔۔۔ اسوقت جو بچے تھے وہ آج کے بڑے ہیں جو جوان تھے ادھیڑ عمر ہیں اور جو ادھیڑ عمر تھے آج بزرگ ہیں۔۔۔۔ یہی زندگی ہے۔۔یہی سلسہ ابد تا ازل چلتا رہتا ہے۔۔۔۔ لیکن پیارے لوگ اور پیاری یادیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔۔۔ان لوگوں کیساتھ انکے تہواروں۔۔انکی خوشیوں اور مسرتوں میں شریک ہونا اور انکے دکھ بانٹنا ایک بہت اپنائیت بھرا عمل رہا۔۔۔ خوبصورت وقت کی خوبصورت یادوں کیساتھ اجازت چاہوں گی۔۔۔۔

بقیہ تفصیل  اگلی اقساط میں ۔۔۔

#میراپہلاسفرقسط4


پچھلی اقساط میں بات ہوئی قطر جانے کی۔۔۔راستے کے سفر کی روئیداد۔۔۔ دخان کے متعلق معلومات۔۔۔اورپھر وہاں کے طرز معاشرت کا ذکر۔۔۔

آج کچھ ذکر کروں گی دوحہ جو کہ قطر کا دارالحکومت اور بڑا شہر ہے ۔۔۔۔ویسے تو ہماری رہائش دخان میں تھی لیکن ویک اینڈ پہ جمعرات جمعے کو دوحہ چکر لازمی لگتا۔۔۔((جمعرات جمعہ چھٹی ہوتی ہے عرب میں ))شاپنگ مالز بھی وہیں پہ تھے اور رسٹورانٹس بھی۔۔۔۔لہذا شاپنگ بھی ہوتی اور دنیا جہاں کے مختلف ذائقےبھی آزمائے جاتے لیکن قرعہ فال زیادہ پاکستانی اور انڈین ریسٹورانٹس کے حق میں ہی نکلتا۔۔۔


اب دوحہ کی تھوڑی سی تفصیل بیان کرتی ہوں 


دوحہ مملکت قطر کا دارالحکومت ہے جو خلیج فارس کے ساحلوں پر واقع ہے۔  سات سے 12  لاکھ آبادی کیساتھ یہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور ملک کی 80 فیصد آبادی اسی شہر اور اس کے گرد و نواح میں رہائش پزیر ہے۔ یہ مملکت کا اقتصادی مرکز ہے۔


یہ شہر 1850 میں البدا کے نام سے قائم کیا گیا۔ 1883 میں شیخ قاسم نے مقامی قطریوں پرمشتمل ایک فوج کے ذریعے عثمانیوں کے خلاف فتح حاصل کی۔ 1916 میں اسے برطانیہ کے زیر سرپرستی قطر کا دار الحکومت قرار دیا گیا اور جب 191 میں ملک نے آزادی حاصل کی تب اسے قومی دار الحکومت برقرار رکھا گیا۔ 1917 میں شیخ عبداللہ قاسم ثانی  نے شہر کے مرکز میں قلعہ القوت تعمیر کرایا۔ 1949 میں قطر میں تیل کی تلاش کا آغاز ہوا۔ آج یہ ملک کل 8 لاکھ بیرل روزانہ تیل پیدا کرتا ہے۔ 1969 میں گورنمنٹ ہاؤس کا قیام عمل میں آیا جسے آج قطر کی سب سے اہم عمارت سمجھا جاتا ہے۔ 1973 میں جامعہ قطر اور 1975 میں قطر قومی عجائب گھر قائم کیا گیا، جو دراصل 1913 میں حاکم کا محل تھا۔ معروف عربی خبری ٹیلی وژن چینل الجزیرہ نے 1996 میں اپنی نشریات کا آغاز کیا، اس کے صدر دفاتر اور نشریاتی مراکز دوحہ ہی میں واقع ہیں۔


