Sunday, October 21, 2018

KHUD AIHTASABI K KHUGAR BANAY خوداحتسابی کے خوگر بنیں

"خود احتسابی کے خوگر بنیں"

میں کیا کر رہی ہوں یا کیا کر رہا ہوں ؟ 
میرا کیا کردار ہے ؟ 
کیا میں اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا کر پا رہا /رہی ہوں۔ 
یہ وہ سوالات ہیں جنکا ہم جواب آج تلاش کرتے ہیں ۔ 
تو چلئے شروع کرتے ہیں اپنے آپ سے کہ بحیثیت پاکستانی میں اپنے کردار کو نبھانے میں کامیاب ہوا ہوں یا ناکام۔ ایک افسر کی حیثیت سے میں دفتر میں بیٹھ کر گپ شپ ، چائے ، اخبار سے لطف اندوز ہوتا ہوں یا اپنے کام کو پوری توجہ و یکسوئی سے کرتا ہوں۔ 
ایک طالبعلم کی حیثیت سے کیا میں نے اپنا کام ایمانداری سے کیا یا نہیں ۔ نوٹس اپنی مدد آپ کے تحت بنائے یا نیٹ سے چھاپہ مارا۔
بحیثیت سیاستدان کے میں نے اپنے ووٹر سے کئے ہوئے وعدے پورے کئے یا صرف اپنے perks & priviliges کو انجوائے کیا۔ بیرون ملک دورے کئے ۔ 
بحیثیت ڈاکٹر کے میں نے اپنی بہترین  خدمات گورنمنٹ ہسپتال میں انجام دیں  یا مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینک پہ بلایا۔
بحیثیت استاد کے میں نے طلباء کو اپنا تمام علم دیا، انکی تربیت کی یا انکو شام اپنی اکیڈمی میں داخلہ لینے پر مجبور کیا۔ 
بحیثیت جج کے میں نے اپنے فرائض ادا کئے ، انصاف پر مبنی فیصلے کئے یا ناانصافی کی ۔ 
بحیثیت دوکاندار میں نے کتنی ملاوٹ کی، کتنی چور بازاری کی۔کہاں گاہک کو دھوکہ دیا اور کہاں جھوٹی قسم کھائی۔ 
بحیثیت خاتون خانہ کے میں نےگھر کے  ہر کام اور ہر بات میں اپنے شوہر کی رضا مندی کو ملحوظ خاطر رکھا یا جو دل میں آیا وہ کیا۔ اور اس سے گھر کے معاملات جو اسکے علم میں ہونے چاہیئے تھے چھپا لئے۔ 
یہ ساری وہ باتیں ہیں جنکا سوائے ہماری ذات کے اور کوئی جوابدہ نہیں ہے۔ لہذا ہم اگر ایسا ہی کر رہے ہیں تو کیوں اور اگر ایسا نہیں کر رہے تو کیا وجہ ہے؟ 
ان دونوں سوالوں کے جوابات ڈھونڈتے ہیں ۔اور ان جوابات کے مطابق اپنی ذات کے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں جسکا من حیث القوم ہم شکار ہیں۔  

