Sunday, October 4, 2020

ہم کس سمت جا رہے ہیں؟



آج کا دورنفسا نفسی اور افراتفری کا دور ہے۔ ہر شخص اپنی دھن میں، اپنی ہی راہ پہ چلا جا رہا ہے یہ دیکھے بغیر کہ کیا وہ راہ اسکے لئے درست ہے بھی یا نہیں۔ سب خواہش نفسی کے پیروکار ہیں۔ ہر شخص نے اپنی خواہشات کو الہ بنا رکھا ہے اور اسی کی پوجا پاٹ میں لگا ہے۔ "ھل من  مذید" کی چاہ کبھی اسکا منہ نہیں بند کر سکتی۔ خودغرضی اور خواہش نفس کی پیروی اسکا وطیرہ بن گیا ہے۔ 'من حیث القوم 'ہم ایک دوسرے سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ کوئی غلط کام کرتا نظر آئے تو اسکو بجائے ٹوکنے کے، اسکی تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ اسکو اس کام کے نقصان یا مضمرات سے بچائیں بلکہ اسکی مذید تشہیر کرتے ہیں جو انتہائی نازیبا حرکت ہے۔

ہمارا دین ہمیں یعنی  ہر مسلمان کو "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر "کی تاکید کرتا ہے۔یعنی  کہ ہم بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں لیکن ہم کہاں ایسا کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی کو کسی کام کے کرنے سے روکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ آپ لوگوں کی تنقید برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں ۔گالی گلوچ، مارپیٹ، بات بات پہ چاقو اور گولیوں کا چل جانا ۔ یہ سب کیا ہے؟_یہ صبر و تحمل اور برداشت کی کمی ہے۔ ہم ان اوصاف سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ معاشرہ انتشار کا شکار ہے۔  

اگر آپ کسی کو بھلائی کا حکم دینے کا ارادہ کریں تو اگلا بندہ کہتا ہے' اپنی راہ پکڑو' وہ بلکل پروا نہیں کرتا کہ اسے بھلائی کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح آپ کسی کو کوئی برا کام کرنے سے منع کریں تو وہ دھمکیوں اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔

پہلے پہل معاشرہ اسی لئے آج سے بہتر تھا کہ اسوقت مروت، تحمل برداشت جیسے اوصاف لوگوں میں موجود ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کا ادب ، احترام کیا جاتا تھا ۔بڑوں کی نصیحتوں اورمثالوں سے راہنمائی لی جاتی تھی۔ لیکن آج کے دور میں  ہر کوئی اپنے آپ کو طُرم خان سمجھتا ہے۔اپنی عقل پہ بھروسہ کرتا ہے۔ کسی دوسرے کی نصیحت کو قابل اعتنا نہیں جانتا۔ 

راہ چلتے اگر آپ کسی کو کوڑا سڑک پر پھینکتے دیکھتے ہیں تو فرض اولین کے طور پر اسے روکنا چاہئیے۔نہ کہ لاپرواہی برت کر اپنی راہ پہ ہو جائیں۔ 

دراصل اس میں اہم کردار ہماری تربیت کا بھی ہوتا ہے۔ اگر میری تربیت اس نہج پر ہوئی ہے کہ میں معاشرے میں توازن کے لئے بھلائ کا پرچار کروں اور منکر یا غلط کاموں سے روکوں تو مجھےضرور روکنا چاہئے کیونکہ یہ میرے کردار کا حصہ ہے۔

تربیت والدین اور اساتذہ کرتے ہیں۔ آجکا استاد بھی صرف تعلیم تو دیتا ہے لیکن تربیت پر اسکا کوئی دھیان نہیں ہوتا۔ وہ طلباء کو دنیا کے علوم سکھاتا ہے ایک نہیں سکھاتا تو تہذیب۔ 

اوپر سے ہمارا سیاسی کلچر ایسا ہو گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی leg pulling میں ethics یعنی اخلاقیات کا خیال نہیں رکھتے۔ کسی  قسم   کی لغو زبان استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ سوچے بغیر کہ ہمارے پڑھنے والوں پر اسکا کیا اثر پڑے گا۔ ہم اپنی بڑائی منوانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ نفسی برائیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ جھوٹ، بہتان بازی، الزام تراشی اور غیبت جیسے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہم لطیف طنز اور ہلکے پھلکے مزاح میں بھی بات کو اڑا سکتے ہیں بجائے اسکے کہ دونوں طرف سے توپوں کا دہانہ کھول دیا جائے۔ 

برداشت کا مادہ ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے اندر پیدا کرنا ہو گا۔ ایک برداشت پیدا کرنے سے ہم بہت سی علتوں سے، غلط باتوں سے، بُرے رویوں سے بچ سکتے ہیں۔ یہی ہمارے دین کا بھی پیغام ہے اور ہمارے پیارے نبی ً کا بھی فرمان ہے۔غصہ پی جانامومن کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔۔لیکن غصہ اور عدم برداشت معاشرے میں فساد پیدا کرنے والی چیزیں ہیں۔ ان سے بچ  کر ہی رہنا  چاہئیے۔ 

ہر حال میں اپنے کو پرسکون رکھنا، دوسروں کی ہرتلخ بات کا جواب تلخی سے دینے سے گریز کرنا ، بڑوں سے عزت و احترام کا معاملہ کرنا، چھوٹوں سے محبت و شفقت کا سلوک کرنا۔ یہ سب وہ اوصاف وہ خصوصیات  ہیں جواخلاقیات کا درس دیتی ہیں۔ مہذب قومیں اسی لئے کامیاب ہیں کہ وہ زندگی گزارنے کے ان بہترین اصولوں پر عمل درآمد کرتی ہیں۔

سوچئیے گا ضرور

آمنہ سردار


No comments:

Post a Comment