دوحہ کی آبادی کی خصوصیات تبدیل ہوتی رہتی ہیں کیونکہ شہر کی اکثریت غیر ملکی تارکین وطن پر مشتمل ہے اور قطری باشندے اقلیت میں ہیں۔ قطر کی آبادی کا بیشتر حصہ جنوب ایشیائی باشندوں پر مشتمل ہے، جبکہ بیشتر عرب ممالک اور مشرقی ایشیا سے رہنے والے بھی بڑی تعداد میں یہاں رہتے ہیں۔ دوحہ میں امریکا، جنوبی افریقا، برطانیہ، ناروے اور دیگر مغربی ممالک کے باشندے بھی رہائش پزیر ہیں۔ ماضی میں تارکین وطن قطر میں ملکیت رکھنے کی اجازت نہیں رکھتے تھے لیکن اب غیر قطری باشندے دوحہ کے متعدد علاقوں میں جائداد خرید سکتے ہیں۔


قطر کی بیشتر تیل و قدرتی گیس کی تنصیبات دوحہ میں واقع ہے۔ ملکی اقتصادی سرگرمیوں کے اس مرکز میں ملک کے بڑے تیل و گیس نکالنے والے اداروں کے صدر دفاتر ہیں جن میں قطر پٹرولیم، قطر گیس اور راس گیس شامل ہیں۔ دوحہ کی معیشت تیل و قدرتی گیس کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی بنیادوں پر کھڑی ہے اور قطری حکومت تیل پر اس انحصار کو کم کرنے کے لیے ملکی معیشت میں تیزی سے تنوع لا رہی ہے۔ نتیجتاً شہر بہت تیزی سے ترقی پا رہا ہے جو درا صل حاکم قطر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کے جدیدیت کے منصوبے کا حصہ ہے۔ متحدہ عرب امارات کے قریبی شہر دبئی کی طرح دوحہ کی معیشت بھی تیزی سے تیل و قدرتی گیس پر انحصار کم کرتی جا رہی ہے لیکن دبئی کی طرح اس کی بنیادی توجہ سیاحت پر مرکوز نہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کے باعث شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور 2004ء سے 2006ء کے درمیان شہر کی آبادی میں 60 ہزار افراد کا اضافہ ہوا؛ نتیجتاً جائداد و تعمیرات کے شعبے میں زبردست ترقی ہوئی اور جائداد کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ گئی ہیں۔ جنوری 2007ء میں برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق دوحہ جائداد کی قیمتوں کے حوالے سے دبئی سے بھی مہنگا شہر ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث دوحہ کے شمال میں ایک نیا شہر آباد کرنے کا منصوبہ ہے جہاں 2 لاکھ افراد رہائش پزیر ہوں گے۔ تجارتی و کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے باعث دوحہ میں جدید تعمیرات میں بھی اضافہ ہوا ہے او رشہر بلند و بالا عمارات کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔


دوحہ میں جامعہ قطر واقع ہے جو 1973ء میں قائم ہوئی جبکہ اس کے علاوہ دوحہ کے شہر تعلیم (ایجوکیشن سٹی) میں متعدد جامعات بھی واقع ہیں۔ شہر تعلیم میں دنیا کی کئی معروف جامعات کی شاخیں واقع ہیں جن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی، ویل میڈیکل کالج آف کارنیل یونیورسٹی، ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی، ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی اور کارنیگی میلون یونیورسٹی بھی شامل ہیں۔ دوحہ میں کئی بین الاقوامی مدارس (اسکول) بھی واقع ہیں جو تارکین وطن کے لیے ہیں۔



دوحہ ایک گرم صحرائی علاقہ ہے جہاں گرمیوں کا موسم سردیوں کی نسبت زیادہ لمبا ہوتا ہے۔ گرمیوں میں بعض اوقات درجہ حرارت 47 ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔


دوحہ میں متعدد کھیلوں کے میدان واقع ہیں جن میں سے بیشتر 15 ویں ایشیائی کھیلوں کے لیے تعمیر نو کی مراحل سے گزرے جو دسمبر 2006ء میں منعقد ہوئے۔ فٹبال قطریوں کا پسندیدہ ترین  کھیل ہے۔۔۔


سوق نابینا۔۔۔۔الفتح ۔۔۔۔  سٹی سنٹر اور السلام سنٹر اسکے اسوقت کے بڑے بڑے مال تھے۔۔۔اب جدید دوحہ میں مالزبہت زیادہ بن گئے ہیں۔۔۔جنمیں دارالسلام مال۔۔۔گلف مال ۔۔لگونہ مال۔۔سٹی سنٹر۔۔۔دوحہ فیسٹول سٹی اور مال آف قطر وغیرہ بہت مشہور ہیں۔۔۔ 