خدا نے آجتک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 پہلی صورتحال میں اگر ہم یہ سب کرتے ہیں تو اسکی کئی توجیہات ہیں۔ جیسے  خدا خوفی نہ ہونا یا دین سے دوری۔ یعنی ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہی نہیں نہ آخرت کی جوابدہی کا کہ ہم اسکو کیا منہ دکھائیں گے۔ اپنے اعمال  کا کیا جواب دینگے۔سزاو جزا کا خوف نہیں ہے۔ 
یہ صرف دین سے دوری کی بات نہیں بلکہ  بہت سی باتیں ہمارے کلچر کا حصہ بن گئی ہیں۔ جھوٹ، بے ایمانی ، وعدہ خلافی یہ اب ہمارے لئے باعث شرم نہیں رہیں۔ ہم اخلاقی گراوٹ کاشکار ہو گئے ہیں۔ ہم من حیث القوم ان عِلتوں میں مبتلا ہیں۔ اسکی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ ہم ایکدوسرے سے بے نیاز ہو گئے ہیں، بے حس ہو گئے ہیں خودغرضی میں مبتلا ہیں ۔جب انسان کسی سے بے نیاز ہوتا ہے تو اسکی پروا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اسکے اچھے برے کی پروا نہیں کرتا۔ اسکے ساتھ ساتھ اسمیں خودغرضی بھی شامل ہو گئی۔ تو ہوا یوں کہ جب ہم نے پروا کرنی چھوڑی تو اسکے اچھے برے ، خوشی غمی سے ہمیں کوئی غرض نہیں رہتی ۔ اور اگر اسکے نقصان سے کہیں ہمارا بھلامنسلک ہو تو ہم اسکے لئے خفا ہونےکی بجائے اپنی خوشی پر خوش ہوتے ہیں۔ یوں اسکی خوشی پہ دل میں خفا ہوتے ہیں۔ دل میں حسد ، بغض پنپنے لگتا ہے۔ یہ نفسی برائیاں ہمیں گھیرنا شروع کردیتی ہیں۔ اور ہم انمیں ملوث ہوتے جاتے ہیں  لاشعوری طور پر،  ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی۔جب ہمیں پتہ چلتا ہے تو ہم ان برائیوں میں کافی آگے نکل گئے ہوتے ہیں۔ اسکی اور بھی کئی reasons ہو سکتی ہیں۔ ہمارے رشتوں میں دوریاں آگئی ہیں۔ پہلے جائنٹ فیملی سسٹم میں سب اکٹھے رہتے تھے۔ اچھی بری بات ہر جگہ ہو جاتی تھی لیکن ایک دوسرے کا لحاظ ، مروت ، احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا ۔ بڑے بزرگ چھوٹوں کو غلط بات پر ٹوک دیتے تھے حتیٰ کہ دور پار کے رشتہ دار یا پڑوسی۔ لیکن انکی بات کو کوئی مائنڈ نہیں کرتا تھا۔ اب اسکے برعکس ہے۔ نانی دادی یا نانا دادا یا کوئی اور بڑا بچے کو کچھ کہہ کے تو دیکھے والدین فوراً لڑائ جھگڑے پہ آجاتے ہیں۔ صبر ، تحمل ، برداشت جیسی صفات سے بھی ہم عاری ہو گئے ہیں۔ پہلے پہل لوگ ایکدوسرے کے ساتھ مروت و محبت کے رشتوں میں بندے ہوتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔اس سب کی وجہ صرف دین سے دوری نہیں ہے، ہم اب کردار کے غازی نہیں رہے۔ دین کردار سازی میں مدد کرتا ہے اسے تو ہم نے حقوق العباد کے معاملے میں پیچھے ہی چھوڑ دیا (البتہ حقوق اللہ بڑی شدو مد سے اختیار  کئے ہوئے ہیں ) لیکن اخلاقیات کو کیوں چھوڑ دیا۔ دنیا کی مہذب قومیں مسلمان نہیں ہیں لیکن وہ اخلاقیات Ethicsکی دولت سے مالا مال ہیں۔ انمیں سچ، امانتداری،ایفائےعہد، اور انصاف جیسے سب اوصاف موجود ہیں ۔ ہمیں ان اوصاف کو اپنے اندر تلاش کرنے کی اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان اوصاف کی عدم موجودگی کی وجہ انفرادی و اجتماعی بھی ہو سکتی ہے، تہذیبی اور تاریخی بھی ہو سکتی ہے نفسیاتی اور سیاسی بھی ہو سکتی ہے معاشی اور معاشرتی بھی ہو سکتی۔ ہمیں اپنے آپ میں یہ اوصاف پیدا کرنے ہونگے۔ کیونکہ کوئی قوم اسوقت تک مہذب نہیں ہو سکتی جبتک اسمیں اخلاقی اقدار زندہ نہ ہوں۔ ہماری اخلاقی اقدار ابھی مری نہیں ہیں بلکہ سو رہی ہیں جیسے ہی کسی کو کوئی تکلیف پہنچتک ہے ہمارے اندر سوئ ہوئ اچھائی بیدار ہو جاتی ہے۔  ملک پہ کوئی آنچ آتی ہے یا قوم کو کوئی ٹھیس پہنچتی ہے تو یہی سوئی ہوئی قوم فورا"جاگ جاتی ہے، متحد ہو کر مخالف کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔
جو لوگ دوسرے پہلو کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔یعنی سب اچھا کر رہے ہیں تو انمیں کچھ دیندار ہونگے ، کچھ اخلاقیات کا خیال رکھنے والے ہونگے اور کچھ انسانیت کے علمبردار ہو نگے۔ ہر شخص دوسرے سے مختلف شخصیت، عادات و اطوار رکھتا ہے۔ کوئی دوسرے جیسا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار نظر آتا ہے۔ لوگ ایک جیسے نہ ہو کر بھی ایک جیسے دکھتے ہیں.  ہمیں اپنے اس معاشرےکو بے حسی   سے نکال کر زندگی کی طرف پورے جوش و جذبے اور ایمانداری سے رواں رکھنا ۔
 موجودہ  حالات کی  جو وجوہات میں نے اوپر پیش کی ہیں انپر  ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ہم کس توجہیہ کا شکار بنے ہیں، کون سی ایسی وجہ ہے جو مجھ میں یہ کمی یا خامی پیدا کرنے کا باعث بنی۔  اب اسے دور کرنے کا وقت ہے۔ ہمیں خود اپنی اصلاح کا بیڑ ا اٹھانا ہے۔یہی انفرادیت سے اجتماعیت کا سفر ہے ۔ معاشرہ ایک شخص سے  نہیں پوری قوم سے بنتا ہے 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

No comments:

Post a Comment