اگلی اقساط میں ذکر ہوگادوحہ کے شاپنگ مالز سے کی گئی شاپنگ کا اور وہاں کے مزیدار کھانوں کا۔۔۔۔ اور خوبصورت بیچ کارنش کا ۔۔۔۔


میراپہلاسفر_قسط5


گذشتہ سے پیوستہ


جیسا کہ میں نے پچھلی قسط میں بتایا کہ بڑے بڑے شاپنگ مالز دوحہ میں تھے جبکہ دخان میں صرف بنیادی ضروریات زندگی سٹورز پہ دستیاب تھیں۔۔۔۔ لہذا ہر ویک اینڈ پہ دخان سے سفر کر کے دوحہ جاتے ۔۔۔بعض اوقات والد صاحب کے کچھ دوستوں کی طرف سے دعوت ہوتی۔۔۔۔پکنک ہوتی یا پھر صرف شاپنگ۔۔۔

اکثر راستے میں مالاباری پراٹھے آملیٹ اور فریش جوس سے محظوظ ہوتے اور کبھی دوحہ میں پاکستانی یا انڈین ریسٹورنٹس سے مذیدار اور تیکھا کھانا کھاتے۔۔۔اسوقت لبنانی کھانے وغیرہ زیافہ عام نہیں تھے۔۔۔یا شاید ہمیں کبھی اتفاق نہیں ہوا۔۔۔

بات ہو رہی تھی شاپنگ کی ۔۔باقاعدہ پلان بنا کے جایا جاتا کہ کیا شاپنگ کرنی ہےاور کون کون سے مالزسے کرنی ہے۔۔۔بعض اوقات پاکستان سے فرمائشیں بھی ہوتیں اور بعض اوقات ہم پاکستان جانے کی تیاری کرتے ۔۔تو تحفے تحائف لیکر جاتے۔۔۔اسوقت تحفوں کا بہت رواج ہوتا تھا ۔۔۔اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔۔۔۔ یہ ایک خوبصورت رواج تھا جو اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔۔۔شاپنگ مختلف قسم کی ہوتی۔۔۔۔جسمیں کپڑے بھی شامل ہوتے ۔۔۔کاسمیٹکس بھی۔۔۔الیکڑک اپلائنسز بھی اور بعض اوقات کراکری وغیرہ بھی۔۔۔۔  اسوقت بہت سی چیزیں گھر کے لئے شوق سے خریدی جاتیں لیکن گھر جا کر  وہ چیزیں غائب ہو جاتیں۔۔۔۔بہت بعد میں پتہ چلا کہ وہ جہیز فنڈ کی نذر ہوجاتی تھیں۔۔۔۔آج بھی گھر میں استعمال ہونیوالی بیشتر اشیاءقطر سے خریدی گئی تھیں۔۔۔۔والدین کتنی قربانیاں دیتے ہیں اپنے بچوں کے لئے ۔۔۔اپنی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خواہش کو بچوں کی خواہشات پہ حاوی نہیں ہونے دیتے۔۔۔انکی ہر خوشی اپنے بچوں کی خوشی سے مشروط ہے۔۔۔۔ لیکن افسوس بچے یہ نہیں سمجھتے اور جب سمجھتے ہیں تو بہت سا وقت  پلوں کے نیچے سےبہتے پانی کی مانند گزر چکا ہوتا ہے ۔۔۔ والدین انکے اس بات کو سمجھنے تک یا تو دنیا سے کنارہ کر چکے ہوتے ہیں یا انکی خواہشات ہی دم توڑ چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔  والدین جیسی ہستی نہ کوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔ لہذا اپنے والدین کی قدر کیجئے اور جتنا انکا خیال کر سکتے ہیں۔۔۔ کیجئےکیونکہ بعد میں پچھتاوں کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آتا۔۔۔۔۔مجھے آج بھی اپنے والدین کے چہروں کی وہ خوشی اور شادمانی یاد ہے جب وہ ہماری خوشی میں خوش ہوتےاور ہماری کامیابی پہ خوشی سے پھولے نہ سماتے۔۔۔

 رب رحمٙھُماکٙما ربیٰنی صغیراً۔۔۔اے میرے رب ان دونوں پر ویسے ہی رحم فرما جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کرتے ہوئے کیا ۔۔۔آمین .... اللہ کریم ہم سب کےوالدین کا حامی و ناصر ہو اور جو حیات نہیں انکی مغفرت فرمائے آمین۔۔۔۔

اب زرا ذکر کرتی ہوں قطر کے کچھ پکنک پوائنٹس کی ۔۔۔ان میں کارنش بیچ ۔۔۔۔سوق واقف۔۔۔۔ام سعید ۔۔۔۔قطر میوزیم۔۔۔۔پرل آئرلینڈ۔۔۔۔ بیچز۔۔۔۔ایکوا پارک بہت مشہور ہیں ۔۔۔۔ان میں زیادہ پکنک پوائنٹس جدید دور کے اور جدت پر مبنی ہیں۔۔۔جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں جو ہیں تو پہلے کے لیکن ان میں دورحاضر کے مطابق جدت پیدا کی گئی ہے۔۔


کارنش بیچ قطر کے خوبصورت دارالحکومت دوحہ کا دل ہے۔۔۔۔شہرکے بیچوں بیچ حسیں و زمردیں سمندرموجود ہے جسکے کنارے کارنش بیچ کی شکل میں ایک حسین ساحل ہےبلکہ دیکھا جائے تو یہ ایک خلیج ہے جسکے گرد بڑی خوبصورتی سے یہ شہر بسایا گیا ہے ۔۔۔اسکی لمبائی تقریبا ً 5 سے 7 کلومیٹر ہے۔۔۔اسکا بے پناہ حسن سیاحوں اور رہائشیوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔۔۔۔ جمعے کی رات یہاں ایک عجب ہی سماں ہوتا ہے سیاحوں کے ساتھ ساتھ مقامی باشندے بھی ویک اینڈ انجوائےکرنے یہاں موجود ہوتے ہیں۔ دنیا بھر سے ہر قسم کے لوگ اور کلچر یہاں دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔کارنش بیچ پہ واکنگ ٹریکس بھی بنے ہیں اور گرین بیلٹس بھی جو اسکے حسن میں چار چاند لگاتے ہیں۔تمام مشہور عمارات اسکے اردگرد ہی واقع ہیں۔۔۔۔ سیاح یہاں فیری کی ride سے محظوظ ہوتے ہیں۔۔اسکے علاوہ یہاں جیٹ سکائی رائڈ سے بھی سیاح لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔۔۔سی فوڈ بھی دستیاب ہے۔۔۔۔اسکے ساتھ ہی جیٹی ہے جہاں پہ وافر مقدار میں تازہ سی فوڈ دستیاب ہوتا ہے۔۔۔۔طلوع آفتاب۔۔غروب آفتاب اور رات کی روشنیوں میں یہ بیچ ایک الگ ہی طلسماتی دنیا کا منظر پیش کرتی ہے۔۔۔۔۔


ہم اکثر شام میں سورج کو یہاں ڈوبتے دیکھتے تھے ساتھ چائے کافی اور دیگر لوازمات سے لطف اندوز ہوتے تھے۔۔۔۔ اسوقت یہ اتنا زیادہ ڈویلپ  نہیں تھا لیکن تب بھی اسکا شمار دنیا کی بہترین اور خوبصورت بیچز میں ہوتا تھا.۔۔۔میری یہ پسندیدہ جگہ تھی اب بھی کبھی موقع ملا تو میں کارنش بیچ تو ضرور ہی جانا چاہوں گی۔۔۔۔

آج کے لئے اتنا ہی ۔۔۔اگلی قسط میں دیگر پکنک پوائنٹس کا ذکر کرونگی۔۔۔


انشاءاللہ


   میرا پہلاسفر_قسط6

آج کچھ ایسے مقامات کا ذکر کرونگی جو خاصے مشہور ہیں اور سیاح بہت دلچسپی سے انکی سیر کرتے ہیں۔۔۔قطر میوزیم اور اس سے ملحقہ پارک ۔۔۔

نیشنل  میوزیم آف قطر۔


یہ میوزیم منسٹری آف کلچر کے تحت اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔۔۔۔ نوے کی دہائی میں یہ ایک سادہ سی عمارت پر مشتمل تھا لیکن 2019 میں اسکو بلکل نئی صورت عطا کی گئی اور پبلک کے لئے کھول دیا گیا۔۔۔ یہ میوزیم ایک مشہور بین الاقوامی شہرت یافتہ آرکٹیکٹ کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔۔ اسکا ڈیزائن ایک صحرائی پھول کی طرزپر بنایا گیا ہے۔۔۔پرانی عمارت ابھی بھی موجود ہے ۔۔۔ قدیم اور جدید عمارات کو ایک درمیانی پل کے ذریعے ملایا گیا ہے ۔۔۔یہ میوزیم دنیا بھرمیں اسلامک آرٹ  کا بہترین نمونہ ہے۔۔۔ اسمیں نا صرف قدیم تہذیب و ثقافت کو محفوظ کیا گیا ہے بلکہ یی جدید علوم و فنون کی بھی آماجگاہ ہے۔۔۔ یہیں پر قطر اولمپک اینڈ سپورٹس کمپلیکس بھی موجود ہے ۔۔۔اسکے علاوہ جدید آرٹ جیسے فن مصوری۔۔۔تصویر نگاری اور دیگر جدید فنون کے لئے بھی یہیں ایک الگ حصہ موجود ہے جہاں پر بین الاقوامی مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔۔۔


کیوایم اے گیلری 

یہ گیلری نمائشی مقاصد کے لئے  موجود ہے جو کہ قطارہ کے ثقافتی گاوُں کے نام سے مشہور ہے۔۔۔۔یہاں پر ناصرف ملکی مصوروں بلکہ بین الاقوامی مصوروں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔۔۔۔


ال وراق دوحہ ایگزیبیشن سپیس

 بھی موزیم آف اسلامک آرٹ کا حصہ ہے ۔۔۔جسکا افتتاح 2010میں کیا گیا تھا ۔۔۔یہ دنیا بھر کے آرٹسٹوں کو ثقافت کے فروغ کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے اسکے علاوہ دیگرآرکیالوجیکل اور آرکیٹیکچرل  پراجیکٹس بھی اس میوزیم کا حصہ ہیں ۔۔۔جوثقافتی پہلو لئے ہوئے پورے قطر میں پھیلے ہیں۔۔۔اسکے علاوہ یہاں جدید و قدیم کتب پر مبنی لائیبریری ۔۔۔کیفے اورروایتی  گفٹ شاپس پر مشتمل خوبصورت شاپس موجود ہیں۔۔۔میا پارک یہاں کا ایک خوبصورت اور منفرد پارک ہے۔۔۔جہاں آپ ناصرف چہل قدمی کر سکتے ہیں بلکہ خوبصورت ماحول سے محظوظ بھی ہوسکتے ہیں اسکے علاوہ یہاں کے مزیدارکھانوں سے  بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔۔۔۔


مطعف عرب میوزیم 


کل اور آج کے یعنی بیسویں اور اکیسویں صدی کےعرب کلچر کے قدیم و جدید آرٹ و فنون کا حسیں امتزاج ہے ۔۔۔یہ 2010 میں قائم ہوا ۔۔۔


ال زبرہ یونیسکو ورلڈ ہیرٹج سائٹ


 جو کہ دوحہ سے 100کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے جو کہ کلچر ۔۔آرٹ اور ثقافتی ورثے کی امین ہے۔۔۔ یہ دنیا کےچند بڑے کلچرل سائٹس میں شمار ہوتا ہے ۔۔۔یہاں ناصرف اسلامک آرکیالوجی پر ریسرچ ہو رہی ہے بلکہ تاریخ ، بشریات اور ماحولیات پر بھی ریسرچز   ہو رہی ہیں ۔۔۔۔


پبلک آرٹ قطر 


کے نام سے بھی ایک ًیپارٹمنٹ اسی میوزیم کے تحت ہے جو نوجوان آرٹسٹس کو سہولیات فراہم کرتا ہے ۔۔قطر میوزیم کا کام ایک عجائب گھر سے بہت بڑھ کر ہے وہاں نا صرف تاریخی و ثقافتی ورثے کو محفوظ کیا گیا ہے بلکہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور انکو ریاست کیطرف سے سہولیات فراہم کرنے کا کام بھی یہی میوزیم انجام دے رہا ہے۔۔۔۔ اسی نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے قطر میوزیم کے تحت بہت سے پراجیکٹس اور کلچرل ڈپلومیسی پروگرامز دیگر ممالک کیساتھ کئے گئے جنمیں جاپان۔۔۔یونائیٹڈ کنگ ڈم  اور برازیل شامل ہیں۔۔۔۔


قطر کے بارے میں یہ تمام معلومات فراہم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ چند برس پہلے جب میرا آنا جان ہوتا تھا تب قطر اتنا زیادہ developed نہیں تھا لیکن اب جب مجھے اپنے چند رشتہ داروں اور دوستوں سے پتہ چلتا ہے کہ آج قطر ترقی کی دوڑ میں بہت آگے ہے تو اچھا لگتا ہے کہ وسائل تو انکے پاس بہت پہلےسے موجود تھے لیکن جب انہوں نے اپنے نوجوانوں پر invest کیا تو آج نتیجہ ایک ترقی یافتہ ملک کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے۔۔۔۔ 


سوچنا یہ ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کیا دےرہے ہیں۔۔۔۔کیا ہم  انکو کوئی سہولیات دے رہے ہیں یا صرف جیالے۔۔۔ٹائیگرز اور شیروں کا خطاب دے رہے ہیں۔۔۔۔سوچئے گا ضرور ۔۔

میرا پہلا سفر _آخری قسط

گذشتہ سے پیوستہ 

ابھی تک آپ نے جانا کہ میرے اس سفر کا مقصد کیا تھا۔۔۔کس عمر میں کیا اورسفر کے کیا تجربات رہے ۔۔۔اب بات کرونگی اپنے قطر کے آخری سفر کی ۔۔۔۔ کسی شخص کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کونسا اسکا آخری سفر ہے اور کونسا نہیں۔۔۔ میں بھی  ء92 میں فروری یا مارچ کے مہینےمیں  جب گئی تویہ نہیں معلوم تھا کہ یہ میراآخری سفر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔۔خیر میں تو روٹین میں گئی والدین کیساتھ خوبصورت وقت گزرا۔۔۔اس مرتبہ پلاننگ کچھ یوں تھی کہ قطر سے بائی روڈ عمرے پہ جائینگے تو جاتے وقت میرا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔۔۔۔میں پاکستان سے جو کپڑے بھی لائی وہ بڑے بڑے دوپٹوں والے اورعمرے کی مناسبت سے تھے ۔۔۔اسوقت تک عبایا لازم نہیں ہوا تھا۔۔۔ میں پاکستان سےبھی سب سے مبارکبادیں وصول کرتی آئی کہ عمرے کی سعادت نصیب ہو گی لیکن انسان سوچتا کیاہے اور ہوتا کیا ہے۔۔۔۔ میں انتہائی جوش جذبے کے عالم میں گئی کیونکہ مجھے یہی معلوم تھا کہ بہت سے پاکستانی فیملیز ملکر سفر کرینگی تو ظاہر ہے بہت ہی خوشی کی بات تھی لیکن میرے ارمانوں پر اسوقت اوس پڑ گئی جب مجھے جا کر پتہ چلاکہ میری چھوٹی بہن کے فائنل ایگزام ایک ماہ بعد ہیں۔۔۔۔ مجھے بہت صدمہ ہوا۔۔۔ میں نے ہر ممکن گھر والوں کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن بےسود انکا جواب کہ چلو اگلے سال کر لیں گے۔۔۔۔ اسوقت محرم کی شرائط کا بھی زیادہ علم نہیں تھا تو میں نے کہا مجھے فلاں آنٹی انکل اور انکی فیملی کیساتھ بھیج دیں انکی بیٹیاں میری ہم عمر بھی تھیں۔۔۔۔لیکن جب محرم کی شرائط بتاِئی گئیں تو میں افسردہ ہو کر بیٹھ گئی اور ہر وقت بہن کو جلی کٹی سناتی کہ تمھاری وجہ سے میں عمرے کی سعادت سے محروم ہو گئی ۔۔۔۔ بہرحال وقت کا کام گزرنا ہے گزرتا گیا۔۔۔اس مرتبہ ہماری واپسی پرمیرے سب سے چھوٹے چچا جان کی شادی ہونی تھی تو اسکے لئے ہم شاپنگ میں مصروف ہو گئے ۔۔۔یوں وقتی طور پہ عمرے والا صدمہ تھوڑا کم ہوا ۔۔۔ بڑے بڑے مالز کی چمک دمک انسان کو دنیا کی طرف راغب کرتی ہے تو یہی ہوا۔۔۔۔ مجھے اور والدہ صاحبہ کو پہلے آنا تھا اور بہن اور والد صاحب کو کچھ عرصے بعد۔۔۔ جب میں واپس آ رہی تھی تو دوحہ ائیر پورٹ پہ بیٹھی لوگوں کو ابزرو کرتی رہی ۔۔۔وہاں کم وبیش دنیا کے ہر ملک کے لوگ موجود تھے ۔۔۔۔میری ایک ڈائری جو ہر وقت میرے ساتھ ہوتی تھی( اب بھی میرے پاس موجود ہے)اسے کھولا اور اپنے مشاہدات کو زبان دینے لگی۔۔۔ لکھنے کی عادت تب سے ہے بلکہ اسوقت سے شاید جب لکھنا سیکھا۔۔۔۔ لہذا اپنے تجربات کو قلم کیا ۔۔۔یہ میری ڈائری کے مطابق 27 مئی 92 کا ذکر ہے۔۔۔ڈائری کا وہ صفحہ تصاویر میں شئیر کرونگی۔۔۔ بڑے دلچسپ انداز میں لکھا تھا۔۔۔ 

بہرحال اسوقت بھی ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ یہ قطر کا آخری سفر ہے۔۔۔۔ سوچ بھی نہیں تھی ورنہ وہ چیزیں اس بار نہ چھوڑتی جو اگلی شاپنگ کے ارادےپہ چھوڑ کے آئی ۔۔۔ خیر پاکستان آمد ہوئی ۔۔۔ چچا جان کی شادی کے فنکشن خوب جوش و خروش سے اٹینڈکئے ۔۔۔تھرڈائیر میں ایڈمیشن بھی لینا تھا۔۔۔ ستمبر میں کلاسز شروع ہونی تھیں۔۔۔.  لیکن ایڈمیشن دھرے کا دھرا رہ گیا اور چٹ منگنی پٹ بیاہ والی صورتحال پیش آئی۔۔۔۔ تین ماہ کے اندر اندر رشتہ بھی ہوا ۔۔ منگنی بھی اور شادی بھی ۔۔۔۔یوں  قطر کا یہ آخری سفر ثابت ہوا۔۔۔۔ شادی کے بعد والدین نے بہت اصرار کیا لیکن نوکری کے مسائل کیوجہ سے صاحب کا جانا ممکن نہ ہوا تو میں بھی نہ جاسکی۔۔۔۔ بہرحال قطر سے محبت اور انسیت برقرار ہے۔۔۔۔ ابھی بھی وہاں پہ بہت سے عزیز اور دوست رہائش پذیر ہیں ۔۔میں اکثر اپنے والدین سے کہتی ہوں کہ ایک چکر قطر کا ضرور لگاتے ہیں لیکن ظاہر ہے انکی صحتیں اور عمر اب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ۔۔۔ 

2017 میں جب ہم انگلینڈ جا رہے تھے تو قطر ائیر پورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔۔۔۔ اب تو بہت خوبصورت بن گیا ہے۔۔۔۔ وقت کم تھا نہیں تو میری خالہ وہاں مقیم تھیں میں انکے پاس ضرور جاتی۔۔۔ بہرحال زندگی رہی تو کبھی نہ کبھی دوبارہ  جانے کا موقع مل جائیگا۔۔۔ 

قطر کا سفر میری چندخوبصورت یادوں میں سے ہے اور خوبصورت یادیں یقیناً سرمایہ ہوتی ہیں ۔۔۔امید ہے آپ لوگ بھی میری ان یادوں سے محظوظ ہوئے ہونگے۔

تحریر آمنہ سردار۔۔

1 comment:

  1. بہت عمدہ دلچسپ سفر نامہ پڑھ کر مزہ آ گیا ہے۔ لا جواب میم صاحبہ

    ReplyDelete